دفاٰعی تجاویز

21
ان ت س ک ا پِ اع دف رات ط خ ی ن درو اور اپ ت ل خ ی مدا ن رو! ی# ب ں! می ے ط خ، ون. ن0 ج ی گ ن0 ج ی ن ھار0 ب د ن ج ں! می ں م ض ے ک حکام? ت س ے ا ک اع ی دف ت! ی ے روا! ی ل ے ک0 ات0 پِ ے سد ک ز! ی او0 ج ت ی مد رو و ع س م اد زR ہT ش ہ اب ت س ی دو ک ان ت س ک ا ہ پ دار اپ س کا0 ج ے،R ہ ون ک س ے،R ہ ں م و ا تT سR ہ وا خ ی ک ان ت س ک ا پa ہ ارخاب0 ے اس خ ک ھارت0 ب ں ت ل ے،R ہ ا ت ک س ا0 ا خ! ی لگاپ ھ0 ب ے س ی لی ا ہ پ0 ارج خ ے۔R ہ ی ن ا0 ی خm ن ا پa جال ت ور ص ی ک حکام? ت س ں عدم ا! می ے ط خ ورے تT ث ع ا0 ے پ ک ے! ی رو ے ک ے ی ھا ک گاری د ن ج و ک ے ط خ ورے ت ی ورر لاف خ رخدی س ار0 ار پ0 ی پ ک وج ف ی ن ھار0 ب

Upload: shahzad-masood-roomi

Post on 14-Apr-2016

218 views

Category:

Documents


0 download

DESCRIPTION

Recommendations on Pakistan's conventional defense in context of Indian military build up. Pakistan's current deterrence relies too much on nuclear option and it must be changed to bring much needed balance in conventional and non-conventional capabilities of Pakistan armed forces.

TRANSCRIPT

Page 1: دفاٰعی تجاویز

دفاع پاکستاند�باب بھارتی جنگی جنون، خطے میں بیرونی م�اخلت اور ان�رونی خطرات کے س

کےلیے روایتی دفاع کے استحکام کے ضمن میں چن� تجاویززاد مسعود رومی ہش

، جس کا انداز ، سکون ش تو امن ہپاکستان کی خوا ہے ہے ہ ، ہےپاکستان کی دوستان خارج پالیسی س بھی لگایا جاسکتا ے ہ ہ

ک باعث پور خط میں عدم ےلیکن بھارت ک اس جارحان روی ے ے ے ہ ے ہے۔استحکام کی صورتحال پائی جاتی بھارتی فوج کی بار بار

ےسرحدی خالف ورزی پور خط کو چنگاری دکھان ک مترادف ے ے ے ہ سارک ممالک ک مقبوض عالقوں میں جاری تحریکوں کی ے ہے۔

ےوج س بھی ایک بڑی جنگ کا خطر جو پور خط کو لپیٹ ے ہے ہ ے ہ ےمیں ل سکتا اس وقت خط میں چین، پاکستان اور بھارت ہے۔ ے

یں اب یڈز یں جن ک پاس سینکڑوں وار ۔تینوں ایٹمی طاقتیں ہ ہ ے ہ ی مچ گی وئی تو خط میں بڑی تبا ۔جنگ ے ہ ے ہ  

پاکستان کے موجودہ دفاعی ڈاکٹرائن میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں اور صلاحیت کو کلی�ی

حثییت حاصل ہے۔ چونکہ پاکستان اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن اور حریف کے خلاف روایتی

ہتھیاروں کا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا لہذا ملی سلامتی اور تزویراتی مقاص� کی حفاظت کے لیے تمام

تر انحصار جوہری صلاحیت کا ہی مرہون منت سمجھا جا سکتا ہے۔ پاکستانی عسکری اور سیاسی

قیادت اس بات پر متفق ہے کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت ہی خطے میں امن و استحکام کی

Page 2: دفاٰعی تجاویز

ضامن ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی یہ صلاحیت جنگی جنون میں مبتلا بھارت کو یہ

بات باور کروانے میں کامیاب ہو ئی ہے؟

ب�قسمتی سے اپنی بڑی معاشی قوت کے زعم میں مبتلا بھارت نے پاکستان کی جوہری صلاحیت کے

آام� شروع کر دیا جن کے ذریعے وہ پاکستان کے ان�ر توڑ کے طور پر ایسے جنگی منصوبوں پر عمل در

آانے سے گھس کر ایک تیز رفتار حربی وار کرے اور پاکستان کی جوہری صلاحیت کے روبہ عمل

پہلے ہی عالمی برادری کو ثالث کے طور پر اس تصادم میں ملوث کرکے پاکستان کے اہم تزویراتی

مقاص� کو نقصان پہنچا سکے۔ بھارت کا کولڈ اسٹارٹ منصوبہ اس منصوبہ سازی کی عملی شکل

تھا جسے اب ترقی دے کر مزی� خوفناک بنایا جا رہا ہے۔ ایسے جنگی منصوبوں کا ایک براہ راست

نتیجہ یہ ہے کہ خطے میں روایتی ہتھیاروں کی ایک ایسی دوڑ شروع ہوئی ہے جس میں پاکستان نہ

چاہتے ہوئے بھی حصہ لینے پر مجبور ہے۔ اس دوڑ سے مکمل لا تعلق رہنا پاکستان کےلیے ممکن ہی

نہیں کیونکہ ایسا کرنےسے نہ صرف پاکستان کا دفاع داو پر لگ جائے گا بلکہ بھارت کو ایک غلط

پیغام بھی جائے گا جو پورے خطے میں ع�م استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ بھارتی جنگی

منصوبے اس بات کے غماز ہیں کہ جیسے جیسے بھارت کی معاشی طاقت اس کی عسکری طاقت

کو بڑھا رہی ہے ویسے ویسے دہلی میں براجمان، ہن�توا کے پرتش�د نظریے کی پیروکار، مودی سرکار کا

پاکستان کے بارے میں رویہ مزی� جارحانہ ہوتا جا رہا ہے۔

آاگ کنڑول اور ورکنگ باونڈری پر گذشتہ دو سال سے جس طرح بھارت نےاشتعال انگیز رویہ اپنایا لائن

ہوا ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مودی سرکار کو یقین ہو چلا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف

ایک پیچی�ہ جنگ میں الجھے ہوئے پاکستان پر کاری ضرب لگانے کا اس سے بہتر موقعہ ہاتھ نہیں

Page 3: دفاٰعی تجاویز

آائے گا۔ مگر اس منصوبے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ چانکیائی حکمت عملی کے تحت بھارت

خود کو عالمی برادری کے سامنے ایک جارح کے طور پر ہرگز پیش نہیں کرنا چاہے گا۔ لہذا وہ کبھی

آاف کنڑول کو گرم کر دہشت گردی کے بہانے پاکستان پر چڑھ دوڑنے کا عزم کرتا ہے تو کبھی لائن

کے پاکستانی فوج کو اشتعال دلانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ پاکستان کی جانب سے ان اشتعال

انگیزیوں کے کسی بھی سخت ردعمل کو جواز بناکر پاکستان کو اپنے مذموم عزائم کا نشانہ بنا

سکے۔

دوسری طرف پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت ابھی تک بھارت کی اس

دت گردی کا عفریت پوری آاتی ہیں۔ ملک سے دہش حکمت عملی کا مکمل توڑ کرنے سے قاصر نظر

طرح ختم نہیں ہو پارہا جس کی ایک بڑی وجہ افغانستان کی صورتحال ہے مگر داخلی عوامل بھی

اس کے خاتمے میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاک فوج کا ایک بڑا حصہ مغربی سرح�وں کی حفاظت پر

مامور ہے۔ سرکاری محکموں میں بے پناہ کرپشن نے ملک کی معاشی صورت حال کو ب�حالی تک

پہنچا دیا ہے اور اب اس مسئلے نے ایک تزویراتی حثییت اختیار کر لی ہے کیونکہ بھارت کا دفاعی

بجٹ پاکستان کے ٹوٹل بجٹ سے بھی متجاوز ہو چکا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے معاشی تعاون میں

یہ بگاڑمستقبل میں پاک بھارت روایتی ہتھیاروں کے توازن میں ایک اس سے بھی بڑے اور کہیں

خوفناک بگاڑ کی نشان�ہی کرتا ہے۔ اگر موجودہ صورتحال اسی طرح چلتی رہی تو عین ممکن ہے

کہ بھارت مستقبل میں اپنی روایتی طاقت کو اتنا بڑھا لے کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت بھی

بھارت کو پاکستان کے خلاف کسی مح�ود کارروائی سے باز نہ رکھ سکے۔

Page 4: دفاٰعی تجاویز

پاکستان کو امن کا درس دینے والے ان�رونی و بیرونی "ماہرین" کی جانب سے بھارتی جنگی جنون

کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ بھارت کی فوجی طاقت کا اصل ہ�ف چین ہے پاکستان نہیں۔

مگر بھارتی افواج کی تعیناتی کو اگر طائرانہ بھی دیکھا جائے تو یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ

بھارتی فوج کی بڑی تع�اد ، خاص طور پر بھارتی فوج کی تمام اسٹرائیک کورز، پاکستانی سرح� کے

ساتھ تعینات ہیں۔

عسکری تزویراتی سوچ میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دشمن کے خلاف اپنی طاقت اور استع�اد

میں اضافہ اس کی صلاحیت کو دیکھ کر کیا جاتا ہے نہ کہ اس کی نیت یا اعلانات کو کہ جو

کسی بھی وقت تب�یل ہو سکتے ہیں۔ پاکستا ن کو بھی اپنی عسکری طاقت کا از سر نو جائزہ لینا

ہوگا۔ معاشی ب�حالی کو ختم کرنے کا تیر بہ ہ�ف نسخہ یہ ہے کہ دیگر ممالک کی طرح ب�عنوانی

اور کرپشن کو بغاوت کے برابر جرم قراردیا جائے اور اس کے لیے سزائےموت جیسی سخت سزائیں

تجویز کی جائیں۔ دیگر سفارشات ذیل میں دی گئی ہیں۔

:سفارشات

۔پاکستان کو سردست سب سے بڑا خطرہ اپنی بحری سرح� سے ہے۔ پاکستان بحریہ ایک ساحلی۱

دفاعی فوج ہے جب کہ ہمارے روایتی دشمن کی بحریہ ایک بلیو واٹر نیوی بننے جا رہی ہے۔ اس

صورتحال میں یہ امر واضح ہے کہ پاکستان اپنی موجودہ بحری قوت کے ساتھ اپنے ساحلوں کی

حفاظت امریکی میرین کی طرز پر ایک نئی کور تشکیل دی جائے جسکا ھیڈکوارٹر گوادر میں ہو۔ اس

Page 5: دفاٰعی تجاویز

کا مقص� پاکستان کی ساحلی پٹی کی حفاظت اور بھارت کی جانب سے اپنی بحریہ کے ذریعے

پاکستان کے ساحلی علاقوں میں اپنی فوجیں داخل کرنے کے عزائم کو خاک میں ملانا ہو۔ بھارت

اپنی بحریہ میں متع�د ایسے جہاز شامل کر چکا ہے جن کا واح� مقص� بھارتی بری فوج اور بھاری

ہتھیاروں، بشمول ٹینک اور بکتر بن� دستوں، کی سمن�ر کے راستے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی

ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کو اپنی فضائی قوت میں بھی اضافہ کرنا ہو گا اور بحریہ کے فضائی

بیڑے میں نگرانی کرنے والے مزی� جہاز شامل کرنا ہوں گے جو اس نئی کور کے ساتھ مربوط حکمت

آاف کچھ تک پاکستان کے ساحلی دفاع کو درپیش خطرات عملی کے تحت گوادر سے لے کر رن

سے نمٹنے کی منصوبہ بن�ی کر سکیں۔ پاکستان میرین کے نام سے پہلے ہی ایک ایسی ساحلی دفاع

دد کار ابھی بہت مح�ود ہے۔ کی فوج موجود ہے مگر اس کی تع�اد اور استع�ا

د�نظر رکھتے ہوئے حساس اور۲ ۔ پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع اور بھارت کی فوجی تیاریوں کو م

آاف دفاعی نوعیت کی تنصیبات، اسلحہ کے کارخانے، دفاتر اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرز کو لائن

آارڈینس فیکٹری واہ کینٹ، کہوٹہ لیبارٹریز، جی ایچ کیو، ائر کنڑول سے دور منتقل کیا جائے۔پاکستان

آائی ہیڈ کوارٹر، وزیراعظم ہاوس، آائی ایس ہیڈ کوارٹرز، نیول ہیڈ کوارٹرز، ائیروناٹیکل کمپلکس کامرہ،

آاف کنڑول کے دن ص�ر؛ یہ تمام اہم اور حساس ترین نوعیت کی تنصیبات اور دفاتر اس وقت لائن ایوا

انتہائی نزدیک واقع ہیں اور جنگ کی صورت میں دشمن کے کارگل اور کشمیر میں قائم دیگر فضائی

آاسان نشانہ بن سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات مستقروں پر موجود جنگی جہازوں کی فضائی کارروائیوں کا

آانے والے برسوں میں بھارت اپنی فضائیہ کو فضا سے داغے جانے والے ذہن نشین رہنی چاہیے کہ

د� ضرب کلومیٹر تک ہے۔ اس کا مطلب۲۹۰"براہموس" میزائیلوں سے لیس کرنے جا رہا ہے جن کی ح

Page 6: دفاٰعی تجاویز

یہ ہے کہ بھارت اوپر متذکرہ اہ�اف میں سے اکثر کو اپنی فضائی ح�ود میں رہتے ہوئے نشانہ بنانے کے

قابل ہو جائے گا۔

۔ دفاعی پی�اوار کے اہم اداروں اور تنصیبات کو ملک کے طول و عرض میں پھیلایا جائے اور ان کے۳

ما بین رابطے کے لیے مواصلات کا ج�ی� ترین نظام تشکیل دیا جائے۔ اس ضمن میں ریلوے کا کردار

دت امن میں بھی ریلوے دفاعی پی�اوار کی نقل و حمل کا سب سے موثر کلی�ی حثییت رکھتا ہے۔ حال

ذریعہ ہے۔ ب�قستمی یہ ہے کہ اس اہم ترین ذرائع مواصلات کو ابھی تک ملک کی تزویراتی ضروریات

ویں ص�ی میں برطانوی سامراج نے اس۲۰کے مطابق ترقی دینے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا جا سکا۔

ضرورت کو احسن طریقے سے سمجھا اور روس کے ممکنہ خطرے سے نمبٹنے کے لیے ہن�وستان کے

کے بع� اس شعبے پرخاطر خواہ۱۹۴۷طول و عرض میں ریلوے کا ج�ی� نظام قائم کیا۔ بھارت نے

دت جنگ میں ریلوے کی اہمیت توجہ دی جبکہ پاکستان میں یہ شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ حال

ایک مسلمہ حقیقت ہے اور اس سے انحراف ملکی بقا اور سلامتی پر سمجھوتے کے مترادف ہے۔

پاکستان ریلوے اپنی موجودہ صلاحیت کے ساتھ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں پاک فوج کو تیز

رفتار نقل و حمل میں م�د نہیں دے سکتی۔ یہ وہ بھیانک حقیقت ہے جو اس امر کی متقاضی ہے کہ

ریلوے کےشعبے میں ج�ت لائی جائے اور اسے سیاست دانوں کی بجائے ریلوے کت نظام کو

سمجھنے والے افراد چلائیں۔

۔ پا کستان کے ان�ر ایک تیز رفتار مح�ود جنگی کارروائی کا داروم�ار بھارت کے بکتر بن� دستوں۴

کی تیز رفتار نقل و حرکت پر ہوگا۔ ایسے دستوں کے خلاف محض زمینی دفاع ناکافی ہوگا اور فضائی

قوت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ فضا سے بری فوج کو دفاعی کمک فراہم کرنے میں سب سے اہم

Page 7: دفاٰعی تجاویز

پہلو 'کلوز ائر سپورٹ' صلاحیت کا ہے۔ دنیا کی ج�ی� فضائی قوتیں اس کام کے لیے مخصوص قسم

طیارے۔ مگر۲۵ اور روس کے ایس یو-۱۰کے جہاز استعمال کرتی ہیں جیسے امریکہ کے اے-

پاکستان جیسے ملک کے لیے جہازوں کا حصول ایک انتہائی مہنگا اور مشکل نسخہ ہے۔ اس

۵مشکل کا ایک حل تو یہ ہے کہ پاکستان اپنے چن� سال پہلے ریٹائرڈ کیے گئے چینی ساختہ اے-

آاور جہازوں میں چن� تب�یلیاں کر کے انہیں اس قابل بنا سکتا ہے کہ وہ بھارت کے پاکستان پر حملہ

آاواز سے آائی جی بیز کے پرخچے اڑا سکیں۔ یاد رہے پاک فضائیہ میں شامل یہ واح� جہاز تھے کہ جو

آاواز سے پرواز کر سکتے تھے۔ پاکستان چین کے تعاون سے ایسے طیارے نہایت کم قیمت پر دگنی

کو اس۱۶ اور ایف-۱۷حاصل کر سکتا ہے۔ یہ ق�م پاک فضائیہ کے زیادہ ج�ی� طیاروں، جے ایف-

آازاد کر دے گا اور وہ طیارے زیادہ اہم ذمہ داریوں جیسا کہ فضائی دفاع اور دشمن کے ذمہ داری سے

اہم اہ�اف پر بمباری کے لیے میسر ہوں گے۔

۔ بھارت کی نظریں ہمیشہ سے ہی پاکستان کی جوہری صلاحیت کوختم کرنے پررہی ہیں۔ پاکستان۵

کی زیادہ تر جوہری تنصیبات ملک کے شمال اور شمال مغربی علاقوں میں قائم ہیں لہذا پاکستان کو

دش نظر اپنی مشرقی سرح�وں کے ساتھ ساتھ اپنی مغربی سرح�وں پر بھی بھارتی ان کی حفاظت کے پی

عزائم پر نظر رکھنا ہوگی۔ بھارت پاکستان کے شمال میں، ازبکستان میں، فضائی اڈے قائم کرچکا ہے

جو کہ چترال سے محض چن� سو کلومیٹر کی دوری پر قائم ہیں۔ ایک ان�ازے کے مطابق یہاں کھڑے

طیارے صرف چھ منٹ میں پاکستان کی شمالی سرح� میں پہنچ سکتے ہیں۔۲۹روسی ساختہ مگ-

ان طیاروں کی ازبکستان میں تعیناتی نہ صرف پاکستان کی سفارتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ

پاکستان کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ بھارت پاکستان کی جوہری صلاحیت کے خلاف کارروائی

Page 8: دفاٰعی تجاویز

کے لیے کس ح� تک جا سکتا ہے۔ پاک فضائیہ کو فوری طور پر چترال میں ایک ائیر بیس اور ایک

ریڈار اسٹیشن کی ضرورت ہے۔

جنگ کی صورتحال میں بڑے شہروں میں سہولتوں کی اچانک کمی یا ع�م دستیابی سے بہت-۶

دع وطن کا فریضہ مزی� مشکل بنا سے مسائل جنم لیتے ہیں جو کسی بھی فوج یا حکومت کےلیے دفا

سکتے ہیں۔ اس قسم کی صورتحال میں یہ ضروری ہے کہ پاکستانی قوم بل الخصوص نوجوان طبقہ اس

قسم کے ہنگامی حالات میں اپنے اعصاب کو قائم رکھے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ جب قام کے اس

دش نظر یہ اہم ترین طبقی کو ان حالات کے لیے تیار کیا گیا ہو۔ ملک کو درپیش بیرونی خطرات کے پی

نہایت ضروری ہے کہ این سی سی اور شہری دفاع کی ٹرینگ دوبارہ شروع کی جائے اور اس کے ساتھ

ساتھ طلبہ و طالبات کے لیے ہنگامی طبی ام�اد کے کورسز بھی شروع کیے جائیں۔ کالج اور یونیورسٹی

کے طلبہ و طالبات کے لیے ان کورسز میں داخلہ لازمی قرار دیا جائے۔

یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ بیرونی خطرات ان�رونی کمزوریوں کی وجہ سے دوچن� ہو جاتے ہیں۔ -۷

دت جنگ میں ہے اور یہ جنگ ملکی سرح�وں کے ان�ر لڑی جا رہی۱۴پاکستان گذشتہ سال سے حال

ہے۔ اپنے ہی علاقے میں اپنے ہی لوگوں کے درمیان چھپے دشمن کے خلاف یہ جنگ اس لیے نہایت

مشکل اور کھٹن ہے کہ یہاں پاکستان کی مسلح افواج ایک خاص ح� سے زیادہ طاقت کا استعمال

نہیں کر سکتیں اور حہاں کہیں ایسا کرنا پڑا ہے اس کا نتیجہ لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے کی

آام� ہوا ہے۔ ان افراد نے حکومت اور فوج دونوں کے لیے مزی� مسائل کو جنم دیا ہے۔ ایسا صورت میں بر

آاپریشن کیے گئے وہاں پولیس کا کوئی باقاع�ہ انتظام اول تو اس لیے ہوا کہ ان علاقوں میں جہاں فوجی

تھا ہی نہیں جیسا کہ فاٹا، اور جہاں کہیں تھا وہاں اس ق�ر کمزور کہ ٹی ٹی پی کی اس منظم

Page 9: دفاٰعی تجاویز

دہشت گردی کے سامنے مزاحمت ہی نہ کر سکا جیسا کہ سوات اور مالاکنڈ میں ہوا۔ افسوسناک امر

دت پاکستان خاص طور پر صوبائی حکومتوں نے پولیس کے یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے بع� بھی حکوم

آاج ہر صوبے میں پولیس کا محکمے کو ج�ی� خطوط پر استوار کرنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔

مکحمہ سیاسی م�اخلت کے باعث تباہی سے دوچار ہے۔ پولیس کا بجٹ بھی ج�ی� ضروریات کے

آاج کا لحاظ سے کم ہے اور اس میں پیشہ ور افراد اور ماہرین کی ش�ی� کمی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ

پولیس نظام انگریز سامراج کے بنائے ہوئے اس پولیس سسٹم کا ہی تسلسل ہے جس کا اصل مقص�

آاج بھی پولیس وہی کام کر آازدی کا نعرہ لگانے والوں کو کچلنا تھا۔ آاواز کو دبانا اور مقامی لوگوں کی

آامرانہ مزاج رکھنے والے حکمران طبقے نے لےلی آاقاوں کی جگہ رہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ بیرونی

ہے۔

یہاں یہ سوال اہم ہے کہ پولیس کے محکمے کا ٹھیک ہونا کیونکر ملکی دفاع سے تعلق رکھتا ہے؟ اس

سوال کا جواب یہ ہے کہ جتنا جل�ی پاکستان اپنی ان�رونی جنگ ختم کرلے گا اتنا ہی جل�ی پاک

آا سکے گی۔ پولیس کے نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کا کام بھی فوج اپنے اصل کام کی طرف واپس

پاک فوج کو کرنا پڑھ رہا ہے کیونکہ جہاں جہاں سے دہشت گردوں کا صفایا کیا جارہا ہے وہاں

سیاسی ڈھانچہ ہی موجود نہیں، کسی محکمے کا تو سوال ہی پی�ا نہیں ہوتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ

آائینی حثییت بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فاٹا کو ملک کے ان�ر ایک صوبے کے طور فاٹا کی

پر شامل کیا جائے اور وہاں دوسرے صوبوں کی طرح حکومتی نظم و نسق قائم کیا جائے۔ فاٹا اور خیبر

پختونخواہ کے شہری دفاع کے لیے ایک ج�ی�، سریع الحرکت پولیس فورس قائم کی جائے تاکہ پاک

فوج کو ایک ج�ی� پولیس فورس میں تب�یل کرنے کے گھناونے منصوبےکا س�باب بھی کیا جا سکے۔

Page 10: دفاٰعی تجاویز

اس کے ساتھ ساتھ پولیس کے ان�ر جاسوسی کے ج�ی� نظام کی تشکیل اہم ترین ضرورت ہے جو

معاشرے میں موجود سماج دشمن عناصر پر نظر رکھ سکے۔ اس نظام کو مربوط بنانا اس سے اگلا ق�م

ہونا چاہیئے۔

فاٹا میں امن کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پاک-افغان سرح� پر نگرانی کا پختہ بن�وبست -۸

کیا جائے- جب تک امریکہ اور بھارت افغانستان میں موجود ہیں وہاں امن کا حصول ایک خواب سے

زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور پاکستان کا اس صورتحال سے متاثر ہونا ایک تاریخی مسلمہ حقیقت

ہے۔ اس کے علاوہ افغان انٹیلی جنس اور فوج میں پاکستان مخالف عناصت کی موجودگی کی وجہ

سے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردوں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں جہاں سے یہ

آار پار پاک فوج کی چیک پوسٹوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ ان عناصر کی پاک افغان سرح� کے

آام�ورفت روکنے کے لیے اس کھلی سرح� کو ایک بین الاقوامی بارڈر میں تب�یل کرنا ناگزیر ہو چکاہے۔

آاپشن ہے۔ پاکستان نگرانی کرنے والے ڈرون بنانے میں اس سرح� کی نگرانی کے لیے ڈرون ایک بہترین

طویل عرصہ پہلے ہی خود کفالت حاصل کر چکاہے۔

آائی ٹی کے قیام کویقینی بنایا جائے۔ یہ اہم کام -۹ نیکٹا کو فعال نبایا جائے اور اس کے نیچے جے

اب تک پاکستان کے پیچی�ہ سول- ملٹری تعلقات کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ داخلی سلامتی کے ان

در محال رہے گا جب تک پاکستان کے سول ملٹری دونوں اہم اداروں کو فعال بنانا اس وقت تک ایک ام

تعلقات دیگرترقی یافتہ ممالک کی طرح کام نہیں کرتے۔ اس کام کو کرنے کے لیے ملک کی سیاسی

دل وقوع کے لحاظ جماعتوں کو اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان اپنی تاریخ، جغرافیے اور مح

سے ق�رتی طور پر ایک سیکیورٹی اسٹیٹ ہے اوراس کولاحق خطرات کا ت�ارک سیاسی یا فوجی قیادت

Page 11: دفاٰعی تجاویز

تنہا نہیں کر سکتی۔ اس لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنے ان�ر تھنک ٹینک کلچر کو فروغ دینا ہوگا

آائے اس کے پاس ایسے اذہان موجود ہوں اہم دفاعی و تزویراتی تاکہ چاہے کوئی بھی جماعت برسر اقت�ار

معاملات پر گرفت رکھتے ہوں۔ اس کے علاوہ سول ملٹری تعلقات میں خلیج کم کرنے کےلیے نیشنل

کمانڈ اتھارٹی کا فعال ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ اہم ترین ملکی سلامتی کے معاملات اس فورم پر

آائینی طور پر موجود تو ہے مگر فعال ہرگز نہیں۔ این سی اے کو آانے چاہیے۔ اس وقت یہ ادارہ در بحث زی

فعال بنا کر پاکستان کے سول ملٹری تعلقات میں حائل خلیج کو ختم کرنے کی بنیاد رکھی جا سکتی

ہے اور بع� ازاں یہی اعتماد سازی نیکٹا اور جوائنٹ انٹیلیجنس ڈاریکٹوریٹ کو فعال کرنے میں ایک اہم

دگ میل ثابت ہو گی۔ انشاء اللہ۔ سن

پاکستان کے دفاعی حصار میں بحریہ کمزور ترین کڑی ہے۔ اس کی استع�اد میں خاطر خواہ -۱۰

دل تسخیر دفاع کا خواب ہمیشہ ادھورا رہے گا۔ مگر پاکستان بحریہ کو ہمیشہ کے اضافے کے بغیر ناقاب

آاب�وزیں خری� کر ج�ی� نہیں رکھا جا سکتا۔ وقتی لیے بیرونی ذرائع سے جنگی بحری جہاز اور

دل فہم اور ناگزیر ہے مگر اس کا واح� دیرپا حل بحری دفاع ضروریات پوری کرنے کے لیے ایسا کرنا قاب

آاب�وزیں یہ دونوں ملک میں مکمل خود کفالت حاصل کرنا ہوگا۔ خاص طور پر میزائیل بردار جہاز اور

آاب�وزوں کی مشترکہ تیاری پاکستان کو کے ان�ر تیار ہونے چاہیں۔ فرانس کے بع� اب چین کے ساتھ

اس می�ان میں خودکفالت کی راہ پر گامزن کر دے گی، انشاءاللہ۔ حکومت کے کرنے کا کام یہ ہے

کہ وہ ملک میں ایسے اداروں کی بنیاد رکھے جہاں ملک کے ان�ر بحری جہازسازی کے ماہرین،

انجینئر اور سائنس دان پی�ا کیے جائیں جو پہلے سے حاصل ش�ہ تجربے کی روشنی میں زیادہ ج�ی�

آام� بحری حربی سازوسامان تیار کریں جو نہ صرف پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنائے بلکہ اس کی بر

Page 12: دفاٰعی تجاویز

سے ملک کی معاشی حالت کو بھی سنبھالا دیا جا سکے۔

آانے والی ہے وطن کی فکر کر نادان قیامت

آاسمانوں میں تیری بربادیوں کے مشورے ہیں