jada o manzil complete

373

Click here to load reader

Upload: fahad-kehar

Post on 08-Jun-2015

766 views

Category:

Documents


87 download

DESCRIPTION

سید قطب کی شہرۂ آفاق "معالم فی الطریق" کا اردو ترجمہ۔

TRANSCRIPT

Page 1: Jada o Manzil Complete

جادہ و منزل

ترجمہالطریق فی معالم

: سید قطب شہیدمصنف: خلیل احمد حامدیمترجم

برقی نسخہ تشکیل دینے والی ٹیم کے اراکینابوشامل، شمشاد، فرحت کیانی

1

Page 2: Jada o Manzil Complete

فہرست مضامین تصنیف اور مصنف

قطب خاندان زندگی حاالت ے ک سید زندگی تعلیمی کی سید

ہامریک سفر اور مالزمت سرکاری شمولیت میں المسلمون" اخوان "

آغاز کا ابتالء مثال ایک کی عزیمت

ائی !! ہر سزا و گرفتاری ہدوبار

ے گئ ے دی لٹکا پر دار ۂتخت میں میدان ے ک علم و ادب قطب سید

رخ طرف کی صحافت نتائج ے ک ہامریک سفر

" ۃالعدال " تالیف کی ۃاالجتماعی " القرآن ظالل "فی تفسیر

میں نظر ایک تصانیف تمام شغف ے س سخن و شعر

الطریق فی معالم جرم قرارداد فرد مودودی موالنا اور قطب سید

مصنف ۂمقدم حالی زبوں کی انسانیت

Mضرورت کی نو قیادت باری کی اسالم ؟ ے ہ کیا صالحیت ناگزیر ے لی ے ک عالم امامت

د لیت کی حاضر ہع ہجالیت اور اسالم اختالف اصل کا ہجا ہو؟ ے کیس کام کا دین ے احیائ

Mمنتظر حقیقت

نسل الثانی ہکرد تیار کی قرآن :اول باب آئی؟ ہن میں وجود کیوں جمعیت الثانی ایسی بعد ے ک کرام ۂصحابلی کی اس ہوج ہپ

ہوج دوسری ہوج تیسری

کار؟ طریق صحیح ے لی ے ہمارلیت ہمقاطع مکمل ے س ہجا

2

Page 3: Jada o Manzil Complete

انقالب طریق کا قرآن :دوم باب ہمسئل بنیادی کا دور مکی

Mسی آغاز کا رسالت کارM ہوا ے س ہمسئل ا کیا آغاز کا کام ہن کیوں ے س ہنعر ے ک قومیت ے ن صلعم ہالل رسول ہوج کی ے کرن ہن اختیار کو ے نعر قومی

ہن کیVVوں کVVار طریق کا انقالب اقتصادی ے ن وسلم ہعلی ہالل صلی آپ کیا؟ اختیار

ہوج کی ے کرن ہن اختیار کار طریقM ایسام کی اخالق اصVVالحM ے ن وسVVلم ہعلی ہالل صلی آپ کVVا دعVVوت ے سVV ہم

کیا؟ ہن کیوں آغاز تھی؟ کمزوری کیا میں ہطریق اس

ہم انقالب گیر ہ ہوا؟ برپا ے کیس عظیم انقالب ہی

ہراست واحد کا کامیابی کی حق نظام گیا چھیڑا ہن کیوں کو مسائل جزوی میں دعوت ے ابتدائ

دین پسند حقیقت اور عملی ے ہ ضرورت کی طاقت ے لی ے ک ے کرن نافذ ے اس

ے ہ الحاصل تشکیل پیشگی کی قانون اسالمیMہطریق صحیح کا دین اقامت لیت ے ن اسالم کیا؟ ے کیس ہمقابل کا ہجایں نظری اسالم ے ہ دین عملی ہبلک ہن

ے ہ ربانی بھی عمل و فکر ہطریق کا دینل ے س نفاذ ے ک نظام اسالمی ہمطVVالب کVVا قVVانون اسالمی ے ہپ درسVVت

یں ہنلیت نا ہمتنب ے س ہتھکنڈوں ے ک ہجا ی ہر ے ہچا

تعم,,,یر کی اس اور خصوصیات کی ے معاشر اسالمی :سوم باب ہطریق صحیح کا

دعوت اصل کی انبیاء حیثیت اصل کی انسان اندر ے ک کائناتلیت ہم کی ہجا ہطریق صحیح کا ے پان نجات ے س گرفت گیر ہ بنیاد نظریاتی کی ہمعاشر اسالمی

لی ن اندر ے ک ے معاشر ہجا " "مسلمان ے وال ے ہرلی ے ہ الزم انحراف ے س قیادت ہجالی صورت کی احیا ے ک اسالم میں فضا ہجا ے ہ فروغ کا "انسانیت" العین نصب اصل کا اسالم

نتائج ے ک ے دین فروغ کو نسانیت" "ا دیا؟ فروغ کو "انسانیت" ے ن معاشروں قدیم کیا

3

Page 4: Jada o Manzil Complete

ہیں؟ ے سکت ے د فروغ کو "انسانیت" ے معاشر جدید کیا ے ہ منفرد اور یکتا اسالم میں میدان اس

ارم باب اد :ہچ ہالل سبیل فی ہجاد تحریک مراحل ے ک ہجاد تحریک لی کی ہج خصوصیت امتیازی ہپ

خصوصیت امتیازی دوسری خصوصیت امتیازی تیسری خصوصیت امتیازی چوتھی ے ہ عام اعالنM کا آزادی کی انسان اسالم

ی حکومت میں دنیا ہال ے ہ سکتی ہو قائم ے کیس ہہ حقیقت اصل کی عبودیت

لوؤں دونوں تحریک اور دعوت اسالم ہو برپا ے س ہپ مطلب کا انسان آزادی نزدیک ے ک اسالم

؟ ے ہ تحریک" "دفاعی اسالم کیااد احکام تدریجی ے ک ہجاد میں دور مکی تھا؟ منع کیوں بالسیف ہجgس اد میں دور ا ہوج دوسری کی ممانعت کی بالسیف ہج

ہوج تیسری ہوج چوتھی

ہوج پانچویں ہوج چھٹی

ہوج ساتویںاد میں ایام ابتدائی ے ک دور مدنی ا؟ ممنوع کیوں ہج ہراد ہوج طبعی اور ایک کی ہج

محرkک اصل کا وطن دفاعM میں ہنگا کی اسالماد ے ہ ضرورت فطری کی اسالم ہج

لیت یں بندی" "جنگ اسالم میں ے مقابل ے ک ہجا سکتا کر ہن فرق کا ان اور تصور دو میں ے بار ے ک اسالماد تصور ے ک مغرب میں اسالم یں گنجائش کی ہج ہن

حیات نظام کا اسالم ، ہالل اال ہال3 ال :پنجم باب اساس کی زندگی نظام اسالمی وصف امتیازی کا ے معاشر اسالمی ؟ ے ہ کیا اعتقاد اسالمی کار طریقM کا ے الن میں وجود کو ہمعاشر اسالمی

لی خصوصیات کی ے معاشر ہجا

حیات ۂضابط آفاقی :ششم باب

4

Page 5: Jada o Manzil Complete

ے ہ تابع ے ک قانون مرکزی ہی ایک کائنات پوریلوؤں ارادی غیر انسان ے ہ تابع کا قانون مرکزی میں ہپ

ی شریعت nنگ ہم ے س قانون مرکزی ہال ے ہ ہآی شریعت nے ہ الزم کیوں اتباع کا ہال

ے ہ تقسیم ناقابلM حق" " ے ہ قائم پر "حق" کائنات

نتائج ے ک انحراف ے س حق

ذیب اصل ہی اسالم : ہفتمباب ے ہ ہت

لی اور ے معاشر ی اسالم فرق بنیادی کا ے معاشر ہجا

ذب ہی ہمعاشر اسالمی صرف ے ہ ہوتا ہمعاشر ہملی اور ہمعاشر اسالمی ری کی ہمعاشر ہجا خصوصیات ہجو

ذیب ہپیمان اصل کا ہتذیب میت کی نظام خاندانی میں فروغ ے ک ہت ہاMذیب حال کا مغرب ہت

رول اصل کا نظام خاندانیذیب پرست خدا ترقی مادی اور ہت

نظام فطری کا ارتقاء اور آغاز ے ک ے معاشر اسالمیM مخصوص کا اس اور عوامل فطری ے ک اسالمی تحریک عمل نظام

ذیب اسالمی ے ہ میراث کی انسانیت پوری ہتذیب اسالمی بVVدلتی ساتھ ے ک ماحول اور ے زمان شکلیں مادی کی ہت

تی ہیں ہر

ثقافت اور اسالم :ہشتم بابMی شریعت nکار ۂدائر کا ہال

ی وحی انسان میں جن علوم ہو nے ہ پابند کا ہال ی وحی انسان میں جن علوم ہو nیں پابند کا ہال ے ہ ہن

لیت پر علوم انسانی اثرات ے ک ہجاونیت اور ثقافت ہصی ہیں پیداوار کی دور اسالمی علوم تجرباتی ے ک یورپیں درست انفصال میں علم ۂذریع اور علم ے ہ ہن

م باب قومیت کی مسلمان :ہن بنیاد کی تنظیم اجتماعی کی مسلمانوں

تھا تفریق و جمع ے بنائ ہی ہعقید میں دور ہر

M Mنائ کی ہاشمی رسولM قوم ترکیب ے ب دارالحرب اور داراالسالم

محرک اصل کا دفاع ے ک اس اور وطن اسالمی

5

Page 6: Jada o Manzil Complete

لیت ے نعر نسلی اور قومی ہیں سڑاند کی ہجا ہیں توحید منافئ عصبیتیں کی قوم و وطن

ضرورت کی تبدیلی د=وررس :مہد باب

کریں پیش ے کیس کو اسالم ہملیت اور اسالم یں مصالحت ہرگز میں ہجا سکتی ہو ہنMسالم مشن اصل کا ا

لیت ت جزوی کی اسالم کیساتھ ہجا ہمشاب دعوت کی اسالم خالصMکلید کی کامیابی کی اسالمی دعوت ے ہ مضر دعوت کی اسالم جزوییں ضرورت کوئی کی صفائی اپنی کو اسالم ہنن ہزد مغرب درماندگیاں کی ہذMعمل صحیح ے لی ے ک حق داعیانMطرز

کمرانی کی ایمان :مہیازد باب ح=

ہم کا ہبالل ایمان استیالء گیر ہ اثرات ے ک قوت ایمانی

جامعیت و افضلیت کی ہعقید اسالمیلی نظر ۂنقط ہمومنان اور نظر ۂنقط ہجا

دMلنواز سخن بلند ہنگا شان کی مومن

م باب پ=رخار وادی :ہدوازد اسباق ے ک االخدود اصحاب ہقصMفتح کی ایمان ایل

ہگرو بدتر ے س جانوروں کا االخدود اصحاب ہوئی نصیب فتح کو کس میں ے معرک اس

معیار اصل کا کامیابی ے ہ اعزاز خود ے بجائ موت کی مومن

ے ہ رکھی الج کی نسل انسانی ے ن مومنین ان میدان اور فریق کا کشمکش کی باطل و حقل انعامات ے ک ایمان ہا

انجام کا باغیوں انجام مختلف ے ک مکذبینلM اور انجVVام ہجVداگان کا االخدود اصحاب ہواقع اس ے لVی ے ک ایمVان ہا

عبرت اصل میں ہیں ے کارند اور اجیر ے ک ہالل مومنین

6

Page 7: Jada o Manzil Complete

ل ے ک اول صدر ایمان ہا پایاں ے ب حکمت کی ہالل اور مومن تربیت اصل کی قرآن

یں ضروری ل ہک ے ہ ہن ہو حاصل ہغلب دنیاوی کو ایمان ہای مشیتM ہغلب دنیاوی پر طور ے ک ہصل ہک ہن گا ہو تحت ے ک ہہال

ل یں سیاسی جنگ کی ایمان ہا ے ہ جنگ کی ہعقید ہبلک ے ہ ہنMنات معنی ے دوسر کو جنگ اس اسالم دشمنان ہیں ے ہپ

واپس اوپر جائیے

مصنف اور تصنیفبقلم: خلیل احمد حامدی

سید قطب شہید اور ان کے دوسرے ساتھیوں پر جب قاہرہ کی فوجی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا تو دوران مقدمہ سرکاری وکیل کی طرف سے ہر ملزم سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اس نے "معالم فی الطریق" کا مطالعہ کیا ہے ۔کے ان اور قطب سید کتاب یہی چنانچہ تھی۔ مشتمل پر مضامین کے کتاب اسی جرم قرارداد فرد کی مقدمے اس

۔ لیکن یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔ تاریخ میں متعدد ایسی1ساتھیوں کو تختۂ دار پر لے جانے کا موجب ہوئیآائیں۔ خود پاکستان کی تاریخ میں بھی اس سے ملتا جلتا کتابیں ملتی ہیں جو اپنے مصنفین کے لیے پیغام اجل لے کر

آا چکا ہے ۔ ایک واقعہ پیش مصر کا ایک دور وہ تھا جب وہاں بادشاہت کا سکہ رواں تھا اور جسے اب تاریخ مصر کے سیاہ باب کے نام

ء میں پارلیمنٹ1931سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس سیاہ دور کا واقعہ ہے کہ مصر کے نامور مصنف عباس محمود العقاد نے میں شاہ مصر احمد فواد الاول پر شدید تنقید کی، چنانچہ انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ مگر زیادہ دن نہ گزرنے پائے کہ انہیں رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد عقاد کے ایک دوست نے ان سے یہ دریافت کیا کہ "کیا یہ خبر صحیح ہے کہ احمد فوادآاپ کچھ نہ کچھ معذرت پیش کر دیں تاکہ آاپ کو یہ مشورہ دے کہ ہمعیل صدقی کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ نے وزیر اسآاپ کو رہا کر دیا جائے ؟" عقاد نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: "دراصل احمد فواد اس بات اسی کی بنا پر

آازادی فکر کی پاداش سے ڈر گیا تھا کہ تاریخ کے صفحات پر یہ ثبت ہو جائے گا کہ اس کے عہد میں ایک اہل قلم کو آاغاز کرتی ہے1952 جولائی 26۔ اس سیاہ دور کے بعد مصر میں 2 زنداں کر دیا گیا ر‌میں نذ ء کی صبح ایک نئے دور کا

جسے "اجتماعی مساوات" کے عہد سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اسی "عہد زریں" کا یہ واقعہ ہے کہ ایک ایسی کتاب کی تصنیف پر، جس میں نہایت جچے تلے انداز میں اصولی بحثیں کی گئی ہیں اور کسی شخصیت کو زیر بحث نہیں لایا

ء 1966 اگست 30روزنامہ المنار، اردن، شمارہ 1ء 1966 اگست 31مقالہ: "محنۃ الفکر" از قلم یوسف حنا، شائع شدہ روزنامہ الدفاع، اردن، شمارہ 2

7

Page 8: Jada o Manzil Complete

گیا، مصنف کو پھانسی دے دی جاتی ہے ۔ ہم اسی جاوداں کتاب کا اردو ترجمہ اپنے ملک کے اہل علم کی خدمتتعارف قارئین تصنیف سے پہلے خود مصنف سے میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ

حاصل کر لیں۔ مصنف کے حالات زندگی اردو میں کسی نہ کسی حد تک منتقل ہو چکے ہیں۔ لیکن مصنف کی عبقری شخصیت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے حالات کو زیادہ تفصیل اور جامعیت کے ساتھ ہند و پاک کے اہل علم و دعوت کے

سامنے لایا جائے ۔

خاندان قطباz جزیرۃ العرب کے رہنے والے آاباؤاجداد اصل مصنف کا اصل نام سید ہے ۔ قطب ان کا خاندانی نام ہے ۔ ان کے آاباد ہو گئے ۔ انہی کی آا کر تھے ۔ ان کے خاندان کے ایک بزرگ وہاں سے ہجرت کر کے بالائی مصر کے علzقے میں اولاد میں سے سید قطب کے والد بزرگوار حاجی ابراہیم قطب تھے ۔ حاجی ابراہیم کی پانچ اولادیں تھیں۔ دو لڑکے سید قطب اور محمد قطب، اور تین لڑکیاں حمیدہ قطصب اور امینہ قطب، تیسری لڑکی کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ ان پانچوں بہن بھائیوں میں سید سب سے بڑے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی محمد قطب بھی بڑے صاحب علم و فضل ہیں۔ ان کے

سے زائد ضخیم کتابیں مختلف اسلzمی موضوعات پر نکل چکی ہیں اور علمی و تحریکی حلقوں11قلم سے اب تک سے غیرمعمولی داد ستائش حاصل کر چکی ہیں۔ امینہ قطب بھی بڑی پڑھی لکھی خاتون ہیں، اور دعوت و جہاد میں اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ سرگرم کار رہی ہیں۔ ان کے اصلzحی اور معاشرتی مضامین بھی مختلف جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔ ان کے اصلzحی افسانوں کا ایک مجموعہ "فی تیار الحیاۃ" کے نام سے چھپ گیا ہے ۔ ان کی دوسری بہننن جہاد میں اپنے بہن بھائیوں سے پیچھے نہیں رہی ہیں۔ یوں خاندان قطب کا ہر فرد گوہر یک دانہ حمیدہ قطب بھی میداآازمائش و ابتلzء میں بھی آافتاب است۔ صبر و عزیمت اور آاتا ہے ۔ اور اس مثل کا صحیح مصداق ہے کہ ایں خانہ ہمہ نظر نل یاسر کی مثال زندہ کر دی ہے ۔ آا ہلی کردار کا نمونہ پیش کیا ہے اس نے اس خاندان نے بیسویں صدی میں جس اع سید قطب نے تختۂ دار کو چوم لیا۔ محمد قطب جیل میں ڈال دیے گئے اور تعذیب و تشدد کا نشانہ بنے ۔ حمیدہ قطب کو بھی سات سال قید بامشقت کی سزا ملی اور امینہ قطب بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہوئیں۔ تیسری بہن نے

حق میں قربان کر دیا اور جلzد کےاہبھی جن کا نام صحیح معلوم نہیں ہو سکا سید رفعت نامی اپنا ایک لخت جگر رتازیانیوں نے اسے شہید راہ الفت کے خطاب سے نواز دیا۔

سید کے حالات زندگی ء میں مصر کے ضلع اسیوط کے موشا نامی گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ سید قطب کی والدہ کا1906سید قطب

آان مجید سے بڑا شغف تھا۔ اسم گرامی فاطمہ حسین عثمان تھا۔ موصوفہ بڑی دیندار اور خدا پرست خاتون تھیں۔ انہیں قر

8

Page 9: Jada o Manzil Complete

آان کے حافظ ہوں۔ سید قطب اپنی کتاب "التصویر الف�� آان" کا انتسابنی فان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے قر ی القرآان سے محبت و شیفتگی کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں: اپنی والدہ محترمہ کی طرف کرتے ہوئے موصوفہ کی قر

آان کی دل نشین انداز میں "اے میری ماں! گاؤں میں رمضان کا پورا مہینہ جب ہمارے گھر پر قاری حضرات قرتتو گھنٹوں کان لگا کر، پوری محویت کے ساتھ پردے کے پیچھے سے سنا کرتی تھی۔ میں تلzوت کیا کرتے تھے تو تیرے پاس بیٹھا جب شور کرتا تھا جیسا کہ بچوں کی عادت ہوتی ہے تو مجھے اشاروں کنایوں سے باز رہنے کی تلقین کرتی تھی اور پھر میں بھی تیرے ساتھ کان لگا کر سننے لگ جاتا۔ میرا دل الفاظ کے ساحرانہ لحن سے محفوظ ہوتا

اگرچہ میں اس وقت مفہوم سے ناواقف تھا۔" تتونے مجھے بستی کے ابتدائی مدرسہ میں بھیج دیا۔ تیری سب سے بڑی "تیرے ہاتھوں میں جب پروان چڑھا تو آان حفظ کرلوں اور اللہ مجھے خوش الحانی سے نوازے اور میں آارزو یہ تھی کہ اللہ میرے سینے کو کھول دے اور میں قرآارزو کا ایک حصہ پورا ہو آان حفظ کر لیا اور یوں تیری بیٹھا ہر لمحہ تلzوت کیا کروں۔ چنانچہ میں نے قر تیرے سامنے

گیا۔"آاج تیری تعلیم و تربیت کی طویل محنت کا ثمرہ تیری خدمت نت جگر "اے ماں! تیرا ننھا بچہ، تیرا جوان لخ

نن تاویل کی نعمت سے وہ ضرور بہرہ ور ہے ۔" تحس تاس میں کمی ہے تو نن ترتیل کی میں پیش کر رہا ہے ۔ اگر حسکتاب اپنی نے سید تھا۔ زراعت پیشہ کا ان ۔ تھے انسان منش درویش اور باخدا بڑے بھی والد کے سید آان" کا انتساب اپنے مرحوم والد کی طرف کیا ہے ۔ اس انتساب میں وہ اپنے والد کے تعلق باللہ "مشاھد القیامۃ فی القر

کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:آاخرت "اے باپ! یہ کاوش تیری روح کی نذر کرتا ہوں۔ میں بچہ ہی تھا کہ تونے میرے احساس و وجدان پر یوم کا خوف نقش کر دیا۔ تونے مجھے کبھی نہیں جھڑکا تھا بلکہ تو میرے سامنے اس طرح زندگی بسر کر رہ تھا کہ قیامتتاس کا ذکر جاری رہتا کی باز پرس کا احساس تجھ پر طاری رہتا تھا۔ ہر وقت تیرے قلب و ضمیر میں اور تیری زبان پر

تسامحوقت تھا۔ تو دوسروں کا حق ادا کرتے وقت اپنی ذات کے ساتھ تشدد برتتا اور دوسروں سے اپنا حق وصول کرتے تھا برائیوں سے درگزر کرتا تتو ہوگا۔ قیامت کو روز تھا کہ اصل حساب بتایا کرتا یہ تتو تھا۔ اس کی وجہ لیتا سے کام

اپنی ضرورت کی اشیاء دوسروں کو پیش کر دیتااوقات تو حالانکہ تجھ میں ان کا جواب دینے کی قدرت ہوتی تھی، بسا آاخرت جمع کر رہا ہوں۔ تیری صورت تتو کہا کرتا تھا کہ زاد حالانکہ تو خود ان کا شدید حاجت مند ہوتا تھا، لیکن آان کی تلzوت کرنے لگ جاتا اور تتو قر میرے تخیل پر مرقسم ہے ۔ عشاء کے کھانے کے بعد جب ہم فارغ ہو جایا کرتے تو آایات گنگنانے لگتے جو تادھر کی چند نادھر اپنے والدین کی روح کو ثواب پہنچاتا۔ ہم چھوٹے چھوٹے بچے تیرے ساتھ

ہمیں پوری طرح یاد نہ ہوتی تھیں۔"

سید کی تعلیمی زندگی

9

Page 10: Jada o Manzil Complete

آارزو سید کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے سادہ اور محدود ماحول میں ہوئی۔ انہوں نے اپنی والدہ محترمہ کی دلی آان کا عام رواج تھا۔ اور آان حفظ کر لیا۔ اس زمانے میں مصر کے دیندار گھرانوں میں حفظ قر کے مطابق بچپن میں قراا بچوں کو حفظ کرانا پڑتا خاص طور پر جو خاندان اپنے بچوں کو ازہر کی تعلیم دلانے کا شوق رکھتے تھے انہیں لازمہلی تعلیم کے لیے بڑے متفکر تھے ۔ چنانچہ قدرت کی تھا۔ سید کے والدین اپنے اس ہونہار اور اقبال مند بچے کی اعآاباد ہوئے ۔ اور آا طرف سے ایسا اتفاق ہوا کہ سید کے والدین گاؤں کو چھوڑ کر قاہرہ کی ایک نواحی بستی حلوان میں "تجھیزیۃ مدرسے ثانوی کے قاہرہ سید دی۔ کر ہموار راہ کی عروج اور ترقی تعلیمی نے ہلی تعا اللہ لیے کے سید یوں

ے ۔ اس مدرسہ میں ان طلباء کو داخل کیا جاتا تھا جو یہاں سے فارغ ہو کر "دارالعلوم"ئدارالعلوم" میں داخل ہو گ����������ہلی تعلیم نل علم کرنا چاہتے تھے ۔ اس دور میں جس طرح دینی و شرعی علوم کی اع )موجودہ قاہرہ یونیورسٹی( میں تکمیہلی تعلیمی ادارہ تھا۔ سید نے "تجہیزیہ دارالعلوم" سے گاہ ازہر یونیورسٹی تھی۔ اسی طرح دارالعلوم جدید علوم و فنون کا اع

ء میں یہاں سے بی اے ایجوکیشن کی1933ء میں دارالعلوم قاہرہ میں داخلہ لے لیا۔ اور 1929فراغت حاصل کرتے ہی ڈگری حاصل کی اور اپنی خداداد ذہانت کی وجہ سے اسی کالج میں پروفیسر لگا دیے گئے ۔

سرکاری ملازمت اور سفر امریکہ کچھ عرصہ تک دارالعلوم قاہرہ میں اپنی صلzحیتوں کے جوہر دکھاتے رہے ۔ پھر انہیں وزارت تعلیم میں انسپکٹر آاف اسکولز لگا دیا گیا۔ مصر یہ عہدہ بڑے اعزاز و افتخار کا منصب سمجھا جاتا رہا ہے ۔ تاریخ التشریع الاسلzمی کےنت تعلیم مولف علzمہ محمد الخضری بک جیسے فقیہہ و مؤرخ بھی اس عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں۔ اسی دوران انہیں وزار کی طرف سے جدید طریقہ تعلیم و تربیت کے مطالعہ کے لیے امریکہ بھیجا گیا اور دو سال کے قیام کے بعد امریکہ سے لوٹے ۔ امریکہ میں ان کا قیام تھوڑے تھوڑے عرصے کے لیے مختلف کالجوں میں ہوا۔ واشنگٹن کے ولسن ٹیچرس کالج،نیویارک، علzوہ اس کے رہا۔ قیام کا ان میں یونیورسٹی فورڈ اسٹان میں کیلیفورنیا اور کالج ٹیچرس کولوراڈو کے گریلی پر انہوں نے شکاگو، سان فرانسسکو، لاس اینجلز اور دوسرے شہروں میں بھی جانے کا موقع ملz۔ امریکہ سے واپسی

۔ امریکہ کا مختصر قیام ان کے لیے بڑے خیر و برکت کا3انگلستان، اٹلی اور سوئٹزرلینڈ میں بھی چند ہفتے گزارے آانکھوں سے دیکھ لیا۔ چنانچہ انہیں اسلzم کی حقانیت و موجب ہوا۔ موصوف نے مادی زندگی کی تباہ کاریوں کو اپنی

آائے کہ انسانیت کی اصل فلzح صرف اسلzم میں ہے ۔ صداقت پر مزید اطمینان ہوا۔ اور وہ یہ یقین لے کر واپس

"اخوان المسلمون" میں شمولیتاور کیا ان کی دعوت کامطالعہ توجہ دی۔ المسلمون" کی طرف "اخوان نے انہوں ہی آاتے واپس امریکہ سے

آاخر ۔ یہ وہ دور تھا جب دوسری عالمی جنگ ختم ہو چکی تھی اور اخوان4ء میں وہ اخوان سے وابستہ ہو گئے 1945بال

ملzحظہ ہو "اسلzم کا عدل اجتماعی" مقدمہ ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی 3 مقالہ یوسف العظم 27ملzحظہ ہو "الشہید سید قطب" ص 4

10

Page 11: Jada o Manzil Complete

آازادئ المسلمون کی تحریک نے عوامی پیمانے پر سیاسی مسائل میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ دوران جنگ انگریزوں نے مصر کا جو وعدہ کیا تھا اخوان نے اسے فوری طور پر پورا کرنے کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ اس سے ایک طرف اگر اخوان کی

اور شاہی استبداد کی ملی بھگت سے ان کے لیے تکالیفرمقبولیت میں اضافہ ہو گیا تھا تو دوسری طرف انگریزی استعما و مصائب کے نئے دروازے بھی کھل گئے تھے ۔ اخوان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ دو سالوں کے اندر اندر ان کے

سے بھیس لاکھ تک پہنچ گئی تھی اور عام ارکان اور ہمدردوں اور حامیوں کی تعداد ا25صرف کارکنوں کی تعداد ء میں اخوان کے مرشد عام استاذ حسن البنا شہید کیے گئے ، اور جماعت کو خلzف1949 فروری 12۔ 5دوگنی تھی

آازمائش کا یہ مرحلہ مصر میں فوجی انقلzب کے قیام تک جاری رہا۔ جولائی ء میں فوجی انقلzب1952قانون قرار دیا گیا۔ آالام و مصائب کا آازمائش کے ایک دور کو ختم کر دیا مگر ساتھ ہی برپا ہوا۔ جس نے بے شک اخوان المسلمون کی

ایک اور ایسا دور شروع کر دیا کہ بقول غالب درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا

آازمائش کے بعد اخوان کے اندر جن لوگوں کو نمایاں اہمیت حاصل ہوئی ان میں ایک حسن الہضیبی ہیں اس جو بعد میں اخوان المسلمون کے مرشد عام منتخب ہوئے اور دوسرے عبد القادر عودہ شہید ہیں جو جماعت کے جنرل سیکرٹری )وکیل( مقرر ہوئے ۔ اور تیسرے جناب سید قطب جنہوں نے فکری میدان میں جماعت کی عظیم الشان خدمات

سر انجام دیں۔ ء کے وسط میں اخوان المسلون کی تحریک دوبارہ بحال ہوئی۔ فاروق کا دور جبر ختم ہوا۔ اخوان کے1952

نف سفر ہوا۔ استاذ رہنما اور کارکن جیلوں سے رہا ہوئے ، اور حسن الہضیبی کی قیادت میں قافلۂ تحریک نئے ولولوں سے وق سید قطب اخوان کے مکتب الارشاد )مجلس عاملہ( کے رکن منتخب ہوئے ۔ جماعت کے مرکزی دفتر میں انہیں شعبۂ

ء سے پہلے تو وہ جماعت کے ایک عام رکن تھے مگر اب ان کا52توسیع دعوت کا رئیس )انچارج( مقرر کر دیا گیا۔ شمار رہنماؤں میں ہونے لگا۔ اور انہوں نے اپنی زندگی ہمہ تن دعوت و جہاد کے لیے وقف کر دی۔ اور مختلف پہلوؤں

مارچ تحریک کی خدمت کی۔ نے سید1953اور مختلف طریقوں سے اس بہبود کے سرکل معاشرتی میں مصر کے ء متعدد میں کانفرنس اس نے موصوف سید بھیجا۔ دمشق لیے کے شرکت میں کانفرنس کی بہبود معاشرتی کو قطب

)اخلzقی تربیت اجتماعی"لیکچر دیے جن میں قابل ذکر لیکچر یہ تھا "التربیۃ الخلقیۃ لوسیلۃ لتحقیق التکافل الاجتماعی کفالت کو بروئے کار لانے کے ایک ذریعہ ہے ( کانفرنس سے فارغ ہو کر سید موصوف اردن کی زیارت کو روانہ ہوئے مگر اردنی حکام نے انہیں سرحد پر روک لیا اور اردن میں داخل ہونے سے منع کر دیا۔ اردنی حکام کا یہ اقدام گلب پاشا کے

آایا تھا جو ان دنوں اردن کے سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ دسمبر ء میں سید قطب کو1953احکام کی بنا پر عمل میں اخوان کے مکتب الارشاد کی طرف سے بیت المقدس میں منعقد ہونے والی اسلzمی کانفرنس میں بھیجا گیا۔ اس مرتبہ

21 محمد شوقی زکی ص ف"الاخوان المسلمون و المجتمع المصری" تالی 5

11

Page 12: Jada o Manzil Complete

چونکہ سید قطب عالم اسلzمی کے وفود کے ہمراہ اردن میں داخل ہوئے تھے اس لیے اردنی حکام کی طرف سے ان سےآاتشیں تحریروں سے گلب پاشا کو جو چڑ تھی اس کی بنا پر ان کا اردن میں قدم تعرض نہیں کیا گیا ورنہ سید قطب کی

آاسان نہ تھا۔ جولائی نت اسلzمی" نے سید قطب کو جریدہ "اخوان المسلمون" کا54رکھنا ء میں اخوان کی "مجلس دعو ء1954 ستمبر 10 ماہ تک اس جریدے کی ایڈیٹری کے فرائض انجام دیے ۔ 2رئیس التحریر مقرر کیا۔ موصوف نے صرف

کو اخبار کرنل ناصر کی حکومت کی طرف سے بند کر دیا گیا، کیونکہ اس اخبار نے اخوان المسلمون کی پالیسی کے ء کو جمال عبد الناصر اور انگریزوں کے مابین1954 جولائی 7کٹ کی مخالفت کی تھی جو پیتحت اس اینگلو مصری

نر ابتلzء میں گھر آاغاز ہو گیا اور اخوان شدید تر دو ہوا تھا۔ اس پیکٹ کے بعد اخوان اور ناصر کے مابین کشمکش کا گئے ۔ ایک جعلی سازش کے الزام میں حکومت مصر نے اخوان المسلمون کو خلzف قانون قرار دے دیا۔ اخوان رہنماؤں

۔ ان کے ہزار ہا کارکنوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا، اور ایسا محشر6کو گرفتار کر لیا۔ انہیں موت کی سزائیں دی گئیں آابرو اور جان و مال پر دست درازی کی گئی جو اخوان کے ساتھ کسی خیز ہنگامہ برپا ہوا کہ ہر اس شخص کی عزت و

۔ 7نہ کسی نوعیت کا تعلق رکھتا تھا

آاغاز ابتلاء کا ان گرفتار شدگان میں سید قطب بھی تھے ، انہیں مصر کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا۔ کبھی قلعہ کی جیل

ابو زعبل کی ہولناک جیل میں۔ سید موصوف کی گرفتاری اور تعذیب کی داستان بڑیہمیں، کبھی فوجی جیل میں اور گازہرہ گداز ہے ، شام کے ہفت روزہ الشہاب کے حوالے سے ہم اس کی تلخیص نقل کرتے ہیں:

"فوجی افسر جب سید قطب کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے گھر میں داخل ہوئے تو سید اس وقت انتہائی شدید بخار میں مبتلz تھے ۔ انہیں اسی حالت میں پابند سلzسل کر لیا گیا۔ اور پیدل جیل تک لے جایا گیا۔ راستے میںآاتے تو ان کی زبان پر اللہ اکبر وللہ الحمد )یہ نت کرب کی وجہ سے بیہوش ہو کر زمین پر گر جاتے اور جب ہوش میں شد اخوان کا نعرہ تھا( کے الفاظ جاری ہو جاتے ۔ انہیں جب سجن حربی )فوجی جیل( میں داخل کیا گیا تو جیل کے

اور خفیہ پولیس کے افسروں سے ہوئی۔ جوں ہی سید قطب نے8ن کی ملzقات جیل کے کمانڈر حمزہ بسیوفی ادروازہ پر جیل کے اندر قدم رکھا تو جیل کے کارندے ان پر ٹوٹ پڑے اور پورے دو گھنٹے تک ان کو زدوکوب کرتے رہے ۔ جیلتادھر نادھر انہیں لے کر میں منہ ران ان کی گیا۔ جو بھی چھوڑا کتا نما فوجی ہوا گرگ ایک سدھایا پر ان اندر کے

ء( ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:1954 نومبر 7جن لوگوں کو موت کی سزائیں دی گئیں ) 6( محمود عبد اللطیف 6( ہنداوی دویر )5( ابراہیم الطیب )4( یوسف طلعت )3( محمد فرغلی )2( عبد القادر عودہ )1) ہزار تک50مصر کے نامور اخبار المصری کے ایڈیٹر احمد ابو الفتح کا بیان ہے کہ چند ہفتوں کے اندر اندر گرفتار شدگان کی تعداد 7

205پہنچ گئی۔ ملzحظہ ہو کتاب "جمال عبد الناصر" تالیف احمد ابو الفتح ص ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعدیہ شخص غداری کے الزام میں خود گرفتار ہو چکا ہے ۔ 1967 جون 5 8

12

Page 13: Jada o Manzil Complete

گھسیٹتا رہا۔ اس تمہیدی کاروائی کے بعد انہیں ایک کوٹھڑی میں لے جایا گیا، اور ان سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا اور مسلسل سات گھنٹے تک جاری رہا۔ سید قطب کی جسمانی طاقت گرچہ جواب دے چکی تھی مگر قلبی حرارت اور اطمینان و صبر کی طاقت نے انہیں پتھر کی چٹان میں تبدیل کر دیا تھا۔ ان پر گوناگوں اذیتوں کی بارش ہوتینر جاودانی میں مستغرق رہتے ۔ رات کو جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں رہی مگر وہ "اللہ اکبر وللہ الحمد" کے سرو ڈال دیے جاتے اور صبح کے وقت بلz ناغہ انہیں پریڈ کروائی جاتی۔ ان مالایطاق مشقتوں کا نتیجہ یہ نکلz کہ وہ متعدد

ء کو انہیں فوجی اسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔ اس وقت موصوف امراض1955 مئی 3۔ 9بیماریوں میں مبتلz ہو گئے ۔ 10سینہ، قلبی ضعف، جوڑوں کے درد اور اسی نوعیت کی دوسری بیماریوں میں مبتلz تھے

ف کے ایک شاگرد جناب یوسف العظم لکھتے ہیں:وموصانہیں نے پولیس کے کتوں گیا، داغا آاگ سے انہیں ۔ توڑے گئے پر پہاڑ سید قطب "تعذیب کے گوناگوں کچلیوں میں لے کر گھسیٹا، ان کے سر پر مسلسل کبھی گرم اور کبھی ٹھنڈا پانی انڈيلz گیا، انہیں لاتوں اور گھونسوںزار الفاظ اور اشاروں سے ان کی توہین کی گئی۔ مگر ان سب چیزوں نے سید کے ایمان و اذعان میں آا سے مارا گیا، دل

۔" 11اضافہ کیا اور حق پر ان کے قدم مزید جم گئے

عزیمت کی ایک مثال سال قید15ء کو مصر کی "عوامی عدالت" )محکمۃ الشعب( کی طرف سے سید قطب کو 1955 جولائی 13

بامشقت سنائی گئی۔ "عوامی عدالت" کا یہ فیصلہ ان کی غیر حاضری میں سنایا گیا کیونکہ موصوف اس قدر کمزور ہو سالہ قید بامشقت کا ابھی ایک سال گزرا تھا کہ جمال عبد15چکے تھے کہ وہ عدالت میں حاضر نہ ہو سکتے تھے ۔

الناصر کی طرف سے ایک نمائندہ سید قطب کے پاس جیل خانے بھیجا گیا۔ اس نے سید قطب کو یہ پیش کش کی کہآاپ کو رہا کر دیا جائے گا، آاپ چند سطریں معافی نامہ کی لکھ دیں جنہیں اخبارات میں شائع کیا جا سکے تو "اگر آارام دہ زندگی سے متمتع ہو سکیں گے ۔" اس پیش کش کے جواب آاپ گھر کی اور جیل کے مصائب سے نجات پا کر

تاسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا: ند مومن نے جو جواب دیا میں اس مرآاتا ہے کہ جو مظلوم کو کہتے ہیں کہ ظالم سے معافی مانگ لے ۔ خدا کی قسم، "مجھے ان لوگوں پر تعجب اگر معافی کے چند الفاظ مجھے پھانسی سے بھی نجات دے سکتے ہوں تو میں تب بھی کہنے کے لیے تیار نہ ہوں گا،

یہاں تک الشہاب کے بیانات کی ہم نے تلخیص نقل کی ہے ۔ الشہاب ان دنوں شام کی جماعت الاخوان المسلمون کے زیر انتظام 9آاگاہ کرتا رہتا تھا۔ دمشق سے نکلتا تھا اور مصری جیل خانوں کی تعذیب کی داستانوں سے دنیا کو

20الشہید سید قطب ص 10اا ص 11 31ایض

13

Page 14: Jada o Manzil Complete

اور میں اپنے رب کے حضور اس حال میں پیش ہونا پسند کروں گا کہ میں اس سے خوش ہوں اور وہ مجھ سے خوش ہو۔ 12

جیل میں جب کبھی ان سے پیش کش کا ذکر کیا گیا اور معافی کا مشورہ دیا گیا تو انہوں نے ہمیشہ یہ کہا کہ "اگر میرا قید کیا جانا برحق ہے تو میں حق کے فیصلہ پر راضی ہوں، اور اگر باطل نے مجھے گرفتار کر رکھا ہے تو

۔" عوامی عدالت )محمکۃ الشعب( کی کاروائی حکومت13میں باطل سے رحم کی بھیک مانگنے کے لیے تیار نہیں ہوں کی طرف سے کتابی شکل میں شائع کی جا چکی ہے ۔ اس کاروائی سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ سید قطب کو حکومت کی طرف سے وزارت تعلیم کی پیش کش بھی کی گئی تھی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر دی کہ وزارت کا قبول کرنا اس وقت تک لا حاصل ہے جب تک مصر کے پورے نظام تعلیم کو اسلzمی سانچے میں ڈھالنے کا

اختیار نہ ہو۔

رہائی!!ابتداء کے 1964 ۔ رہے میں انہوں نے3ء کے وسط تک سید قطب مصر کے مختلف جیل خانوں تو سال

انتہائی اذیت اور عذاب میں گزارے ۔ مگر بعد میں جبر و تشدد کا سلسلہ ہلکا کر دیا گیا اور ان کے اعزہ و اقارب کو بھی ملzقات کی اجازت مل گئی اور خود انہیں بھی جیل کے اندر اپنے علمی مشاغل جاری رکھنے کی سہولت کسیآان" کی تکمیل پر حد تک مہیا ہو گئی۔ اس جزوی سہولت سے انہوں نے پورا فائدہ اٹھایا اور اپنی تفسیر "فی ظلzل القر

تا دس سال ہو گئے تھے اور بالعموم 1964متوجہ ہو گئے ۔ سال کی سزا15ء کے وسط میں جب کہ ان کی قید کو تقریباz دس یا گیارہ سال گزار کر رہا ہو جاتا ہے ۔ عراق کے مرحوم صدر عبد السلzم عارف نے قاہرہ کا دورہ پانے والا قیدی عمل کیا اور صدر ناصر سے سید قطب کی رہائی کی درخواست کی۔ چنانچہ صدر ناصر نے جو عبد السلzم عارف مرحوم کے

۔ مگر اس14ساتھ خوشگوار تعلقات کے قیام کے متمنی تھے اس درخواست کے جواب میں سید قطب کو رہا کر دیا آازادانہ نقل و حرکت کی اz کوئی فرق نہ پیدا ہوا۔ کیونکہ وہ برابر پولیس کی نگرانی میں رہتے تھے اور انہیں رہائی سے عمل

اجازت نہ تھی۔

دوبارہ گرفتاری و سزاآازادی کو ایک سال بھی نہ گزرنے پایا کہ سید قطب کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر الزام یہ تھا کہ اس مقید وہ طاقت کے ذریعہ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے ۔ چنانچہ نہ صرف انہیں بلکہ ان کے بھائی محمد قطب اور ان کی

اا ص 12 51۔ 50ایضء مقالہ احمد شومان 1966 ستمبر 11روزنامہ النہار بیروت شمارہ 13 یہ روایت راقم الحروف نے مصر اور کویت کے ثقہ لوگوں سے سنی ہے ۔ کسی سرکاری دستاویز یا اخباری بیان میں اس کا ذکر نہیں 14

ہے ۔

14

Page 15: Jada o Manzil Complete

ہمشیرگان حمیدہ قطب اور امینہ قطب کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اور ان کے علzوہ اور بھی کثیر تعداد کو گرفتار کر لیا ۔ ان میں سات سو15گیا۔ ڈیلی ٹیلیگراف کی رپورٹ کے مطابق گرفتار شدگان کی تعداد بیس ہزار سے تجاوز کر گئی

آاغاز اس وقت ہوا جب اگست ء میں صدر ناصر نے روس کا دورہ کیا اور1965کے قریب عورتیں تھیں۔ اس پکڑ دھکڑ کا ماسکو میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ "اخوان المسلمون" نے میرے قتل کی سازش تیار کی ہے جو طشت ازبام ہو چکی

24ہے ۔ ماضی میں میں نے انہیں معاف کر دیا تھا لیکن اب معاف نہیں کروں گا" اس اعلzن سے ایک سال پیشتر ) ء( کے ذریعہ صدر کو یہ اختیارات دیے گئے تھے کہ وہ1964 مجریہ 119ء( مصر میں ایک نئے قانون )نمبر 1964مارچ

جسے چاہے بغیر مقدمہ چلzئے گرفتار کر سکتا ہے ، جائیداد کی ضبطی اور دوسری انتظامی کاروائیوں کو روبہ عمل لا سکتا ہے ، اور صدر کی ایسی تمام کاروائیوں کے خلzف عدالتی چارہ جوئی اور اپیل نہیں کی جا سکے گی۔ صدر

نن ماسکو کے بعد گرفتاریوں کا وسیع پیمانے پر سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور جیلوں کے اندر تعذیب و تشدد کیکے ناصر zاعل بھٹیاں گرم ہو گئیں۔ کچھ عرصہ بعد خاص فوجی عدالتوں میں ان کے خلzف مقدمہ دائر کیا گیا۔ پہلے اعلzن ہوا کہ مقدمہ کی کاروائی ٹیلی ویژن پر دکھائی جائے گی۔ لیکن جب ملزموں نے اقبال جرم سے انکار کر دیا اور تشدد اور مظالم کی داستانیں بیان کیں تو فوری طور پر کاروائی ٹیلی وژن سے روک دی گئی اور بند کمرے میں مقدمہ چلنے لگا۔ ملزموں کی طرف سے کوئی وکیل مقدمہ کی پیروی کرنے والا نہ تھا۔ ملک کے باہر کے وکلzء نے مقدمہ کی پیروی کرنا چاہی

(William Thorpمگر انہیں اجازت نہیں دی گئی۔ فرانس کی بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ولیم تھارپ )( وینڈال ایم جے اے وکیل مشہور کے ہیگ اجازتA.J.M. Vandalاور باقاعدہ نے وکلzء کے مراکش اور )

آاپلط ب کی جسے رد کر دیا گیا۔ سوڈان کے دو وکیل از خود قاہرہ پہنچ گئے اور وہاں کی بار ایسوسی ایشن میں اپنے کو رجسٹر کرا کر پیروی کے لیے عدالت پہنچے لیکن پولیس نے دھکے دے کر انہیں باہر نکال دیا۔ اور فی الفور مصر

ء میں ٹریبونل کے سامنے جو کاروائی ہوئی اس میں ملزموں نے1966چھوڑنے پر انہیں مجبور کیا گیا۔ جنوری اور فروری ( نامے اقبال زبردستی کہ )Confessionsبتایا اعضاء شکنی اور تشدد و جبر کو ان لیے کرنے کے ( حاصل

Tortureکا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ خود سید قطب نے بھی جو اس مقدمہ کی مرکزی شخصیت تھی یہی الزام لگایا۔ ) اا بند کر دیا اور ان کی شہادت سننے سے انکار کر دیا۔ ان دل دوز واقعات کی توثیق ٹریبونل کے صدر نے ملزم کا منہ فور

( کی اس رپورٹ سے ہوتیAmnesty Internationalلندن میں وکلzء کے غیر جانب دار عالمی ادارے )آارکر ) ( لندن کی پارلیمنٹ کے ممبر نے مصر کا دورہ کرنے کے بعد پیش کیPeter Archerہے جو مسٹر پیٹر

آارکر نے واقعات و حقائق بیان کرنے کے بعد لکھا ہے : ہے ۔ مسٹر "ملزمین کے جرم یا ان کی معصومیت کے بارے میں کوئی رائے زنی کیے بغیر ایمنسٹی انٹرنیشنل بڑے افسوس کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتی ہے کہ ان مقدمات کے حالات و حقائق ان الزامات کی تائید کرتے ہیں جو ملزمین کے

ء1965 اکتوبر 11ڈیلی ٹیلی گراف 15

15

Page 16: Jada o Manzil Complete

ساتھ جبر و تشدد کا سلوک کرنے کے بارے میں لگائے گئے ہیں اور یہ صورت حال مصری انصاف کی غیر جانب داریبنیادی ملزمین کے کہ حکومت ہے کرتی مطالبہ مصر سے نت انٹرنیشنل حکوم ۔ایمنسٹی ہے رہی بنا اا مشکوک قطع کو انسانی حقوق کا احترام کرے اور انہیں کھلے طور پر منصفانہ مقدمہ کا موقع دے کر بین الاقوامی ساکھ میں اضافہ کرے

۔" 16

تختۂ دار پر لٹکا دیے گئے ء کو سید قطب اور ان کے دو ساتھیوں کو فوجی ٹریبونل کی طرف سے موت کی سزائیں سنائی1966اگست

گئیں۔ ان سزاؤں پر پوری دنیا کے اندر شدید ردعمل ہوا۔ دینی رہنماؤں، سیاسی شخصیتوں، مذہبی اور اصلzحی تنظیموںآاخر اور اخبارات و رسائل کی طرف سے سزاؤں میں تبدیلی کی درخواست کی گئی۔ مگر ان کی شنوائی نہ ہو سکی اور بال

یہ بے نظیر شخصیت، جو مصر اور عرب دنیا کے1966 اگست 25 نافذ کر دی گئیں۔ اور یہ سزائیں ء کی صبح کو اا" جا ملی اا مرضی آانکھ میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی تھی "اپنے رب سے راضی الحاد پرست اور لادین عناصر کی

تشد بعشق آانکہ دلش زندہ ہر گز نمیر و نم ما ثبت است بر جریدۂ عالم دوا

سید قطب ادب و علم کے میدان میں سید قطب مصری معاشرے کے اندر ایک ادیب لبیب کی حیثیت سے ابھرے ۔ سیاسی اور اجتماعی نقاد کےآان کے روپ میں وہ دنیا سے جام نر قر آاخر اسلzم کے عظیم مفکر اور داعی اور مفس ۂعنوان سے انہوں نے نام پیدا کیا اور بال

شہادت پہنے رخصت ہوئے ۔ تان کے ذہن و فکر نے تغیرات کے کئی مرحلے طے کیے : اخوان المسلمون کے ساتھ منسلک ہونے سے پہلے

آاغاز بچوں کے لیے تاریخی اور اسلzمی لٹریچر کی تصنیف سے کیا۔ اور اپنے ایک انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا قلمی رفیق عبد الحمید جودہ السمار کے ساتھ مل کر انبیاء کرام کے قصوں اور کہانیوں پر مشتمل ایک سلسلہ شائع کیا۔ اس سلسلہ کو انہوں نے کہانی کے نہایت پر کشش اور دلکش اسلوب میں بیان کیا ہے ۔ خدا کی برگزیرہ شخصیتوں کے واقعات و احوال کے ذریعہ سے وہ بچوں کے اندر بلند کرداری اور اخلzقی فضیلت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہتاس کے سامنے انسانیت و اخلzق کا صرف وہ نمونہ ہو جو اللہ کے پیغمبروں نژاد نو جب معرکۂ زندگی میں قدم رکھے تو ہیں۔ کامل اپنے قلم کی جولانیاں دکھائی بھی ادباء نے پیش کیا ہے ۔ اس رنگ میں مصر کے دوسرے نبیوں نے اور کیلzنی مرحوم تو ساری زندگی "بچوں کے مصنف" کہلzتے رہے ۔ مگر سید قطب کے انداز میں جو سلzست و لطافتآاتے ہیں۔ اس دور میں انہوں نے بچوں کے لیے اسلzمی اور وطنی اور جذبہ و اخلzص جھلکتا تھا اس میں وہ منفرد نظر

ء1966 اپریل 15بحوالہ رپورٹ جاری کردہ ایمنسٹی انٹرنیشنل فلیٹ اسٹریٹ لندن مورخہ 16

16

Page 17: Jada o Manzil Complete

گیت بھی لکھے ہیں قلم نے جب مزید ترقی کی طرف قدم اٹھائے تو اظہار خیال کے زاویے بھی بدل گئے ۔ جوانی کی پنکھڑکیاں کھل رہی تھیں کہ ان کا پہلz افسانہ "اشواک" )کانٹے ( دنیائے ادب کے اندر نمودار ہوا۔ اس افسانے کے اندروالا پڑھنے افسانہ کو ہوا ہے ۔ اس ناکامی انجام بیان کی ہے جس کا پاکیزہ محبت کی داستان ایسی ایک نے انہوں محسوس کرے گا کہ وہ ایسے کردار کے ساتھ ہمسفر ہے جو انتہائی کریم النفس اور بلند اخلzق ہے ۔ موصوف افسانے

کے انتساب میں لکھتے ہیں: آابلہ پا ہوئی۔ میں بھی آابلہ پا ہوا اور وہ بھی "اس کے نام جو میرے ساتھ وادئ پرخار میں ہمسفر رہی۔ میں بھی سوختہ نصیبی سے دوچار ہوا اور وہ بھی سوختہ ارماں نکلی۔ پھر وہ الگ راستے پر چل پڑی اور میں الگ راستے پر چل پڑا۔ اس حال میں کہ معرکۂ سوز و ساز میں ہم دونوں زخمی ہو چکے تھے ۔ نہ اس کی جان کو قرار ملz اور نہ میری جان

آاشنائے سکوں ہوئی۔"اور بچہ( کا )گاؤں القریۃ من طفل ایک لکھیں۔ نے انہوں کتابیں اور دو کی طرز افسانوی بعد کے اشواک دوسری المدینۃ المسحورہ )سحر زدہ شہر(۔ پہلی کتاب میں انہوں نے داستان کے رنگ میں اپنے بچپن کی زندگی اوربیماریاں، جہالت، مالائی کہانیاں، دیو اور طہارت۔ زندگی کی سادگی دیہاتی ۔ ہے نقشہ کھینچا کا ماحول دیہاتی سخاوت، رواداری اور جوش انتقام الغرض ہر ہر پہلو کو بڑے لطیف اسلوب میں بیان کیا ہے ۔ جس زمانے میں سید قطبہہ حسین کے طرز ہط ہہ حسین کے حلقہ سے وابستہ تھے ۔ ہط نے یہ کتاب لکھی تھی اس زمانے میں وہ مصر کے نامور ادیب اور اسے میں لکھی "الایام" کے رنگ ہہ حسین کی ہط بہو ہو بھی یہ کتاب اپنی نے انہوں تھے کہ متاثر سے اس قدر ہہ حسین کے نام کیا کہ "امید ہے کہ وہ اس کہانی کو بھی "الایام" کے چند ایام کی حیثیت سے قبول ہط منسوب بھی فرمائیں گے " المدینۃ المسحورۃ محض ایک ادبی داستان ہے ۔ اور عہد ماضی کے شاہی محلzت کا عکس پیش کرتی ہے

۔ سید نے اپنی زندگی میں صرف یہ تین افسانے رقم کیے ہیں۔ ہے ۔ اس کتاب کی تالیف میں چاروں بہن بھائی )سید"اس دور کی ایک اور بے نظیر کتاب "الاطیاف الاربعۃ

قطب، محمد قطب، حمیدہ قطب اور امینہ قطب( شریک تھیں۔ ان میں سے ہر ایک نے انسان دوست اہل قلم کی حیثيت سے انسانی زندگی کی واردات کو بیان کیا ہے ۔ انسان کی خدمت، انسان کی محبت اور انسانیت کے لیے قربانی کا

جذبہ چاروں کے اندر قدر مشترک ہے ۔ سید موصوف کو طالب علمی کے دور میں شعر و ادب اور صحافت سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ دارالعلوم قاہرہ میں ان کی طالب علمی اور پھر پروفیسری کا جو زمانہ گزرا ہے وہ ان کے ادبی ذوق کو نکھارنے اور اسے ترقی دینےنب صحافت سے راہ و رسم پیدا کر لی تھی۔ میں بڑا ممد ثابت ہوا۔ اس دور میں انہوں نے قاہرہ کے چوٹی کے ادباء اور ارباہہ حسین کے پرائیوٹ سیکرٹری بھی رہے اور پھر عباس محمود ہط ہہ حسین کے حلقہ ارادت سے منسلک ہوئے بلکہ ہط پہلے

ہہ حسین اور عقاد کے ساتھ ٹھنیدالعقاد کی مجلس ادب و علم کے گل سر سب ہط ہفے صادق الرافعی کی بنے ۔ مصط

17

Page 18: Jada o Manzil Complete

آانی ادب کی چاشنی ہوتی ہفے صادق الرافعی بیسویں صدی کے جاحظ تھے ۔ ان کی انشا پردازی میں قر رہتی تھی۔ مصطآان کے ادبی و معنوی مقام کو رافعی نے جس قدرت و ندرت اور عربی مبین کے ساتھ آان کی بلzغت و ایجاز اور قر تھی۔ قرہہ حسین اور عقاد ان کے مقابلے میں ہیچ ہط آانی ادیب" کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ بیان کیا ہے اس کی وجہ سے انہیں "قرتے ہیں۔ رافعی اور عقاد کے مجادلات میں سید قطب عقاد کا دفاع کرتے رہے ۔ یہ دفاع اگرچہ دفاع ناکام تھا مگر آا نظر نب اعجاز کے ساتھ بندھ ند عالم کی کتا سید قطب کو اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ ان کے ادب و انشاء کا رشتہ خداونآان کا مطالعہ کیا۔ اور اسی گیا۔ انہوں نے ادبی ذوق کی سیرابی اور اسالیب بلzغت اور اصول ایجاز کی جستجو میں قراور اخلzص سید کے یہ ۔ دیے کر وا بھی دروازے ہدایت کے و اپنی حکمت پر ان نے ہلی تعا اللہ دوران مطالعہ کے آان نے ان کو ادب کے لازوال خزانے بھی عطا کیے اور ہدایت کا ابدی نور نب صادق کا کرشمہ ہے کہ قر پاکیزگی اور طل

بھی ارزانی فرمایا

آان لکن جمیع العلم فی القرتقامہ عنہ افھام الرجال

زینت میں دنیائے ادب کی بہا بے ہائے قلم سے جو گوہر میں سید قطب کے تقاضے نئے ذہن و ذوق کے اضافے کا موجب ہوئے وہ یہ ہیں:

آان کیمشاہد القیامۃ فی القرآن: 1 : اس کتاب میں سید قطب نے مناظر قیامت بیان کیے ہیں۔ یہ مناظر قر مواقع پر بیان کیے گئے ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں: اس کتاب میں میں نے جو150 سورتوں میں 80 سورتوں میں سے 114

چیز بیان کی ہے اسے میں نے "مناظر" کا نام دیا ہے ۔ منظر میں تصویر، حرکت اور تاثیر کے پہلو بھی شامل ہوتے ہیں۔آاخرت کے مناظر کی جو نقشہ کشی کی ہے اور جس حیرت انگیز اور مؤثر اسلوب میں واقعہ نگاری چنانچہ مصنف نے نت جنت کو پڑھتے آایا کی ہے وہ تعریف و توصیف سے بالا ہے ۔ پڑھنے والا صرف الفاظ سے ہی محظوظ نہیں ہوتا بلکہ نت دوزخ پڑھتے ہوئے دوزخ کی شعلہ سامانیوں کو بھی محسوس کرتا ہے ۔ یہ کتاب نہ صرف آایا ہوئے جنت کے لذائذ اور دعوت کے نقطۂ نظر سے بے مثال ہے بلکہ ادب و فن کا بھی شاہکار ہے ۔ سید قطب نے ماہر انشا پرداز اور تخلیقی

صلzحیتوں سے مالا مال فن کار کے موقلم سے اس کتاب کو زندۂ جاوید صحیفہ بنا دیا ہے ۔

�ن: 2 آان کے موضوع200: یہ التصویر الف�نی فی الق�را صفحات پر مشتمل کتاب ہے ۔ سید قطب کا قلم قرآان ان کا اصل موضوع ہے ۔ پر بڑی پختگی، خود اعتماد اور دقت رسی کے ساتھ چلتا ہے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قرآان آان کی جادو بیانی، جادو بیانی کا منبع، قر آان کی ادبی قدر و قیمت اجاگر کی ہے ۔ قر التصویر الفنی میں انہوں نے قرآانی قصے ، آان کے مناظر کی فنی نقشہ کشی، حسی تخیل، فن کے لحاظ سے نظم کلzم، قر کیسے سمجھا گیا، قر قصوں کے اغراض و مقاصد، قصہ گوئی میں فن اور دین کا امتزاج، قصہ کے فنی خصائص، قصہ میں واقعہ نگاری کا

18

Page 19: Jada o Manzil Complete

نق دعوت ان تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔ آان کا طری آان کے انسانی نمونے ، وجدانی منطق اور قر جز، قرآاج تک اس طرز کی کوئی کتاب اس جامعیت کے ساتھ المجمع العلمی العربی )عربک اکیڈیمی( کے تبصرہ کی رو سے نہیں لکھی گئی۔ یہ دونوں کتابیں مصر کے مشہور ادارے دار المعارف نے شائع کیں اور علمی و ادبی حلقوں میں انہیں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مراکش کے مشہور عالم و ادیب علzل الفاسی کے الفاظ میں: "یہ دونوں کتابیں بتاتی ہیں کہآان کے اعجازی اسلوب کا اسے پختہ مذاق حاصل ہے ۔" مصنف عربی زبان و ادب میں بہت اونچا مرتبہ رکھتا ہے اور قر

آا "بی: اص���ولہ و من���اھجہادلنق���د ال"ایں۔ ئاسی دور میں ادبی نقد و نظر پر بھی ان کی دو کامیاب کتابیں سامنے ہہ حسین کی کتاب " ہط " پر تنقید۔ عربی ادبیات کا طالب علم ان دونوںمس���تقل الثق���افۃ)تنقید کے اصول و مناہج( اور

کتابوں سے صرف نظر کر کے عربی ادب کے جدید رحجانات کا کامل احاطہ نہیں کر سکتا۔ مصنف نقاد کے فرض اور غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: نقاد کا اصل کام فن کے لحاظ سے ادبی کام کی اصلzح ہے ۔ نقاد یہ واضح کرتا ہے کہ جس ادبی کوشش کا وہ نقد و احتساب کر رہا ہے موضوع کے لحاظ سے اس کی قدر و قیمت کیا ہے ،نن ادب میں اس کا کیا مقام ہے ، ادبی اظہار و بیان اور احساس و وجدان کی رو سے اس کا کیا معیار ہے ، چمنستا

رث������ذخیرے میں اس سے کیا کچھ اضافہ ہوا ہے ، ادیب ماحول سے کس حد تک اثر پذیر اور ماحول پر کس حد تک ا انداز ہوتا ہے ، ادیب کی وجدانی اور بیانی خوبیاں کیا ہیں، وہ نفسیاتی اور خارجی عوامل کیا ہیں جو ادیب کی تربیت و

ساخت میں حصہ لے رہے ہیں۔"

صحافت کی طرف رخنر ادب میں شناوری کر رہے تھے مگر ان کے احساس و وجدان کی دنیا سید قطب اس دور میں اگرچہ صرف بح

دندناتا پھر رہا تھا۔ ایکرماحول کی ہر لہر سے متاثر ہو رہی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب مصر کے سینہ پر انگریزی استعما طرف انگریزوں اور پاشاؤں نے لوٹ کھسوٹ مچا رکھی تھی اور دوسری طرف فلzحین اور عمال طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے ۔ یہ تمام حالات ان کے ذہن و وجدان کی دنیا پر اپنی پرچھائیاں ڈال رہے تھے ۔ چنانچہ انہی جذبات کو لیے ہوئے سید موصوف نے پہلے ماہنامہ "العالم العربی" کی ادارت کا کام ہاتھ میں لیا اور پھر "الفکر الجدید" کے نام سے اپنا ایک ماہ نامہ جاری کیا۔ جس کی مالی پشت پناہی مصر کے ایک نیک دل کتب فروش محمد علمیآاتے ہیں، جو اس وقت کے المنیادی نے کی۔ اسی پرچے کے اندر سید قطب کے رحجانات سوشلزم کی طرف مائل نظر حالات کی پیداوار تھے ۔ چنانچہ اس پرچے میں انہوں نے متواتر مصر کے جاگیرداری نظام اور پاشاؤں کی دھاندلیوں پر حملے کیے ہیں۔ اور سرمایہ دارانہ استحصال کو چیلنج کیا حالانکہ اس وقت جاگیرداری نظام پوری قوت کے ساتھ قائم تھا۔ پاشاؤں کا طبقہ اوج کمال پر تھا اور سرمایہ داریت ملک کی زمام اقتدار پر قابض تھی۔ الفکر الجدید جس سوشلزم کاآاپ کو متعارف کرا رہا ہے ۔ ان کا آاج اپنے داعی تھا وہ سوشلزم اس مفہوم کا حامل نہ تھا جس مفہوم کے ساتھ وہ سوشلزم سرمایہ داریت اور جاگیرداری کے ظلم و ستم کے خلzف تھا اور اسلzم کی تلوار سے ان کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا۔

19

Page 20: Jada o Manzil Complete

آان کے اقتصادی نظام آایات کی روشنی میں ناجائز ثابت کرتا تھا اور قر آان کی دولت کی ذخیرہ اندوزی اور اجارہ داری کو قر کی طرف رجوع کی دعوت دیتا تھا۔ اس کا بنیادی نصب العین عدل و انصاف کا قیام، غربا اور مساکین کی دستگیری

۔ 17اور زیر دستوں کو زبردستوں کے مظالم سے نجات دلانا تھا

سفر امریکہ کے نتائج اس زمانے میں سید موصوف کو امریکہ جانے کا موقع مل گیا۔ وہاں انہوں نے مغرب کی مادی تہذیب اور استان کے سامنے مغرب کا مصنوعی جمہوری نظام تھا۔ جس میں رنگ و نم خود مشاہدہ کیا۔ کی قیامت سامانیوں کا بچش نسل کی بنیاد پر انسان اور انسان میں تفریق روا رکھی جا رہی تھی اور گورا انسان کالے انسان پر انسانیت سوز مظالم توڑ رہا تھا۔ چنانچہ انہیں یقین ہو گیا کہ جس مغرب کی جمہوریت نوازی کا دنیا میں ڈھول پیٹا جا رہا ہے وہ انسانیت سےنن حق ہے جو انسانیت کو فلzح و کامرانی سے ہمکنار کر سکتا ہے ۔ وہ جب کوسوں دور ہے اور صرف اسلzم ہی وہ دیآائے تو ان کے دل میں نسلی امتیاز، کھوکھلے جمہوری نظام اور انصاف و حریت کے جھوٹے مدعیوں امریکہ سے واپس ک خلzف جذبات کا شدید تلzطم برپا تھا اور دوسری طرف ان کے دل میں اسلzم کی قدر و قیمت بڑھ گئی اور اسلzمیالتی تاثرات کو "امریکہ اپنے ان انہوں نے پر تعلیمات سے ان کی شیفتگی دوبالا ہو گئی۔ امریکہ سے واپسی اقدار اور رایت" )امریکہ، جسے میں نے دیکھا( نامی کتاب میں پیش کیا۔ امریکہ کا سفر ان کے لیے زندگی کا زبردست انقلzب

آایا۔ واپسی پر وہ ہمہ تن اسلzم کے مطالعہ کے لیے وقف ہو گ�������������� آاخذ سے تشنگیئبن کر ے ۔ اور اسلzم کے اصل م بجھانے میں مشغول ہو گئے ۔ ان کے مطالعہ و جستجو کا یہ حال تھا کہ ان کے یومیہ مطالعہ کے اوقات دس گھنٹوں سے کم نہ ہوتے تھے ۔ اسی مطالعہ کی بدولت ان کا تعلق مصر کی اسلzمی تحریک سے قائم ہوا اور یوں ذہنی انقلzب کاآان کی تصنیف سے شروع ہوا تھا اخوان المسلمون کی عملی تحریک سے وابستگی پر منتج جو سفر مشاہد القیامۃ فی القر

آارا کتاب 18ہوا )اسلzم کا عدل اجتماعی( اسی دور کیالعدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام۔ ان کی مشہور اور معرکۃ الہے ۔ تصنیف

"العدالۃ الاجتماعیۃ" کی تالیفآائی ہے ۔ اب تک اس کے سات ایڈیشن نکلء1948العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلzم میں پہلی مرتبہ منظر عام پر

۔ اس کتاب کے ساتویں19چکے ہیں۔ ہر ایڈیشن میں سید موصوف اپنے تازہ مطالعہ کی بنا پر ترمیم و اضافہ کرتے رہے ہیں باب میں سید موصوف نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور بنو امیہ کے بارے میں جس نقطۂ نظر کا اظہار کیا تھا ساتویں

27، 26الشہید سید قطب ص 17تا ص 18 27ایض لکھتے ہیں: سید کی اس تصنیف پر میں نے بعض مقامات پر گرفت کی۔ چنانچہ دوسرے ایڈیشن میں انہوں نے انالفاسی علzل 19

ء 1966 ستمبر 2روزنامہ العلم، مراکش، شمارہ ۔ مقامات پر تبدیلی کر دی

20

Page 21: Jada o Manzil Complete

ایڈیشن میں انہوں نے اس میں مکمل تبدیلی کر دی تھی اور کوئی قابل اعتراض بات باقی نہیں رہنے دی ہے ۔ یہ تبدیلینم اسیری میں کر دی گئی تھی مگر حالات کی وجہ سے اس کی طباعت کی کوئی سبیل نہ پیدا ہو سکی۔ ان کی ایا شہادت کے بعد یہ ترمیم شدہ ایڈیشن چھپ چکا ہے اور عرب ممالک میں وسیع پیمانے پر تقسیم ہو رہا ہے ۔ اس اس

" ترجمہ انگریزی کا اس ہیں ہو چکے ترجمے میں زبانوں مختلف کے دنیا کے Social Justice inکتاب

Islam واشنگٹن کی جانب سے لرنڈ سوسائٹیز آاف امریکن کونسل نام سے ہے ۔1953" کے ہو چکا شائع میں ء نل اجتماعی" کے فارسی، ترکی، انڈونیشی اور اردو میں بھی ترجمے چھپ چکے ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ "اسلzم کا عداللہ صدیقی صاحب ہمارے دوست ڈاکٹر محمد نجات ترجمہ یہ ۔ نے شائع کیا ہے لاہور پبلیکیشنز نام سے اسلzمک

)بھارت( نے کیا ہے ۔

آان" تفسیر "فی ظلال القرآان" کے نام سے آان ہے جو "فی ظلzل القر جلدوں میں8سید قطب کا سب سے عظیم کارنامہ ان کی تفسیر قر

آان" کے نام سے چھپ چکی ہے ۔ دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی اس کے ترجمے ہو رہے ہیں۔ فارسی میں "در سایۂ قرآاغاز انہوں نے ء کی اسیری سے پہلے کر دیا تھا اور جیل میں1954اس کے دس پارے چھپ چکے ہیں۔ اس تفسیر کا

تاسے پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔ یہ اصطلzحی معنی میں تفسیر نہیں ہے ، اور نہ متداول تفاسیر کے اسلوب میں اسے لکھاتان پر طاری ہوئے ہیں۔ لیکن ان تاثرات کو مصنف آان کے دوران گیا ہے ۔ یہ دراصل ان تاثرات سے عبارت ہے جو مطالعۂ قرآایت کے اندر دعوت و اصلzح اور تنبیہ و تذکیر اور نور و عرفان کے جو آان کی ایک ایک نے اس طرح پیش کیا ہے کہ قرآان کے زیر سایہ( چھ آان" )قر القر پر منتقل ہو گیا ہے ۔ "فی ظلzل سمندر موجزن ہیں ان کا عکس کاغذ کے صفحات

بنیادی خوبیوں کی حامل ہے :بلند پایہ ادبی اسلوب، جس میں سید قطب اکثر قدیم مفسرین اور محدثین سے بھی بڑھ گئے ہیں۔.1 تمام معروف تفاسیر سے انہوں نے استناد کیا ہے اور ان سے اخذ کردہ معلومات کو اپنی تفسیر میں اس عالمانہ.2

یہ تفسیر ادبی مقالات کا مجمو ہ نہیں بلکہ معلومات کا دائرۃ المعارف بن گئیعانداز میں سمو دیا ہے کہ ہے ۔

اسرائیلیات سے یہ تفسیر مکمل طور پر خالی ہے ۔.3نب فکر کے نزاعات سے جو عام عربی تفسیروں.4 معتزلہ اور خوارج اور اشاعرہ اور ماتریدیہ اور فقہ کے مختلف مکات

کے اندر ملتے ہیں یہ تفسیر خالی ہے ۔ پوری جامعیت اور تفصیل کے ساتھ ہر ہر بحث کو ادا کیا ہے ، اس کے بعد کسی اور کتاب کی طرف رجوع.5

کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

21

Page 22: Jada o Manzil Complete

آاتی ہے جو یقین و اذعان کی دولت اور.6 پوری تفسیر کے اندر ایک ایسی شفاف اور پاکیزہ روح جلوہ گر نظر ایمان و عقیدہ کی گہرائی اور صبر و عزیمت کی نعمت سے لبریز ہے ۔ اس چیز نے تفسیر کو ایک متحرک زندگی اور رواں دواں اسلzمی تحریک کی کتاب ہدایت کی شکل دے دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تماماور پر چھپ چکی ہے یہ مکمل طور باوجودیکہ اور توصیف کی ہے تعریف و بڑی تفسیر کی نے اس علماء آاسانی مل سکتی ہے مگر عرب ممالک کے اخبارات و رسائل اسے مسلسل اپنے کالموں میں نقل مکتبوں سے ب

کر رہے ہیں۔

نظر میں تمام تصانیف ایک ہے ۔ جن کی مکمل فہرست یہ ہے : 22سید موصوف کی تمام تصانیف کی تعداد

آان کے زیر سایہ(-1 آان )قر فی ظلzل القرنل اجتماعی(-2 العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلzم )اسلzم کا عدآان میں قیامت کے مناظر(-3 آان )قر مشاھد القیامۃ فی القرآان کے فنی پہلو(-4 آان )قر التصویر الفنی فی القرمعرکۃ الاسلzم و الراسمالیۃ )اسلzم اور سرمایہ داری کی کشمکش( -5 )عالمی امن اور اسلzم( 20السلzم العالمی و الاسلzم-6دراسات اسلzمیہ )اسلzمی مقالات(-7النقد الادبی: اصولہ و مناھجہ )ادبی تنقید کے اصول و مناہج( -8نقد کتاب مستقبل الثقافۃ )"مستقبل الثقافۃ" پر تنقیدی نظر( -9

کتب و شخصیات )کتابیں اور شخصیتیں(-10نحو مجتمع اسلzمی )اسلzمی معاشرے کے خدوخال(-11امریکہ التی رایت )امریکہ جسے میں نے دیکھا(-12اشواک )کانٹے (-13طفل من القریۃ )گاؤں کا بچہ( -14المدینۃ المسحورۃ )سحر زدہ شہر(-15الاطیاف الاربعۃ )چاروں بہن بھائیوں کے افکار و تخیلzت کا مجموعہ(-16القصص الدینیۃ )انبیاء کے قصے ، باشتراک جودہ السمار(-17

"السلzم العالمی و الاسلzم" اپنے موضوع کی نہایت بے نظیر اور عمیق کتاب ہے ۔ مراکش کے مجاہد کبیر علzل الفاسی لکھتے ہیں: 20ء 1966 ستمبر 2"اے کاش، یہ میری تصنیف ہوتی" روزنامہ العلم، مراکش، شمارہ

22

Page 23: Jada o Manzil Complete

قافلۃ الرقیق )مجموعہ اشعار( -18حلم الفجر )مجموعہ اشعار( -19الشاطئ المجھول )مجموعہ اشعار(-20مھمۃ الشاعر فی الحیاۃ )زندگی کے اندر شاعر کا اصل وظیفہ( -21نن راہ، ہم نے اس کا نام جادہ و منزل تجویز کیا ہے ( -22 معالم فی الطریق )نشا

غف شعر و سخن سے شتین کے اشعار کے ان ہیں۔ دکھائی جولانیاں بھی اندر کے سخن و شعر نے رسا طبع کی موصوف سید آاغاز میں ہو گیا تھا۔ بڑے بڑے اساتذہ مجموعے چھپ چکے ہیں۔ شعر و سخن سے ان کا لگاؤ ان کی ادبی زندگی کے کی صحبت نے اس جذبہ کو مہمیز کا کام دیا۔ ان کی شاعری میں تمام اصناف ملتی ہیں البتہ قصیدہ سرائی اور مدحآاہنگ نہ تھی۔ وہ شروع سے ریا گوئی کو انہوں نے ہاتھ نہیں لگایا۔ یہ صنف ان کی طبع بیباک اور فطرت پاکیزہ سے ہم کاری اور تملق پیشگی سے متنفر تھے ۔ ان کا سب سے پہلz مجموعہ اشعار قافلۃ الرقیق )غلzموں کا کارواں( ہے ۔ وہ

نر جاہلیت" کی یادگار کہتےناپ������� آاخری ایام میں وہ اس مجموعہ کو اپنی "دو ے اس مجموعہ سے زیادہ خوش نہ تھے ۔ رہے ۔ ان کی تمنا تھی کہ اگر اس مجموعہ کے تمام نسخے ان کے ہاتھ لگ جائیں تو ان کے اندر وہ تخیل، موضوع اورآاخری ایام اسیری آاخری نظم جو انہوں نے اپنے مقصد و غایت کے لحاظ سے جوہری تبدیلی کر ڈالیں۔ سیدموصوف کی

21میں کہی تھی۔ بڑی موثر اور دلنشین ہے ، اس نظم کے چند اشعار ملzحظہ ہوں

السدود بتلك حر أنت أخيالقیود وراء حر أنت أخيالعبيد كيد يضيرك فماذامستعصما لہبال كنت إذا

آازاد ہے اے میرے ہمدم تو طوق و سلzسل کے اندر بھی آازاد ہے ، رکاوٹوں کے باوجود اے میرے دمساز! تو

اگر تیرا اللہ پر بھروسہ ہے نان غلzم فطرت انسانوں کی چالیں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں تو

فجر الكون في ويشرق الظالم جيوش سنبيد أخيجديد

بعيد من يرمقنا الفجر ىتر اقہإشرا لروحك فأطلق

برادرم! تاریکی کے لشکر مٹ کر رہیں گے اور دنیا میں صبح نو طلوع ہو کر رہے گی

ء میں شائع ہوئی ہے ۔ 1966یہ اشعار ہم نے ایک طویل نظم سے لیے ہیں جو ماہنامہ الایمان، مراکش، بابت اکتوبر و نومبر 21

23

Page 24: Jada o Manzil Complete

تو اپنی روح کو ضوفشاں ہونے دے تدور دیکھ صبح ہمیں اشارے کر رہی ہے ۔ وہ

اإلماء بقيد تشل أن أبت الدماء يديك من سرت قد أخيالخلود بوسام بۃمخض للسماء ... انہقربا سترفع

نن برادر! تیرے ہاتھوں سے خون کے فوارے چھوٹے جامگر تیرے ہاتھوں نے کمترین مخلوق کی زنجیروں کے اندر بھی شل ہونے سے انکار کر دیا۔

آاسمان پر اٹھ جائے گی )منظور ہوگی( تیرے ان ہاتھوں کی قربانی اس حالت میں کہ یہ ہاتھ خائے دوام سے گلرنگ ہوں گے

خشوع في ابہ قبري وبللت الدموع علي ذرفت إن أخي

تليد مجد نحو ابہ وسيروا الشموع رفاتي من ملہ فأوقد

آانسو بہائے میرے ہمسفر! اگر تو مجھ پر تان سے تر کر دے اور میرے قبر کو

تو میرے ہڈیوں سے ان تاریکی میں رہنے والوں کے لیے شمع فروزاں کرنااور ان شمعوں کو ابدی شرف کی جانب لے کر بڑھنا

لنا أعدت ربي فروضات أحبابنا نلق نمت إن أخيالخلود ديار في لنا بيفطو حولنا رفرفت ارہوأطيا

آاغوش میں چلz بھی جاؤں، تو کوئی خسارہ نہیں میرے رفیق! اگر میں احباب کو چھوڑ کر موت کی میرے رب کے باغات ہمارے لیے تیار ہیں

نو پرواز ہیں ان کے مرغان خوشنو! ہمارے ارد گرد محاس ابدی دیار کے اندر ہم خوش و خرم ہيں

السالح عني ألقيت أنا وال الكفاح ماسئمت إنني أخيبالصباح ... ۃثق ليع فإني الظالم جيوش طوقتني وإن

میرے دوست! معرکہ عشق سے میں ہر گز نہیں اکتایااور میں نے ہر گز ہتھیار نہیں ڈالے

اگر تاریکی کے لشکر مجھے چاروں طرف سے گھیر بھی لیں تو بھی مجھے صبح کے طلوع کا پختہ یقین ہے

جديد بنصر ستمضي وأنت يدہش فإني مت أنا فإن

ہسنت يعل سنمضي وإنا ہدعوت في ہالل اختارنا قد

24

Page 25: Jada o Manzil Complete

اگر میں مر جاؤں تو مجھے شہادت کا درجہ نصیب ہوگاتتو انشاء اللہ نئی کامرانی کے جلو جانب منزل رواں دواں رہے گا اور

ہلی نے اپنی دعوت کے لیے ہمارے نام قرعہ فال ڈالا ہے اللہ تعاہلہی پر گامزن رہیں گے بیشک ہم سنت ا

ہذمت ليع الحفيظ ومنا مبہنح قضوا الذين فمناہم میں سے کچھ لوگ تو اپنا فرض انجام دے گئے

اور کچھ اپنے عہد و پیمان پر ڈٹے ہوئے ہیں يقين في سنتي يعل وأمضي ودين لرب لكن فديسأ

الخالدين في ہالل يإل وإما األنام فوق النصر يإل فإما

آاپ کو نچھاور کروں گا، لیکن صرف پروردگار اور دین حق پر میں بھی اپنے اور یقین و اذعان میں سرشار اپنے راستے پر چلتا رہوں گا

یہاں تک کہ یا تو اس دنیا پر نصرت سے بہرہ یاب ہو جاؤں اور یا اللہ کی طرف چلz جاؤں اور زندگی جاوداں پانے والوں میں شامل ہو جاؤں

الطریق معالم فیآاخری تصنیف ہے ۔ جس میں ان کی نئی تحریروں کے ساتھ کچھ پرانی "معالم فی الطریق" سید موصوف کی تحریریں بھی ترمیم و اضافہ کے بعد شامل کی گئی ہیں۔ اس کتاب کو ہم "جادہ و منزل" کے نام سے اردو دان احباب کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ یہی وہ کتاب ہے جس نے سید قطب کو تختۂ دار تک پہنچایا ہے ۔ جہاں تک سید قطب کی انقلzبی شخصیت اور تحریکی جوش و ولولہ کا تعلق ہے ۔ بے شک اس میں وہ اپنے دور کے چند گنے چنے لوگوں میں سے ہیں۔ جب مصر میں فوجی انقلzب برپا ہوا تھا اس میں سید قطب نے جو کردار ادا کیا تھا اس کی بنا پرنب مصر کا میرابو" کا لقب دیا ہے ۔ "میرابو" سے ان کا اشارہ اس فرانسیسی رائٹر zبعض مصری مصنفین نے ان کو "انقل کی طرف ہے جو فرانس کے اندر جاگیرداری اور استبداد کے خلzف انقلzب برپا کرنے کے لیے عوام کو اکساتا رہا ہے ۔ سید قطب کی کتاب "معرکۃ الاسلzم و الراسمالیۃ" میں یہ انقلzبی روح صاف محسوس کی جا سکتی ہے ۔ اور یہ اس دور میں لکھی گئی ہے جب وہ تمام بڑے بڑے جغادری جو اس وقت "اشتراکیت" اور "مساوات" اور اسی نوعیت کے دوسرےنر پر تھے ۔ "معالم فی الطریق" میں انہوں نے اسلzمی نظریہ اور اسلzمی نعروں سے ہنگامہ نشور برپا کیے ہوئے ہیں منقار زی تنظیم کے بنیادی خدوخال بیان کیے ہیں۔ اس کتاب کی پوری اسکیم جس بنیادی نقطہ پر مرکوز ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح اسلzم کے صدر اول میں اسلzمی معاشرہ ایک مستقل اور جداگانہ معاشرے کی صورت میں ترقی و نمو کے فطریتاسی آاج بھی ویسا صحیح اسلzمی معاشرہ وجود میں لانے کے لیے مراحل طے کرتا ہوا بام عروج کو پہنچا تھا اسی طرح

25

Page 26: Jada o Manzil Complete

نق کار کو اختیار کیا جانا لازم ہے ۔ اس اسلzمی معاشرے کو ارد گرد کے جاہلی معاشروں سے الگ رہ کر اپنا تشخص طریقائم کرنا ہوگا۔

فرد قرارداد جرمنت وقت لیکن مصری حکام نے سید قطب کی اس صحیح اسلzمی دعوت کو یہ معنی پہنائے کہ اس میں حکوم کے خلzف انقلzب برپا کرنے کے لیے لوگوں کو اکسایا گیا ہے ۔ کتاب میں سید قطب نے جو کچھ کہا ہے وہ قارئین کتاب کے مطالعہ سے معلوم کر لیں گے ۔ اس لیے کتاب کے مضامین کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ البتہ اس کتاب کے مختلف اقتباسات سے جو فرد جرم تیار کی گئی ہے ، وہ ہم ہو بہو نقل کیے دیتے ہیں۔ یہ فرد جرم "مسلح

ء میں شائع ہوئی ہیں۔ یہ وہی زمانہ ہے1965، شمارہ یکم اکتوبر 446افواج کے میگزین" )مجلۃ القوات المسلحۃ( کے نمبر کہ سید قطب کے خلzف فوجی ٹریبونل میں مقدمہ چل رہا تھا۔ اس میگزین نے پہلے تو سید قطب کو باغی اور غدار کہا ہے ۔ اور ان پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ مصر کے اندر وسیع پیمانے پر توڑ پھوڑ کرنا چاہتے تھے اور مصری حکام اور مصر کے نامور ایکٹروں اور ایکٹرسوں کو قتل کرنے کی اسکیم تیار کر رہے تھے ۔ اس کے بعد میگزین نے ان الزامات کے ثبوت

کے لیے "معالم فی الطریق" کی عبارتوں کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے اور لکھا ہے : ہہذا اب اس ہی ہے کہ مغرب میں جمہوریت کا قریب قریب دیوالیہ نکل چکا ہے ۔ ل "مصنف )سید قطب( کا دعو کے پاس ایسی "اقدار" باقی نہیں رہی ہیں جو وہ انسانیت کی خدمت میں پیش کر سکے ۔ مارکسزم کے بارے میں بھی اس کی یہ رائے ہے کہ مشرقی کیمپ کا یہ نظریہ بھی اب پسپا ہو رہا ہے ۔ انسانی فطرت اور اس کے مقتضیات کے ساتھ اس کی کشمکش برپا ہے ۔ یہ نظریہ صرف پامال شدہ اور زبوں ماحول کے اندر پنپ سکتا ہے ۔ اس کے بعد مصنف یہلیڈر شپ کی ضرورت ہے جو مادی تہذیب کو جس تک انسانیت یورپ کے نئی فیصلہ دیتا ہے کہ اب انسانیت کو عبقری ذہن کے بدولت پہنچی ہے ، قائم اور بحال رکھ سکے اور اسے مزید نشوونما دے سکے ۔ وہ کہتا ہے : یورپ کی علمی تحریک بھی اب اپنا رول ادا کر چکی ہے اور اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دوران میں وہ اپنے کمال کو پہنچہہذا امت گئی تھی، اب اس کے پاس کوئی سرمایۂ حیات باقی نہیں رہا ہے ۔ یہی حال وطنی اور قومی نظریات کا ہے ۔ لآاج دنیا جاہلیت کے ہی کرتا ہے کہ مسلمہ کے وجود کو بحال کیا جانا ناگزیر ہے ۔ ان خیالات کے بعد مصنف یہ دعو اندر غرق ہے ۔ اس جاہلیت نے دنیا کے اندر اللہ کے اقتدار پر اور اللہ کی حاکمیت پر جو الوہیت کی صفت خاص ہے

غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے ۔"آاخذ قرار دیتا ہے اور لکھتا ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم جاہلی معاشرے کے آان کو عقیدہ کا اساسی م "مصنف قروفاداری کا نہ اس کے ساتھ اور نہ کریں اختیار اور اس کے ساتھ مصالحت کی روش تسلط سے نجات حاصل کریں موقف پسند کریں۔ ہمارا مشن موجودہ جاہلی نظام کو بنیادی طور پر تبدیل کر ڈالنا ہے ۔ لہذا ہمیں اپنی اقدار اور تصورات

26

Page 27: Jada o Manzil Complete

میں ذرہ بھر بھی تبدیلی نہ کرنی چاہیے ، اور نہ جاہلی نظام کے ساتھ کسی مقام پر سودا بازی کا خیال تک کرنا چاہیے ۔یہ مہم سر انجام دینے کے لیے ہمیں غیر معمولی قربانیاں دینا ہوں گی۔"

خلzف کے اقتدار ارضی کہ ہے دیتا دعوت یہ کے کر اختیار اسالیب مختلف مصنف بعد کے فیصلہ "اس انقلzب کر دو جس نے الوہیت کی صفت خاص پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے ۔ اس کا بیان ہے کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( بھی عرب قومیت کی تحریک برپا کر کے قبائل عرب کو اپنے گرد جمع کر سکتے تھے اور عربوں کے سلب شدہآازاد کروانے کے لیے ان کے قومی جذبات بھڑکا سکتے تھے ، علzقوں کو استعماری سلطنتوں )رومن اور فارسی امپائر( سے لیکن یہ صحیح راستہ نہیں تھا کہ دنیا رومی اور فارسی طاغوتوں کے چنگل سے نکل کر عربی طاغوت کے چنگل میں

گرفتار ہو جائے ۔" "طاغوت سے مراد ہر وہ معبود ہے جو اللہ کے ماسوا ہو۔ طاغوت کا لفظ بت کدوں کے لیے بھی استعمال ہوتا

ہلہی اقتدار پر دست درازی کے لیے استعمال کیا گیا۔" تھا۔ اسی مفہوم کی بنا پر طاغوت "گمراہی کے سرغنوں" اور اآائے تھے ، اس وقت عرب معاشرہ "مصنف کا بیان ہے کہ رسول اللہ )صلی اللہ علیہ وسلم( دین اسلzم لے کر انتہائی حد تک بگڑ چکا تھا۔ تقسیم دولت اور عدل و انصاف کا نظام تباہ ہو چکا تھا۔ محدود اقلیت مال و دولت اوررہی تھی۔ رہی اضافہ کرتی جا مزید میں اپنی دولت ذریعہ کاروبار کے اور سودی تھی ہوئی بنی دار اجارہ تجارت کی

و تعالیاکثریت تو اس کے پاس بھوک اور افلzس کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس پر مصنف خیال ظاہر کرتا ہے کہ اللہ سبحانہ جانتا ہے کہ معاشرے کے اندر اجتماعی عدل کا نظام ایک ایسے عقیدے پر استوار ہونا چاہیے جو ہر معاملے کا فیصلہ اللہ کی طرف لوٹاتا ہو۔ اور معاشرہ تقسیم دولت کے بارے میں اللہ کے عادلانہ فیصلوں کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرتا ہو۔ہلہی نظام بن کر نمودار نہ ہو سکتا تھا اگر اسلzم قومی نعرے یا اجتماعی تحریک )یعنی اا ا تاس صورت میں خالصت ایسا نظام

آاغاز کرتا۔" لا دینی تحریک( سے اپنی دعوت کا آانا چاہیے ۔ ایک اور مقام "مصنف کا یہ نظریہ کہ عقیدہ فوری طور پر ایک متحرک معاشرے کی شکل میں ابھر پر وہ لکھتا ہے کہ جس جاہلیت سے رسول اللہ )صلی اللہ علیہ وسلم( کو سابقہ در پیش تھا وہ ایک "مجرد نظریہ" نہ تھی،آاگے سرنگوں تھی۔ لہذا انسان کی پوری کی توانا معاشرہ تھی، اور معاشرے کی لیڈر شپ کے بلکہ ایک متحرک اور پوری زندگی اللہ کی طرف لوٹ جانی چاہیے ۔ انسان زندگی کے کسی معاملے اور کسی پہلو میں اپنی خود مختاری کیآانا چاہیے جو جاہلی معاشرے بنا پر کوئی فیصلہ نہ کریں۔ نیز جاہلی معاشرے کے اندر ایک نیا متحرک اور توانا معاشرہ ابھر سے بالکل الگ تھلگ اور مستقل ہو۔ اور اس جدید معاشرے کا محور ایک نئی قیادت ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

یہ منصب سنبھال سکتی ہے جوحکے ہر وہ قیادت بعد آاپ کے اور آاپ کے لیے مخصوص تھی یہ قیادت ین حیات آاستانہ پر جھکائے ۔ جو شخص یہ گواہی دے کہ اللہ انسانوں کو صرف اللہ کی الوہیت، حاکمیت، اقتدار اور شریعت کے ہلہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں وہ جاہلیت کے متحرک معاشرے سے قطع تعلق کرے جس سے وہ کے سوا کوئی ا

27

Page 28: Jada o Manzil Complete

نکل کر اسلzمی معاشرے میں داخل ہو رہا ہے ، اسی طرح جاہلی قیادت سے بھی رشتہ منقطع کر لے ، چاہے وہ کاہنوں، پروہتوں، جادوگروں اور قیافہ شناسوں کی مذہبی قیادت ہو، یا سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی قیادت ہو جیسا کہ قریش کومسلم ۔ کر دے لیے مخصوص اسلzمی جماعت کے یا معاشرے اسلzمی نئے وفاداریاں تر تمام اپنی وہ تھی۔ حاصل معاشرہ ایک کھلz ہوا معاشرہ ہوتا ہے اس میں ہر نسل و قوم اور ہر رنگ و لسان کے لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ اسلzمی تہذیب کبھی بھی محض "عربی تہذیب" یا "قومی تہذیب" نہ تھی بلکہ وہ ہمیشہ اسلzمی اور نظریاتی تہذیب

تھی۔"ہلی نے اپنے رسول )صلی اللہ علیہ وسلم( کو حکم دیا ہے کہ جو قتال کے "مصنف یہ تسلیم کرتا ہے کہ اللہ تعاہمہ بایں لیکن ۔ لیا جائے ہاتھ روک ہو جائے اس سے بردار قتال سے دست اور جو قتال کیا جائے آائے اس سے لیے مصنف یہ بھی کہتا ہے کہ اسلzم نے صرف دفاع کے لیے جہاد نہیں کیا بلکہ اسلzم روز اول سے یہ نصب العین رکھتا ہے کہ ان تمام نظام اور حکومتوں کو ختم کیا جائے گا جو انسان پر انسان کی حاکمیت قائم کرتی ہیں۔ اسلzم کے غلبہ

آازادی نہیں ہوگی کہ وہ اپنی منشا سے جس دین کو چاہیں اختیار کریں۔" کے بعد افراد کو فکری آایات سے ثابت کیا ہے کہ اگر "اسلzمی معاشرے " کے قیام کے راستے میں مادی موانع آان کی "مصنف نے قرآان کی جن حائل ہو رہے ہوں تو ان کا طاقت کے ذریعے ازالہ ضروری ہے ۔ یہ مصنف کی طرف سے ایک گھپلz ہے ۔ قریات سے اس نے استشہاد کیا ہے وہ قتال فی سبیل اللہ کی دعوت دیتی ہے نہ کہ قتل و غارت پر اکساتی ہے لیکن بایں آا ہمہ مصنف نے باصرار کئی مقامات پر "طاقت" کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ اور وہ بار بار اس سے یہ مراد لیتا ہے : "رکاوٹوںمیں ایک مخصوص وقت نے ہلی تعا اللہ اگر : ہے وہ کہتا ابطال" کا "قوانین نظام کا خاتمہ"۔ الوقت "رائج ازالہ"۔ کا ہر تھا۔ مصنف نہ فیصلہ تھا، اصولی تقاضا کا بندی منصوبہ یہ صرف تو تھا دیا جماعت مسلمہ کو جہاد سے روک حکمران کو "شریک خدا" تصور کرتا ہے اور انسان کے انفرادی حقوق کی پر زور حمایت کرتا ہے )اس بارے میں مصنف

نے العدالۃ الاجتماعیۃ میں تفصیل سے بحث کی ہے (" "دوسری طرف مصنف یہ بیان کرتا ہے کہ وہ معاشرہ جس میں لوگوں کی اجتماعی زندگی رائے و انتخاب کیآازادانہ رائے کا حصہ آازادی پر استوار ہو وہ متمدن اور مہذب معاشرہ ہوتا ہے لیکن جس معاشرے کی تشکیل میں لوگوں کی

نہ وہ معاشرہ پسماندہ ہے یا اسلzمی اصطلzح میں وہ جاہلی معاشرہ ہے ۔" یہ ہے وہ فرد جرم جو سید قطب پر لگائی گئی ہے اور اسے معالم فی الطریق کے مضامین سے کشید کیا گیا ہے ۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ سید قطب سے اس کتاب میں انقلzب کی اسکیم پیش کی ہے اور اپنے

بہن بھائیوں اور رفقاء کی مدد سے وہ اس اسکیم کو نافذ کرنا چاہتے تھے ۔مودودی موالنا اور قطب سید

28

Page 29: Jada o Manzil Complete

مصر کے ماہ نامہ الکاتب نے جو مصر کے کمیونسٹ عناصر کا ترجمان ہے ۔ سید قطب اور ان کے ساتھیوں کے خلzف "عدالتی کاروائی" کے دوران ایک مفصل مضمون شائع کیا تھا۔ اس مضمون کا عنوان ہے : "اخوان کے تشدد

آاغاز میں مضمون نگار نے لکھا ہے : آاخذ"۔ اس مضمون کے پسندانہ نظریات کے مآاخذ پر بھی بحث کی ہے ۔ چنانچہ ایک موقع پر ٹریبونل کے صدر "فوجی ٹریبونل نے "معالم فی الطریق" کے مہلی مودودی کی تصنیفات سے نقل نہیں کیے ؟" سید نے سید قطب سے یہ سوال کیا کہ "کیا یہ خیالات تم نے ابو الاع قطب نے جواب دیا: "میں نے مولانا مودودی کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے " عدالت کی طرف سے پھر یہ سوال کیاہلی مودودی کی دعوت میں کیا فرق ہے ؟" سید نے کہا : لا فرق )کوئی فرق نہیں ہے گیا کہ: "تمہاری دعوت اور ابو الاع

") :اس کے بعد مضمون نگار جو مصر کی کمیونسٹ پارٹی کا اہم رکن ہے لکھتا ہے

ء سے اسے اشتراکیت1947"اسلzمی اتحاد کا نظریہ برطانوی استعمار اور امریکی امپریلزم کا ایجاد کردہ ہے اور لاوکے خلzف استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اس نظریہ کی جنم بھومی پاکستان ہے ۔ پاکستان ہی میں یہ پیدا ہوا اور پھلz پھ������

ہے ۔ مودودی اسی ملک میں رہتا ہے ۔ سعید رمضان نے بھی کئی سال اس ملک میں بسر کیے ہیں۔ اس لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ اخوان کی تحریک کو سنٹو کی طرف سے مالی امداد دی گئی ہے ۔ اور یہ بھی کوئی نرالینر نو اپنا محبوب مہرہ استعمال کر رہا ہے ۔ یعنی مذہب کا استحصال اور "اسلzمی فوجی بات نہیں ہے کہ سامراج از س معاہدہ" کی تشکیل ان مقاصد کی تکمیل کے لیے سامراج کا اصل سہارا ان ملکوں کی رجعت پسندانہ طاقتیں ہیں۔ اور

یہ مل جل کر وطن پرستوں اور اشتراکی طاقتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں"۔ہی کیا ہے کہ سید قطب نے مولانا مودودی کے افکار کا اس تمہیدی کلمات کے بعد مضمون نگار نے دعو سرقہ کیا ہے اور انہیں "معالم فی الطریق" کے اندر مدون کیا ہے ۔ مضمون نگار نے اپنے دعوے کے ثبوت میں پہلے مولانا مودودی اور جماعت اسلzمی کی تاریخ بیان کی ہے اور اس کے بعد مولانا مودودی وار سید قطب کے افکار کا موازنہ کیااصطلzحیں ہی دوسری جو ایسی اور "جاہلیت" اور میں "حاکمیت" کتاب اپنی نے کہ سید قطب ہے لکھتا وہ ۔ ہے آا رہے ہیں۔ چنانچہ مضمون استعمال کی ہیں وہ مودودی کا نتیجۂ فکر ہیں جنہیں وہ عرضۂ دراز سے استعمال کرتے چلے کے اس اور اسلzمی نت دعو قانون، اسلzمی zا مثل تصنیفات مختلف کی مودودی مولانا میں ثبوت کے اس نے نگار مطالبات، اسلzمی تحریک کی اخلzقی بنیادیں، مسلمانوں کا ماضی حال اور مستقبل، اسلzم کا نظام حیات وغیرہ سے مفصل اقتباسات پیش کیے ہیں۔ اس طرح پردے اور عورت کے بارے میں اور انفرادی ملکیت کے بارے میں سید قطب

بتایا ہے اور لکھا ہے کہ عورت کے بارے میں مولانا مودودی کا22کے نظریات کو مولانا مودودی کے نظریات کا "چربہ"

قارئین کے لیے یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ یہی الزام یہاں پر چند لوگ مولانا مودودی پر لگا رہے ہیں کہ انہوں نے سید 22آان و سن آاخذ ایک ہی ہیں یعنی قر ت۔ قطب کی نقالی کی ہے ۔ حالانکہ حقیقت صرف اتنی ہے کہ دونوں کے م

29

Page 30: Jada o Manzil Complete

جو نظریہ ہے اسی کی بنا پر سید قطب قاہرہ کی ایکٹرسوں اور ایکٹروں کو ختم کرنا چاہتے تھے ۔ مضمون نگار نے ساریکی مودودی مولانا حقیقت در الطریق" فی "معالم تصنیف کی قطب سید کہ ہے نکالا نتیجہ یہ میں آاخر کے بحث تحریروں کی تشریح اور تفسیر ہے ۔ اور لکھا ہے کہ "اس کتاب میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جس کی بنیاد اور جڑ مودودی کی تحریروں میں نہ ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ مودودی صاف گو ہے اور سید قطب ایچ پیچ کے ساتھ بات کہتا ہے

۔" بہرحال اصل کتاب قارئین کے سامنے ہے ، وہ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ سید قطب کی اصل دعوت کیا ہےآاہنگی یا توارد ہے تو اس میں کیا تعجب کی بات ہے ۔ ۔ رہی یہ بات کہ سید قطب اور مولانا مودودی کے افکار میں ہم جو شخص بھی صاف ذہن اور اخلzص و عزیمت کے ساتھ کتاب و سنت کا مطالعہ کرے گا وہ اسی نتیجے پر پہنچےآاج مولانا مودودی،سید قطب اور دوسرے علمائے حق بیان کر رہے ہیں۔ گا جس پر سلف صالحین پہنچے تھے ۔ یا جو

رب العالمینہآاخرو دعوانا ان الحمد لل

ء 1968خلیل احمد حامدی۔ اچھرہ، لاہور، یکم مارچ

30

Page 31: Jada o Manzil Complete

نن تدو نع تتو مم تت من ت³ نتي ´ل ن نۃ ا ´ن ن نج مل نبا تروا نش مب نµا نو تنوا نز مح نت نولا تفوا نخا نت نµالا ن¶ۃ نئ zنمل مل تم ا نہ مي نل نع تل نز نن نت نت تموا نقا نت مس نم ا تث تہ ´ل ن ننا ال ت´ب نر تلوا نقا نن نذي ´ل ن نن ا ن·امن نم تزلا تن نن • تعو ند نت نما نہا نفي مم ت¶ نل نو مم ت¶ تس تف من نµا نہي نت مش نت نما نہا نفي مم ت¶ نل نو نۃ نر نخ آا نفي ال نو نيا من تد نۃ ال نيا نح مل نفي ا مم ت³ تؤ نيا نل مو نµا تن مح نن •

مم• نحي نر مر تفو نغ

اا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور "جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے ، یقینتاس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ ان سے کہتے ہیں کہ "نہ ڈرو، نہ غم کرو اور خوش ہو جاؤ آاخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور تاس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی، یہ ہے سامان ضیافت

ہے ۔"

31

Page 32: Jada o Manzil Complete

چوں می گویم مسلمانم بلرزمنت لا الہ را zکردانم مشکل

)اقبال(

32

Page 33: Jada o Manzil Complete

نت شب میں لیکے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو تظلم میں تشعلہ بار ہوگا نمرا آاہ میری، نفس شرر فشاں ہوگی

)اقبال(

33

Page 34: Jada o Manzil Complete

تالفت میں قدم رکھنا ہے یہ شہادت گۂ تمسلماں ہونا آاساں سمجھتے ہیں لوگ

)اقبال(

ہمن الرحیم بسم اللہ الرحواپس اوپر جائیے

مصنفۂمقدمانسانیت کی زبوں حالی

تباہی کا خطرہ اس کے سر پر آاج انسانیت جہنم کے کنارے پر کھڑی ہے ۔ اس وجہ سے نہیں کہ ہمہ گیر آاج یہ ہے کہ بلکہ اس کی اصل وجہ نہیں تو محض ظاہری علzمت ہے ، اصل مرض یہ خطرہ رہا ہے کیوں کہ منڈلا انسانیت کا دامن ان اقدار حیات سے خالی ہو چکا ہے جن سے اسے نہ صرف صحت مندانہ بالیدگی حاصل ہوتی ہے ،آاشکارا ہو چکا نل مغرب پر بھی اپنا یہ روحانی افلzس خوب اچھی طرح بلکہ حقیقی ارتقاء بھی نصیب ہوتا ہے ۔ خود اہآاج کوئی صحت مند قدر حیات باقی ہے ، کیوں کہ تہذیب مغرب کے پاس انسانیت کے سامنے پیش کرنے کے لیے آاج یہ حال ہے کہ اسے خود اپنے وجود و بقاء کے لیے بھی کوئی ایسی نہیں رہی، بلکہ اس کے روحانی دیوالیہ پن کا تو

34

Page 35: Jada o Manzil Complete

اپنے ضمیر اجتماعی کو ہی مطمئن کر تو کم از کم نہیں نہیں مل رہی جس سے اور کچھ یا وجۂ جواز بنیاد معقول سکتی۔ جمہوریت مغرب میں بانجھ ثابت ہو چکی ہے جس کی وجہ سے مغرب مشرقی افکار و نظریات اور نظام ہائےآاتا ہے ۔ سوشلزم کے پردے میں مشرقی کیمپ کے اقتصادی تصورات کو جس طرح حیات کی خوشہ چینی پر مجبور نظر

مغرب میں اپنایا جا رہا ہے ، وہ اس کی ایک نمایاں مثال ہے ۔میں ان ، لیجیے نظریات کو پتلz ہے ۔ مشرق کے اجتماعی بھی دوسری طرف خود مشرقی کیمپ کا حال

د کو بھی، اپنیامارکسزم پیش پیش ہے ۔ یہ نظریہ شروع شروع میں مشرقی دنیا، بلکہ خود اہل مغرب کی ایک کثیر تعد جانب کھینچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی کامیابی کی وجہ صرف یہ تھی کہ یہ محض ایک نظام ہی نہ تھا بلکہ اس پر عقیدہ کی چھاپ بھی لگی ہوئی تھی۔ مگر اب مارکسزم بھی فکری اعتبار سے مات کھا چکا ہے ۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اب یہ ایک ایسی ریاست کا نظام بن کر رہ گیا ہے جسے مارکسزم سے دور کا واسطہ بھی نہیں، تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ بہ حیثیت مجموعی یہ نظریہ انسانی فطرت کی ضد واقع ہوا ہے ، اور انسانی فطرت کے تقاضوں سے متحارب ہے ۔ یہ صرف خستہ اور زبوں حال ماحول ہی میں پھل پھول سکتا ہے ۔ یا پھر اس کے لیے وہ ماحول سازگار ہوتا ہے جو طویل عرصہ تک ڈکٹیٹر شپ کو برداشت کرتے کرتے اس سے مانوس ہو چکا ہو، لیکن اب تو اس طرح کے پامال اور بے جان ماحول میں بھی اس کا مادہ پرستانہ اقتصادی تجربہ ناکام ثابت ہو رہا ہے ۔ حالانکہ یہی وہ واحد پہلو ہے جس پر اس کی پوری عمارت قائم ہے ، اور جس پر اسے ناز ہے ۔ روس اشتراکی نظام کے علمبردار ملکوں کا سرخیل ہے ۔ مگر اس کی غذائی پیداوار روز بروز گھٹتی جا رہی ہے ۔ حالانکہ زار کے عہد میں بھی روس فاضل اناج پیدا کرتا رہا ہے ۔آامد کر رہا ہے اور روٹی حاصل کرنے کے لیے اپنے سونے کے محفوظ ذخائر تک بیچ رہا ہے ۔ مگر اب وہ باہر سے اناج در اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا اجتماعی کاشت کا نظام یکسر ناکام ہو چکا ہے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ نظام جو

انسانی فطرت کے سراسر خلzف ہے اپنے ہاتھوں شکست کھا چکا ہے ۔

تت نو کی ضرورت قیاد ان حالات کی روشنی میں یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ انسانیت اب ایک نئی قیادت کی محتاج ہے ۔تروبہ زوال ہے ۔ اور جیسا کہ ہم اوپر عرض نل مغرب کے ہاتھ میں تھی مگر اب یہ قیادت اب تک انسانیت کی یہ قیادت اہیا کر چکے ہیں، اس قیادت کے زوال کا یہ سبب نہیں ہے کہ مغربی تہذیب مادی لحاظ سے مفلس ہو چکی ہے ، اقتصادی اور عسکری اعتبار سے مضمحل ہو گئی ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مغربی انسان ان زندگی بخش اقدار سے محروم ہو چکا ہے جن کی بدولت وہ قیادت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب تاریخ کے اسٹیج پر اس کا رول تمام ہو چکا ہے اور ایک ایسی قیادت کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے جو ایک طرف یورپ کی تخلیقی ذہانت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی مادی ترقی کی حفاظت کر سکے اور اسے مزید نشوونما دے سکے ،آاشنا ہلی اور اکمل اقدار حیات بھی عطا کر سکے ، جن سے انسانی علم اب تک نا اور دوسری طرف انسانیت کو ایسی اع

35

Page 36: Jada o Manzil Complete

آاہنگ نق زندگی سے بھی روشناس کرا سکے جو انسانی فطرت سے ہم رہا ہے ، اور ساتھ ہی انسانیت کو ایک ایسے طرینم حیات صرف اسلzم کے پاس ہے ۔ آافرین اقدار اور منفرد نظا ہو، مثبت اور تعمیری ہو، اور حقیقت پسندانہ ہو۔ یہ حیات

اسلzم کے سوا کسی اور ماخذ سے اس کی جستجو لا حاصل ہے ۔ آاغاز سولہویں صدی عیسوی میں علمی ترقی کی تحریک بھی اب اپنی افادیت کھو چکی ہے ۔ اس تحریک کا علمی بیداری کے ساتھ ہی ہو گیا تھا، اٹھارہویں اور انیسویں صدی اس کا زمانہ عروج تھا، مگر اب اس کے پاس بھی

کوئی سرمایۂ حیات باقی نہیں رہا۔ تمام وطنی اور قومی نظریات جو اس دور میں نمودار ہوئے ، اور وہ تمام اجتماعی تحریکیں جو ان نظریات کیاور انفرادی تمام کر کے ایک ایک الغرض ۔ ہے رہا نہیں باقی حربہ نیا کوئی اب بھی پاس ان کے ہوئیں برپا بدولت

اجتماعی نظریات اپنی ناکامی کا اعلzن کر چکے ہیں۔

اسلام کی بارینت مسلمہ کی اس انتہائی نازک، ہوش رہا اور اضطراب انگیز مرحلے میں تاریخ کے اسٹیج پر اب اسلzم اور امآائی ہے ۔ اسلzم موجودہ مادی ایجادات کا مخالف نہیں ہے ۔ بلکہ وہ تو مادی ترقی کو انسان کا فرض اولیں قرار دیتا باری

ہے ۔ہلہی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد پہلے دن سے ہی اس کو جتا دیا تھا کہ مادی ترقی کا نت ا زمین پر نیابآاگے بڑھ کر اسلzم چند مخصوص شرائط کے تحت مادی جدوجہد حصول اس کا فرض اولیں ہے ۔ چنانچہ اس سے بھی ہلہی کا درجہ دیتا ہے اور اسے تخلیق انسانی کی غرض و غایت کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ تصور کرتا ہے ۔ نت ا کو عباد

ہلی کا ارشاد ہے : اللہ تعا

نفۃ )بقرہ: نلي نخ نض مر نµا نفي ال لل نع نجا ن´ني ن·ا ن¶ۃ نئ zن نمل مل نل ن« ت´ب نر نل نقا مذ ن·ا (30نو

اور یاد کرو جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں

نن )ذاریات: تدو تب مع ني نل نا ن·ال نس ن·ان مل نوا نن نج مل تت ا مق نل نخ نما (56نو

اور میں نے جنوں اور انسانوں کو نہیں پیدا کیا مگر اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔ آاگیا ہے کہ امت مسلمہ اس مقصد وجود ہلی نے امت مسلمہ کو جس مقصد کے لیے اٹھایا ہے اب وقت اللہ تعا

ہلی فرماتا ہے : کو پورا کرے ۔ اس بارے میں اللہ تعا

آال عمران: ´لہ ) نبال نن تنو نم مؤ تت نو نر ن¶ تمن مل نن ا نع نن مو منہ نت نو نف ترو مع نم مل نبا نن ترو تم مµا نت نس ن´نا نلل مت نج نر مخ تµا نمۃ تµا نر مي نخ مم تت (110ت³ن

36

Page 37: Jada o Manzil Complete

تم دنیا میں وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کی ہدایت کے لیے میدان میں لایا گیا ہے ، تم نیکی کا حکمدیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

ادا )بقرہ: نشہي مم ت¶ مي نل نع تل تسو نر نن ال ت¶و ني نو نس ن´نا نلی ال نع نداء تشہ ما تنو ت¶و نت ن´ل اطا نس نو نمۃ تµا مم ت³ ننا مل نع نج ن« نل نذ ن³ (143نو

اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ اور رسول تم پر گواہ ہو۔

اسلام اپنا رول کیسے ادا کر سکتا ہے اپنا رو نہ ہو۔لاسلzم اس وقت تک ادا نہیں کر سکتا جب تک وہ ایک معاشرے کی صورت میں جلوہ گر

دوسرے لفظوں میں اپنا صحیح رول ادا کرنے کے لیے اسلzم کے لیے ایک امت اور قوم کی شکل اختیار کرنا ناگزیر ہے ۔نر حاضر میں، کبھی ایسے خالی خولی نظریہ پر کان نہیں دھرا جس کا عملی ندور میں، اور بالخصوص دو دنیا کے کسی آائے ۔ اس لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امت مسلمہ کا "وجود" کئی مظہر اسے جیتی جاگتی سوسائٹی میں نظر نہ نت مسلمہ کسی ملک کا نام نہیں ہے جہاں اسلzم بستا رہا ہے اور نہ کسی "قوم" صدیوں سے معدوم ہو چکا ہے کیونکہ امآاباؤ اجداد تاریخ کے کسی دور میں اسلzمی نظام کے سائے میں زندگی گزارتے رہے ہیں بلکہ یہ سے عبارت ہے جس کے اس انسانی جماعت کا نام ہے جس کے طور طریق، افکار و نظریات، قوانین و ضوابط، اقدار و معیار رد و قبول سب کےنت مسلمہ اسی لمحہ سے نہان خانۂ سوتے اسلzمی نظام کے منبع سے پھوٹتے ہیں۔ ان اوصاف و امتیازات کی حامل امہلہی کے تحت حکمرانی و جہانبانی کا فریضہ معطل ہوا ہے ۔ نت ا عدم کی نذر ہو چکی ہے جس لمحہ روئے زمین پر شریعآاج انسانیت چشم براہ ہے تو ناگزیر ہے کہ پہلے امت مسلمہ لیکن اگر اسلzم کو دوبارہ وہ کردار ادا کرنا ہے جس کے لیے نر نو زندہ کیا جائے جس پر کئی نسلوں کا ملبہ پڑا ہوا نت مسلمہ کو از س کے اصل وجود کو بحال کیا جائے ، اور اس ام ہے ، جو غلط نظریات کے انباروں میں دبی پڑی ہے ، جو خود ساختہ اقدار و روایات کے اندر مدفون ہے اور جو ان باطل قوانین و دساتیر کے ڈھیروں میں پنہا ہے جن کا اسلzم اور اسلzم کے طریقۂ حیات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے مگر اس کے باوجود اب تک اس خام خیالی میں مبتلz ہے کہ اس کا وجود قائم و دائم ہے اور نام نہام "عالم اسلzمی" اس کا

مسکن ہے ! میں اس بات سے بے خبر نہیں ہوں کہ تجدید و احیاء کی کوشش اور حصول قیادت کے درمیان بڑا طویل فاصلہنت مسلمہ کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے اصل "وجود" کو عرصۂ طویل سے فراموش کر چکی ہے ، اور تاریخ کے ہے ۔ ادھر ام اسٹیج سے رخصت ہوئے اسے زمانۂ دراز گزر چکا ہے ۔ غیر حاضری کے اس طویل وقفے میں انسانی قیادت کے مناسب پر مختلف نظریات و قوانین، اقوام اور کچھ روایات قابض پائی گئی ہیں۔ یہی وہ دور تھا جس میں یورپ کے عبقری ذہن نے سائنس، کلچر، قانون اور مادی پیداوار کے میدان میں وہ حیرت ناک کارنامے انجام دیئے ، جن کے باعث اب انسانیتآاسانی مادی ترقی اور ایجادات کے نقطۂ عروج پر پہنچ چکی ہے چنانچہ ان کمالات پر یا ان کمالات کے موجدین پر ب

37

Page 38: Jada o Manzil Complete

اا اس حالات میں جب کہ وہ خطۂ زمین جسے "دنیائے اسلzم" کے نام سے پکارا انگلی نہیں دھری جا سکتی۔ خصوص۔ نہایت ضروری ہے احیاء اسلzم کا باوجود باتوں کے تمام ان قریب خالی ہے ۔ مگر قریب ایجادات سے ان جاتا ہے نل امامت کے درمیان خواہ کتنی ہی لمبی مسافت حائل ہو اور خواہ کتنی ہی احیائے اسلzم کی ابتدائی کوشش اور حصو گھاٹیاں سد راہ ہوں، احیائے اسلzم کی تحریک سے صرف نظر نہيں کیا جا سکتا۔ یہ تو اس راہ میں پہلz قدم ہے اور

ناگزیر مرحلہ!

امامت عالم کے لیے ناگزیر صلاحیت کیا ہے ؟ ہمیں اپنا کام علی وجہ البصیرت کرنے کے لیے متعین طور پر یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا صلzحیتیں ہیں جننت مسلمہ امامت عالم کا فریضہ ادا کر سکتی ہے ۔ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ تجدید و احیاء کے پہلے ہی کی بنا پر ام

مرحلے میں ان صلzحیتوں کی تفصیل اور تشخیص میں کسی غلطی کا شکار نہ ہو جائیں۔آاج اس بات پر نہ قادر ہے اور نہ اس سے یہ مطلوب ہے کہ وہ انسانیت کے سامنے مادی ایجادات نت مسلمہ ام

آاگے انسانوں کی گردنیں جھک´کے میدان میں ایسے خارق عادۃ تفو تاس کے ق کا مظاہرہ کرے ، جس کی وجہ سے جائیں، اور یوں اپنی اس مادی ترقی کی بدولت وہ ایک بار پھر اپنی عالمی قیادت کا سکہ منوا لے ۔ یورپ کا عبقریآائندہ چند صدیوں تک اس امر کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی آاگ جا چکا ہے اور کم از کم دماغ اس دوڑ میں بہت

کہ یورپ کی مادی ترقی کا جواب دیا جا سکے یا اس پر تفوق حاصل کیا جا سکے ۔ہے عاری حاضر تہذیب سے جس صلzحیت ایسی ۔ ہے ضرورت کی صلzحیت دوسری کسی ہمیں ہہذا ل مگراس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مادی ترقی کے پہلو کو سرے سے نظر انداز کر دیا جائے ۔ بلکہ اس معاملے میں بھی پوری جانفشانی اور جدوجہد لازم ہے لیکن اس نقطۂ نظر سے نہیں ہمارے نزدیک موجودہ مرحلے میں انسانی قیادت کے حصول کے لیے کوئی ناگزیر صلzحیت ہے ، بلکہ اس نقطۂ نظر سے کہ یہ ہمارے وجود و بقا کی ایک ناگزیر شرط ہے ۔نر خلzفت کو اور خود اسلzم جو انسان کو خلzفت ارضی کا وارث قرار دیتا ہے اور چند مخصوص شرائط کے تحت کا

ہلہی اور تخلیق انسانی کی غرض و غاریت خیال کرتا ہے ، مادی ترقی کو ہم پر لازم ٹھیراتا ہے ۔ نت ا عباد اور صلzحیت درکار ہے ۔ اور یہ صلzحیتیانسانی قیادت کے حصول کے لیے مادی ترقی کے علzوہ کوئ

نم زندگی ہو سکتا ہے جو انسانیت کو ایک طرف یہ موقع دے کہ وہ مادی کمالات کا تحفظ صرف وہ عقیدہ اور نظا کرے ؛ اور دوسری طرف وہ انسانی فطرت کی ضروریات اور تقاضے ایک نئے نقطۂ نظر کے تحت اسی طمطراق کے ساتھاz ایک انسانی معاشرے کی نم حیات عمل پورا کرے جس طرح موجودہ مادی ذہن نے پورا کیا ہے اور پھر یہ عقیدہ اور نظا

تاس کا نمائندہ ہو۔ نظ دیگر ایک مسلم معاشرہ شکل اختیار کرے اور بالفا

عہد حاضر کی جاہلیت

38

Page 39: Jada o Manzil Complete

موجودہ انسانی زندگی کی بنیادیں اور ضابطے جس اصل اور منبع سے ماخوذ ہیں اس کی رو سے اگر دیکھاآاج ساری دنیا "جاہلیت" میں ڈوبی ہوئی ہے اور "جاہلیت" بھی اس رنگ ڈھنگ کی ہے جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آاسائشیں اور بلند پایہ ایجادات بھی اس کی قباحتوں کو کم یا ہلکا نہیں کر سکتیں۔ کہ یہ حیرت انگیز مادی سہولتیں اور ہلی پر دست درازی، اور حاکمیت جو نر اع اس جاہلیت کا قصر جس بنیاد پر قائم ہے ، وہ ہے اس زمین پر خدا کے اقتدا الوہیت کی مخصوص صفت ہے اس سے بغاوت۔ چنانچہ اس جاہلیت نے حاکمیت کی باگ ڈور انسان کے ہاتھ میںاللہ کا مقام دے رکھا ہے ۔ اس دے رکھی ہے ۔ اور بعض انسانوں کو بعض دوسرے انسانوں کے لیے ارباب من دون آاشنا تھی بلکہ اس طنطنے اور دعوے کے ساتھ کہ سیدھی سادی اور ابتدائی صورت میں نہیں جس سے قدیم جاہلیت

اور زندگ قوانین وضع کریں و تخلیق کریں، شرائع اقدار کی و افکار پہنچتا ہے کہ وہ خود یہ حق کےیانسانوں کو اا ضرورت نہیں ہے مختلف پہلوؤں کے لیے جو چاہیں نظام تجویز کریں۔ اور اس سلسلے میں انہیں یہ معلوم کرنے کی قطعہلی نے انسانی زندگی کے لیے کیا نظام اور لائحہ عمل تجویزکیا ہے ، کیا ہدایت نازل کی ہے اور کس صورت کہ اللہ تعااللہ ظلم و یہ نکل رہا ہے کہ خلق نتیجہ نر حاکمیت کا اقتدار اور بے لگام تصو باغیانہ انسانی نازل کی ہے ۔ اس میں جارحیت کی چکی میں پس رہی ہے ۔ چنانچہ اشتراکی نظاموں کے زیر سایہ انسانیت کی جو تذلیل ہو رہی ہے ، یا سرمایہ دارانہ نظاموں کے دائرے میں سرمایہ پرستی اور جوع الارضی کے عفریت نے افراد و اقوام پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑہلی کے اقتدار کے مقابلے میں دکھائی جا رہی تاسی بغاوت کا شاخسانہ ہے ، جو زمین پر خداوند تعا رکھے ہیں وہ دراصل تاسے خود اپنے ہاتھوں پامال کر کے نتائج بد سے ہلی نے انسان کو جو تکریم اور شرف عطا کیا ہے انسان ہے ۔ اللہ تعا

دوچار ہے ۔

اسلام اور جاہلیت کا اصل اختلافنم حیات کے سوا اس بارے میں صرف اسلzمی نظریۂ حیات ہی منفرد خصوصیت کا علمبردار ہے ۔ اسلzمی نظامیں نہ کسی شکل انسانوں کی کسی انسان دوسرے میں اس کہ دیکھیں گے آاپ لیں گے بھی کو نظام آاپ جس نم حیات ہے جس میں انسان اپنے ہی جیسے دوسرے انسان کی آاتا ہے ۔ صرف اسلzم ہی ایک ایسا نظا عبودیت کرتا نظر آازاد ہو کر صرف خدائے واحد کی عبودیت اور بندگی کے لیے مخصوص ہو جاتا ہے ، صرف اللہ کی بارگاہ عبودیت سے

آاگے سر افگندہ ہوتا ہے ۔ سے رشد و ہدایت کی روشنی حاصل کرتا ہے اور صرف اسی کے نز حیات کی راہیں جدا جدا ہوتی ہیں۔ یہ ہے وہ دنیا اور نرالا یہی وہ نقطہ ہے جہاں اسلzم اور غیر اسلzمی طرآاج پیش کر سکتے ہیں۔ یہ تصور انسانی زندگی کے تمام عملی پہلوؤں نر زندگی جسے ہم انسانیت کی خدمت میں تصوآاج انسانیت محروم ہے ۔ اس لیے کہ مغربی تہذیب اس سلسلے پر گہرے اثرات ڈالتا ہے ۔ یہی وہ نادر خزانہ ہے جس سے میں بانجھ ہے ، یورپ کی حیران کن تخلیقی صلzحیتیں بھی ۔۔۔۔۔ خواہ وہ مغربی یورپ ہو یا مشرقی یورپ ۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خزانے تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں!

39

Page 40: Jada o Manzil Complete

یہ بات ہم پورے دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک ایسے نظام حیات کے داعی ہیں جو نہایت درجہ کاملنج گراں مایہ سے خالی ہے ۔ دیگر مادی مصنوعات کی نع انسانی ایسے گن اور ہر لحاظ سے منفرد اور ممتاز ہے ۔ پوری نوننو کی خوبی اس نم طرح وہ اسے "پیدا" کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔ لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے ، اس نظا وقت تک نمایاں نہیں ہو سکتی، جب تک اسے عمل کے قالب میں نہ ڈھالا جائے ۔ پس یہ ضروری ہے کہ ایک امتاz اپنی زندگی اس کے مطابق استوار کر کے دکھائے ۔ اس مقصد کے بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی عمل ایک اسلzمی ملک میں احیائے دین کی مہم کی طرح ڈالی جائے ۔ احیائے نو کی یہی وہ ناگزیر کوشش ہے ، جو طویل

آاخر انسانی امامت و قیادت کے قبضہ پر منتج ہوگی۔ یا مختصر مسافت کے بعد، بال

احیائے دین کا کام کیسے ہو؟ آاغاز کس طرح ہو؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ پہلے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احیائے اسلzم کی مہم کا

نم صمیم لے کر اٹھے ۔ اور پھر مسلسل منزل کی طرف پیش قدمیآاایک ہراول دستہ وجود میں نر عظیم کا عز ئے جو اس کاآاگے کی جانب رواں دواں رہے ۔ جس کی لپیٹ میں کرتا چلz جائے ۔ اور جاہلیت کے اس بیکراں سمندر کو چیرتا ہوا ناس ہمہ گیر جاہلیت سے یک گونہ الگ تھلگ بھی رہے اور یک گونہ آا چکی ہے ۔ وہ اپنے سفر کے دوران میں پوری دنیا وابستہ بھی۔ یہ ہراول دستہ جس منزل تک پہنچنا چاہتا ہے ضروری ہے کہ اسے اپنے راستے کے نقوش اور سنگ ہائے میل پوری طرح معلوم ہوں، جنہیں دیکھ کر وہ اپنی مہم کے مزاج و طبیعت، اپنے فرض کی حقیقت و اہمیت، اپنے مقصدتاسے یہ بھی شعور حاصل ہونا ضروری ہے کہ آاغاز پہچان سکے ۔ نہ صرف یہ بلکہ کی کنہ، اور اس سفر طویل کا نقطۂ اس عالم گیر جاہلیت کے مقابلے میں اس کا مؤقف کیا ہے ؟ کس کس پہلو میں وہ دوسرے انسانوں سے ملے ، اور کسکن کن جاہلیت کی گرد ارد اور ؟ ہے حامل کا صلzحیتوں اور خوبیوں کن خود وہ ہو؟ تجدا سے تان پر مقام کس خصوصیات و خصائل سے مسلح اور لیس ہے ؟ نیز وہ اہل جاہلیت کو کیسے اسلzم کی زبان میں خطاب کرے ، اور کنتاسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ان تمام امور میں کہاں سے اور کن مسائل و مباحث میں خطاب کرے ؟ اور پھر

کیسے رہنمائی حاصل کرے ؟ اولین کی روشنی میں ہوگا۔ ماخذنذان نقوش راہ اور سنگ ہائے میل کا تعین اور تشخص اسلzمی عقیدہ کے ماخ��

آان حکیم ہے ۔ اس کتاب کی بنیادی تعلیمات ان نقوش راہ کی نشان دہی کریں گی۔ یا پھر وہ اولین سے ہماری مراد قرآان حکیم نے اس پاکیزہ و برگزیدہ جماعت کے دلوں پر نقش کر دیا تھا جس تصور اس بارے میں رہنمائی کرے گا، جو قراس تو مرتبہ ایک اور دکھائے کرشمے العقول محیر کے قدرت و اپنی حکمت اندر کے دنیا نے ہلی تعا اللہ ذریعہ کے

نت خداوندی کو مطلوب و مقصود تھا۔ ترخ پر موڑ دیا جو مشی تاس جماعت نے تاریخ انسانی کا دھارا بدل کر

تت منتظر حقیق

40

Page 41: Jada o Manzil Complete

نت منتظر" سمجھتا ہوں، میں نے یہ کتاب لکھی ہے ۔ اس کتاب اسی ہراول دستے کے لیے جسے میں "حقیقآان" سے ماخوذ ہیں، جن میں میں نے موضوع کی رعایت سے کچھ ترمیم و کے چار ابواب میری تفسیر "فی ظلzل القرآان حکیم کے پیش آاٹھ ابواب میں نے مختلف اوقات میں قلمبند کیے ہیں۔ قر اضافہ کر دیا ہے ۔ اس مقدمہ کے علzوہ بقیہ کردہ ربانی نظریۂ حیات پر غور و فکر کے دوران میں مختلف اوقات میں مجھ پر جو حقائق منکشف ہوئے ، وہ میں نے ان

ند قلم کر دیے ہیں۔ یہ خیالات بظاہر بے جوڑ اور منتشر معلوم ہوں گے ، مگر ایک بات ان سب ميں مشترک ابواب میں سپرہوتا ہے ۔ ہر راستے کی علzمات کا یہی حال الطریق" ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ خیالات "معالم فی یہ کہ ملے گی، اور وہ ہلی نے مجھے اس مجموعی طور پر یہ گزارشات "معالم فی الطریق" کی پہلی قسط ہیں اور امید ہے کہ جس طرح اللہ تعا

۔ و23کتاب کو پیش کرنے کی توفیق دی ہے ، اس موضوع پر اور بھی چند مجموعے پیش کرنے کی توفیق نصیب ہوگی باللہ التوفیق

واپس اوپر جائیے

آا 23 تان کی ری تصنیف ثابت ہوئي )مترجم( خسید موصوف اپنے اس ارادے کو شرمندۂ تکمیل نہ کر سکے ۔ بلکہ معالم فی الطریق

41

Page 42: Jada o Manzil Complete

باب اول

آان کی تیار کردہ لاثانی نسل قرنش نظر رکھنا چاہیے کیوں کہ یہ پہلو اسلzم کے نام لیواؤں کو تاریخ اسلzم کا ایک نمایاں پہلو خاص طور پر پینت ہے کہ دعو لہذا ضروری ۔ ہے دیتا ڈالتا دکھائی اثر تکن فیصلہ اور نہایت گہرا پر اور رحجان کار نق دعوت کے طری اسلzمی کے علمبردار خواہ کسی ملک اور زمانے سے تعلق رکھتے ہوں اس پہلو پر زیادہ سے زیادہ غور کریں۔ یہ پہلو اسپوری مثال کی تھی جس کی تیار نسل انسانی ایسی میں زمانے ایک نے اسلzمی نت دعو کہ ہے ترجمان کا حقیقت اسلzمی تاریخ، بلکہ پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس نسل سے مراد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂنت اسلzمی کے ہاتھوں اس طرز اور کردار کی جمعیت پھر وجود میں کرام ہیں۔ اس نسل کے بعد تاریخی ادوار میں دعوآائی۔ اگرچہ تاریخ کے ہر دور میں اس کردار کے افراد تو بلz شبہ پائے گئے ، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک ہی نہیں خطے میں بڑی تعداد میں اس طرز اور کردار کے لوگ جمع ہو گئے ہوں۔ جس طرح اسلzم کے اولین دور میں جمع ہوئے ۔

پنہاںزیہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا ثبوت تاریخ کے صفحات سے ملتا ہے اور اس کی تہ میں ایک خاص راتاس راز تک رسائی حاصل کر سکیں۔ نر غائر مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ہے ، ہمیں اسی بدیہی حقیقت کا بنظ

آائی؟ صحابۂ کرام کے بعد ایسی لاثانی جمعیت کیوں وجود میں نہ اسلzم کی دعوت و ہدایت جس کتاب میں موجود ہے وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے ۔ اس کتاب کو پیش کرنے والیتاسی طرح ہماری آاج بھی ہستی ۔۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔ کی تعلیمات و احادیث اور سیرت پاک تاس پہلی اسلzمی جمعیت کی نگاہوں کے سامنے تھی جس کا تاریخ کے اسٹیج پر نگاہوں کے سامنے ہے جس طرح وہ ناس جمعیت نس نفیس نل خدا صلی اللہ علیہ وسلم بنف دوبارہ اعادہ نہ ہو سکا ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت رسوآانے نت حال نہیں ہے ۔ لیکن کیا یہی فرق اسلzم کی مثالی تنظیم کے دوبارہ وجود میں نہ کے قائد تھے ، اور اب یہ صورآاور ہونے کے لیے حتمی نت اسلzمی کے قیام اور بار کا سبب ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک اگر دعوہلی نے اسلzم کو ہر گز عالمگیر دعوت اور پوری انسانیت کے لیے دین نہ قرار دیا ہوتا، اور نہ اسے اور ناگزیر ہوتا تو اللہ تعاآاخری پیغام کی حیثیت دی ہوتی، اور نہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے معاملzت و مسائل انسانیت کے لیے آان حکیم کی حفاظت کا خود ہلے نے قر کی اصلzح کی ذمہ داری قیامت تک کے لیے اس کے سپرد کی ہوتی۔ اللہ تعا ذمہ لیا ہے ۔ اس لیے کہ وہ علیم و خبیر جانتا ہے کہ اسلzم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی برپا ہو سکتا ہے ،

سال گزر گئے ، اور وہ اپنے اوج23اور اپنے ثمرات سے انسانیت کو بہرہ ور کر سکتا ہے ۔ چنانچہ اس دعوت کو جب آاپ کے نر رحمت میں طلب فرما لیا اور ہلی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جوا کمال تک پہنچ گئی تو اللہ تعا

42

Page 43: Jada o Manzil Complete

ناس آاخر تک کے لیے جاری و ساری کر دبعد یا۔ پس رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود گرامی کادین کو زمانۂ نگاہوں سے اوجھل ہو جانا معیاری اسلzمی جمعیت کے فقدان کا باعث نہیں قرار دیا جا سکتا۔

اس کی پہلی وجہ تو پھر ہمیں اس کا کوئی اور سبب تلzش کرنا چاہیے اس سلسلے میں ہمیں اس چشمۂ صافی پر بھی نگاہ ڈال لینی چاہیے جس سے پہلی اسلzمی نسل نے اسلzم کا فہم و شعور حاصل کیا۔ شاید اس کے اندر ہی کوئی تغیر واقع ہومیں تاس ہے تربیت حاصل کی، ممکن نے مطابق اس لینا چاہیے جس کے لے بھی جائزہ نق کار کا تاس طری ہو! چکا

یلیوں نے راہ پالی ہو! جس چشمہ سے صحابۂ کرام کی عظیم المرتبت جماعت نے اسلzم کا فہم حاصل کیا وہدتب�������������۔ تھے سوتے والے پھوٹنے اس چشمے سے تعلیمات اور احادیث وسلم کی علیہ اللہ اللہ صلی رسول تھا۔ آان قر صرف چنانچہ جب ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ دریافت کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلzقآان حکیم ہی وہ آان کا چلتا پھرتا نمونہ تھے (۔ الغرض قر آاپ کے اخلzق قر آان ) آاپ نے فرمایا: کان خلقہ القر کیسے تھے ؟ تو

ھالتے تھےڈواحد سرچشمہ تھا جس سے صحابۂ کرام سیراب ہوتے تھے ، یہی وہ سانچہ تھا جس میں وہ اپنی زندگیوں کو تان کا اکتفاء کر لینا اس وجہ سے نہ تھا کہ اس وقت دنیا میں آان پر ، اسی سے وہ اکتساب فیض کرتے تھے ۔ صرف قر

اور سائنسی کمالات کا وجو تحقیقات تھے ، علمی نہ آاثار موجود ثقافت کے اور تمدن تہذیب و اور تھا۔دکسی نہ اz رومی تہذیب موجود تھی، رومی علم و حکمت اور حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام مظاہر گوناگوں شکل میں موجود تھے ۔ مثلتاس کی ترقی آاج بھی یورپ کی تہذیب کی بنیاد ہے یا کم از کم موجودہ یورپ رومی قانون و نظام کا ڈنکا بج رہا تھا جو آاج تک مغرب یافتہ صورت ہے ۔ یونانی تہذیب کا ترکہ بھی منطق و فلسفہ اور ادب و فن کے رنگ میں موجود تھا جو

تاس کی شاعری، اس کا روایتی ادب اور اس کےدکے فکر و نظر کا مرجع ہے ۔ عجمی تہذیب و تم����� آارٹ، ن، عجم کا اzںعقائد اور نظامہائے حکومت کا غلغلہ تھا۔ اور بھی کئی تہذیبی جزیرۃ العرب کے قریب یا دور پائی جاتی تھیں، مثل

ہندی تہذیب اور چینی تہذیب۔ رومی اور عجمی دونوں تہذیبوں کے دھارے جزیرۃ العرب کے ساتھ ساتھ شمال اور جنوبآابادیاں خود جزیرۃ العرب کے وسط میں موجود تھیں۔ لہذا ہم یہ محسوسہمیں بہ آاں یہودی اور مسیحی رہے تھے ۔ مزید بر

ہلہی پر اکتفاء کرنا اور فہم دین کی خاطر کرتے ہیں کہ صحابۂ کرام ۔۔۔۔۔۔ پہلی اسلzمی نسل۔۔۔۔۔۔ کا صرف کتاب ا کسی اور چشمہ سے رجوع نہ کرنا فکر و نظر کے جمود اور تہذيب و تمدن سے بیگانگی کا وجہ سے نہ تھا، بلکہ یہآاب صلی اللہ ایک سوچے سمجھے منصوبے اور طے کردہ طریق کار کی بنا پر تھا۔ اس امر کی دلیل خود جناب رسالتمآانجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ علیہ وسلم کے ایک عمل سے ملتی ہے ۔ ہسی حیابین اظھرکم ما حل آاپ دیکھ کر ناراض ہوئے اور فرمایا "و انہ واللہ لو کان مو میں تورات کے چند اوراق دیکھے ۔

آاج تمہارے اندر موجود ہوتے تو میری ہی اطاعت کرتے (۔ 24 الا ان یتبعنی ہل ہسی بھی )خدا کی قسم! اگر مو

لی نے حماد اور شعبی کی سند سے روایت کیا ہے )مصنف( عیہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، اور اسے حافظ ابو ی 24

43

Page 44: Jada o Manzil Complete

اۃ اسلzم کی اس اولین نسل کو جو ابھی اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادآان حکیم۔ نب فیض کرنے تک محدود رکھا، اور وہ تھا قر تعمیر کے دور سے گزر رہی تھی صرف ایک ہی چشمہ سے اکتساتاسی کے آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ اس جماعت کے دل صرف کتاب اللہ کے لیے خالص ہو جائیں، اور آانجناب صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر نم حیات کے مطابق وہ اپنے حالات کی اصلzح کریں۔ اس لیے پیش کردہ نظاآان کے بجائے ایک دوسرے ماخذ کی طرف مائل ہیں۔ آالود ہو گئے کہ عمر ۔۔۔۔۔۔۔۔ رضي اللہ عنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ قر غضب دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی لاثانی نسل تیار کرنا چاہتے تھے جس کا دل و دماغ نہایت پاکیزہ اور

آان کے طریقۂ تربیت و تعلیم کے مطہر ہو، جس کا احساس و شعور انتہائی صاف و شفاف ہو اور جس کی تعمیر میں قرسوا کسی دوسرے طریقہ کو دخل نہ ہو۔

تاس نے دینث���������یہ نسل یا جمعیت تاریخ میں لا انی اور یکتا تنظیم سمجھی گئی ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آائی کہ اس چشمے کے فہم اور تربیت کا اکتساب صرف ایک ہی ماخذ سے کیا۔ مگر بعد کے ادوار میں یہ صورت پیش تاس کا آامیزش ہو گئی۔ بعد کی نسلوں نے جس چشمہ سے اخذ و اکتساب کیا کے اندر اور بھی متعدد چشموں کی ہلہیات اور دوسرے مذاہب تاس میں یونانی فلسفہ و منطق، قدیم عجمی قصے کہانیاں، اسرائیلیات، مسیحی ا حال یہ تھا کہ آان کریم کی تعبیرات پر ان تمام چیزوں کا عکس پڑا، آاثار مخلوط ہو چکے تھے ۔ چنانچہ قر اور تمدنوں کے بچے کچھے تاٹھیں وہ علم الکلzم ان سے متاثر ہوا، فقہ اور اصول فقہ ان کے دخل سے نہ بچ سکے ۔ نسل اولیں کے بعد جتنی نسلیں ہیئت و خالص کامل کرام جیسی کہ صحابۂ zنکل یہ نتیجہ رہیں۔ کرتی استفادہ و اکتساب مخلوط چشمے سے اسی آا سکی۔ اور ہم یہ بات کسی شک و شبہ کے بغیر کہتے ہیں کہ بعد کی نسلوں اور اسلzم اجتماعیہ دوبارہ منصۂ ظہور پر نہ تاس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بعد میں اسلzم کے آاتا ہے کی پہلی یکتا و ممتاز جمعیت میں جو نمایاں اختلzف نظر اولین منبع رشد و ہدایت میں ان مختلف ماخذ اور گوناگوں چشموں کا اختلzط ہو گیا جن میں سے بعض کی جانب ہم

آائے ہیں۔ اوپر اشارہ کر

دوسری وجہآان کی تلzوت اور اس اس فرق کو پیدا کرنے میں ایک اور اساسی عامل بھی کار فرما رہا ہے ۔ صحابہ کرام قر میں تدبر اس غرض کے لیے نہیں کرتے تھے کہ اپنی معلومات کو بڑھائیں، یا ادبی ذوق کو تسکین دیں، یا ذہنی تفریح کاآان نہیں سیکھتا تھا کہ وہ اپنی معلومات سامان مہیا کریں۔ ان حضرات میں سے کوئی فرد بھی کبھی اس غرض کے لیے قر عامہ کا دائرہ وسیع کرنا چاہتا ہے ، علمی اور قانونی رموز و مسائل میں اپنے سابقہ علم کے اندر اضافہ کرنا چاہتا ہے ، یاآان کی طرف اس لیے رجوع کرتا تھا تاکہ وہ یہ معلوم کسی بھی پہلو سے اپنی علمی کسر کو پورا کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ قر کرے کہ اس کی انفرادی زندگی کے بارے میں مالک الملک نے کیا ہدایات دی ہیں؟ جس معاشرے کے اندر وہ سانسنم حیات کے بارے میں جس کا وہ اور اس تاس مخصوص نظا تاس کی اجتماعی زندگی کے لیے کیا احکام ہیں؟ لے رہا ہے

44

Page 45: Jada o Manzil Complete

نن کی جماعت علمبردار ہے پروردگار عالم کی طرف سے کیا تفصیلzت دی گئی ہیں؟ اس برگزیدہ جماعت کا ہر فرد میدا جنگ میں لڑنے والے سپاہی کی مانند اللہ کے احکام موصول ہوتے ہی ان پر بلz چون و چرا کاربند ہو جاتا تھا۔ وہ ایک ہیتاس کس کندھوں پر یکدم ااسے احساس تھا کہ اس طرح آان حکیم کی کئی سورتیں نہیں پڑھ ڈالتا تھا۔ نشست میں قرآایات کی تلzوت کرتا، انہیں حفظ کرتا، اور ان آا پڑے گا۔ وہ زیادہ سے زیادہ دس بہت سے فرائض اور ذمہ داریوں کا بوجھ ایک اللہ عنہ کی بن مسعود رضی اللہ ہمیں حضرت عبد تفصیل تعلیم کی نافذ کرتا۔ اس طریقہ پر کی عملی زندگی

۔ 25روایت سے ملتی ہے نم خداوندی کی تعمیل کے اس احساس نے ان حضرات پر نہ صرف روحانی لذت و تسکین کے بے شمار احکاتان پر کھول دیں۔ وہ اگر صرف کیف و نشاط اور مجرد علم و افق وا کر دیے بلکہ علم و عرفان کی بے شمار راہیں بھی

آان پڑھتے تو یہ غیر مح�������دآاگہی کے ارا ود حظ انہیں ہر گز حاصل نہ ہو سکتا تھا، اور وہ علم و عرفان کے بحردے سے قرآاسان تان کے لیے عمل کو بھی نہایت درجہ ناپیدا کنار میں شناوری نہ کر سکتے تھے ۔ پھر احساس اطاعت گزاری نے

آان کی تعلیماتدکر دیا، خدا کے احکام ان کے لیے بوجھ بننے کے بجائے ہلکے پھلکے اور حد آاسان ہو گئے ۔ قر رجہ ان کے نفوس میں اس طرح اتر گئیں کہ ان کی زندگیاں اسلzم کا چلتا پھرتا نمونہ بن گئیں، وہ ایک ایسی ثقافت کا عملی پیکر بن گئے جو ذہن کی تختیوں اور کتاب کے صفحات تک محدود نہیں تھی بلکہ ایک ایسی عملی تحریک

کی شکل میں جلوہ گر تھی جس نے انسانی زندگی کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ تاس بارگاہ میں تکنجیاں صرف ان لوگوں کو عطا کرتا ہے جو اس احساس و جذبہ کے ساتھ آان اپنے خزانوں کی قرآان اس لیے نہیں نازل ہوا کہ وہ ذہنی لذت اور تسکین ذوق تاس پر عمل پیرا ہوں گے ۔ قر آان سمجھ کر حاضر ہوتے ہیں کہ قر کی کتاب بن کر رہ جائے ، یا محض ادب و فن کا شہ پارہ قرار پائے ، یا اسے قصے کہانیوں اور تاریخ کا دفتر سمجھاتاس کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ وہ تاس کے مضامین ضمنی طور پر ان تمام خوبیوں سے مالا مال ہیں مگر جائے ۔ اگرچہ آایا ہے کہ مالک الملک کو زندگی کا کون سا ڈھب محبوب نب زندگی ہو، وہ انسان کا رہنما ہو۔ وہ یہ بتانے کے لیے کتانق زندگی کی تربیت دیتا رہا نش نظر وہ صحابۂ کرام کو تدریج کے ساتھ اپنے مخصوص طری ہے ۔ اسی مقصد و مدعا کے پینق تعمیر و تربیت کی طرف اشارہ کرتے اور ٹھیر ٹھیر کر وقفوں سے ان پر احکام و ہدایات نازل کرتا رہا۔ اسی تدریجی طری

ہلے فرماتا ہے : ہوئے اللہ تعا

اz )بنی اسرائیل: نزيل نتن نناہ مل نز نن نو مث م¶ تم نلی نع نس ن´نا نلی ال نع نµاہ نر مق نت نل نناہ مق نر نف اا آان مر تق (106نو

آان کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھیر ٹھیر کر اسے لوگوں کو سناؤ، اور اسے ہم نے اور اس قر)موقع موقع سے (بتدریج اتارا ہے ۔

حضرت عبد اللہ مسعود کی اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے اپنے مقدمہ تفسیر میں نقل کیا ہے )مصنف( 25

45

Page 46: Jada o Manzil Complete

نن کریم یکبارگی نازل نہیں ہوا۔ بلکہ اسلzمی معاشرے کے اندر جیسے جیسے نو بہ نو ضروریات پیدا ہوتی آا قر گئیں، لوگوں کے فہم و شعور میں بالیدگی اور وسعت رونما ہوتی گئی، عام انسانی زندگی ارتقاء سے ہمکنار ہوتی گئی،آان کا نزول ہوتا آاتا گیا اور اس کے مطابق قر اور اسلzمی جماعت کو عملی میدان میں مشکلzت و مسائل سے سابقہ پیش تان الجھنوں آایات مخصوص نوعیت کے حالات اور مخصوص واقعات کی مناسبت سے اترتیں، اور آایت یا چند گیا۔ ایک تان سے نپٹنے کے لیے لائحہ تان حالات کی نوعیت واضح کرتیں اور کو حل کرتیں جو لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتیں، نگھرے ہوتے تھے ۔ ان کے شعور و احساس کی لغزشوں اور معاملzت کی غلطیوں کی عمل متعین کرتیں جن میں وہ تان تاس کی تان کے تعلق کو استوار کرتیں، اور انہیں اپنے پروردگار سے ہلی سے تصحیح کرتیں، ہر ہر معاملے میں اللہ تعا صفات کی روشنی ميں متعارف کراتیں جو اس کائنات پر ہمہ پہلو اثر انداز ہو رہی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس حقیقت کاہلی کی معیت میں ہلی کی رہنمائی اور نگرانی اور ملzء اع اچھی طرح احساس کر لیا تھا کہ وہ زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعانر حیات طے کر رہے ہیں۔ اس احساس کی وجہ سے نت خداوندی کے سایۂ عاطفت میں سف بسر کر رہے ہیں اور رحمہلی کی طرف سے انہیں تعلیم کیا جا رہا تھا۔ تاس مقدس قانون حیات کے مطابق ڈھل جاتی تھی جو اللہ تعا عملی زندگی نق کار نے صحابۂ کرام کی لاثانی، مبارک اور منفرد ناس مخصوص طری پس معلوم ہوا کہ "تعلیم برائے تعمیل" کے

نق کار کی روشنی میں تیار ہو یں وہ "تعلیم برائے تحقیق و تفریح" سےئتنظیم تیار کی۔ اور اس بعد کی نسلیں جس طریبالکل لاثانی اسلzمی نسل سے پہلی بعد کی نسلوں کو یہ وہ دوسرا اساسی عامل ہے جس نے لاریب اور تھا۔ عبارت

مختلف کر دیا۔

تیسری وجہتاس کا جائزہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ آاتا ہے ۔ ایک تیسرا عامل بھی اس تاریخی حقیقت میں کار فرما نظر

نر جاہلیت کو یک قلم ترک کر دیتا نش اسلzم ہو جاتا تو وہ اپنے دو عہد رسالت میں ایک شخص جب حلقہ بگونب حیات کا ایک نیا ورق الٹ رہا ہے ، اور ایک نئے دور تھا۔ دائرہ اسلzم میں قدم رکھتے ہی وہ یہ محسوس کرتا کہ وہ کتا میں داخل ہو رہا ہے جو گزشتہ جاہلی زندگی سے یکسر مختلف ہے ۔ وہ جاہلی زندگی کے تمام معمولات کو شک وتاس پر یہ خیال طاری رہتا کہ یہ تمام ناپاک اور پلید کام تھے ، ان میں اور اسلzم میں شبہ اور خائف نگاہوں سے دیکھتا۔ نر ہدایت کوئی مناسبت نہیں ہے ۔ پھر اسی احساس اور قلبی دھڑکن کے ساتھ وہ اسلzم کی طرف لپکتا تاکہ وہاں سے نوآا جاتی یا اسلzم آا جاتا یا ترک شدہ عادات کی کشش اس پر غالب تاس کا نفس امارہ غالب حاصل کرے ۔ اور اگر کبھی اا توبہ کرتا، کے احکام کی تعمیل میں اس سے کوئی تساہل ہو جاتا تو وہ احساس گناہ و لغزش سے بے چین ہو جاتا اور فورآانی وہ اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اپنے گناہ کی تلzفی اور روح کی تطہیر کی ضرورت محسوس کرتا اور دوبارہ قر

ہدایت کے مطابق مکمل طور پر ڈھل جانے کے لیے کوشاں ہو جاتا۔

46

Page 47: Jada o Manzil Complete

نن اسلzم میں پناہ لینے کے بعد ایک مسلمان کی یہ کیفیت ہو جاتی تھی کہ اس کے جاہلی دور اور نئی دام اسلzمی زندگی کے درمیان کامل انقطاع واقع ہو جاتا تھا۔ یہ انقطاع پورے شعور اور سوچے سمجھے فیصلے کے تحتتاس کے تمام اجتماعی روابط ٹوٹ جاتے ۔ وہ اپنی تمام ہوتا۔ اس کے نتیجے میں ارد گرد کے جاہلی معاشرے کے ساتھ تاس کشتیاں جلz کر اس جذبہ و ولولہ کے ساتھ اسلzم کے ساتھ مکمل طور پر وابستہ ہو جاتا کہ جاہلی ماحول کے ساتھ تاس کا واسطہ قائم رہتا تھا مگر اس سے کا ایک ایک رشتہ کٹ جاتا۔ اگرچہ تجارت اور روزانہ لین دین مشرکوں کے ساتھ اس امر واقع میں کوئی فرق نہ پڑتا تھا کیوں کہ احساس و شعور کا تعلق اور محض کاروباری تعلق دو مختلف اور الگکلی یہ سے اطوار و عادات جاہلی اور نظریات و افکار جاہلی رواج، و رسوم جاہلی ماحول، جاہلی ہیں۔ چیزیں الگ نن توحید ترو سے ایک شخص شرک سے دستبردار ہو کر دام تاس عظیم فیصلے کا مظہر تھی جس کی دستبرداری درحقیقت میں پناہ لیتا تھا، زندگی و کائنات کے بارے میں جاہلیت کے تصور کو تج کر اسلzم کے تصور کو اپناتا تھا، اور ایک نئی قیادت کے زیر سایہ جدید اسلzمی تنظیم سے منسلک ہو جاتا تھا اور اپنی تمام وفاداریاں اور اطاعت گزاریاں اس نئے

معاشرے اور نئی قیادت کے لیے وقف کر دیتا تھا۔ ناس فیصلے کے بعد وہ تاس کی شاہراہ حیات کو دوسری تمام راہوں سے الگ کر دیتا تھا۔ یہی وہ فیصلہ تھا جو

آازاد سفر، ج���� آاغاز کر دیتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ تگھٹی میں پڑی ہوئی روایات کے بوجھ،ازندگی کے نئے سفر کا ہلی معاشرے کی آازاد سفر ۔۔۔۔۔۔۔ اس سفر میں اگر کسی بوجھ سے مسلمان کو سامنا تھا تو وہ اور جاہلی اقدار و نظریات کے دباؤ سے ہر اور امتحان ہر میں اپنے دل کی گہرائیوں وہ لیکن تھی۔ پہنچتی ہاتھوں اسے تھی جو جاہلیت کے اذیت و آازمائش صعوبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے اور راہ حق پر گامزن رہنے کا عزم صمیم کر چکا ہوتا تھا، اس لیے جاہلیت

تاس کی سخت جانی پر کوئی اثر نہ ڈال سکتے تھے ۔ کے تصورات اور جاہلی معاشرے کی روایات کا دباؤ

ہمارے لیے صحیح طریق کار؟نر اول تبو کی ہے جس سے اسلzم کو صد تخو تاسی نگھرے ہوئے ہیں۔ یہ جاہلیت بھی آاج بھی ہم جاہلیت میں آاتا ہے کہ ہمارا تمام ماحول جاہلیت کے چنگل میں تاس سے بھی تاریک تر جاہلیت۔ یوں نظر آایا تھا۔ بلکہ میں سابقہ پیش آارٹ، مروجہ نظام اور آاخذ، ادب اور گرفتار ہے ۔ ہمارے افکار و عقائد، ہماری عادات و اطوار، ہماری ثقافت اور اس کے م قوانین ان سب میں جاہلیت کی روح سرایت کیے ہوئے ہے ۔ یہاں تک کہ جن چیزوں کو غلطی سے اسلzمی ثقافت،آاخذ، اسلzمی فلسفہ اور اسلzمی فکر سمجھا جاتا ہے وہ سب بھی جاہلیت کی مصنوعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلzمی م اسلzمی اقدار ہمارے دلوں میں گھر نہیں کرتیں، ہمارے اذہان و قلوب اسلzم کے پاکیزہ اور اجلے تصور سے منور نہیںنر اول میں برپا کیا تھا۔ ہوتے ، اور ہمارے اندر انسانوں کی ویسی پاکیزہ و مثالی تنظیم برپا نہیں ہوتی جسے اسلzم نے صد

تحریک کے دور تقاضا کرتا ہے کہ یہی بھی نق کار تحریک کا مخصوص طری اور اسلzمی لازم ہے پر ہم پس تان تمام اثرات و عناصر سے پاک رہیں جن میں ہم رہ بس رہے ہیں بلکہ اخذ و تربیت و تعمیر ہی میں ہم جاہلیت کے

47

Page 48: Jada o Manzil Complete

استفادہ تک کر رہے ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ابتدا سے ہم اس خالص سرچشمۂ ہدایت کی طرف رجوع کریں جس سےہلی نے یہ ضمانت اسلzم کے پہلے لاثانی معاشرے کے افراد نے فہم دین حاصل کیا تھا اور جس کے بارے میں اللہ تعانت انسانی کی حقیقت، اور ان دونوں آامیزش سے محفوظ رہے گا۔ ہمیں کائنات اور حیا دی ہے کہ وہ ہر گونہ اختلzط و ہلی کے وجود( کے باہمی تعلق کا صحیح تصور اس کے باہمی تعلق، اور پھر ان تمام چیزوں کے اور وجود کلی )باری تعا سرچشمہ سے حاصل کرنا ہوگا۔ اور اسی ضمن میں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ زندگی کا صحیح تصور کیا ہے ؟ ہمارینم حکمرانی کس ڈھب کا ہو؟ ہماری سیاست اور اقتصاد کن اصولوں پر قدریں اور اخلzق کس نوعیت کے ہوں؟ ہمارا نظا قائم ہو؟ غرضیکہ زندگی کے ہر ہر پہلو کے بارے میں اس کتاب ہدایت سے ہمیں رہنمائی حاصل کرنا ہوگی۔ یہ امر بھیآان کریم( پیش نظر رہے کہ جب ہم ان مسائل کے بارے میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے اسلzم کے چشمہ صافی )قرتلطف اندوزی، تسکین ذوق تاسے پڑھیں نہ کہ کی طرف رجوع کریں تو "علم برائے عمل" کے احساس و جذبہ کے ساتھ تاس کی طرف رجوع کریں کہ وہ ہم سے کیسا انسان اور بحث و تحقیق کے شوق کی بنا پر۔ ہم یہ معلوم کرنے کے لیے ند حقیقی کے حصول کے بننے کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ ویسا انسان ہم بن کر دکھائیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ مقصنن دل پکڑیں آاشکار ہو جائے گا، اس کے حیرت انگیز قصے ہمارا دام تحسن بھی آان کا فنی کمال اور ادبی دوران ہم پر قرتاس کی وجدانی منطق کی بھی ہم گلگشت کریں گے ۔ آانکھوں کے سامنے جھلکیں گے اور گے ، مناظر قیامت بھی نب ذوق نن علم کو ہوتی ہے اور جن کی طلب میں اربا اا ہمیں حاصل ہوگی جن کی تلzش جویا الغرض وہ سب لذتیں ضمن سرگرداں رہتے ہیں۔ بے شک ان سب فوائد و لذائذ سے ہم ہمکنار ہوں گے لیکن یہ چیزیں ہمارے مطالعہ کا اصل مقصد نہآان ہم سے کس طرح کی عملی زندگی کا مطالبہ کرتا ہے ؟ قر ہوگا کہ یہ معلوم کرنا ہمارا اصل مقصد صرف ہو گی۔ ہلی کے آان قائم کرنا چاہتا ہے ؟ وہ ہمیں اللہ تعا زندگی اور کائنات کے بارے میں وہ اجمالی تصور کیا ہے جس پر ہمیں قرنقسم کے اخلzق پسند ہیں؟ اور وہ تاسے کس بارے میں کس نوعیت کا شعور اور احساس رکھنے کی تلقین کرتا ہے ؟

زندگی میں کس ڈھنگ کا قانونی اور دستوری نظام نافذ کرنے کا خواہاں ہے ؟

جاہلیت سے مکمل مقاطعہ ہمارا یہ بھی فرض ہوگا کہ ہم اپنی ذاتی زندگیوں میں جاہلی معاشرے کے شکنجے سے ، جاہلی تصورات کیآازادی حاصل کریں۔ ہمارا مشن جاہلی معاشرے گرفت سے ، جاہلی روایات کے دباؤ اور جاہلی لیڈر شپ کے تسلط سے

( کرنا نہیں ہے ، اور نہ ہم اس کے وفادار بن کر رہ سکتےCompromiseکے عملی نظام کے ساتھ مصالحت )تاس ہیں۔ جاہلی معاشرہ ۔۔۔۔۔۔ اپنے جاہلی اوصاف و خصائص کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔ اس قابل نہیں ہے کہ ہمارے اور آاخر بال تاکہ آاپ کو بدلیں اپنے یہ ہونا چاہیے کہ ہم پہلے کے درمیان مصالحت کا رویہ قائم ہو سکے ۔ لہذا ہمارا کام معاشرے کو تبدیل کر سکیں۔ ہمارا اولین مقصد معاشرے کے عملی نظام میں انقلzب ہے ۔ جاہلی نظام کو بیخ و بن سےنم زندگی کے ساتھ بنیادی طور پر متصادم ہے ، اسلzمی تصورات کی ضد ہے ، اور جو اکھاڑ پھینکنا ہے جو اسلzمی نظا

48

Page 49: Jada o Manzil Complete

نم زندگی کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے سے محروم کر رہا ہے جس تاس نظا ہمیں جبر و تشدد کے وسائل کا سہارا لے کر ہلی کرتا ہے ۔ کا مطالبہ ہم سے اللہ تعا

زندگی کے اس نئے سفر میں ہمارا سب سے پہلz قدم یہ ہوگا کہ ہم جاہلی معاشرے اور اس کی تمام اقدار و نظریات پر غلبہ پانے کی کوشش کریں۔ اور جاہلی معاشرے کے ساتھ سودا بازی کرنے کے لیے ہم اپنی اقدار حیات اورآانی چاہئیں۔ ہمارا راستہ الگ ہے اپنے نظریات میں سرمو تبدیلی گوارا نہ کریں۔ ایسی باتیں ہمارے حاشۂ خیال میں بھی نہ نم حیات کا سر رشتہ ہاتھ اور جاہلیت کا راستہ الگ! اگر ہم ایک قدم بھی جاہلیت کے ساتھ چلے تو نہ صرف اپنے نظانہ حق کو بھی گم کر بیٹھیں گے ۔ بے شک اس کٹھن اور دشوار گزار راستے میں ہمیں جبر سے چھوڑ بیٹھیں گے بلکہ راتاس راہ کے و تشدد کا اور تکالیف و مصائب کا سامنا کرنا ہوگا اور ہمیں بڑی بڑی قربانیاں بھی دینا ہوں گی۔ لیکن اگر ہم نش پا پر چلنا چاہتے ہیں تان نفوس قدسیہ کے نق مسافر ہیں جس پر پہلی بے مثال و منفرد جمعیت چل چکی ہے ، اگر ہم

ہلے نے اپنے پاکیزہ و برت����������� تنصرت و غلبہرجن کے ذریعے اللہ تعا تاسے جاہلیت پر نظام کو دنیا کے اندر جاری فرمایا اور بخشا تو پھر ہمیں یہ سب کچھ سہنا ہوگا، اور ہم اپنی مرضی کے مالک نہیں ہوں گے ۔ لہذا بہتری یہی ہے کہ ہم ہرنق کار کی فطرت و مزاج کیا ہے ، ہمارے مؤقف اور مسلک کی روح کیا ہے وقت اس امر سے با خبر رہیں کہ ہمارے طریتاسی کامیابی کے ساتھ تاس راستے کے نشیب و فراز کیا ہیں جس پر چل کر ہم جاہلیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے اور

نکل جائیں جس کامیابی کے ساتھ صحابۂ کرام کی ممتاز و لاثانی جماعت نکلی تھی۔

49

Page 50: Jada o Manzil Complete

واپس اوپر جائیے

باب دوم

آان کا طریق انقلاب قرلہ ئمکی دور کا بنیادی مس

آان کریم کا وہ حصہ جو مکی سورتوں پر مشتمل ہے ، پورے سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر13قرنر بحث صرف ایک مسئلہ رہا۔ اس کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی، آان کا مدا نازل ہوتا رہا۔ اس پوری مدت میں قرآان نے اسے پیش کرنے میں ہر مرتبہ نیا اسلوب اور نیا پیرایہ اختیار کیا، اور ہر تاسے پیش کرنے کا انداز برابر بدلتا رہا۔ قر مگر

مرتبہ یوں محسوس ہوا کہ گویا اسے پہلی بار ہی چھیڑا گیا ہے ۔ آان کریم پورے مکی دور میں اسی مسئلے کے حل میں لگا رہا۔ اس کی نگاہ میں یہ مسئلہ اس نئے دین کے قر تمام مسائل میں اولین اہمیت کا حامل تھا، عظیم تر مسئلہ تھا، اساسی اور اصولی مسئلہ تھا، عقیدہ کا مسئلہ تھا۔ یہہلی کی الوہیت اور انسان کی عبودیت اور دوسرے ان کے باہمی تعلق مسئلہ دو عظیم نظریوں پر مشتمل تھا۔ ایک اللہ تعاناسی بنیادی مسئلہ کو لے کر انسان سے بحیثیت "انسان" خطاب کرتا رہا۔ کیونکہ یہ مسئلہ ایسا آان کریم کی نوعیت۔ قرآان کے نل قر تھا کہ اس سے تمام انسانوں کا یکساں تعلق ہے ۔ وہ چاہے عرب کے رہنے والے انسان ہوں، یا غیر عرب، نزو زمانہ کے لوگ ہوں یا کسی بعد کے زمانے کے ۔ یہ وہ انسانی مسئلہ ہے جس میں کسی ترمیم و تغیر کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔ یہ اس کائنات میں انسان کے وجود و بقا کا مسئلہ ہے ۔ انسان کی عاقبت کا مسئلہ ہے ۔ اسی مسئلے کی بنیاد پرناس کائنات کے اندر کیا مقام ہے ؟ اور اس کائنات میں بسنے والی دوسری مخلوقات کے ساتھ یہ طے ہوگا کہ انسان کا اس کا کیا تعلق ہے ؟ اور خود کائنات اور موجودات کے خالق کے ساتھ اس کا کیا رشتہ ہے ؟ یہ وہ پہلو ہے جس کیناس لیے کہ یہ اس کائنات کے ایک حقیر جز انسان کے ساتھ براہ ناس مسئلے میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ وجہ سے

راست تعلق رکھتا ہے ۔ آان انسان کو یہ بتاتا رہا کہ اس کے اپنے وجود اور اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات کی مکی زندگی میں قرآایا ہے ؟ اور آایا ہے ؟ اور کس غرض کے لیے اصل حقیقت کیا ہے ؟ وہ انسان کو یہ بتاتا ہے کہ وہ کون ہے ؟ کہاں سے تاس کا خاتمہ کرے گی؟ اور نت وجود بخشا؟ کون سی ہستی تاسے کس نے خلع آاخر کار وہ کہاں جائے گا؟ وہ معدوم تھا

50

Page 51: Jada o Manzil Complete

تاسے کس انجام سے دوچار ہونا ہوگا؟ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ انسان کو یہ بھی بتاتا ہے کہ اس وجود کی حقیقت کیا خاتمہ کے بعد ستی ہے جسے وہ پردۂ غیب میں کار فرما محسوس کرتا لیکنہہے جسے وہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ؟ اور وہ کون

دیکھ نہیں پاتا؟ اس طلسماتی کائنات کو کس نے وجود بخشا، اور کون اس کا منتظم و مدبر ہے ؟ کون اسے گردشنم بینا دے رہا ہے ؟ کون اسے بار بار نیا پیراہن بخشتا ہے ؟ کس کے ہاتھ میں ان تغیرات کا سرشتہ ہے جن کا ہر چش

اور خود مشاہدہ کر ؟ ہونا چاہیے رویہ کیسا تاس کا نق کائنات کے ساتھ بھی سکھاتا ہے کہ خال یہ رہی ہے ؟ وہ اسے تاسے کیا روش اختیار کرنی چاہیے ؟ اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ انسانوں کے کائنات کے بارے میں

باہمی تعلقات کیسے ہونے چاہئیں۔ یہ ہے وہ اصل اور بنیادی مسئلہ جس پر انسان کی بقا اور وجود کا دارومدار ہے ۔ اور رہتی دنیا تک اسی عظیمتپورا تیرہ مسئلہ پر انسان کی بقا اور وجود کا انحصار رہے گا۔ اس اہم مسئلے کی تحقیق و توضیح میں مکی زندگی کا ناسی کے ناس لیے کہ انسانی زندگی کا بنیادی مسئلہ یہی ہے ، اور اس کے بعد جتنے مسائل ہیں وہ نصرف ہوا۔ سالہ دور آان نے مکی دور میں اسی تقاضے پیدا ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت اس کی تفصیلzت اور جزئیات سے زیادہ کچھ نہيں۔ قراور فروعی متعلق نم حیات سے نظا نظر کر کے نصرف ناس سے اور بنائے رکھا، مدار اپنی دعوت کا بنیادی مسئلے کو ہلہی نے یہ فیصلہ نہیں فرما دیا کہ تاس وقت تک انہيں نہیں چھیڑا جب تک علم ا ضمنی بحثوں سے تعرض نہیں کیا۔ اور نب روزگار جماعت کے دلوں میں پوری طرح تاس انتخا ناس مسئلہ کی توضیح و تشریح کا حق ادا ہو چکا ہے ، اور یہ اب نت دین کا ذریعہ بنا کر اس کے ہاتھوں اس دین کو عملی شکل میں برپا کرنے ہلہی اقام جاگزیں ہو چکا ہے جسے قدرت ا

کا فیصلہ کر چکی تھی۔برپا کرنا چاہتے ہیں جو تاٹھے ہیں، اور وہ دنیا کے اندر ایک ایسا نظام نن حق کی دعوت لے کر جو لوگ دیناس دین کی نمائندگی کرے انہیں اس عظیم حقیقت پر پہروں غور کرنا چاہیے ۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے راسخ بالفعل

آان کریم نے مکی زندگی کے پورے سال صرف کیے ، اور اس دوران میں کبھی اس سے توجہ ہٹا کر13کرنے کے لیے قرآاگے نم زندگی کی دوسری تفصیلzت کو نہیں چھیڑا، نہ ان قوانین و احکام بیان کرنے کی حاجت محسوس کی جو نظا

چل کر مسلم معاشرے میں نافذ ہونے والے تھے ۔

تاسی مسئلہ سے ہوا آاغاز تر رسالت کا کاآاغاز رسالت ہی میں اس اہم مسئلہ کو جو عقیدہ و ایمان کا مسئلہ ہے دعوت نت خداوندی تھی کہ یہ عین حکمناس دعوت نہ حق میں پہلz قدم ہی کا محور و مرکز بنایا جائے ۔ یعنی اللہ کے رسول ۔۔۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔ راہلہ نہیں ہے "، اور پھر اسی دعوت پر اپنا تمام وقت صرف کر دیں۔ سے اٹھائیں کہ "لوگو! گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی ا

تاسی کی بندگی کی راہ پر لگائیں۔ آاگاہ کریں، اور انہیں صرف انسانوں کو ان کے حقیقی پروردگار سے

51

Page 52: Jada o Manzil Complete

اگر ظاہر بین نگاہ، اور محدود انسانی عقل کی روشنی میں دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عرب اسہلہ الا اللہ" کا ہلہ" کا مفہوم اور "لا ا آاسانی رام ہونے والے نہیں تھے ۔ عرب اپنی زبان دانی کی بدولت "ا نق دعوت سے ب طریہلی ہے ۔ وہ اس امر سے بھی نت اع مدعا خوب سمجھتے تھے ۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ الوہیت سے مراد حاکمیہلی کے لیے مخصوص گرداننے کے صاف معنی یہ ہیں کہ اقتدار پورے کا آاگاہ تھے کہ الوہیت کو صرف اللہ تعا کماحقہ تحکام کے ہاتھ سے چھین کر اللہ کی طرف لوٹا دیا جائے ۔ ضمیر و پورا کاہنوں، پروہتوں، قبائل کے سرداروں اور امراء و نت زندگی پر، مال و دولت اور عدل و قضاء پر، الغرض ارواح و اجسام پر بہمہ zقلب پر، مذہبی شعائر و مناسک پر، معامل ہلہ الا اللہ" کا اعلzن در حقیقت اس دنیاوی اقتدار کے وجوہ اللہ اور صرف اللہ کا اقتدار ہو۔ وہ خوب جانتے تھے کہ "لا ا خلzف ایک چیلنج ہے جس نے الوہیت کی سب سے بڑی خصوصیت )حاکمیت( کو غصب کر رکھا ہے ، یہ ان تمامتان تمام قوتوں نن بغاوت ہے جو اس قبضۂ غاصبانہ کی بنیاد پر وضع کیے جاتے ہیں، اور zف اعلzقوانین اور نظاموں کے خل

نن جنگ ہے جو خانہ ساز شریعتوں کی بدولت دنیا میں zف اعلzبجاتی ہیں۔ عرب اپنیالملک لمن کوسکے خل تان ہلہ الا اللہ" کے حقیقی مفہوم کو پوری طرح سمجھ رہے تھے آاگاہ تھے اور وہ "لا ا زبان کے نشیب و فراز سے بخوبی سے یہ امر بھی پوشیدہ نہ تھا کہ ان کے خود ساختہ نظاموں اور ان کی پیشوائی اور قیادت کے ساتھ یہ دعوت کیا سلوکتاس تشدد اور غیظ نم انقلzب کا ۔۔۔۔ ناس دعوت کا ۔۔۔۔۔ یا بالفاظ دیگر اس پیا کرنا چاہتی ہے ۔ اسی وجہ سے انہوں نے آارائی کی جس سے ہر خاص و عام واقف ہے ۔ سوال یہ پیدا و غضب کے ساتھ استقبال کیا، اور اس کے خلzف وہ معرکہ ناس دعوت کا ہلہی نے کس بنا پر یہ فیصلہ کیا کہ نت ا ناس انداز سے کیوں ہوا؟ اور حکم آاغاز ہوتا ہے کہ اس دعوت کا

آازمائشوں سے ہو؟ افتتاح ہی مصیبتوں اور

آاغاز کیا رسول اللہ صلعم نے قومیت کے نعرہ سے کیوں نہ کام کا تو اس وقت ہوئے مبعوث لے کر تعالی کی طرف سے دین حق کو اللہ علیہ وسلم جب اللہ اللہ صلی رسول بلکہ نہیں تھے ہاتھوں میں یہ تھی کہ عربوں کے سب سے زیادہ شاداب و زرخیز اور مال دار علzقے عربوں کے حالت دوسری اقوام ان پر قابض تھے ۔ شمال میں شام کے علzقے رومیوں کے زیر نگیں تھے ، جن پر عرب حکام رومیوں کے زیر سایہ حکومت چلz رہے تھے ۔ جنوب میں یمن کا پورا علzقہ اہل فارس کے قبضہ میں تھا، جنہوں نے اپنے ماتحت عرب شیوخ کو فرائض حکمرانی سونپ رکھے تھے ۔ عربوں کے پاس صرف حجاز اور تہامہ اور نجد کے علzقے تھے ۔ یا وہ بے آاب و گیاہ صحرا تھے جن میں اکا دکا نخلستان پائے جاتے تھے ۔ یہ بات بھی محتاج دلیل نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ

نز رسالت سے آاغا نر15علیہ وسلم اپنی قوم میں صادق اور امین کی حیثیت سے معروف تھے ۔ نف قریش حج سال قبل اشراآاپ کے فیصلہ کو بخوشی مان چکے تھے ۔ نسب کے لحاظ آاپ کو اپنا حکم بنا چکے تھے ، اور اسود کے تنازع میں آاپ بنو ہاشم کے چشم و چراغ تھے جو قریش کا معزز ترین خاندان تھا۔ ان حالات و اسباب کی بنا پر یہ کہا سے بھی جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر پوری طرح قادر تھے کہ اپنے ہم وطنوں کے اندر عرب قومیت

52

Page 53: Jada o Manzil Complete

نل عرب کو اپنے گرد جمع کر لیتے جنہیں باہمی جھگڑوں نے پارہ پارہ کر تان قبائ کے جذبہ کو بھڑکاتے ، اور اس طرح تبری طرح پسے ہوئے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر تکشت و خون اور انتقام در انتقام کی چکی میں رکھا تھا اور چاہتے تو ان سب عربوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کر کے انہیں قومیت کا درس دیتے ، اور شمال کے رومی اور جنوبآازاد کرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ، عرب قومیت اور عربیت کا کے ایرانی استعمال کے تسلط سے عرب سرزمین کو

پرچم بلند کرتے اور جزیرۂ عرب کے تمام اطراف و اکناف کو ملz کر متحد عرب ریاست کی داغ بیل ڈالتے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قومی پرستی کے نعرہ کو لے کر اٹھتے تو عرب کا بچہ بچہ

آاپ کو آالام نہ سہنے پڑتے جو آاپ کو وہ مصائب و سال تک صرف اس بنا پر سہنے13اس پر لبیک کہتا ہوا لپکتا، اور آاپ کی دعوت اور نظریہ جزیرۃ العرب کے فرماں رواؤں کی خواہشات سے متصادم تھا۔ ------------------ مزید پڑے کہ آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قومی دعوت کو آاپ میں یہ صلzحیت موجود تھی جب عرب آاں یہ بھی حقیقت ہے کہ برآاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپ دیتے ، اور اقتدار کی جوش و خروش کے قبول کر چکتے ، اور قیادت کا منصب آاپ صلی اللہ علیہ آا جاتیں،ا ور رفعت و عظمت کا تاج آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں تکنجیاں پوری طرح ساری آاپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس بے پناہ طاقت اور اثر کو عقیدہ توحید کا سکہ وسلم کے مبارک سر پر رکھ دیا جاتا تو آاخر لے جا کر رواں کرنے کے لیے استعمال کرتے اور لوگوں کو اپنے انسانی اقتدار کے سامنے سرنگوں کرنے کے بعد بالآاگے سرنگوں کر دیتے ۔ لیکن خدائے علیم و حکیم نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس راستے پر نہیں خدا کے چلzیا۔ بلکہ انہیں حکم دیا کہ صاف صاف اعلzن کر دیں کہ اللہ کے سوا کوئی اللہ نہیں ہے ۔ اور ساتھ ہی متنبہ بھیآاپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اور وہ مٹھی بھر افراد جو اس اعلzن پر لبیک کہیں ہر قسم کی کر دیا کہ اس اعلzن کے بعد

تکلیف و اذیت برداشت کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

قومی نعرے کو اختیار نہ کرنے کی وجہہلی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ہلے نے کیوں منتخب فرمایا؟ ظاہر ہے کہ اللہ تعا آاخر یہ کٹھن راستہ اللہ تعا ان کے اہل ایمان ساتھیوں کے حق میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ تشدد اور ظلم کا نشانہ بنیں۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ اسآاہنگ نہیں ہے ۔ اور نہ یہ کوئی صحیح بات ہوتی کہ مخلوق خدا کے علzوہ اور کوئی راستہ اس دعوت کے مزاج سے ہم

خواہ کوئی ہو وہکے پنجے سے نجات پاکر عربی طاغوت کے پنجہ میں گرفتار ہوجائے ۔ طاغوت رومی یا ایرانی طاغوت ہلی کا ہے ۔ اور اس پر صرف اللہ کا ہی اقتدار قائم ہونا چاہیے ۔ اور اللہ کا اقتدار صرف طاغوت ہی ہے ۔ یہ ملک اللہ تعاہلہ الا اللہ " کا پرچم لہرائے ۔ یہ بات کیوں کر مقبول نا اس صورت میں قائم ہو سکتا ہے کہ اس کی فضاؤں میں صرف " لا عربی ہی پاتے نجات ایرانی طاغوتوں سے اور رومی مخلوق والی بسنے پر زمین کہ خدا کی تھی ہو سکتی اور درست نق غلzمی اپنے گلے میں ڈال لے ۔ طاغوت جس قبا میں بھی ہو وہ طاغوت ہے ۔ انسان صرف خدائے واحد طاغوت کا طو کے بندے اور غلzم ہیں۔ اور وہ صرف اس صورت میں بندے اور غلzم رہ سکتے ہیں کہ ان کی زندگیوں میں صرف اللہ

53

Page 54: Jada o Manzil Complete

ہلہ الا اللہ " کا لغوی لحاظ سے جو مفہوم سمجھتا تھا وہ یہ تھا کہ اللہ کے نا کی الوہیت کا بول بالا ہو۔ ایک عرب " لا سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو، اللہ کے سوا کوئی اور ہستی قانون اور شریعت کا منبع و ماخذ نہ ہو۔ اور انسان کا انسان پر غلبہ و اقتدار باقی نہ رہے کیونکہ اقتدار بہمہ وجوہ اللہ ہی کے لیے ہے ، اور اسلzم انسانوں کے لیے جس " قومیت " کا علمبردار ہے وہ اسی عقیدہ کی بنیاد پر طے ہوتی ہے ۔ تمام اقوام خواہ وہ کسی رنگ و نسل کی ہو، عربی ہوں یا رومی اورآان مے نزدیک اسلzمی ہہی کے تحت مساویانہ حیثیت رکھتی ہیں۔ قر ایرانی، سب کی سب اس عقیدہ کی نگاہ میں پرچم ال

دعوت کا یہی صحیح اور فطری طریق کار ہے ۔

آاپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقتصادی انقلاب کا طریق کار کیوں نہ اختیار کیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت عرب معاشرہ دولت کی منصفانہ تقسیم اور عدل و انصافپر قابض تھا۔ اور بیگانہ ہو چکا تھا۔ ایک قلیل گروہ تمام مال و دولت اور تجارت کے صحت مندانہ نظام سے یکسر تسودی کاروبار کے ذریعہ اپنی تجارت اور سرمائے کر برابر بڑھاتا اور پھیلzتا چلz جا رہا تھا۔ اس کے مقابلے میں ملک کی غالب اکثریت مفلوک الحال اور بھوک کا شکار تھی۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں دولت تھی وہی عزت و شرافت کے اجارہ

دامن تھے اسی طرح عزت و شرافت سے بھی بے بہرہ دار تھے ۔ رہے بیچارے عوام تو وہ جس طرح مال و دولت سے تہی!تھے

اس صورت حال کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اجتماعی تحریک کیوں نہ اتھائی اور دعوت کا مقصد دولت کی منصفانہ تقسیم ٹھیرا کر امراء و شرفا کے خلzف طبقاتی جنگ کیوں نہ چھیڑ دی تا کہ سرمایہ داروں سے محنت کش عوام کو ان کا حق دلواتے ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ

تاس دور میں ایسی کوئی اجتماعی تحریک اور دعوت لیکر اٹھتے تو عرب معاشرہ لازما دو طبقوں میں بٹ جاتا، مگراوسلم اللہ علیہ وسلم کی تحریک کا ساتھ دیتی، اور سرمائے اور جاہ و شرف کی ستم کیشیوں کے آاپ صلی غالب اکثریت آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں وہ معمولی سی اقلیت ہی رہ جاتی جو اپنے پشتنی مال و سامنے ڈٹ جاتی اور جاہ سے چمٹی رہتی۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہج اختیار فرماتے تو زیادہ موثر اور کارگر ہوتا۔ اور یہ صورتآارا ہو جائے ، اور صرف چند نادر روزگار ہستیاں ہلہ الا اللہ " کے اعلzن کے خلzف صف آاتی کہ پورا معاشرہ " لا ا پیش نہ

نت حق کے افق تک پہنچ سکیں۔ ہی دعو کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ صلzحیت بدرجہ کمال موجود تھی کہآاپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نم قیادت آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک سے وابستہ ہو کر اپنی زما جب اکثریت آاپ صلی آاپ صلی اللہ علیہ وسلم دولت مند اقلیت پر قابو پا کر اس کو اپنا مطیع و فرماں بردار بنا چکتے تو دے دیتی اور تاسے قائم و تاس عقیدہ توحید کے منوانے اور اللہ علیہ وسلم اپنے اس منصب و اقتدار کو اور اپنی پوری قوت و طاقت کو

54

Page 55: Jada o Manzil Complete

آاپ آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تھا۔ ہلی نے راسخ کرنے میں استعمال کر لیتے جس کے لیے دراصل اللہ تعاتجھکا دیتے ۔ آاگے تجھکا کر پھر انہیں پروردگار حق کے آاگے صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں کو پہلے انسانی اقتدار کے

تق کار اختیار نہ کرنے کی وجہ ایسا طریآاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طریق کار پر بھی چلنے کی اجازت نہ دی۔ لیکن خدائے علیم و حکیم نے نت اسلzمی کے لیے موزوں و مناسب نہیں ہے ۔ وہ جانتا تھا کہ معاشرے کے اندر نق کار دعو خدا کو معلوم تھا کہ یہ طریہیں جو پھوٹ سکتے ہی نظریہ کے چشمہ صافی سے گیر ہمہ ایسے ایک انصاف کے سوتے صرف اجتماعی حقیقی

نم کار کلیتہ تاس فیصلے کو برضا و رغبت قبول کرتا ہو جو دو لتامعاملzت کی زما اللہ کے ہاتھ میں دیتا ہو اور معاشرہ ہر ہہی سے صادر ہو اور معاشرے کے ہر فرد کے دل میں، نہ ال کی منصفانہ تقسیم اور اجتماعی کفالت کے بارے میں بارگا پانے والے کے دل میں بھی اور دینے والے کے دل میں بھی یہ بات پوری طرح منقش ہو کہ وہ جس نظام کو نافذ کر رہاتاسے نہ صرف دنیا کے اندر فلzح کی امید ہے ، بلکہ ہلی ہے ، اور اس نظام کی اطاعت سے تاس کا شارع اللہ تعا ہے آاز کے جذبات آاخرت میں بھی وہ جزائے خیر پائے گا۔ معاشرے کی یہ کیفیت نہ ہو کہ کچھ انسانوں کے دل حوص و تمام کے معاشرے ہوں۔ رہے جل میں آاگ کی کینہ و حسد دل کے انسانوں دوسرے کچھ اور ہوں، رہے امنڈ سے معاملzت تلوار اور ڈنڈے کے زور پر طے کیے جا رہے ہیں، تخویف اور دھونس اور تشدد کے بل پر فیصلے نافذ کیے جاتان نظاموں کے تحت ہو رہا ہے آاج رہے ہوں، انسانوں کے دل ویران اور ان کی روحیں دم توڑ رہی ہوں ----------- جیسا کہ

جو غیر اللہ کی الوہیت پر قائم ہیں۔

آاغاز کیوں نہ کیا؟ تe اخلاق کی مہم سے دعوت کا آاپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاآاوری کے وقت جزیرۃ العرب کی اخلzقی سطح ہر پہلو سے انحطاط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف

آاخری کنارے تک پہنچی ہوئی تھی۔ صرف چند بدویانہ فضائل اخلzق خام حالت میں موجود تھے ۔ کے ظلم اور جارحیت نے معاشرے کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ جاہلی دور کا نامور شاعر ہنیر ابن ابی

ہمی اسی معاشرتی فساد کی طرف اپنے اس شعر میں حکیمانہ انداز سے اشارہ کرتا ہے :سلہحہ بسلzضومن لم یذ دعن حر

م، ومن لا یظلم الناس یظلم´یھد جو ہتھیار کی طاقت سے اپنا دفاع نہیں کرے گا تباہ و برباد ہو گا۔ اور جو خود بڑھ کر لوگوں پر ظلم نہیں

آاخر( ظلم کا شکار ہو جائے گا۔ کرے گا تو وہ خود )بال

55

Page 56: Jada o Manzil Complete

تاو تصرا خاک ظالما اسی خرابی کی طرف جاہلی دور کا یہ مشہور و معروف مقولہ بھی اشارہ کرتا ہے کہ : انتاس پر ظلم ہو رہا ہو۔ 26( مظلوما )اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظلم کر رہا ہو یا

تجوا بازی معاشرتی زندگی کی روایت بن چکے تھے ، اور ان پر فخر کیا جاتا تھا۔ جاہلی دور شراب خوری اور :کی تمام شاعری خمر اور قمار کے محور پر گھومتی ہے ۔ طرفہ ابن العبد کہتا ہے فلو لا ثلzث ھن من عیشۃ الفتی

ام عودیقوجدک لم احفل متی فمنھن سبقی العاذلات بشربۃتت متی ما تعل بالماء تزبد کمیوما زال تشرابی الخمور ولذتیوبذلی وانفاقی طریفی و تالدی

العشیرۃ کلھاان تحامتنی یالدو افردت افراد البعیر المعب

اگر تین چیزیں جو ایک نوجوان کی زندگی کا لازمہ ہیں نہ ہوتیں، تو مجھے کسی چیز کی پروا نہ.1ند رمق غذا ملتی رہتی۔ رہتی بشرطیکہ مجھے تابس

آاتشہ جس.2 نمے بھی وہ دو ان میں سے ایک میرا اپنے رقیبوں سے مے نوشی میں سبقت لے جانا ہے اور آا جائے ۔ تاس پر کف میں اگر پانی ملzیا جائے تو

آاج بھی.3 شراب نوشی، لذت پرستی اور بذل و اسراف پہلے بھی میری گھٹی میں پڑے ہوئے تھے اور ہیں۔

آا گیا کہ میرا پورا قبیلہ مجھ سے دور ہٹ گیا۔اور مجھے الگ تھلگ کر دیا گیا۔ جیسے.4 آاخر وہ دن خارش زدہ اونٹ کو گلے سے الگ کر دیتے ہیں۔

زنا کاری مختلف شکلوں میں رائج تھی۔ اور اس جاہلی معاشرے کی قابل فخر روایت بن چکی تھی۔ یہ ایکند حاضر کا نر قدیم کا جاہلی معاشرہ ہو یا عہ آاتا ہے ۔ خواہ وہ دو ایسا حمام ہے جس میں ہر دور کا جاہلی معاشرہ ننگا نظر

:)نام نہاد مہذب معاشرہ(۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جاہلی معاشرے کی حالت ان الفاظ میں بیان کی ہے آاج لوگوں میں جاری ہے ۔ یعنی ایک" جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں : ایک تو وہ صورت تھی جو

تاس کا مہر ادا آادمی دوسرے شخص کو اس کی بیٹی یا اس کی تولیت میں رہنے والی دوشیزہ کے لیے پیغام نکاح دیتا اور

آاپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں واضح کر دیا 26 آانحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بھی یہ ٹکڑا وارد ہوا ہے ۔ مگر تاسے ظلم سے روکنا ہے )مترجم(۔ ہے کہ ظالم کی مدد سے مراد

56

Page 57: Jada o Manzil Complete

تاس سے نکاح کر لیتا۔ نکاح کی دوسری صورت یہ تھی کہ مرد اپنی بیوی سے ، جب کہ وہ حیض سے پاک ہو کر کے تاسے تاس وقت تک تاس سے پیٹ رکھوا۔ چنانچہ وہ خود اس سے الگ رہتا، تبلz اور چکی ہوتی، کہتا کہ فلzں شخص کو آاثار ظاہر ہو جانے کے بعد خاوند اگر چاہتا تو اس سے آاثار ظاہر نہ ہو جاتے ۔ آادمی کے حمل کے تاس نہ چھوتا جب تک تاسے اچھے نسب کا لڑکا ملے ۔ نکاح کی اس شکل کو استبضاع ہمبستری کر لیتا۔ وہ یہ طریقہ اس لیے اختیار کرتا تا کہ کہا جاتا تھا۔ نکاح کی ایک تیسری صورت بھی تھی۔ مردوں کی ایک ٹولی جو دس سے کم ہوتی جمع ہو جاتی اور ملتاسے حمل ٹھیر جاتا تو بچے کی ولادت پر چند راتیں گزر تاس سے مقاربت کرتی۔ جب کر ایک عورت کے پاس جاتی، تبلzوا ملنے پر کوئی شخص جانے سے انکار نہ کر سکتا تھا۔ جب وہ تبلz بھیجتی۔ اس طرح تان سب کو جانے کے بعد تان سے کہتی : تمہیں اپنی کاروائی کا نتیجہ تو معلوم ہو ہی چکا ہے ۔ میں تاس کے پاس جمع ہو جاتے ، تو وہ عورت تاس نے ایک بچہ جنا ہے ۔ پھر وہ ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کر کے کہتی کہ یہ تیرا بیٹا ہے ۔ اس پر بچے کا نام تاس کی طرف منسوب ہو جاتا۔ اور وہ اس نسبت سے انکار نہ کر سکتا تھا۔ نام پر رکھ دیا جاتا اور لڑکا شخص کے نکاح کی چوتھی قسم یہ تھی کہ بہت سے لوگ جمع ہو جاتے ، اور مل کر ایک عورت کے پاس جاتے ۔ جس کے پاس جانے میں کسی کو کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تھی۔ دراصل یہ پیشہ ور فاحشہ عورتیں ہوتی تھیں اور علzمت کے طور پر اپنے دروازوں پر جھنڈے نصب کر لیتیں۔ جو شخص بھی اپنی حاجت پوری کرنا چاہتا ان کے پاس چلz جاتا۔ ایسی عورتوںتاس کے پاس اکٹھے ہو جاتے اور ایک قیافہ میں سے اگر کسی کو حمل ٹھیر جاتا تو وضع حمل کے بعد سارے لوگ تاس لڑکے کو منسوب کرتا وہ لڑکا اس شخص کا قرار پاتا اور وہ اس تبلz لیتے ۔ وہ ان میں سے جس کی طرف شناس کو

سے انکار نہ کر سکتا۔" )بخاری کتاب النکاح(۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ایک اصلzحی تنظیم کے قیام کا اعلzن کرنح کے اس کے ذریعہ اصلzح اخلzق، تزکیہ نفوس اور تطہیر معاشرہ کا کام شروع کر دیتے ۔ کیونکہ جس طرح ہر مصلآاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اخلzق کو اپنے ماحول کے اندر چند پاکیزہ اور سلیم الفطرت نفوس ملتے رہے ہیں، اسی طرح تدکھ بھی ایک ایسا پاک سرشت گروہ بایقین دستیاب ہو جاتا جو اپنے ہم جنسوں کے اخلzقی انحطاط اور زوال پر دلی نت تطہیر و آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعو نت طبع کے پیش نظر محسوس کرتا۔ یہ گروہ اپنی سلzمتی فطرت اور نفاستاٹھاتے تو بڑی ہا لبیک کہتا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام کا بیڑا اصلzح پر لازماور اخلzقی طہارت اپنی یہ جماعت ۔ جاتے ہو کامیاب میں تنظیم کی ایک جماعت انسانوں کی اچھے آاسانی سے روحانی پاکیزگی کی وجہ سے دوسرے انسانوں سے بڑھ کر عقیدہ توحید کو قبول کرنے اور اس کی گرانبار ذمہ داریوں کوآاپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ یہ دعوت کہ الوہیت صرف خدا آاغاز سے برداشت کرنے کے لیے تیار ہوتی۔ اور اس حکیمانہ

کے لیے مخصوص ہے ، پہلے ہی مرحلہ میں تند و تیز مخالفت سے دوچار نہ ہوتی۔

اس طریقہ میں کیا کمزوری تھی؟

57

Page 58: Jada o Manzil Complete

تعمیر اخلzق کی تھا کہ معلوم تاسے نہیں جاتا۔ منزل مقصود کو بھی راستہ یہ تھا کہ ہلی جانتا تعا اللہ لیکن فراہم قبول و رد معیار اور اقدار اخلzقی ایک طرف ایسا عقیدہ جو ایک ۔ ہے ہو سکتی ہی پر بنیاد صرف عقیدہ کی

تاس "طاقت" ) اقدار و معیار ماخوذ ہوں۔ اورEnergyکرے ، اور دوسری طرف یہ تعین بھی کرے جس سے ( کا تاس جزا و سزا کی نشاندہی بھی کرے جو ان اقدار و معیارات کی پابندی یا ان کی انہیں سند کا درجہ حاصل ہو۔ اور تاس "طاقت" کی طرف سے دی جائے گی۔ دلوں پر اس نوعیت کے عقیدہ کی ترسیم اور خلzف ورزی کرنے والوں کو

تمسلسل تغیر کا نشانہ بنے رہیں گے اور ان کیابالاتر قوت کے تصور کے بغیر اقدار و معیار ت خواہ کتنے ہی بلند پایہ ہوں نہ ہو گا، کوئی نگران اور بنیاد پر جو بھی اخلzقی نظام قائم ہو گا وہ ڈانواں ڈول رہے گا۔ اس کے پاس کوئی ضابطہ

محتسب طاقت نہ ہو گی، کیونکہ دل جزا و سزا کے کسی لالچ یا خوف سے بالکل خالی ہوں گے ۔

ہمہ گیر انقلابتاتر تاس " طاقت " کا تصور بھی دلوں میں آازما کوششوں سے جب عقیدہ الوہیت دلوں میں راسخ ہو گیا، اور صبر گیا جس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں عقیدہ کو سند حاصل ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے لفظوں میں جب انسانوں نے اپنےتاسی کی بندگی کرنے لگے ، جب انسان خواہشات نفس کی غلzمی سے ، اور اپنے ہی رب کو پہچان لیا اور صرف

تمر ہلہ الا اللہ " کا نقش دلوں میں پوری طرح آازاد ہو گئے ، اور " لا ا آاقائی سے سم ہو گیا توقجیسے دوسرے انسانوں کی ہلے نے اس عقیدہ اور عقیدہ کے ماننے والوں کے ذریعہ وہ سب کچھ فراہم کر دیا جو وہ تجویز کر سکتے تھے ۔ اللہ تعا خدا کی زمین رومی اور ایرانی سامراج سے پاک ہو گئی، لیکن اس تطہیر کا مدعا یہ نہیں تھا کہ اب زمین پر عربوں کا سکہ رواں ہو بلکہ اس لیے کہ اللہ کا بول بالا ہو، چنانچہ زمین خدا کے سب باغیوں سے ، خواہ وہ رومی تھے یا ایرانی اور

عربی، پاک کر دی گئی۔تلوٹ کھسوٹ سے بالکل پاک تھا۔ یہ اسلzمی نظام تھا اور اس میں عدل نیا اسلzمی معاشرہ اجتماعی ظلم اور ہہی میں ہر خوب و زشت اور صحیح غلط کو تولا جاتا تھا۔ اس عدل ہہی پوری طرح جلوہ گر تھا۔ یہاں صرف میزان ال ال اجتماعی کی بنیاد توحید تھی اور اس کا اصطلzحی نام "اسلzم" تھا۔ اس کے ساتھ کسی اور نام یا اصطلzح کا اضافہ

ہلہ الا اللہ تاس پر صرف یہ عبارت کندہ تھی " لا ا "کبھی گوارا نہیں کیا گیا۔ !سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے

آا گیا۔ قلوب و ارواح کا تزکیہ ہو گیا۔ اور یہ اصطلzح اس انداز سے ہوئی کہ چند نفوس اور اخلzق میں نکھار ہلی نے قائم فرمایا تھا۔ آائی جن کو اللہ تعا تان حدود و تعزیرات کے استعمال کی نوبت ہی نہ ہنی مثالوں کو چھوڑ کر مستثس اس لیے کہ اب ضمیروں کے اندر پولیس کی چوکیاں قائم ہو گئیں۔ اب خدا کی خوشنودی کی طلب، اجر کی خواہش،تمحتسب کا فرض انجام دے رہا تھا۔ الغرض انسانی نظام، انسانی اخلzق اور انسانی خدا کے غضب اور عذاب کا خوف

58

Page 59: Jada o Manzil Complete

آاج تک پہنچ سکی نر اول کے بعد زندگی کمال کی اس بلندی تک پہنچ گئی جس تک نہ پہلے پہنچی تھی، اور نہ صدہے ۔

یہ انقلاب عظیم کیسے برپا ہوا؟نل انسانیت صرف اس بنا پر حاصل ہوا کہ جن لوگوں نے دیننیہ انقلzب حق کو ایک ریاست،ن عظیم اور کما

ایک نظام اور جامع قانون و شریعت کی شکل میں قائم کیا تھا وہ خود پہلے اسے اپنے قلب و ضمیر اور اپنی زندگی میںآاراستہ و پیراستہ کر قائم کر چکے تھے ۔ اسے عقیدہ و فکر کے طور پر تسلیم کر چکے تھے ۔ اپنے اخلzق کو اس سے چکے تھے ، اپنی عبادات میں اسے سند دے چکے تھے اور اپنے معاملzت میں اس کا سکہ رواں کر چکے تھے ۔ اس دین کے قیام پر ان سے صرف ایک ہی وعدہ کیا گیا تھا۔ اس وعدہ میں غلبہ و اقتدار عطا کر دینے کا کوئی جز شامل

تجز بھی شامل نہ تھا کہ یہ دین لازم��������� ہی کہ یہ انہی کے ہاتھوں غالب ہو گا۔ ان سے جو کچھ کہا گیا وہاا نہیں تھا۔ حتگداز زہرہ جو کیا۔ نے لوگوں ان جہاد آازما صبر جو گی۔ ملے جنت انہیں عوض کے دین نت اقام کہ تھا اتنا صرف آاخر جس طرح آازمائشیں انہوں نے سہیں۔ جس پامردی و استقامت کے ساتھ وہ راہ دعوت پر رواں دواں رہے اور پھر بالہلہ الا اللہ" کے اندر پنہاں ہے اور جوہر زمان و ہی کا ساتھ دیا جو "لا ا تکبر نت انہوں نے جاہلیت کے مقابلے میں اس حقیقتان سے صرف ایک وعدہ کیا گیا مکان کے فرماں رواؤں کے لیے ناگوار رہی ہے ----------- ان سب خدمات کے عوض

!ۂفرداجس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ۔ یعنی فقط وعدآازمائش کی بھٹی میں ڈالا اور وہ ثابت قدم رہے اور ہر نفسانی خواہش اور حظ سے ہلی نے انہیں جب اللہ تعاہلی نے جان لیا کہ وہ اس دنیا کے اندر اب کسی طور جزا اور صلہ کے منتظر نہیں دست بردار ہو گئے ، اور جب اللہ تعا

لازما یہ دعوت انتظار ہے کہ نہ انہیں اس کا یہ دین انہی کی قربانیوں اوراہیں، ہاتھوں غلبہ حاصل کرے اور انہی کے آاباؤ اجداد کا تفاخر باقی رہا، نہ قومی گھمنڈ کے جراثیم۔ نہ وطن و کوششوں سے بالا و برتر ہو۔ ان کے دلوں میں نہ ہلی نے انہیں ان خوبیوں سے تخو بو رہی۔ پس جب اللہ تعا ملک کی بڑائی کا جذبہ رہا اور نہ قبائلی اور نسبی عصیبتوں کی نت ارضی( کے بار کو ہمی" )یعنی خلzف نت عظ تان کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ یہ لوگ اب "امان آاراستہ دیکھا تب جا کر اٹھا سکتے ہیں۔ یہ اس عقیدے میں کھرے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ ہر طرح کی حاکمیت صرف خدائے واحد کے لیے مخصوص ہو، دل و ضمیر پر، اخلzق و عبادات پر، جان و مال پر اور حالات و ظروف پر صرف اسی کی حاکمیت ہو۔تاس سیاسی اقتدار کے سچے محافظ ثابت ہوں گے جو ان کے ہاتھوں میں اس غرض کے لیے دیا خدا کو معلوم تھا کہ یہ ہہی کو قائم کریں۔ مگر اس اقتدار میں سے ان کی اپنی ذات کے نل ال ہہی کو نافذ کریں اور عد نت ال جائے گا تا کہ شریعہلے کے لیے خالص ہو اور لیے یا اپنے قبیلے اور برادری کے لیے یا اپنی قوم کے لیے کوئی حصہ نہ ہو۔ بلکہ وہ سراسر اللہ تعا اللہ کے دین اور اس کی شریعت کی خدمت کے لیے ہو۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس اقتدار کا منبع صرف اللہ ہے اور

تان کی تحویل میں دیا ہے ۔ تاسی نے

59

Page 60: Jada o Manzil Complete

نظام حق کی کامیابی کا واحد راستہ اگر دعوت اسلzمی کا قافلہ اس انداز سے روانہ سفر نہ ہوتا، اور دوسرے تمام جھنڈوں کو پھینک کر صرف اسیہ الا اللہ کے پرچم توحید ------------- کو بلند نہ کرتا اور اس راہ کو اختیار نہ کرتا جو ظاہر ہل جھنڈے -------- یعنی لا اپاکیزہ نظام کو آاسان اور برکت بداماں تھی تو اس مبارک اور تگسل راہ تھی مگر حقیقت میں میں دشوار گزار اور جان

ناسی طرح اگر یہ دعوت اپنے ابتدائی مراحل میںوک آا سکتا تھا۔ ئی جز بھی اتنے بلند معیار کے ساتھ ہر گز بروئے عمل نہ ہلہ آاتی، یا اقتصادی تحریک کے لبادہ میں ظاہر ہوتی یا اصلzحی مہم کا قالب اختیار کرتی یا "لا ا قومی نعرہ بن کر سامنے الا اللہ" کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے شعار اور نعرے بھی شامل کر لیتی تو یہ پاکیزہ و مبارک نظام جو اس دعوت کے

نتیجے میں قائم ہوا کبھی خالص ربانی نظام بن کر جلوہ گر نہ ہو سکتا۔ناسی شان و شوکت کا حامل ہے ۔ یہ دور قلوب و اذہان پر اللہ کی الوہیت کی نقش آان حکیم کا مکی دور قر ثبت کرتا ہے ، انقلzب کے فطری راستے کی تعلیم دیتا ہے خواہ اس میں بظاہر کتنی ہی دشواریوں اور صعوبتوں کا سامنا ہو

ارادہ ہو، وہ ہر حال میںپر اور دوسری "پگڈنڈیوں" انہیں اختیار کرنے کا پر جانے سے منع کرتا ہے خواہ عارضی طور صرف فطری راستے پر گامزن رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔

ابتدائے دعوت میں جزوی مسائل کو کیوں نہ چھیڑا گیانن حق کے لیے قابل غور ہے کہ اس نے مکی زندگی میں صرف یہ پہلو بھی داعیا آان حکیم کا اسی طرح قرنم زندگی کی ان تفصیلzت کو نہیں چھیڑا جو اس عقیدہ کے تقاضے عقیدہ ہی پر اپنی ساری بحث کو مرکوز رکھا اور نظا

نت زند zی کی تنظیمگمیں مترتب ہوتی ہیں اور نہ ان قوانین و احکام سے بحث کی جو اس عقیدہ کی روشنی میں معامل کرتے ہیں۔

آان مکی زندگی میں صرف عقیدہ کے مسئلہ تک اپنی تاس کا یہ تقاضا تھا کہ قر دراصل اس دین کا جو مزاج ہے نم معاشرت نم قانون اور نظا ہلہ کے نظریہ پر قائم ہے ۔ اس کا پورا نظا نا نت دعوت کو محدود رکھتا۔ ظاہر ہے کہ پورا دین وحدتاس بلند و بالا اور تناور درخت کی سی ہے جس کا سایہ گھنا اور اسی بنیادی نظریے سے ماخوذ ہے ۔ اس دین کی مثال

تدور تک پھیلz ہوا ہو، جس کی شاخیں باہم آاسمان سے باتیں کرتی ہوں۔ ایسا درخت قدرتی طور پردتدور گر پیوست اور تاتارتا ہے اور انہیں دور دور حصوں تک پھیلzتا ہے ۔ اپنی ضخامت اور پھیلzؤ کے مطابق اپنی جڑیں زمین کی گہرائیوں میں بعینہ یہی اس دین کا حال ہے ۔ اس کا نظام زندگی کے ہر گوشے پر حاوی ہے ۔ انسانیت کے ہر چھوٹے اور بڑے معاملے

آاخرت میں بھی کرتا ہے ، عالم شہودنسے بحث کرتا ہے ، انسانی زندگی کی تنظیم صرف دنیا کے اندر ہی نہیں بلکہ غیب کے مسائل بھی حل کرتا ہے اور صرف ظاہری اور مادی معاملzت میں ہی دخل نہیں دیتا بلکہنہی کے نہیں عالم

ضمیر کی بے پایاں گہرائیوں اور دلوں کے مخفی ارادوں اور نیتوں کے غیر مرئی تموج سے بھی تعرض کرتا ہے اور انہیں

60

Page 61: Jada o Manzil Complete

درست کرتا ہے ۔ ------------- یہ دین ایک قوی ہیکل، وسیع الاطراف اور فلک پیما عمارت ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس کیبنیادوں کا پھیلzؤ اور گہرائی بھی اسی وسعت اور ضخامت کے مطابق ہونی چاہیے ۔

تاس کے مزاج کا یہی پہلو خود دین کی تعمیر و توسیع کے بارے میں اس کے مخصوص دین کی حقیقت اور تاسے طریق کار کی نشان دہی کرتا ہے ۔ یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ دلوں کے اندر پہلے عقیدہ کی داغ بیل ڈالنا اور پھر تاسے پوری اچھی طرح مستحکم و راسخ کرنا یہاں تک کہ یہ عقیدہ روح انسان کے کونے کونے میں سرایت کر جائے اور طرح اپنے احاطے میں لے لے صحیح نشو و نما کے لیے ناگزیر ضرورت ہے ۔ اسی طریقہ سے دین کے تناور درخت کے

تاس حصے کے درمیان جو جڑوں کی شکل و صورت میں زمین کیصاس ح ے کے درمیان جو فضاؤں میں موجود ہے اور آاہنگی پیدا کرتا ہے ، بلکہ ان جڑوں کو وہ قوت بھی بخشتا ہے جو ظاہری حصہ کا گہرائیوں میں پوشیدہ ہے ، ناگزیر ہم

بوجھ برداشت کرنے کے لیے ضروری ہے ۔نم زندگی ہلہ الا اللہ" کا عقیدہ دل کی گہرائیوں میں گھر کر لیتا ہے تو اس کے ساتھ ہی وہ پورا نظا جب "لا ا بھی سرایت کرتا جاتا ہے جو اس عقیدہ کی عملی تفسیر ہے ۔ جس سے یہ بات خود بخود متعین ہو جاتی ہے کہ یہی وہ واحد نظام ہے جس پر اس عقیدہ کے حامل نفوس راضی ہو سکتے ہیں۔ اور پیشتر اس کے کہ اس نظام کی تفصیلzت انآاگاہ کیا جائے ، وہ پہلے ہی اصولی طور پر ان نظام کے سامنے پیش کی جائیں۔ اور اس کے قوانین و احکام سے انہیں آاگے سرافگندہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پہلz قدم ہی بے چون و چرا اطاعت، اور غیر کے

آایا تو ان نفوس قدسیہ نے ایسے ہیتمشروط تاٹھے ۔ چنانچہ مکی دور کے بعد جب مدینہ کا دور سلیم کے جذبہ سے تان کے آان نے وقتا فوقتا تان تمام قوانین اور اصلzحات کا استقبال کیا جو قر نق سرافگندگی کے ساتھ جذبہ تسلیم اور شو

تادھر فرمانآایاسامنے پیش کیں۔ جوں ہی کوئی حکم جاری ہوا، سر جھک گئے اور کسی زبان پر کوئی کلمہ اعتراض نہ ۔ تسود کی کانوں میں پڑا اور ادھر عمل کا جامہ پہنا دیا گیا۔ کہیں لیت و لعل کو راہ نہ ملی۔ شراب حرام قرار دی گئی، تجوئے بازی ممنوع قرار پائی، الغرض جاہلی دور کے تمام رسوم و رواج پامال ہو گئے --------- مگر کس حرمت نازل ہوئی،

آایات کے ذریعہ یا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے مجر آان کی چند چند کلمات کےدطرح؟ صرف قر دور سے ۔ اس کے مقابلے میں دنیاوی حکومتوں کو دیکھیے ، وہ ان میں سے ہر ہر چیز کو ختم کرنے کے لیے قانونص�����

آاتے ہیں، فوج اور پولیس کو استعمال کیا جاتا ہے کا سہارا لیتی ہیں، قانون سازی کرتی ہیں اور انتظامی ادارے حرکت میں ، اختیارات کے ترکش خالی کیے جاتے ہیں، پروپگنڈا اور پریس کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں مگر اس سب کچھتجوں کا کے باوجود وہ اعلzنیہ خلzف ورزیوں پر گرفت سے زیادہ کچھ نہیں کر پاتیں۔ اور معاشرہ منکرات اور محرمات سے

27تتوں لبریز رہتا ہے ۔

آان" کی پانچویں جلد ص 27 ملzحظہ ہو۔ اور شراب85 تا 78اسلzم میں شراب کیسے حرام کی گئی، اس پر مفصل بحث " فی ظلzل القر ماذا خیر العالم الاسلzمی بانحطاط"کی بندش میں امریکہ کس طرح بے بس نکلz، اس کی تفصیل مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب :

61

Page 62: Jada o Manzil Complete

عملی اور حقیقت پسند دینتاس نل غور ہے اور وہ کدین کے مزاج کا ایک اور پہلو بھی، جس کی جھلک ے پاکیزہ نظام میں ملتی ہے قاب

zآایا ہےایہ ہے کہ یہ دین ایک ٹھوس اور عملی تحریک کا لائحہ عمل ہے ۔ انسانی زندگی پر عمل حکمرانی کرنے کے لیے تان کے بارے میں اپنا رویہ متعین کرے ۔ انہیں برقرار رکھے یا ان میں ۔ چنانچہ وہ عملی حالات کا سامنا کرتا ہے تا کہ

تان حالات کے لیے ہوتی ہے جو بالفعلاترمیم کرے یا انہیں کلیتہ تاس کی تمام تر قانون سازی صرف بدل دے ۔ لہذا تاس معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو اصولی طور پر خدائے واحد کی حاکمیت کو تسلیم کر چکا موجود ہوتے ہیں، اور ہوتا ہے ۔ درحقیقت یہ دین کسی "نظری فلسف" کا نام نہیں ہے جو محض "مفروضات" پر اپنا ڈھانچہ استوار کرتا ہو۔ بلکہ یہ ایک "عملی نظام" ہے جو عمل اور حرکت کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ پہلے وہ مسلمہی خدا کے سوا کسی کو یہ عہد کرتا ہو کہ حاکمیت اعل اقرار کرتا ہو اور الوہیت کا آائے جو عقیدہ معاشرہ وجود میں تاس قانون کے جواز کو چیلنج کرتا ہو جو حاصل نہیں ہے ۔ غیر اللہ کی حاکمیت کی وہ صاف صاف نفی کرتا ہو اور ہر آا جاتا ہے اور اسے بالفعل مختلف عملی مسائل سے سابقہ عقیدہ الوہیت پر مبنی نہ ہو۔ اس نوع کا معاشرہ جب وجود میں تاس وقت یہ دین احکام و قوانین کی تدوین اور نظام تاسے ایک نظام اور قانون کی ضرورت لاحق ہوتی ہے تو آاتا ہے اور پیش آاغاز کرتا ہے ۔ اور اپنے پیش نظر وہ لوگ رکھتا ہے جو اصولی طور پر شروع ہی سے اس کے ہر و ضوابط کی تشکیل کا

ٹھکرا چکے ہوتے ہیں۔اقانون اور ہر ضابطے کو مان چکے ہوتے ہیں اور دوسرے تمام ضوابط و قوانین کو اصولا

اسے نافذ کرنے کے لیے طاقت کی ضرورت ہے اقتدار اور غلبہ انہیں معاشرے میں اور ماننے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود مختار ہوں اس عقیدہ کے

تجملہ احکام جاری و ساری کر سکیں۔کو حاصل ہو جس کے بل بوتے پر وہ معاشرے کے اندر اس نظام کو اور اس کے آاور ہو سکیں۔ علzوہ ازیں تا کہ یہ نظام اپنی پوری ہیبت و شکوہ کے ساتھ جلوہ گر اور اس کے احکام صحیح طور پر بار معاشرے کو جب روزمرہ کے عملی مسائل سے واسطہ پڑے گا تو ان سے نپٹنے کے لیے بھی احکام و قوانین کی ضرورت

محسوس ہو گی۔ اس ضرورت اور تقاضے کو پورا کرنے کے لیے سیاسی قوت ناگزیر ہے ۔ مکی زندگی میں مسلمان خود مختار نہ تھے اور اپنے معاشرے میں بھی انہیں کوئی اقتدار حاصل نہ تھا۔ انہہی کے تحت منظم نت ال تجداگانہ شکل بھی اختیار نہیں کی تھی کہ اسے وہ شریع کی عملی زندگی نے ابھی مستقل اور تان کے لیے کوئی انتظامی ضابطے اور عمومی قوانین نازل نہیں ہلی کی طرف سے بھی اس دور میں کرتے ۔ چنانچہ اللہ تعانہ خداوندی سے جو کچھ عطا ہوا وہ عقیدہ اور صرف عقیدہ تھا یا اس عقیدہ کے رگ و تانہیں درگا تاس دور میں ہوئے ۔ تان کی ایک تاترنے کے بعد اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اخلzق عالیہ تھے ۔ لیکن جب مدنی زندگی میں پے میں

ہی مودودی کی کتاب "تنقیحات" مط ہ اسلzمک پبلیکیشنز لمیٹڈ کے حوالے سےعوب��������المسلمین" میں دیکھیے جو انہوں نے مولانا ابو الاعل(نقل کی ہے ۔ )مصنف

62

Page 63: Jada o Manzil Complete

تان پر زندگی کا عام ضوابط و احکام کا نزول بھی شروع ہلی کی طرف سے آا گئی تو اللہ تعا خود مختار ریاست وجود میں آا گیا جو مسلم معاشرے کی عملی ضروریات کو بخوبی پورا کرتا تھا۔ۂہو گیا۔ اور ان کے لیے وہ نظام منص����������� شہود پر

تپشت پناہ اور قوت نافذہ تھی۔(Sanction)ریاست کی طاقت اس کی ہلی نے یہ نہیں پسند فرمایا کہ تمام ضوابط و قوانین مکہ کے اندر ہی نازل کر دیے جاتے تاکہ مسلمان اللہ تعا "تیار حالت" میں ان کا ذخیرہ کر کے رکھ لیتے اور مدینہ میں منتقل ہونے کے بعد جوں ہی اسلzمی ریاست کا قیام عملنج دین کے منافی ہے ۔ یہ دین اس طرح کی احتیاطی نق کار مزا آاتا، انہیں فی الفور نافذ اور جاری کر دیا جاتا۔ یہ طری میں تدابیر سے کہیں زیادہ عملی اور کہیں زیادہ دور اندیش ہے ۔ اس کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ فرضی مسائل کے لیے فرضینت احوال کا جائزہ لیتا ہے ۔ اور اگر یہ دیکھتا ہے کہ فی حل تلzش کرنے میں وقت ضائع کرے ۔ بلکہ وہ قائم شدہ صور الواقع ایک ایسا زندہ اور توانا معاشرہ موجود ہے ، جو اپنے قالب و شکل کے اعتبار سے اور اپنے حالات و مسائل کےہہی شرائع سے بے زار ہے ۔ تو ایسی ہہی کے سامنے سرنگوں ہو چکا ہے اور غیر ال نت ال تمسلم معاشرہ ہے ، شریع لحاظ سے صورت میں بے شک یہ دین اس معاشرے کے حالات و ضروریات کے مطابق قوانین وضع کر کے ان کے نفاذ کا مطالبہ

کرتا ہے ۔

اسلامی قانون کی پیشگی تشکیل لاحاصل ہے آاج اسلzم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پہلے وہ اپنے نظریات مدون کرے ، اپنے نظام کا ڈھانچہ تیار جو لوگ آاتا کرے ، اپنے قوانین حیات کا دفتر تیار کرے ، حالانکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ روئے زمین پر کہیں ایسا معاشرہ نظر نہیں نم حکومت دے رکھی ہو ہہی کے ہاتھ میں اپنی زما جس نے دوسرے تمام انسانی قوانین کو مسترد کر کے بالفعل شریعت التاسے وہ اختیارات بھی حاصل ہوں، جن کے بل پر اس کے قوانین کو نافذ کیا جا سکے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اور

آاشنا ہیں اور زندگی کی بے کراں پنہا یوںئاسلzم سے اس قسم کا مطالبہ کرنے والے درحقیقت اس دین کے مزاج سے ناہلے میں دین کے عملی کردار سے ناواقف ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ دین کی عملی تنفیذ سے اللہ تعا کی منشا کیا ہے ؟ درحقیقت ایسا مطالبہ کرنے والے حضرات کی اصل خواہش یہ ہے کہ یہ دین اپنی فطرت سے منحرفنق کار تج دے ، اپنی تاریخ بدل ڈالے ، اور عام انسانی نظریات اور انسانی شریعتوں کی سطح پر ہو جائے ، اپنا اصل طریتان کی کوشش یہ ہے کہ یہ اپنی فطری شاہراہ اور فطری مراحل کونظر انداز کر کے کوئی مختصر راستہ اختیار کر آائے ۔ تاتر پیدائش کا سبب وہ تا کہ ان کی فوری اور عارضی خواہشات کی تسکین ہو سکے اور خواہشات بھی وہ جن کی لے نفسیاتی شکست ہے جو گھٹیا اور بے بضاعت انسانی قوانین کے مقابلے میں ان پر طاری ہو چکی ہے ۔ بایں ہمہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ دین بھی مجرد نظریات اور مفروضات کا مجموعہ بن کر رہ جائے جن کا موضوع بحث ایسے حالات وتاسی طرح نافذ ہو جس طرح پہلے نافذ ہوا تھا۔ ہلی کا منشا یہ ہے کہ یہ دین وقائع ہوں جن کا وجود عنقا ہو۔ مگر اللہ تعاپر اپنی سلطانی قائم تاترے اور قلب و ضمیر پہلے اسے بطور عقیدہ تسلیم کا جائے جو دل و دماغ کی گہرائیوں میں

63

Page 64: Jada o Manzil Complete

آاگے نہ کرے ۔ پھر اس عقیدہ کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ اس کا اولین تقاضا یہ ہے کہ انسان خدا کے سوا کسی کے جھکیں۔ خدا کے ماسوا کسی ہستی سے قوانین حیات اخذ نہ کریں۔ جب اس عقیدہ کی حامل ایک جماعت تیار ہوتاسے عملی غلبہ نصیب ہو جائے تو اس عقیدے کی روشنی میں ایسے تمام قوانیں بنتے رہیں گے جو جائے اور معاشرے پر اس جماعت یا معاشرے کی عملی ضروریات کو پورا کریں اور اس کی عملی زندگی کی تنظیم کریں۔ یہ ہے اس دین کےنل قبول نہیں ہو سکتا قیام کا صحیح طریقہ جو اللہ کو پسند ہے ۔ اللہ کے پسندیدہ طریقہ کے علzوہ کوئی اور طریقہ ہرگز قاب

خواہ لوگ کتنی ہی خواہشیں کریں اور کتنے مطالبات پیش کریں۔

تت دین کا صحیح طریقہ اقاماا اور تجدید ناس بنا پر دعوت اسلzمی کے علمبرداروں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جب لوگوں کو دین کے احیآاپ کو تان سے پہلz مطالبہ یہ کریں کہ وہ اسلzم کے بنیادی عقیدہ کا اقرار کریں۔ وہ لوگ چاہے اپنے کی دعوت دیں تو تان کے مسلمان تان کے پیدائش کے سرٹیفکیٹ بھی مسلمان کہتے ہوں، انہوں نے مسلمانوں کے سے نام رکھ رکھے ہوں، نت اسلzمی کے علمبردار پہلے ان مسلمانوں کو یہ سمجھائیں کہ "اسلzم" جس ہونے کی شہادت دیتے ہوں۔ بہرحال دعوہلہ الا اللہ کو اس کے حقیقی مفہوم کے ساتھ تسلیم کیا جائے ۔ حقیقت کا نام ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے عقیدہ لا اہلی کی حاکمیت میں دیں اور جو لوگ اللہ کی اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر معاملہ صرف اللہ تعاتردید کریں۔ ان کے اس دعوے کی ہی کریں، لیے اس حاکمیت کا دعو اپنی ذات کے بغاوت کر کے حاکمیت سے آاتا ہے کہ یہ عقیدہ ماننے والے کے دلوں اور دماغوں عقیدہ اسلzم کو اس کے اس مفہوم کے ساتھ ماننے کے بعد یہ لازم تنور سے ناسی کے میں اچھی طرح رچ بس جائے ۔ ان کی عبادات پر اسی کی چھاپ ہو اور ان کی زندگی کا ہر گوشہ

فروزاں ہو۔تاس کے نگاہ میں اس پہلو کو اساسی اہمیت حاصل نت دین کی تحریک برپا ہو، لوگوں کے اندر جب بھی دعوآان کریم کا مکی حصہ ناسی کو دعوت کی اساس قرار دیا تھا۔ قر ہونی چاہیے ۔ خود دنیا کی پہلی اسلzمی تحریک نے

سال تک اس پہلو کو قائم اور مستحکم کرنے میں لگا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسانوں کا کوئی گروہ دین13پورے ناسی گروہ کو صحیح معنوں میں ناسلzمی میں داخل ہو جائے تو صرف کے حقیقی مفہوم کو اس طرح سمجھ کر تحریک "اسلzمی جمیعت" یا "اسلzمی معاشرہ" کہا جا سکتا ہے ۔ یعنی وہ جمیعت یا معاشرہ یہ صلzحیت رکھتا ہے کہ اس کیآازاد مرضی سے یہ طے کر لیا نم حیات جاری و ساری ہو۔ کیونکہ اس جمیعت نے اپنی اجتماعی زندگی میں اسلzم کا نظاند عالم کی حاکمیت کے ناسلzمی نظام پر استوار ہو گی اور وہ کسی معاملہ میں بھی خداون تپوری زندگی ہے کہ اس کی

سوا کسی اور کی حاکمیت کو قبول نہیں کرے گی۔تاس کے سامنے رکھ نم اسلzمی کی اساسی تعلیمات آا جائے گا تو نظا تیوں جب ایک معاشرہ بالفعل وجود میں نم اسلzمی کے عمومی ضوابط کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ایسے تمام قوانین اور دی جائیں گی اور معاشرہ خود ہی نظا

64

Page 65: Jada o Manzil Complete

نزدیک ایک عملی اور حقیقت پسندانہ اور تقاضا کریں گی۔ ہمارے احکام وضع کرتا رہے گا جن کا عملی ضروریات آاور ترتیب ہے ۔ بعض عجلت نم حیات کو قائم کرنے کے لیے مختلف مراحل کی یہی صحیح اور بار حکیمانہ اسلzمی نظاتاس سیدھے اور پسند مخلصین جنہیں دین کی اصل حقیقت اور مزاج کا ادراک حاصل نہیں اور نہ انہوں نے دین کے

نق کار پر ہی غور کیا ہے جو خدائے علیم و حکیم بے پایاں حکمت پر مبنی ہے اور انسانی طبائع اورکی راست ربانی طریتاس کے علم تمحیط کا کرشمہ ہے ۔ وہ بسا اوقات یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ لوگوں کونزندگی کی ضروریات کے بارے میں

آاسان ہو نت اسلzمی کی راہ آاگاہ کرنے ہی سے دعو اسلzمی نظام کی بنیادوں، بلکہ محض اسلzمی قوانین و احکام سے جائے گی اور لوگوں کے دلوں میں اسلzم کے لیے خود بخود ہمدردی کے جذبات پیدا ہو جائیں گے ۔ ان حضرات کا یہتاسی قبیل کا ایک تخیل ہے جس کی نظریہ محض ایک خام خیالی ہے جو ان کے عجلت پسند ذہنوں کی پیداوار ہے ۔ یہ اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی اللہ صلی بیان کر چکے ہیں کہ کس طرح خود رسول مثالیں ہم پچھلے صفحات میں

آانجناب صلی اللہ علیہ وسلم اگر اپنی دعوت کاسکتا ایسی کئی ایک تجاویز پیش کی جا سکتی تھیں اور کہا جا تھا کہ آاغاز قوم پرستی کے کسی نعرے ، معاشی انقلzب کے کسی دعوے یا اخلzقی اصلzح کی کسی تحریک سے کرتے تو

آابلہ پائی نہ کرنی پڑتی۔ تپرخار میں آاسان ہو جاتی اور انہیں مشکلzت کی وادی آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ ہموار اور تاسی کی عبودیتئاصولی طور پر سب سے پہلے ضروری ہے کہ دل خدائے واحد کے لیے یکسو ہونے چاہ یں۔

کہ شریعت کی اس کے قبل دیں ٹھکرا کو ہر شریعت دوسری اور کریں تسلیم کو تاسی کی شریعت کریں، اعلzن کا تان کے اندر اس کے لیے مزید رغبت اور کشش پیدا کی جائے ۔ شریعت کے ساتھ یہ رغبت تو دراصل تفصیلzت بتا کر آاخذ دلوں میں غیر اللہ کی غلzمی سے نجات پانے تابلنی چاہیے ۔ اور اس کا م اللہ کی خالص بندگی کے چشمے سے ہی ہہی کے ساتھ رغبت اور دلچسپی کی بنیاد نت حال نہیں ہوگی کہ دلوں میں قانون ال نق فراواں ہو۔ یہ کوئی صحیح صور کا شوتان انسانی قوانین سے زیادہ مفید اور بہتر پایا یہ امر ہو کہ تقابلی مطالعہ کے بعد بعض لوگوں نے اس کو بعض پہلوؤں سے

zشبہ نظام خداوندی سراسر چشماہے جو ان کے گرد و پیش کی دنیا میں عملzخیر و سعادتۂ جاری ہو ساری ہیں۔ بل ہلی نے تجویز فرمایا ہے تاسے اللہ تعا نب سعادت ہونے کے لیے صرف یہی دلیل کافی ہے کہ ہے ۔ اس کے باعث خیر اور موج ۔ غلzموں کی شریعت کسی حال میں بھی اللہ کی شریعت سے لگا نہیں کھا سکتی۔ گر ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہےبنیاد صرف "اسلzم" ہے ۔ اور اسلzم جس نہیں ہے ۔ دعوت کی بنیاد الامری دعوت اسلzمی کی نت نفس یہ حقیق کہ حقیقت کا نام ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی شریعت کو ہر حال میں بلz چون و چرا قبول کیا جائے اور دوسرے تمام شریعتوں کو اور ان کی ہر شکل کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جائے ۔ اس کے سوا اسلzم کا اور کوئی مفہوم نہیں ہو سکتا۔آاخری فیصلہ بھی ظاہر ہے کہ شریعت کے حق میں ہی ہو جس کو اس ابتدائی اسلzم سے رغبت اور وابستگی ہوگی اس کا تحسن و جمال اور اس آان بان، اس کے گا مگرا س کے بعد وہ اس بات کا محتاج نہیں رہے گا کہ اسلzمی نظام کی

65

Page 66: Jada o Manzil Complete

تابھارا جائے ۔ یہ ہے ایمان کے تاس کو ترغیب دی جائے اور جذبہ شوق تسنا کر تسنا کی افضلیت و برتری کی تفصیلzت بدیہی حقائق میں سے ایک اہم اور بنیادی حقیقت۔

اسلام نے جاہلیت کا مقابلہ کیسے کیا؟آان حکیم نے مکہ کی تیرہ سالہ زندگی ان تفصیلzت کے بعد اب ہم یہ بتا دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ قر

آان نے عقیدہ کو مجرد نظریہ کی صورت میں یا(Theory)میں عقیدہ اور ایمان کے مسئلہ کو کس طرح حل کیا۔ قر ہیات کے روپ میں نہیں پیش کیا۔ اور نہ اس کے بیان میں وہ انداز اختیار کیا ہے جو ہمارے علم الکلzم نے کلzمیہال

آان ہمیشہ انسان کی فطرت کو اپیل کرتا ہے اور ان چیزوں سے بحثوں کے باب میں اختیار کیا ہے ۔ اس کے برعکس قر اپنے دلائل اور اشارات اخذ کرتا ہے جو خود انسان کے اپنے نفس میں اور ارد گرد کے ماحول میں پائے جاتے ہیں۔ وہzنجل انسان کی فطرت کو اوہام و خرافات کے انباروں کے نیچے سے نکالتا ہے اور ادراک کی اس فطری صلzحیت کو

آالود ہو آان انسانی فطرت کے دریچوں کو وا کرتا ہے بخشتا ہے جو زنگ چکی تھی اور بیکار ہو چکی تھی۔ اسی طرح قراور اس کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ اس کے مؤثر اور لطیف اشارات کو سمجھ سکے اور انہیں قبول کر سکے ۔

تاس نے توحید آان کی تعلیمات کا ایک عام پہلو تھا۔ اس کی انقلzبی تعلیمات کا خاص پہلو یہ تھا کہ یہ تو قرآارائی تان جاہلی نظریات و روایات کے خلzف معرکہ کی بنیاد پر سوسائٹی کے اندر ایک عملی جنگ چھیڑ رکھی تھی اور ہہذا ان مخصوص حالات نت انسان معطل اور اپاہج۔ ل کر رکھی تھی جن کے ملبے کے نیچے انسانیت مدفون تھی اور فطرتاسے ایک "نظریہ" کے طور پر پیش کیا جاتا۔ بلکہ یہی کا مقابلہ کے لیے اسلzم کے لیے یہ شکل مناسب نہ تھی کہ تاترے اور انسان کے دل و دماغ پر جو فکری اور نن کارزار میں مناسب صورت تھی کہ وہ عملی مقابلہ کا عزم لے کر میداتان تمام چٹانوں کو پاش پاش کرے اور ان تمام دیواروں کو رستے سے تان کو چاک کرے اور عملی پردے پڑے ہوئے تھے ہٹائے جو انسان کے حق تک رسائی حاصل کرنے میں حائل کر دی گئی تھیں۔ اسی طرح عقلی مجادلہ کا اسلوب بھی

سارا دارومدار لفظی منطق پر تھا، اسلzم کو پیش کرنے کیکا جو قرون مابعد میں علم الکلzم کا طریقہ رہا ہے اور جس آازما تھا اور تاس کے متحرک اسباب و عوامل سے زور آان تو پورے انسانی ماحول اور مناسب صورت نہ تھی۔ اس لیے کہ قر

نہیات" کا اندازہپوری انسانیت سے ہمکلzم تھا جو بگاڑ کے بے کراں سمندر میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس مقصد کے لیے "التاس کے لیے مفید نہ تھا۔ اس لیے کہ اسلzمی عقیدہ اگرچہ وجدان سے تعلق رکھتا ہے مگر وہ درحقیقت عملی بیان بھی

تاس کا نفاذ کرتا ہے ۔ ال ہیات کی نظری بحثوں اور ذہنی خیالہزندگی کا ایک لائحہ پیش کرتا ہے اور عمل کی دنیا میں آارائیوں کی طرح وہ زندگی کے محدود اور تنگ دائرے میں محصور نہیں رہتا۔

اسلzم ایک طرف آان ہی اسیقر ساتھ اور دوسری طرف ہے چنتا عقیدہ کی عمارت میں دلوں جماعت کے آاور ہوتا ہے اور خود اسلzمی جماعت کے الجماعت کو لے کر اردگرد کے جاہ کار وفی قلعوں پر قوت کے ساتھ حملہ

تان کے خلzف بھی بھرپور جنگ لڑتا ہے ۔ آاتے ہیں تاسے نظر اعمال اور اخلzق و معاملzت کے اندر بھی جو جاہلی اثرات

66

Page 67: Jada o Manzil Complete

ہیات" کیہچنانچہ انہی بلz خیز حالات و عوامل کے منجدھار میں اسلzمی عقیدہ کی تعمیر ہوئی، لیکن "نظریہ" یا "ال تحریک(Organic) شکل میں نہیں اور نہ "کلzمی جدلیات" کے لباس میں، بلکہ زندگی سے لبریز فعال اور نامی

ارتقاء افکار کے پورا تیار کردہ مذکورہ جماعت اسلzمی تھی۔ اس جماعت کا آان کی قر کی شکل میں جس کا مظہر لحاظ سے ، اخلzق و کردار کے لحاظ سے اور تربیت و تعلیم کے لحاظ سے اسلzم کے تحریکی تصور کے تحت ہوا۔آارا لشکر ہے جسے یہ روح کارفرما تھی کہ یہ جماعت دراصل ایک ایسا منظم اور معرکہ تاس میں تربیت ملی تاسے جو زما ہونا ہے ۔ چنانچہ اس تحریک کا ارتقاء خود عقیدہ فکر کے ارتقاء کی عملی تفسیر تھا----------- یہ آا جاہلیت سے نبرد

نق کار جو اسلzم کی فطرت اور روح کا صحیح عکاس ہے ۔ ہے اسلzم کا صحیح طری

اسلام نظری نہیں بلکہ عملی دین ہے نق کار کا یہ پہلو جسے ہم نے اوپر دعوت اسلzمی کے علمبرداروں کو دین کے مزاج اور اس کے تحریکی طری بیان کیا ہے ، اچھی طرح ذہن نشین رکھنا چاہیے ۔ اس پہلو پر غور کرنے سے انہیں معلوم ہو گا کہ عقیدہ کی تعمیر و

پرکا تشکیل طور نظریاتی کو صرف اسلzم میں اس کہ ہے نہیں ایسا گزرا میں زندگی کی مکہ جو مرحلہ طویل وہ عقیدہ کا مرحلہ اور وہ مرحلہ جس میں اسلzمی تحریک کینسیکھنے سکھانے پر ہی اکتفاء کیا گیا ہو۔ درحقیقت تعمیر

اz تنظیم کی گئی اور اسلzمی جماعت کی بالفعل داغ بیل ڈالی گئی دو جداگانہ اور ایک دوسرے سے منفک مرحلے عملمرحل ہی ایک یہ دونوں بلکہ ۔ تھے اسلzمیے نہیں بھی کی گئی، ریزی تخم بیک وقت عقیدہ کی میں تھے جس

تحریک اور اسلzمی جماعت کا قیام بھی عمل میں لایا گیا اور اسلzم کے عملی وجود کا ڈھانچہ بھی تیار کیا گیا۔ اسناسی جامع طریقہ کو اختیار کیا جانا چاہیے ۔ آائندہ جب کبھی احیائے اسلzم کی کوشش کی جائے تو لیے

تعمیر یہی ہے کہ قدمنمناسب ہر ہو۔ تکمیل تعمیر کا کام کشاں کشاں شرمندہ ہو۔ تر مرحلہ دراز عقیدہ کا ئینہ دار ہو۔ اس مرحلے کو عقیدہ کی کھوکھلی نظری بحثوں کی نذر نہ کیا جائے ۔ بلکہ اس آا گہرائی اور استحکام کا مرحلہ میں عقیدہ ایک ایسی زندہ حقیقت بن کر دیدہ نواز ہو جو )اپنی فطری ترتیب کے ساتھ( عقیدہ میں ڈھلے ہوئے

خود عقیدےشکل میں ہو جس کا داخلی اور خارجی ارتقاء کی ام ظ�������دلوں کی شکل میں ہو۔ ایسے متحرک جماعتی نتاتر کر للکار رہی ہو اور نہکے ارتقاء نن عمل میں کا مظہر ہو، ایسی عملی تحریک کی شکل میں ہو جو جاہلیت کو میدا

تاس سے گرم محسوسن پیکار ہو۔ تاکہ یہ عقیدہ پیکرنصرف فکر و نظر کے محاذ پر بلکہ عمل و کردار کے محاذ پر بھی میں تبدیل ہو جائے اور اس کشمکش کے اندر رہ کر نشو و نما حاصل کرے ۔

جہاں تک اسلzم کا تعلق ہے یہ بات اس کے نزدیک انتہائی غلط ہی نہیں، انتہائی خطرناک بھی ہے کہ عقیدہ اسلzمی کھوکھلے نظریہ کی شکل میں ارتقاء پذیر ہو اور محض نظری بحث اور مجرد فکری تحقیق و جستجو کے میدان

آان کریم نے مکی دور میں عقیدہ کی تعمیر و استحکام پر پورے سال اس وجہ سے نہیں صرف13میں محدود رہے ۔ قرآان یکبارگی نازل کر دیتا اور پھر اس کے ماننے والوں ہلی اگر چاہتا تو پورا قر کیے تھے کہ وہ یکبارگی نازل ہو گیا تھا۔ اللہ تعا

67

Page 68: Jada o Manzil Complete

برس تک کچھ نہ کہتا۔ یہاں تک کہ وہ اس عرصہ میں "اسلzمی نظریہ" پر علمی اور نظری دونوں لحاظ13کو کم و بیش تاسے کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ دنیا کے اندر ہلی نے یہ طریقہ اختیار نہیں فرمایا۔ سے عبور حاصل کر لیتے ۔ مگر اللہ تعاعلمبردار تعمیر، اس کی میں عقیدہ کی وقت ہی ایک وہ تھا۔ کرنا چاہتا و ساری زندگی کو جاری نظام لاثانی ایک تاس کے نمائندہ معاشرے کی تنظیم بروئے کار لانا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ عقیدہ کی قوت سے تحریک کی تاسیس اور عقیدہ، کہ تھا چاہتا وہ ہو۔ پذیر فروغ عقیدہ رواں سے نل سی اور جماعت کے تحریک اور ہو برپا اور جماعت تحریک آائینہ داری کرے ۔ اللہ جماعت کی متحرک اور عملی زندگی سے عبارت ہو اور جماعت کی حرکت و گرمی عقیدہ کی

ہلی جانتا تھا کہ انسانوں کی اصلzح اور معاشرے کی صحت مندانہ تشکیل ایسا کام نہیں ہے کہ راتو رات ہو جائے ۔ںتعااور اصلzح فرد کی مدت کسی جتنی ہے ہوتی اا صرف لازم مدت ہی اتنی میں فروغ و تعمیر کی عقیدہ کہ لیے اس تادھر ایک جماعت کی تشکیل و تنظیم کے لیے درکار ہوتی ہے ۔ کہ ادھر عقیدہ کی تعمیر پایہ تکمیل کو پہنچے ، اور

آا جائے جو اس کا مظہر حقیقی اور عملی تفسیر ہو۔ۂایسی مضبوط جماعت منص شہود پر آان کریم کے مکی دور سے بھی اس کے اس مزاج کا ثبوت ملتا ہے ۔ ہمیں دین اس دین کا یہی مزاج ہے ۔ قر کا مزاج شناس ہونا چاہیے اور اپنی بے تاب خواہشات اور بے بضاعت انسانی نظریات سے ہزیمت خوردہ احساسات کی رو

کر دین کے مزاج میں تغیر و تبدل کی کوشش نہ کرنی چاہیے ۔ دین اپنے اسی مخصوص مزاج کے کرشموں سےہمیں بہآائندہ بھی جب نت مسلمہ" کے نام سے ایک عظیم امت کی تخلیق کا کارنامہ سر انجام دے چکا ہے اور پہلے بھی "ام

نے کا ارادہ کیا جائے گا تو دین کے اسی مزاج اور طریق کار کی روشنیکرکبھی "امت مسلمہ" کو دنیا میں دوبارہ کھڑا تاسے تیار کیا جا سکے گا۔ ہمیں یہ بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ ایسی ہر کوشش غلط ہے اور خطرناک بھی، جس میں کا مقصد یہ ہو کہ اسلzم کے زندہ و تابندہ عقیدہ کو جسے ایک حرکت پذیر توانا اور جیتے جاگتے معاشرے کے رگ وتاسے اپنے اس فطری عمل سے پے میں سرایت کرنا چاہیے اور ایک منظم تحریک کے قالب میں جلوہ ریز ہونا چاہیے ، آاماجگاہ بنا دیا جائے ۔ تا کہ ہم بے بضاعت اور محروم کر کے مجرد نظریاتی درس و تدریس اور علمی بحث و مطالعہ کی

یچ و ناکارہ انسانی نظریات کے مقابلے میں "اسلzمی نظریہ" کی طاقت اور برتری ثابت کر سکیں۔ اسلzمی عقیدہ کاہتاس کا مظہر و نمونہ ہوں، وہ ایک ٹھوس انسانی تنظیم اور فعال تحریک کا لائحہ تقاضہ تو یہ ہے کہ چلتے پھرتے انسان

لیواؤںمعمل ہو اور ایک ایسی تحریک کا روپ دھار لے جو اردگرد کی جاہلیت سے بھی دست و گریباں ہو۔ اور اپنے نانر پیکار ہو۔ اس لیے کہ اس عقیدہ کو حرزجاں بنانے سے پہلے وہ بھی کے اندر بھی جاہلیت کے باقی ماندہ اثرات سے برس

تان میں پایا جانا عین ممکن ہے ۔ اسلzمی عقیدہ اپنیتتو اسی جاہلیت کا ایک ج���� ز تھے اور بچے کھچے جاہلی اثرات کا تاس رقبہ سے کہیں زیادہ وسیع و اس ماہیت کے لحاظ سے قلوب و اذہان کا اس قدر وسیع و عریض رقبہ گھیر لیتا ہے جو آاتا ہے ۔لیکن وہ صرف قلوب و اذہان کو اپنی جولانگاہ بنانے پر ہی اکتفا طویل ہوتا ہے جو نظریاتی بحثوں کے دائرے میں نہیں کرتا بلکہ اعمال و کردار کی لا محدود پہنائیوں پر بھی چھا جاتا ہے ۔ الوہیت، کائنات، زندگی اور انسان یہ وہ

68

Page 69: Jada o Manzil Complete

مباحث ہیں جن کے بارے میں اسلzم کا تصور نہایت جامع، ہمہ گیر اور کامل ہی نہیں حقیقت پسندانہ اور ایجابی بھی ہے ۔ اسلzم اپنے مزاج اور فطرت کی بنا پر یہ گوارا نہیں کرتا کہ وہ نرے عقلی اور علمی تصور کا تجریدی ڈھانچہ بن کرتاسے جو بات تاس کی فطرت کے بھی منافی ہے اور اس کی غایت اور نصب العین کے بھی خلzف ہے ۔ رہ جائے ۔ یہ تاس کی نمائندہ اور ایک عملی تحریک پسند ہے وہ یہ ہے کہ وہ زندہ انسانوں کے پیرائے میں نمودار ہو، ایک زندہ تنظیم

آا تنظیم اور فعال تحریک کےساتاس کی عملی تفسیر ہو۔ اس کا طریقہ ارتقاء بھی نرالا ہے ۔ یہ چلتے پھرتے افراد سیماب تاگتا اور نشو و نما پاتا ہوا اس مرحلہ پختگی تک پہنچ جاتا ہے جہاں نظری لحاظ سے بھی اور اندر سے کھیتی کی طرح

مو میں وہ کبھی مجرد نظریہ کی حیثیت سےنعمل و واقع کے لحاظ سے بھی اس کی تکمیل ہو جاتی ہے ۔ اپنے دور زندگی کے عملی مسائل سے الگ تھلگ نہیں رہتا بلکہ واقع اور عمل اور حرکت کے جلو میں تمام مراحل طے کرتا ہے ۔تپر کر لی جائے اور بعد میں اسے تحریک و رہا یہ طریقہ کہ پہلے اسلzمی تصور کی نظری اور تجریدی حیثیت سے پخت و پروان چڑھایا جائے تو نشوو نما کا ایسا طریقہ اس دین کی فطرت، اس کے نصب العین، اس کی عمل کی دنیا میں

ہلی کا ارشاد ہے :مخصوص ترکیب عنصری ہر لحاظ سے نامناسب بھی ہے ، خطرناک اور نقصان دہ بھی۔ اللہ تعا

اz )بنی اسرائیل: نزيل من نت تہ ننا مل نز نن نو مث م¶ تم نلي نع نس ن´نا نلي ال نع تہ نرا مق نت نل تہ ننا مق نر نف اا آان مر تق (106نو

آان کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تا کہ تم ٹھ تسناؤ، اور اسے ہمیر ٹھیاور اس قر ر کر اسے لوگوں کو تاتارا ہے ۔ نے )موقع موقع سے ( بتدریج

آان کی رفتہ رفتہ تنزیل اور اا بیک وقت اختیار فرمائے گئے ہیں۔ قر ترو سے اسلzم میں دونوں پہلو قصد اس ارشاد کی تسنانا۔ یہ طریقہ اس لیے اختیار فرمایا گیا تا کہ عقیدہ کی بنیادوں پر تعمیر ہونے والا نظامیپھر اسے لوگوں کو ٹھ���� ر ٹھیر کر

ایک زندہ اور فعال تنظیم کے پیکر میں نمودار ہو کر پایہ تکمیل کو پہنچے ، نہ کہ نظریہ محض کی شکل میں۔

دین کا طریقہ فکر و عمل بھی ربانی ہے اس دین کے علمبرداروں کو یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جس طرح یہ دین ربانی نظامہہی پر مبنی ہے ۔ دین کی اصل فطرت اور اس کے طریق کار دونوں میں تاس کا طریق کار بھی وحی ال ہے ، اسی طرح ترو بعمل نہ لانا سعی لا حاصل نق کار کے تحت مکمل مناسبت اور ہمرنگی ہے ۔ چنانچہ دین کو اس کے مخصوص طری ہے ۔ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ نیز یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کہ جس طرح یہ دین فکر وآایا ہے ، اسی طرح اس کا مشن یہ بھی ہے کہ نظر کے انقلzب سے کردار و عمل کی دنیا میں انقلzب برپا کرنے کے لیے

فکر کو بھی بدل ڈالے جو عقیدہ کی تعمیر اور عملی زندگی میں انقلzب برپا کرنے کے لیے اختیار کیا جاتانوہ ان منہاجتامت کی تشکیل نم فکر کو بھی فروغبہے ۔ یہ دین عقیدہ کی تعمیر بھی کرتا ہے ھی۔ اور ساتھ ہی اپنے مخصوص نظا

تاسی درجہ قوت صرف کرتا ہے جس درجہ عقیدہ کی تاسیس اور عمل کی تبدیلی پر کرتاتدی تاسے رائج کرنے پر ا ہے اور

69

Page 70: Jada o Manzil Complete

آائیڈیالوجی اور اس کی مخصوص نوعیت کی جاندار نم فکر، اس کی مخصوص ہے ۔ چنانچہ اس دین کا مخصوص نظا یہتحریک یہ تینوں جدا جدا اور الگ نہیں ہیں بلکہ بیک وقت سرانجام پاتے ہیں کیونکہ ایک ہی پھول ہے کہ جس کی

پنکھڑیاں ہیں۔ تشریح بالا سے ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ دین کا اپنا مخصوص طریق کار ہے ۔ اب دوسرے قدم پر ہمیں یہ بھینت اسلzمی کے کسی مخصوص مرحلے سے معلوم رہنا چاہیے کہ یہ طریق کار منفرد ہے اور ابدی ہے ۔ یہ طریق کار دعوتان حالات کے لیے تاترا ہے ، نہ صرف وابستہ نہیں ہے نہ یہ کسی مخصوص حالات رکھنے والے کسی ماحول کے لیے تجویز کیا گیا تھا جو اولین اسلzمی جماعت کے قیام کے وقت موجود تھے ۔ بلکہ یہ طریق کار زمان و مکان کی قیود سے

آائے گا۔ آائے گا، اسی طریق کار کے نتیجے میں آازاد ہے ۔ اور جب کبھی دین حق کا قیام و فروغ عمل میں اسلzم کی ذمہ داری محض اتنی نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے عقائد و اعمال میں انقلzب برپا کر دے ، بلکہ یہنز نظر کو بھی بدل ڈالے اور تصورات اور حالات نز فکر اور اندا تاس کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ وہ لوگوں کے طر بھی ہہی سے ہی نت ال کے بارے میں ان کے زاویہ نگاہ میں بنیادی تبدیلی پیدا کر دے ۔ چونکہ اسلzم کا نظام فکر بھی ہداییہ اپنی فطرت و ساخت کے لحاظ سے ان تمام ناقص و بے روح انداز ہائے فکر و نظر سے سراسر ماخوذ ہے اس لیے

مختلف ہے جنہیں فانی اور کوتاہ نظر انسانوں نے تخلیق کیا ہے ۔یہ ہیں کہ اور چاہتے ہیں، نظریہ مجرد کی حیثیت سے سمجھنے کی کوشش کرتے ایک اسلzم کو ہم جب نق کار اور ربانی طرز فکر دونوں تاس کے ربانی طری تاسے صرف بحث و مطالعہ کے حلقے کی رونق بنا رہے تو اس طرح ہم ہلی کا تجویز کر دہ طریق فکر ------- نم فکر کا تابع بنا دیتے ہیں۔ گویا اللہ تعا تاسے انسانی نظا تجدا کر دیتے ہیں۔ اور سے تاسے معاذ اللہ ----------- انسانی طریق ہائے فکر سے فروتر ہے ، اور ہم فکر و عمل کے خدائی نظام کو "ترقی" دے کر

ضر ہے اور اس انداز کیت نگاہ انتہائی خطرناک اور مۂانسانی نظاموں کے ہم پلہ کر دینا چاہتے ہیں ------------- یہ زاویذہنی و فکری ہزیمت ملت کے لیے سخت تباہ کن ثابت ہوا کرتی ہے ۔

نت اسلzمی کے میدان میں سرگرم عمل ہیں فکر و تدبر کے مخصوص تان سب اصحاب کو جو دعو نم حق نظا پیمانوں اور اسالیب کی خرابیوں سے بچ سکتے ہیں جو جاہلیت نے دنیا بھر میں رائج کر رکھے ہیں۔ اور جنہوں نے خود

آالود کر رکھا ہے ۔ اس فتن عظیم کے مقابلے میں اگر ہم نے اسۂہماری عقلوں کو ماؤف اور ہماری تعلیم و ثقافت کو زہر دین کو ایسے انداز سے سمجھنے کی کوشش کی جو اس کی فطرت کے لیے بالکل اجنبی ہے ، اور جاہلیت غالبہ ہی کاتدہرے خسارے پر منتج ہو گی۔ ایک طرف ہم دین کو اپنے اصل وظیفہ اور عمل سے ایک نتیجہ ہے تو ہماری یہ کوشش آاپ آایا ہے اور دوسری طرف ہم بحیثیت انسان اپنے معطل کر دیں گے جسے سرانجام دینے کے لیے وہ انسانیت کے پاس نر حاضر کے جاہلی نظام سے گلو خلzصی کرا کو ایک ایسے سنہری موقع سے بھی محروم کر لیں گے جس میں ہم عصآاپ کو بچا سکتے تھے جو ہمارے ذہنوں اور ہماری تربیت میں تان تمام زہریلے اثرات سے اپنے سکتے تھے اور جاہلیت کے

70

Page 71: Jada o Manzil Complete

تکن پائے جاتے ہیں۔ معاملے کا یہ پہلو بھی انتہائی خطرناک اور سنگین ہے ، اور اس انداز کا خسارہ بھی انتہائی تباہ ثابت ہو گا۔

تاس اہمیت و نم فکر اور لائحہ عمل کی جو اہمیت و ضرورت ہے وہ اسلzمی انقلzب برپا کرنے کے لیے خود نظایہ تمام پہلو ایک نم حیات کو حاصل ہے ۔ کیونکہ ضرورت سے کسی پہلو کم نہیں ہے جو اسلzم کے عقیدہ اور نظااور ہم اسلzم کے ہو، اور خوشنما معلوم یہ خیال خواہ کتنا ہی اچھا ہیں۔ ہمیں نہیں اور جدا جدا دوسرے سے منفک عقیدہ و نظام کی خوبیوں کو زبان و قلم سے چاہے کتنا ہی واضح کرتے پھریں، مگر یہ حقیقت ہماری نگاہوں سے اوجھل

یہ خدمت دنیا کے اندر اسلzم کو کبھی ایک واقعہ اور تحریک کی صورت میں برپا نہیں کرینہیں ہونی چاہیے کہ ہمار سکتی۔ بلکہ یہ بات بھی فراموش نہ کرنی چاہیے کہ اس شکل میں اگر ہم اسلzم کو پیش کرتے رہیں گے تو اس سے باہر کے لوگ نہیں، صرف وہ گروہ ہی استفادہ کر سکے گا جو بالفعل اسلzمی تحریک کے لیے کام کر رہا ہے ۔ اور خود یہ گروہ بھی زیادہ سے زیادہ اس سے جو استفادہ کر سکے گا وہ یہ ہے کہ اپنے تحریکی سفر میں وہ جس مرحلے تک پہنچہہذا اس مناسبت سے میں دوبارہ یہ کہوں تاس مرحلے کی ضرورت و تقاضا کو اس کی مدد سے پورا کر سکے ۔ ل چکا ہے گا کہ اصل طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف اسلzمی عقیدہ کو بلz تاخیر عملی تحریک میں تبدیل ہو جانا چاہیے اور دوسرےتاسی ساعت سے عقیدہ کی صحیح تصویر اور حقیقی ترجمان ہونی چاہیے ۔ میں مکرر کہوں گا کہ طرف یہ تحریک بھی اسلzم کے غلبہ کا یہی فطری طریق کار ہے اور یہ طریق کار نہ صرف خوب تر اور سیدھا اور صاف ہے ، بلکہ نہایت مؤثرنت انسان سے زیادہ قریب ہے جو پہلے نظریات و افکار کی تان تمام طریق ہائے کار کی نسبت فطر و دل نشین بھی ہے اور تراش خراش کر کے انہیں مجرد علمی بحثوں کے انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ مرحلہ کہ انسان ان نظریات کے بل پر کوئی عملی تحریک اٹھائیں یا خود ان نظریات کا چلتا پھرتا نمونہ بنیں، اور ان کی رہنمائی میں منزلآانے کا امکان ہی کہیں بہ منزل کوئی پیش قدمی کریں، ابھی بہت دور ہوتا ہے ، نہ کبھی اس کے ان لوگوں کو پیش

موجود ہوتا ہے ۔

اسلامی نظام کے نفاذ سے پہلے اسلامی قانون کا مطالبہ درست نہیںنظام کی اسلzمی اسے تو ہے میں درست بارے و عقیدہ کے نظریہ اسلzم کے نت خود بذا اگر نگاہ نقطہ یہ آاج یہ جاہلیت جو ۔ ہونا چاہیے ہلی صحیح او بدرجہ پر میں قدرتی طور بارے تفصیلzت کے قانونی اور اس کی بنیادوں تبری طرح چھائی ہوئی ہے ، جہاں یہ دعوت اسلzمی کے بعض مخلص خادموں کے اعصاب پر ہمارے گرد و پیش میں اس قدر بار گراں بن رہی ہے کہ وہ بے صبر ہو کر اسلzمی نظام کے تمام مراحل کو بعجلت عبور کر جانا چاہتے ہیں وہاں وہ انہیں ایک اور نازک سوال سے بھی دوچار کر رہی ہے ۔ وہ ان سے بار بار یہ سوال کرتی رہتی ہے کہ اس نظام کیپر کتنی ریسرچ کر رکھی ہے ؟ کتنے نافذ کرنے کی خاطر تم نے اس تاسے تفصیلzت کیا ہیں جس کے تم داعی ہو؟

آاج لوگوں کےامین مقالے اور مض����� تیار کر رکھے ہیں؟ اور فقہ کو کس حد تک جدید اصولوں پر مرتب کر رکھا ہے ؟ گویا

71

Page 72: Jada o Manzil Complete

نت اسلzمی کو جاری و ساری کرنے کے لیے اور کسی چیز کی کمی نہیں ہے ، صرف فقہی احکام اور فقہی پاس شریع ھی راضیبحاکمیت کو بھی مان چکے ہیں اور اللہ کی شریعت کو حاکم بنانے پر کی تحقیقات کی کمی ہے ۔ وہ اللہ

ہیں۔ بس ایک ہی کسر رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ "مجتہدی" کی طرف سے ابھی تک انہیں جدید طرز پر مدون کیآاتش تاس شخص کو ہوئی فقہ سپلzئی نہیں کی گئی ہے ۔ درحقیقت یہ اسلzم پر ایک نہایت رکیک طنز ہے ۔ اور اس پر ہر

پا ہو جانا چاہیے جس کے دل میں دین کا ذرہ بھر بھی احترام اور غیرت موجود ہے ۔

جاہلیت کے ہتھکنڈوں سے متنبہ رہنا چاہیے تاسے طرح کسی نہ کسی کہ ہے چاہتی یہ بازیوں سے صرف اشقلہ اور خانیوں چھیڑ کی طرح اس جاہلیت آاقائی کے نظام کو قائم و دائم رکھ سکے ۔ ہہی کو رد کر دینے کا بہانہ مل جائے ۔ اور وہ انسان پر انسان کی نت ال شریعہلی نے تاس طریق کار سے پھیر دے جو اللہ تعا نت دین کے تاس کی یہ بھی خواہش ہے کہ اسلzم کے نام لیواؤں کو اقامنق تجویز فرمایا ہے ۔ انہیں اس اصول پر قائم نہ رہنے دے کہ فکر و عقیدہ کی تعمیر تحریک کی شکل میں ہو۔ وہ طریترو سے اسلzمی نظریہ کی تکمیل تحریک کو طوفان خیزیوں کے دعوت کا وہ مزاج ہی مسخ کر دینا چاہتی ہے جس کی تاجاگر ہوتے ہیں اور قانون سازی اسلzمی نم اسلzمی کے خد و خال عملی کاوشوں کے ذریعہ منجدھار میں ہوتی ہے ۔ نظا زندگی کے عملی مسائل اور حقیقی مشکلzت کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے لیکن داعیان حق کو جاہلیت کی اس

سوں کاری پر دھیان نہ دینا چاہیے ۔ بلکہ انہیں جرات کے ساتھ ہر ایسے طریق کار کو ٹھکرا دینا چاہیے جو ان کیتفنف نن حق کو موم کی ناک نہ بننا چاہیے کہ مخال تحریک اور ان کے دین پر جاہلیت کی طرف سے ٹھونسا جا رہا ہو۔ داعیا دین عنصر انہیں جس طرح چاہے توڑتا موڑتا رہے ۔ ان کا فرض ہے کہ وہ جاہلیت کی تمام چال بازیوں کا بھانڈا پھوڑیں،تپوری قوت سے تردید کریں جو " فقہ اسلzمی کی اور ان کا اچھی طرح قلع قمع کریں۔ خاص کر اس مسخرہ پن کی نن خداوندی کی برتری کو تسلیم کرتا تجدید " کے پردے میں ایک ایسے معاشرے کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے جو نہ قانو

نر بیزاری کرتا ہے ۔ اس طرح کی باتیں درحقیقت سنجیدہ اور ٹھوس اور م ہہی قوانین سے اظہا ثمر کام سےتہے اور نہ غیر ال غافل کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ اور اس لیے کی جاتی ہیں کہ اسلzم کے چاہنے والے محض ہوا میں تخم ریزی کر کے اپنا وقت ضائع کرتے رہیں۔ چنانچہ ان کا فرض ہے کہ وہ اس طرح کے ناپاک ہتھکنڈوں کا پردہ چاک کریں اور انہیں

نت دین کی جدوجہدنکامیاب نہ ہونے دیں۔ اس دین نے تحریک کا جو طریق تاسی کے مطابق ہی اقام کار پیش کیا ہے کار کے اندر دین کی طاقت کا راز مضمر ہے اور یہی ان کی اپنی طاقت و شوکت کا منبعنکرنی چاہیے ۔ اسی طریق

بھی ہے ۔نق کار دونوں مساوی اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں میں دوئی نہیں ہے ۔ کوئی اور اسلzم اور احیائے اسلzم کا طری طریق کار خواہ کیسا ہی جاذب نظر ہواسلzمی نظام کو کبھی غالب نہیں کر سکتا۔ انسانوں کے وضع کر دہ نظام تو باہرہہذا نق کار سے قائم و برپا ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے نظام کو بروئے کار لانے سے وہ قاصر ہیں۔ ل آامد کر دہ طری سے در

72

Page 73: Jada o Manzil Complete

نت دین کے مخصوص طریق کار کی پابندی اتنی ہی لازم ہے جتنی خود اسلzم کے بنیادی اسلzمی تحریک کے لیے اقامتاس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے آان تم )یہ قر آان یھدی للتی ھی اتو نان ھذا القر نم حیات کی پابندی عقیدہ اور اس کے نظا

(جو بالکل سیدھا اور صاف ہے

واپس اوپر جائیے

باب سوم

اسلzمی معاشرے کی خصوصیاتاور

اس کی تعمیر کا صحیح طریقہ

انبیاء کی اصل دعوتتاس دعوت نت مبارک نے ڈالی دعوت اسلzمی کا وہ دور جس کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسآاخری کڑی ہے جو انبیائے کرام کی قیادت میں ازل سے جاری رہا ہے ۔ پوری انسانی تاریخ الی اللہ کے طویل سلسلہ کی میں اس دعوت کا ایک ہی مقصد اور نصب العین رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانوں کو ان کے خدائے واحد اور حقیقی

73

Page 74: Jada o Manzil Complete

آاشنا کرایا جائے ، انہیں رب واحد کی غلzمی میں داخل کیا جائے اور دنیا کے اندر انسان کی ربوبیت کینپروردگار سے بحیثیت انسان ہیں رہے جاتے پائے میں تاریخ بگاہے گاہے جو سوا کے افراد چند معدودے ان ۔ جائے لپیٹی بساط اا اللہ کی ہستی کا انکار کیا ہے ۔ بلکہ یا مجموعی کبھی الوہیت کے نظریہ کے منکر نہیں رہے ہیں اور نہ انہوں نے مطلقالوہیت میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی یا تو وہ اپنے حقیقی رب کی صحیح معرفت میں غلطی کرتے رہے ہیں اور شریک ٹھیراتے رہے ہیں۔ کبھی عقیدہ و عبادت میں اور کبھی غیر اللہ کی حاکمیت اور اتباع اختیار کرنے کی صورتاہ شرک ہیں کہ وہ انسانوں کو اللہ کے دین سے دور لے جانے والی تھیں جسے میں۔ یہ دونوں شکلیں اس اعتبار سے خالصتتاس کو بھول جاتے تھے اور آائے تھے ۔ مگر طویل مدت گزر جانے کے بعد وہ ہر نبی اور رسول کی زبان سے سمجھتے آاخر کار اسی جاہلیت کی طرف لوٹ جاتے تھے جس سے اللہ نے ان کو اپنے فضل سے نکالا تھا۔ وہ دوبارہ شرک کی راہ پر چل پڑتے ۔ کبھی عقیدہ اور عبادت غیر اللہ کی حد تک اور کبھی دوسروں کی حاکمیت تسلیم کرنے اور ان کی

پیروی کرنے کی حد تک اور کبھی بیک وقت ان دونوں صورتوں میں مبتلz ہو کر۔

کائنات کے اندر انسان کی اصل حیثیت انسانی تاریخ کے ہر دور میں دعوت الی اللہ کا ایک ہی مزاج رہا ہے ۔ اس دعوت کا نصب العین "اسلzم" ہے ۔

ندوں کی غلzمی سے نجات دلا کربجس کے معنی ہیں : انسانوں کو ان کے پروردگار کا مطیع و فرمانبردار بنانا۔ انہیں نخدائے واحد کا غلzم بنانا، انہیں انسانوں کی حاکمیت، انسانوں کے وضع کردہ شرائع، انسانوں کی خود ساختہ اقدار حیات اور روایات کے پنجے سے نکال کر زندگی کے ہر شعبے میں انہیں خدائے واحد کے اقتدار و حاکمیت اور اس کے

آائے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی جس اسلzم کو لے کر،قانون کا پیرو بنانا انبیائے سابقین اسی مشن کو لے کر آایا آاگے سرافگندہ کرنے کے لیے تاسی طرح اللہ کی حاکمیت کے تا س کا پیغام یہی ہے ۔ وہ انسانوں کو مبعوث ہوئے ہیں ہہذا تجز ہے ۔ ل آاگے سرنگوں ہے ۔ انسان اسی کائنات کا ایک حقیر تاس کی حاکمیت کے ہے جس طرح یہ پوری کائنات جو "قوت" انسان کے طبعی وجود کی تدبیر کرتی ہے ضروری ہے کہ وہی "قوت" اس کی تشریعی زندگی کی مدبر اور کارفرما ہو اور جو نظام اور اقتدار اور اسکیم اس پوری کائنات پر متصرف ہے بلکہ خود انسان کے غیر ارادی پہلوؤں پر بھی متصرف ہے انسان اس سے ہٹ کر اپنے لیے الگ کوئی نظام، کوئی اقتدار اور کوئی اسکیم تجویز نہ کرے ۔ انسان اپنیہلی نے جاری نشوونما، اپنی صحت و بیماری اور موت و حیات کے معاملے میں ان طبعی قوانین کے پابند ہیں جو اللہ تعاتان کے بارے میں بھی وہ کائناتی فرما رکھے ہیں۔ بلکہ اپنی ارادی تگ و دو کے جن نتائج و عواقب سے دوچار ہوتے ہیں، قوانین کے سامنے بے بس ہیں۔ ان تمام پہلوؤں میں وہ اللہ کی سنت کو بدلنے پر قادر نہیں ہیں اور نہ اس بات پر قادر ہیں کہ وہ اس کائنات پر حاوی و متصرف نوامیس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل کر سکیں۔ پس انسان کے لیے یہی رویہ مناسب ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تشریعی اور ارادی گوشوں میں بھی اسلzم کی اتباع کرے اور زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے معاملے سے لے کر بڑے سے بڑے معاملے تک اللہ کی شریعت کو حاکم بنائے ۔ تاکہ ایک طرف اس کی زندگی

74

Page 75: Jada o Manzil Complete

آاہنگی اور توافق پیدا ہو سکے اور دوسری طرف زندگی کے ان کے غیر ارادی گوشوں اور اختیاری پہلوؤں کے درمیان ہم 28دونوں حصوں اور وسیع تر کائنات کے درمیان بھی مطابقت اور یک جہتی پیدا ہو۔

جاہلیت کی ہمہ گیر گرفت سے نجات پانے کا صحیح طریقہ لیکن جاہلیت جس کا خمیر ہی اس مادہ فاسد سے تیار ہوتا ہے کہ انسان پر انسان کی حاکمیت قائم ہو، اور جو انسان کو کائنات کے ہمہ گیر نظام سے جدا کرتی ہے اور انسانی زندگی کے غیرارادی اور تکوینی حصے کو اختیاری اور تشریعی حصہ سے متصادم کرتی ہے -------------- وہی جاہلیت، جس کے مقابلے میں انبیاء اور رسولوں نے اسلzمیتاسی کے استیصال کے لیے دنیا میں تشریف لائے ۔ یہ جاہلیت آاخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم دعوت کو پیش کیا اور نبی

ے کوئی "نظریہ" ہی نہیںس���������کسی تجریدی نظریہ کے قالب میں موجود نہیں رہی۔ بعض حالات میں تو اس کا سرے تابھرتی رہی ہے ۔ ایک ایسے معاشرے کی شکل میں نمودار ہوتی ہوتا۔ بلکہ یہ ہمیشہ جیتی جاگتی تحریک کے روپ میں رہی ہے جس کی اپنی لیڈر شپ، اپنے تصورات و اقدار، اپنی روایات و عادات اور اپنے جذبات و احساسات ہوتے ہیں۔ وہ ایک منظم معاشرہ ہوتا ہے ، اس کے افراد کے درمیان ربط و تعاون اور منظم توافق و وفاداری اس درجہ پائی جاتی ہے کہ پورا معاشرہ شعوری اور غیر شعوری طور پر اپنے وجود کی حفاظت کے لیے یکساں طور پر متحرک اور چاق و چوبند رہتا ہے ۔ اپنی شخصیت کے دفاع میں وہ ایسے تمام خطرانگیز عناصر و اثرات کے ازالہ میں سرگرم رہتا ہے جو اس کے مستقل

نظام کے لیے کسی بھی حیثیت سے خطرے کی تمہید ہوتے ہیں۔ جب جاہلیت محض علمی نظریے کی شکل میں نہیں بلکہ ایک زندہ و فعال تحریک اور جیتا جاگتا معاشرہ بن

نرنو خداوند آاتی ہے تو اس جاہلیت کو مٹانے اور انسانوں کو ازس آاستاں پر لانے کے لیے ہر وہ کوششنکر سامنے قدوس کے تسود ہو گی جو اسلzم کی محض علمی نظریہ کی حد تک پیش کرنے پر اکتفاء کرتی ہو۔ جاہلیت غیر مناسب اور بے تپشت پر ایک زندہ و متحرک ادارہ موجود ہے ۔ ایسی حالت میں نظری کوشش جاہلیت عملی دنیا پر قابض ہے اور اس کی کے مقابلے کے لیے فائق تر تو کجا مساوی جواب بھی نہیں ہے ۔ جب مقصد یہ ہو کہ ایک بالفعل قائم نظام کو ختم کرمیں معاملے ہر کلی و جزئی اور اپنے اصول حیات مزاج، اپنے برپاکرنا ہے جو نظام کو ایسے ایک تاس کے جگہ کے موجودہ غالب جاہلی نظام سے اختلzف رکھتا ہے تو عقل کا تقاضا یہ ہے کہ نیا نظام بھی ایک منظم تحریک اور جان دارتاس کی نظریاتی بنیادیں، اس کی انتظامی تدابیر تاترے کہ تاترے ۔ اور اس عزم کے ساتھ نن مبارزت میں معاشرہ بن کر میدااور تر قوی میں پہلو ہر ہر نظام سے قائم شدہ جاہلی تعلقات و روابط باہمی اجتماعی، اس کے کارکنوں کے نظم اور

محکم تر ہوں۔

اسلامی معاشرہ کی نظریاتی بنیادہلی مودودی امیر جماعت اسلzمی، 28 اس نکتے کو تفصیل کے ساتھ سمجھنے کے لیے ملzحظہ ہو : "دینیات" تالیف مولانا سید ابو الاع

(مولف)پاکستان۔ مطبوعہ اسلzمک پبلیکیشنز لمیٹڈ، لاہور

75

Page 76: Jada o Manzil Complete

وہ نظریاتی بنیاد جس پر اسلzم نے تاریخ کے ہر دور میں اپنے معاشرے کی تعمیر کی ہے وہ یہ شہادت ہے کہ:ہلہ صرف اللہ ہے ۔ وہی رب نا ہلہ نہیں ہے ----------- اس شہادت کا مطلب یہ ہے کہ نا ہلہ الا اللہ ----- اللہ کے سوا کوئی لا ا

نم کائنات ہے ، وہ حاکم منتظ اور مقتدرنہے ، وہی ہونےن حقیقی منور تاس کی وحدانیت سے ہلی ہے ۔ قلب و ضمیر اع تاسی کیئچاہ تاسی کی وحدانیت کا ثبوت پیش کرنا چاہیے ، عملی زندگی کے قانون میں یں، عبادات و شعائر میں

ہلہ الا اللہ کی شہادت عملی لحاظ وحدانیت کا تصور کارفرما ہونا چاہیے ۔ اس کامل اور ہمہ گیر صورت کے علzوہ لا ا سے کسی اور طرح نہیں جا سکتی اور نہ شرعی لحاظ سے ہی ایسی شہادت معتبر ہو گی۔ یہ کامل و ہمہ گیر صورت اس قولی شہادت کو ایسے عملی اور مؤثر نظام کا پیرایہ دے دیتی ہے کہ اس کی بنیاد پر اس کے قائل کو مسلم اور منکر کو غیر مسلم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ نظری لحاظ سے اس بنیاد کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ انسانی زندگی پوری کیآاپ کوئی پوری اللہ کے تصرف میں دے دی جائے ۔ انسان اپنی زندگی کے کسی معاملے میں اور کسی گوشے میں اپنے تاسے صرف ایک ذریعہ تاسی کی پیروی کرے ۔ اللہ کا حکم فیصلہ نہ کرے بلکہ اللہ کے حکم کی جانب رجوع کرے اور سے معلوم کرنا چاہیے اور وہ ذریعہ ہے اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم، کلمہ شہادت کے دوسرے حصے میں اسی ذریعہ

رسول اللہ" )اور میںلا د ان محمدھکو اسلzم کے رکن دوم کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے ۔ اور فرمایا گیا ہے " و اش�������شہادت دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں(۔

بنیاد یہ اور جو اسلzم کی اصل روح ہے ۔ ہوتی ہے قائم پر اسلzم کی عمارت نظریاتی اساس جس یہ ہے وہ انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ فراہم کرتی ہے جسے زندگی کے ہر ہر پہلو میں نافذ کیا جانا چاہیے اور جسے ہاتھ میںتاسے مسئلہ یہ خواہ ہے کرتا حل کو مسئلہ ہر ہر کے زندگی اجتماعی اور زندگی انفرادی اپنی مسلمان ایک کر لے آائے یا دارالاسلzم سے باہر۔ ان روابط سے متعلق ہو جو مسلم معاشرے کے ساتھ وہ قائم کرتا ہے دارالاسلzم کے اندر پیش

یا ان تعلقات اور رشتوں کے بارے میں ہو جو ایک مسلم معاشرہ دوسرے غیر مسلم معاشروں کے ساتھ قائم کرتا ہے ۔"جاہلی معاشرے کے اندر رہنے والے "مسلمان

اسلzم، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے ، جامد اور مجرد نظریہ نہیں ہے کہ جو لوگ چاہیں اسے عقیدہ کے طور پر قبول کر لیں اور پوجا پاٹ کی حد تک اس پر عمل کر لیں اور پھر دھڑلے سے بالفعل قائم شدہ اور حرکت پذیر

تپرزے ے رہیں۔ اس طرز پر اسلzم کے ماننے والوں کا پایا جانا اسلzم کے "عملی وجود" کوبنجاہلی معاشرے کے کل غفیر ہی کیوں نہ ہوں۔ اس لیے کہ "نظری مسلمان" جو جاہلینبروئے کار نہیں لا سکتا خواہ تعداد کے لحاظ سے وہ جم

تجز ہوں وہ لا محالہ اس معاشرے کے تمام تنظیمی تقاضوں کو لبیک کہنے پر مجبور معاشرے کے اجزائے ترکیبی کا ایک تان تمام اساسی ضروریات کو جو اس معاشرے کی زندگی اور حرکت اور بقاء کے لیے ناگزیر ہیں اور بے بس ہوں گے اور

اا و کر نو گردش رہیں گے ۔ بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ اسہ�����������������شعوری اور غیر شعوری طور پر طوع اا پورا کرنے کے لیے محتاس کے وجود اور نظام کے معاشرے کے محافظ بن کر کھڑے ہوں گے اور ان اسباب و عوامل کی سرکوبی کریں گے جو

76

Page 77: Jada o Manzil Complete

اا ارادی طور پر یا غیر تجز " کو لازم تکل " جب یہ تمام فرائض انجام دے گا تو " لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے کہ " ل کے مطابق ہی حرکت کرنا ہو گی۔ دوسرے لفظوں میں ایسے "نظریتارادی طور پر انہی فرائض کو ادا کرنے کے لیے ک��

تاس کو مضبوط و مستحکم اz وہ مسلمان" جس جاہلی معاشرے کی نظریاتی حیثیت سے مخالفت کر رہے ہوتے ہیں عملاتہ جاندار خلیے تاس نظام کے نسب بقا اورنثابت ہوتے ہیں۔ اس کے لیے عناصر (Cells)کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔ بلکہ

تاس کی خدمت میں صرف کرتے ہیں۔ناسباب حیات مہیا کرتے ہیں۔ اپنی قابلیتیں، اپنے تجربات اور اپنی تازہ دم قوتیں تعمر تاسے مزید حاصل ہو، حالانکہ ان کی تمام تر حرکت اور سرگرمی اس جاہلی معاشرے کو ختم کرنےن دراز اور قوتنتاکہ

میں صرف ہونی چاہیے تاکہ وہاں صحیح اسلzمی معاشرہ قائم کیا جا سکے ۔ہے جاہلی قیادت سے انحراف لازم

اس وجہ سے یہ بات ناگزیر ہے کہ اسلzم کی نظریاتی بنیاد )عقیدہ الوہیت( ابتدا سے ایک منظم و فعال جماعت کے پیکر میں نمودار ہو۔ یہ جماعت جاہلی اجتماع سے الگ تھلگ ہو۔ جاہلیت کے متحرک و منظم معاشرے سے جس کا نصب العین ہی "اسلzم" )حاکمیت اللہ( کی روک تھام ہے ، ہر طرح برتر اور منفرد و ممتاز ہو۔ اس نئی جماعت کا

آاپڈور مرجع و محور جدید قیادت ہو۔ وہ قیادت جس کی باگ اا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی اور اول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر وہ اسلzمی قیادت اس ذمہ داری کی امین ہے جو انسانوں کو صرف اللہ کی الوہیت و ربوبیت، اللہ کے اقتدار و حاکمیت اور اللہ کے قانون و شریعت کا پابند بنانا چاہتی ہے ۔ جو شخص یہ شہادت ادا کرےہلہ نہیں ہے ، اور محمد اللہ کے رسول ہیں " وہ جاہلی اجتماع سے ------- جسے وہ خیرباد نا کہ : " اللہ کے سوا کوئی کہہ چکا ہے --------- اپنی وفاداریوں کا رشتہ کاٹ دے ، اور جاہلی قیادت سے بغاوت کرے ، چاہے کسی بھیس میں ہو : کاہنوں، پروہتوں، جادوگروں اور قیافہ شناسوں کی مذہبی قیادت ہو یا سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی قیادت ہو، جیسی کہتاسے اپنی تمام تر وفاداریاں نئی اسلzمی جماعت، خدا آانحضور صلی اللہ علی وسلم کے عہد میں قریش کو حاصل تھی۔

شناس نظام اور اس کی خدا پرست قیادت کے ساتھ مخصوص رکھنا ہوں گی۔جاہلی فضا میں اسلام کے احیا کی صورت

تاسی لمحہ سے ہو جانا چاہیے جس لمحہ ایک شخص اسلzم میں داخ������ ہوتا ہے اور یہ قولیلیہ فیصلہ کن اقدام ہلہ الا اللہ" اور "محمد آاالشہادت دیتا ہے کہ: "لاا رسول اللہ"۔ مسلم معاشرہ اس انقلzبی اقدام کے بغیر وجود میں نہیں

آا سکتا۔ سکتا۔ مسلم معاشرہ محض افراد کے دلوں میں اسلzم کی نظریاتی بنیاد قائم ہو جانے سے کبھی وجود میں نہیں خواہ ایسے زبانی نام لیواؤں اور دلی خیر خواہوں کی دنیا کے اندر کتنی بڑی بھیڑ جمع ہو جائے ۔ اس معاشرہ کو برپا کرنے کے لیے شرط یہ ہے کہ اسلzم کی قولی شہادت ادا کرنے والے ایک ایسی تحریک کی شکل اختیار کریں جو زندگی سےآاہنگی اور ہمنوائی ہو۔ وہ جداگانہ تشخص لبریز اور فعال و منظم ہو، اس کے افراد کے اندر باہمی تعاون اور یکجہتی ہو، ہم تاس کے اعضاء انسانی جسم کے اعضاء و جوارح کی طرح منظم اجتماعی حرکت کے جلو میں اس کے وجود رکھتی ہو۔

77

Page 78: Jada o Manzil Complete

تاس تاتاریں اور شاخوں کو افق تا افق وسیعکی کا دفاع و استحکام کرتے ہوں۔ اس کی جڑوں کو زمین کی گہرائیوں میں تاسے مٹانے کے درپے آاور ہوتے ہیں اور تاس کے وجود اور نظام پر حملہ ند باب کریں جو تان عوامل و اسباب کا س کریں اور ہیں۔ یہ سب فرائض وہ ایک ایسی بیدار مغز، دور اندیش اور روشن ضمیر قیادت کی رہنمائی میں سر انجام دے سکتے ہیں جو جاہلی قیادت سے مستقل اور جداگانہ وجود رکھتی ہو۔ جو ایک طرف ان کی حرکت اور تگ و دو کی تنظیم

یکجہتی، وحدت اور یگانگت پیدا کرے اور دوسری طرف ان کے "اسلzمی وجود" کے استحکام اورںکرے اور اس مینف مقابل ------- جاہلی وجود ----------- کو زائل اور اس کے اثرات کویعتوس��� و تقویت کا انتظام بھی کرے اور اپنے حری

تان کی رہنمائی کرے ۔ ناپید کرنے میں یہی وہ فطری طریق کار ہے جس کی بدولت اسلzم کا عملی وجود دنیا میں قائم ہوا تھا۔ وہ ایک نظریاتی ضابطہتاس کی بنیاد پر ایک ٹھوس، آاتے ہی آایا جو اگرچہ مجمل حیثیت میں تھا مگر پوری زندگی پر محیط تھا۔ کی شکل میں آا گئی۔ جس نے نہ صرف جاہلی معاشرے سے اپنا جداگانہ اور مستقل تشخص قائم جاندار اور متحرک جماعت وجود میں ہرگز عملی وجود سے عاری حالت میں محض "خیالی تاس نے چیلنج کر دیا۔ وہ بھی بلکہ جاہلیت کے وجود کو کیا

آائندہ بھی اس کا وجود ایک عملی نظام کے ذریعہ ہی منص���������� آا سکتاۂنظریہ" کی صورت میں نہیں اترا تھا۔ اور ظہور پر نر نو اسلzم کی شمع فروزاں کی جائے گی تو خواہ کوئی دورہ بہ تہہہے ۔ جاہلی معاشرے کی تہ ظلمتوں کے اندر اگر ازس

اا چارہ کار نہ ہو گا کہ پہلے اسلzم کے اس مزاج اور فطرت کو لازمی طور پر سمجھ ہو اور کوئی ملک ہو اس کے بغیر قطعلیا جائے کہ اس کی نشو و نما ایک تحریک اور ایک نامیاتی نظام کے بغیر ہرگز نہ ہو سکے گی۔

اسلام کا اصل نصب العین "انسانیت" کا فروغ ہے اس تفصیل کے بعد یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ اسلzم جب مذکورہ طریق کار کے مطابق عقیدہ الوہیت کیتاسے ایک وحدت پسندانہ متحرک جماعت کے سانچے میں ڈھالتا اور تامت کی داغ بیل ڈالتا ہے اور بنیاد پر ایک مسلم تاس کا منتہائے مقصود درحقیقت یہ ہوتا ہے عقیدہ کو اس جماعت کا واحد رشتہ قرار دیتا ہے تو اس تمام جدوجہد سے تاسے پروان چڑھائے ، اسے طاقت ور اور بالا تر کرے اور انسان تاجاگر کرے ۔ کہ وہ انسان کی "انسانیت" کو بیدار اور تاسے غالب کرے ۔ چنانچہ وہ اپنے جامع اور ہمہ گیر نظام کی وساطت سے کے وجود میں پائے جانے والے تمام پہلوؤں پر تاس کے تمام احکام تاس کی جملہ ہدایات، تاس کے اساسی ضابطے ، ند جلیل کی تکمیل کے درپے رہتا ہے ۔ اسی مقص

و شرائع سب کا ہدف یہی مقصد ہوتا ہے ۔اس چنانچہ ۔ ہے رکھتا اشتراک ساتھ کے جمادات بلکہ حیوانات میں و خصائل اوصاف بعض اپنے انسان اوصاف و خصائل نے "سائنٹفک جہالت" کے علمبرداروں کو کبھی تو اس وہم میں ڈال دیا کہ دوسرے حیوانات کی طرح انسان بھی ایک حیوان ہے اور کبھی انہیں اس خام خیالی میں مبتلz کر دیا کہ انسان جمادات ہی کی ایک قسم ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان حیوانات اور جمادات کے ساتھ بعض باتوں میں اشتراک کے باوجود کچھ ایسے خصائص

78

Page 79: Jada o Manzil Complete

تاسے ان دونوں سے ممی����� تاسے ایک منفرد مخلوق کی حیثیت عطا کرتے ہیں۔ "سائنٹفک´ز بھی رکھتا ہے جو کرتے ہیں اور آاخر اس حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے ۔ دراصل ناقابل تان کی گردننجہالت" کے علمبرداروں نے بھی بال تردید حقائق نے

اس طرح دبوچ لی ہے کہ وہ کائنات کے اندر انسان کی امتیازی حیثیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ مگر بایں ہمہ ان29کا یہ اعتراف نہ مخلصانہ ہے اور نہ دو ٹوک۔

انسانیت" کو فروغ دینے کے نتائج"نہایت درخشاں اور تاس کے پاکیزہ نظام حیات نے جو خدمت سر انجام دی ہے اس مسئلے میں اسلzم کے گھٹیا بندیوں کی جغرافی حد اور مصلحتوں مادی وطن، و زبان رنگ، و نسل نے اسلzم ۔ ہوئے آامد بر نتائج محسوس عصیبتوں اور کمزور رشتوں کو پامال کر کے صرف عقیدہ و دین کے رشتہ پر اسلzمی معاشرہ کی بنا ڈالی۔ اس معاشرےاور آابیاری کی تان کی تابھارا، انسانی خصائص کو بجائے صرف اور حیوان کے مشترک خصائص کے انسان اندر کے تان میں سے ایک اہم نتیجہ یہ تھا کہ آامد ہوئے غالب و برتر کر دیا۔ اس کارنامہ عظیم کے جو درخشاں اور محسوس نتائج برتکھلz معاشرہ بن گیا جس میں ہر نسل، ہر قوم، ہر زبان اور ہر رنگ کے افراد اسلzمی معاشرہ ایک ایسا وسیع الظرف اور نداخل ہو سکتے تھے ۔ اس میں فضول اور حیوانی خصوصیت کی حامل حد بندیوں کا نام و نشان نہ تھا۔ اس کے بحرآا کر گرتی رہیں۔ اور باہم خلط مل��� ہلی تر صلzحیتوں اور بوقلموں قابلیتوں کی ندیاں طبیکراں میں تمام انسانی نسلوں کی اع

تاس نے اتہ کم تھی مگر ہی درجہ کا مرکب تیار ہوا جس کی عمر اگرچہ نسب ہوتی رہیں۔ اور ان کے امتزاج سے ایک ایسا اعلتکن اور عظیم تہذیب کو جنم دیا جس نے اپنے دور کی تمام انسانی صلzحیتوں اور انسانی دنیا کے اندر ایک ایسی خیرہ فکر و دانش کا نچوڑ اپنے دامن میں جمع کر لیا تھا، اس کے باوجود کہ اس دور میں مسافتیں نہایت کٹھن تھیں، اورہی درجہ کے اسلzمی معاشرہ میں عربی، فارسی، شامی، تسست رفتار تھے ۔ اس اعل مواصلzت کے ذرائع و وسائل نہایت

تاباں جمعنمصری، مراکشی، ترکی، چینی، ہندی، رومی، یونانی، انڈونیشی، افریقی الغرض ہر قوم اور ہر نسل کے جوہرآاہنگی و یکجہتی کے ساتھ انہوں ہوئے ۔ ان سب کی خصوصیات یکجا ہو گئیں اور اختلzط باہم و تعاون و توافق اور ہم تاسے چار چاند لگائے ۔ یہ حیرت انگیز تہذیب ایک نے اسلzمی معاشرے اور اسلzمی تہذیب کی تعمیر میں حصہ لیا اور اا "نظریاتی تہذیب" کی حیثیت سے متعارف رہی۔ ہر قوم کے افراد اس میں دن بھی "قومی تہذیب" نہ تھی، بلکہ خالصتتان کے مساویانہ شان کے ساتھ شریک ہوئے ۔ محبت اور اخلzص کے مقدس رشتوں نے انہیں باہم منسلک کر رکھا تھا۔ تکوٹ کر بھر دیا کہ وہ سب ایک ہی منزل کے راہی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس تہذیب کی خدمت تکوٹ اندر یہ احساس کے لیے اپنی اس میں فضول اور حیوانی خصوصیت کی حامل حد بندیوں کا نام و نشان نہ تھا۔ اس کے بحر بیکراں میںآا کر گرتی رہیں۔ اور باہم خلط ملط ہوتی رہیں۔ ہی تر صلzحیتوں اور بوقلموں قابلیتوں کی ندیاں تمام انسانی نسلوں کی اعلتاس نے دنیا کے اتہ کم تھی مگر ہی درجہ کا مرکب تیار ہوا جس کی عمر اگرچہ نسب اور ان کے امتزاج سے ایک ایسا اعل

ان لوگوں میں پیش پیش جدید ڈارونزم کے داعی جولین ہکسلے ہیں )مصنف( 29

79

Page 80: Jada o Manzil Complete

تکن اور عظیم تہذیب کو جنم دیا جس نے اپنے دور کی تمام انسانی صلzحیتوں اور انسانی فکر و اندر ایک ایسی خیر دانش کا نچوڑ اپنے دامن میں جمع کر لیا تھا۔ اس کے باوجود کہ اس دور میں مسافتیں نہایت کٹھن تھیں اور مواصلzتہی درجہ کے اسلzمی معاشرہ میں عربی، فارسی، شامی، مصری، تسست رفتار تھے ، اس اعل نہایت کے ذرائع و وسائل مراکشی، ترکی، چینی، ہندی، رومی، یونانی، انڈونیشی، افریقی، الغرض ہر قوم اور ہر نسل کے جوہر تاباں جمع ہوئے ۔ انآاہنگی و یکجہتی کے ساتھ انہوں نے اسلzمی سب کی خصوصیات یکجا ہو گئیں اور اختلzط باہم، تعاون و توافق اور ہم تاسے چار چاند لگائے ۔ یہ حیرت انگیز تہذیب ایک دن بھی " معاشرے اور اسلzمی تہذیب کی تعمیر میں حصہ لیا اور اا "اسلzمی تہذیب " تھی۔ یہ کبھی بھی " قومی تہذیب " نہیں رہی، بلکہ ہمیشہ " عربی تہذیب " نہ تھی بلکہ خالصت نظریاتی تہذیب " کی حیثیت سے متعارف رہی۔ ہر قوم کے افراد اس میں مساویانہ شان کے ساتھ شریک ہوئے ۔ محبت اورتکوٹ کر بھر دیا کہ وہ سب تکوٹ تان کے اندر یہ احساس اخلzص کے مقدس رشتوں نے انہیں باہم منسلک کر رکھا تھا، ایک ہی منزل کے راہی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس تہذیب کی خدمت کے لیے اپنی انتہائی قابلیتیں صرف کیں۔ اپنےقومی ، تجربات شخصی اپنے کیا۔ نچھاور پر قدموں کے تہذیب تاسے کے کر تاجاگر کو خصائص نسلی ممتاز ہنی آابیاری اور ترقی کے لیے وقف کر دیا جس طرف وہ سب بلz اد تاسی ایک چمن کی خصوصیات اور حاصل تاریخ کو تفاوت منسوب تھے ، جس کے اندر انہیں وہ رشتہ باہم جوڑے ہوئے تھا جس کا سرا ان کے پروردگار کے ہاتھ میں تھا۔ اور جس میں ان کی " انسانیت " بلz روک ٹوک پروان چڑھ رہی تھی ----------------- یہ وہ نمایاں خوبیاں ہیں جو پوری

انسانی تاریخ میں کسی اور انسانی اجتماع کو نصیب نہیں ہو سکیں۔

کیا قدیم معاشروں نے "انسانیت" کو فروغ دیا؟ قدیم انسانی تاریخ میں سب سے ممتاز اور مشہور ترین معاشرہ رومن امپائر سمجھا جاتا ہے ۔ اس معاشرے میں بھی متعدد نسلیں جمع تھیں اور مختلف زبانوں اور متعدد رنگوں اور گونا گوں مزاج کے لوگ جمع تھے ۔ لیکن ان کااz عقیدہ ان کو باہم پیوستہ رکھنے والا تھا، ہی تر قدر مثل اتحاد اور اجتماع "انسانی رشتہ" پر قائم نہ تھا۔ اور نہ کوئی اور اعل

پوری۔ کا یہ اجتماع طبقاتی تقسیم پر قائم تھا۔ ایک طرف "شرفا" کا طبقہ تھا اور دوسری طرف "غلzموں" کا بلکہ انترو سے رومی امپائر انہی دو طبقوں میں منقسم تھی۔ علzوہ ازیں نسلی امتیاز بھی اس کے خمیر میں شامل تھا۔ جس کی

ہہذا اس´نسل کو سیادت و تفو ق حاصل تھا اور دوسری تمام نسلیں اس کے مقابلے میں غلzموں کی حیثیت رکھتی تھیں۔ لاۃ وہ انسانیت کو ان ثمرات و معاشرے کو وہ بلندی نصیب نہ ہو سکی جس تک اسلzمی معاشرہ پہنچ گیا تھا اور نتیج

تاسے مالا مال کیا تھا۔ برکات سے بھی بہرہ اندوز نہ کر سکا جن سے اسلzمی معاشرے نے

کیا جدید معاشرے "انسانیت" کو فروغ دے سکتے ہیں؟ حاضر میں بھی کئی معاشرے ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر برٹش امپائر کر لیجیئے ۔ لیکن وہنتاریخ

ایک کا تلوٹ کھسوٹ پر پیمانے قومی یہ ۔ ہے نہیں مختلف ، ہے ہی اعل مورث کا اس معاشرے سے جو رومی بھی

80

Page 81: Jada o Manzil Complete

آاشامی پر ہے جن میں برٹش امپائر کا دیو استبداد آابادیات کی خون اجتماع ہے جس کی بنیاد انگریز قوم کی برتری اور ان نوآانجہانی سلطنتیں، فرانسیسی امپائر، ان تپرتگال کی ناچ رہا ہے ۔ دوسری یورپین سلطنتوں کا بھی یہی حال ہے ۔ اسپین اور

سب کا ایک ہی ڈھنگ رہ چکا ہے ۔ سب کی سب ظالمانہ نظام کی علمبردار اور پست سطح کی بادشاہتیں تھیں۔ہوے کیا جو رنگ کمیونزم نے بھی ایک نرالے طرز کا معاشرہ قائم کرنا چاہا اور ان دیواروں کو مسمار کرنے کا دع

تچن رکھی تھیں۔ لیکن اس اجتماع کی تعمیر بھی "انسان دوستی" کی ہمہ گیرنیو پرںو نسل، قوم و وطن اور جغرافیہ نے نہیں کی گئی۔ بلکہ "طبقاتی تقسیم" کو بنائے اجتماع قرار دیا گیا ہے ۔ اس لحاظ سے کمیونسٹ معاشرہ قدیم رومیترخ ہے ۔ رومی معاشرہ طبقہ شرفاء کو امتیاز دیتا تھا اور کمیونسٹ معاشرہ طبقہ عمال )پرولتاریہ( کو یہ معاشرہ ہی کا دوسرا امتیازی حیثیت دیتا ہے ۔ اور اس کی تہہ میں جو جذبہ کارفرما ہے وہ دوسرے تمام طبقوں کے خلzف حسد اور بغض کاہنی جذبہ ہے ۔ اس قسم کا کم ظرف اور کینہ توز معاشرہ اس کے سوا اور کوئی پھل نہیں دے سکتا کہ وہ انسان کے اد جذبات کو بھڑکائے ۔ وہ اپنی داغ بیل ہی اس بات پر ڈالتا ہے کہ انسان کے اندر صرف حیوانی اور سفلی اوصاف کو برانگیختہ کرے اور ان کو خوب پالے پوسے اور ان کو زیادہ سے زیادہ طاقت ور بنائے ۔ اس لیے کہ اس کی نگاہ میں انسان کے بنیادی مطالبات وہی کچھ ہیں جو حیوان کے بنیادی تقاضے اور ضرورتیں ہیں، یعنی غذا، مکان اور جنسی

ترو سے پوری انسانی تاریخ روٹی کی تلzش میں سرگرد ں رہی ہے ۔اتسکین۔ چنانچہ اس کے فلسفہ کو

اس میدان میں اسلام یکتا اور منفرد ہے ہی ترین خصوصیات کو اوپر ابھار کر لاتا ہے اور پھر صرف اسلzم ہی وہ ربانی نظام حیات ہے جو انسان کی اعلآاج تک انہیں پوری طرح پرورش کرتا ہے اور انسانی معاشرے کی تعمیر کے لیے انہیں زیادہ سے زیادہ فروغ دیتا ہے ۔ اسلzم آا رہا ہے ۔ جو لوگ اس نظام سے منحرف ہو کر کسی اور نظام کے خواہاں ہیں، خواہ وہ zاس میدان میں یکتا اور منفرد چل نظام قوم پرستی کی بنیاد پر ہو یا وطنیت کی بنیاد پر، رنگ و نسل کو اہمیت دیتا ہو یا طبقاتی کشمکش کا علمبردار ہو یا ان جیسے اور فاسد نظریات کے خمیر سے تیار ہوا ہو، وہ لوگ بلz شبہ انسان کے دشمن ہیں۔ وہ دراصل یہ نہیں چاہتے کہ

ہلی نے اس کی فطرت میں سموۂانسان اس صفح ہستی پر اپنی ان بلند تر خصوصیات کے ساتھ نمودار ہو جو اللہ تعا رکھی ہیں۔ اور نہ یہ پسند کرتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی تمام انسانی نسلوں کی ہمہ گیر صلzحیتوں اور خوبیوں سے اور ان کے صدیوں کے تجربات سے استفادہ کرے اور اس غرض کے لیے کوئی مخلوط اور متناسب نظام تجویز کرے ۔ ایسے ہی

ہلی فرماتا ہے :لوگوں کے بارے میں اللہ تعا

اعا۔ من تص نن تنو نس مح تي مم تھ ´ن ن نا نن تبو نس مح ني مم تھ نو نيا من تد نۃ ال نيا نح مل نفي ا مم تھ تي مع نس نل نض نن نذي ´ل ن اا۔ ا نمال مع نا نن نري نس مخ نا مل نبا مم ت¶ تئ ن´ب نن تن مل نھ مل تقتم ´ن ن نھ نج مم تھ تؤ نزا نج ن« نل نذ انا۔ مز نو نۃ نم نيا نق مل نم ا مو ني مم تھ نل تم نقي تن zن نفل مم تھ تل نما مع نا مت نط نب نح نف نہ نئ نقا نل نو مم نھ ن´ب نر نت نيا آا نب تروا نف ن³ نن نذي ´ل ن ن« ا نئ نل تاو

اوا۔ )الکھف تز تھ نلي تس تر نو نتي نيا آا تذوا نخ ن´ت نوا تروا نف ن³ نما (106 – 103نب

81

Page 82: Jada o Manzil Complete

اے محمد ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ بھٹکی رہی اور سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھسے وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہ راست

آایات کو ماننے سے انکار کیا ور اس کے حضور پیشی کا یقین ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی تان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے ۔ قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے ۔ ان کی جزا جہنم نہ کیا۔ اس لیے آایات اور میرے رسولوں کے ساتھ کرتے تاس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری تاس کفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور ہے

رہے ۔

واپس اوپر جائیے

باب چہارم

جہاد فی سبیل اللہ

82

Page 83: Jada o Manzil Complete

تحریک جہاد کے مراحل امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں ایک باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے : ----------- بعثت سے لے کر وصال تک کفار و منافقین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ کیسا رہا؟------------- اس باب میں امام

:موصوف نے درحقیقت اسلzمی جہاد کی تحریک کا خلzصہ بیان کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ن«" ن´ب نر نم مس نبا ما نر مق آاپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل فرمائی، وہ یہ تھی "ا ہلی نے سب سے پہلے اللہ تعا

آاغاز نق ۔۔۔۔۔۔۔" یہ نل نخ نذي ´ل ن آاپ صلی اللہ علیہ وسلمنا آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ہلی نے نبوت تھا۔ اللہ تعانھا ت´ي نا نيا اس وحی کو دل میں پڑھا کریں۔ دوسروں تک اس کی تبلیغ کا حکم نہیں دیا۔ پھر اللہ نے یہ نازل فرمایا کہ " آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا فرمائی اور "یا ایھا المدثر" مر " اس طرح "اقرا" کی وحی سے اللہ نے نذ نان نف مم تق تر۔ ´ث ن ند تم مل اآاپ آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت کا منصب دیا۔ بعد میں کے ارشاد سے آانجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنی قوم کو ڈرایا، صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قریبی رشتہ داراروں کو ڈرائیں۔ چنانچہ آاپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام آاخر آاگے بڑھ کر تمام عربوں کو ڈرایا۔ اور پھر بال آاس پاس کے عربوں کو ڈرایا۔ اور پھر پھر

اا آاپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت کے بعد تقریب تک دعوت و تبلیغ کے ذریعہ لوگوں کو اللہ13جہان کو ڈرایا۔ چنانچہ آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی حکم ملتا رہا کہ کا خوف دلاتے رہے ۔ اس عرصہ میں نہ جنگ کی نہ جزیہ لیا۔ بلکہ آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہاتھ روکے رکھیں، صبر سے کام لیں اور عفو و درگزر کو شعار بنائیں۔ پھر آاپ آاپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کریں، ملz۔ اور قتال کی بھی اجازت دی گئی۔ پھر یہ حکم ملz کہ جو لوگ

تا آاپ صلی اللہ علیہنصلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کریں اور ان لوگوں سے ہاتھ کو روک لیں جو الگ تھلگ رہے ہیں اور وسلم سے جنگ کے لیے نہیں نکلے ۔ بعد ازاں یہ حکم دیا کہ مشرکین سے جنگ کریں، یہاں تک کہ دین پورے کا پورا

نل حرب اورناللہ کے لیے ہو جائے ۔ پھر حکم نل صلح، دوسرے اہ آانے کے بعد کفار کی تین قسمیں ہو گئیں: ایک اہ جہاد تان کا معا آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ اور صلح تھی، حکم ہوا کہ نل ذمہ۔ جن کفار سے تپورا کریں اورہ���تیسرے اہ دہ

تان کا عہد تان کے معاہدہ کا ایفاء کیا جائے اور اگر ان سے خیانت کا اندیشہ ہو تو جب تک وہ خود عہد پر استوار رہیں، نض عہد کی ان کو اطلzع نہ کر تاٹھائیں جب تک نق تان کے منہ پر دے ماریں اور اس وقت تک ان کے خلzف تلوار نہ

ت نازل ہوئی تو اسا سے جنگ کی جائے --------------- اور جب سورۃ برںدیں۔ اور حکم ہوا کہ عہد شکنی کرنے والو سورۃ میں تینوں قسم کے احکام بیان کیے گئے ۔ اور یہ واضح کر دیا گیا کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ خدا و رسولتان سے جنگ کریں یہاں تک کہ وہ جزیہ دینا قبول کریں یا اسلzم میں داخل ہو جائیں۔ کفار اور منافقین کے دشمن ہیں آاپ تان سے سخت برتاؤ کیا جائے ۔ چنانچہ کے بارے میں اس سورۃ میں بتایا گیا کہ ان کے خلzف جہاد کیا جائے اور صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ساتھ شمشیر و سناں سے جہاد کیا۔ اور منافقین کے ساتھ دلیل و زبان سے ۔ اسی سورۃ

نن برات کر دیں اور ان کے معاہدے ان کےہ��میں یہ بھی فرمایا گیا کہ کفار کے ساتھ کیے ہوئے اپنے تمام معا zدوں سے اعل

83

Page 84: Jada o Manzil Complete

منہ پر دے ماریں-------- اس سلسلہ میں اہل معاہدہ کی تین قسمیں قرار دی گئیں: ایک وہ قسم جس سے قتال کا حکمآاپ صلی اللہ دیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خود عہد شکنی کی تھی۔ اور عہد کی پابندی پر قائم نہ رہے تھے ۔ آاپ صلی اللہ علیہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ کی اور ظفر یاب ہوئے ۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے ساتھ

آاپ´وسلم کے معاہدے ایک معی ن مدت تک کے لیے تھے اور انہوں نے ان معاہدوں کی خلzف ورزی نہیں کی اور نہ کی مدتںصلی اللہ علیہ وسلم کے خلzف کسی کو مدد دی۔ ان کے بارے میں اللہ نے حکم دیا کہ ان کے معاہدو

آاپ آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی معاہدہ نہ تھا اور نہ وہ پوری کریں۔ تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جن کے ساتھ نر پیکار ہوئے ، یا ایسے لوگ تھے جن کے ساتھ غیر معی آاپ صلی اللہ علیہ´صلی اللہ علیہ وسلم سے برس ن عرصہ کے لیے

وسلم کا معاہدہ تھا۔ تو ایسے سب لوگوں کے بارے میں ارشاد ہوا کہ انہیں چار ماہ کی مہلت دی جائے اور جب یہ مہلت ختم ہو جائے تو ان سے قتال کیا جائے ------------- چنانچہ عہد شکنی کرنے والوں کو قتل کیا گیا اور جن سے کوئی معاہدہ نہ تھا یا جن کے ساتھ غیر محدود مدت کا معاہدہ تھا انہیں چار ماہ کی مہلت دی گئی۔ اور ایفائے معاہدہنش اسلzم ہو گئے ۔ اور نت معاہدہ کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس طرح کے تمام لوگ حلقہ بگو کرنے والوں کی مد

مہلت کے خاتمہ تک وہ کفر پر قائم نہ رہے ۔ اہل ذمہ پر جزیہ عائد کر دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ الغرض سورۃ برات کےۂعرص���������لیں۔ کر اختیار شکلیں تین پر طور مستقل نے برتاؤ کے وسلم علیہ اللہ آاپ صلی ساتھ کے کفار بعد کے ہونے نازل

اہل اہلنمحاربین، اور اہلن عہد :ن ذمہ۔ آاخر اسلzم میں شامل ہو گئے اور صرف دو قسم کے لوگ رہ گئے بال عہد بھی آاپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خائف رہتے تھے ۔ اس طرح تمام اہلنمحاربین اور اہل زمین تین شکلوں میںن ذمہ۔ محاربین

تجو آاپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ، دوسرے صلح آا گئے : ایک مسلمان جو آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نر جنگ رہے ۔ رہا منافقین کے معاملہ آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امان ملی اور تیسرے خائفین جو برس جن کو

آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ تان کے،میں آاپ صلی اللہ علیہ وسلم آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ تو تان تان کے ساتھ جہاد کریں۔ تان کے باطن کے حالات کو اللہ پر چھوڑ دیں اور علم اور دلیل سے ظاہر کو قبول کریں اور تروکشی کریں اور شدت کا برتاؤ کریں اور قول بلیغ کے ساتھ ان کے دلوں پر اثر ڈالیں۔ ان کا جنازہ پڑھنے سے اور ان سے آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا گیا کہ اگر آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منع کر دیا گیا۔ اور کی قبروں پر قیام کرنے سے آاپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے مغفرت بھی طلب کریں گے تو اللہ ان کو معاف نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے

"آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ کافر اور منافق دشمنوں کے بارے میں۔ اس مضمون میں جہاد اسلzمی کے تمام مراحل کی بڑی عمدگی سے تلخیص کی گئی ہے ۔ اس تلخیص میں

ور رس اوصاف کی جھلک ملتی ہے ۔ یہ اس قابل ہیں کہ ان کا بغائر نظرت حق کے تحریکی نظام کے امتیازی اور دندینتمجمل اشارات ہی سے کام لے سکتے ہیں۔ مطالعہ کیا جائے ۔ لیکن ہم یہاں چند

تحریک جہاد کی پہلی امتیازی خصوصیت

84

Page 85: Jada o Manzil Complete

حق کا پہلz امتیازی وصف یہ ہے کہ اس دین کا پورا نظام عملی اور حقیقت پسندانہ ہے ۔ اس کی تحریکندین واقعہ میں موجود انسانوں کو پکارتی ہے اور ان وسائل و ذرائع سے کام لیتی ہے جو انسان کے عملی حالات کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں۔ چونکہ اس تحریک کا مقابلہ ایک ایسی جاہلیت سے ہوتا ہے جو ایک طرف خیالات اور عقائد پر قابض ہوتی ہے ، دوسری طرف اس کی بنیاد پر زندگی کا عملی نظام قائم ہوتا ہے ۔ اور تیسری طرف اسے اور اس کے قائم

نم زندگی کی پشت پناہی کے لیے سیاسی اور مادی اقتدار موجود ہوتا ہے ۔ اس لیے اسلzم تحریک کو جاہلیتیکردہ نظا کا مقابلہ کرنے کے لیے متوازی وسائل و اسباب بروئے کار لانا پڑتے ہیں۔ یہ تحریک خیالات و عقائد کی اصلzح کے لیےنم زندگی اور اس کے پشت پناہ اقتدار کے ازالہ کے لیے مادی طاقت اور دعوت و تبلیغ کو ذریعہ بناتی ہے ، جاہلی نظا

کیوں کہ یہ نظام اور یہ اقتدار عامۃ الناس کے عقائد و خیالات کی اصلzح کی کوشش میں۔جہاد سے کام لیتی ہے نب جلیل تکن ہتھکنڈوں کے ذریعہ اپنی اطاعت پر مجبور کرتا ہے ۔ اور ان کو اپنے ر حائل ہوتا ہے اور اپنے وسائل اور گمراہ تبلیغ پر ہی آازمائی میں محض دعوت و نبرد تجھکا دیتا ہے ۔ یہ تحریک مادی اقتدار سے آاگے کے بجائے انسانوں کے

اور قوت کا استعمال مناسب سمجھتی ہے ۔ہاکتفا نہیں کرتی اور نہ عام انسانوں کے افکار کو بدلنے کے لیے جبر و اکرانق کار میں یکساں طور پر اختیار کیے جاتے ہیں۔ یہ تحریک برپا ہی اس غرض کے لیے یہ دونوں اصول اس دین کے طری

تاسے خدائے واحد کا بندہ بنائے ۔ آازاد کر کے تجوئے سے ہوتی ہے کہ انسان کو انسان کی غلzمی کے

دوسری امتیازی خصوصیت اس کا دوسرا امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ ایک عملی تحریک ہے جو مرحلہ بمرحلہ ترقی کرتی ہے اور ہر مرحلےآانے والے میں اپنی عملی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق متوازی اور موزوں وسائل اختیار کرتی ہے ۔ ہر مرحلہ بعد میں

تجریدی نظریات سے سامنا نہیں کرتا اور نہکا ہے ۔۔۔۔۔۔ دراصل یہ دین عملی زندگی یمرحلہ کے لیے فضا ہموار کرت وہ زندگی کے مختلف مراحل کو جامد اور ناقابل تغیر ذرائع سے طے کرتا ہے ۔ جو لوگ دین کے نظام جہاد پر گفتگوآانی نصوص کو بطور استدلال پیش کرتے وقت دین کے اس امتیازی وصف کا لحاظ نہیں کرتے اور نہ ان کرتے ہوئے قرنک جہاد گزری ہے اور نہ ان کی نظر اس پہلو پر ہوتی ہے کہ آاگاہ ہوتے ہیں جن سے تحری مراحل کی فطرت و حقیقت سے نم جہاد پر کلzم کرتے ہیں تو مختلف نصوص کا ہر ہر مرحلہ سے کیا تعلق ہے تو اس طرح کے لوگ جب اسلzم کے نظاتکن انداز سے بیان کرتے نم جہاد کو گمراہ بات کو نہایت بھونڈے طریقے سے خلط ملط کر دیتے ہیں۔ اور دین کے نظاآایات آانی کو زبردستی کھینچ تان کر ان میں سے ایسے اصول اور قواعد کلیہ اخذ کرتے ہیں جن کی ان نت قر آایا ہیں۔ اور آایت کے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ آان کی ہر اا گنجائش نہیں ہوتی۔ ان کی غلطی کی بنیاد یہ ہے کہ وہ قر میں قطعآاخری اور کلی حکم بیان کر دیا گیا ہے ۔ یہ گروہ مفکرین دراصل ان آاخری اور کلی نص ہے ۔ اور اس میں دین کا یہی تکن حالات کے دباؤ کے سامنے روحانی اور عقلی طور پر ہتھیار ڈال چکا ہے جس میں اس وقت موجودہ مسلمان مایوس یہ اسی شکست خوردہ نہیں رہ گیا ہے ۔ باقی لیبل کے اور کچھ مبتلz ہے اور جس کے پاس سوائے اسلzم کے نسل

85

Page 86: Jada o Manzil Complete

ذہنیت کا اثر ہے کہ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ: "اسلzم صرف مدافعانہ جنگ کا قائل ہے " اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ وہ اس گمان میں مبتلz ہیں کہ انہوں نے اس تاویل سے دین پر بڑا احسان کیا ہے ۔ حالانکہ اس غلط تاویل سے وہ دین کوتروئے نق کار سے دستبردار ہو جانے کی دعوت دے رہے ہیں۔ گویا دین اپنا یہ نصب العین چھوڑ دے کہ وہ اپنے امتیازی طریآایا آاگے خم کرنے کے لیے آایا ہے ۔ انسانیت کا سر صرف خدائے واحد کے زمین سے طاغوتی طاقتوں کو مٹانے کے لیے آایا ہے ۔ لیکن ہے ۔ انسانوں کو بندوں کی غلzمی سے نکال کر بندوں کے پروردگار کی غلzمی میں داخل کرنے کے لیے اپنا عقیدہ نہیں منواتا، بلکہ وہ لوگوں کے لیے یہ نصب العین سرانجام دینے کے لیے لوگوں سے بزور شمشیر اپنا اسلzم

نر اقتدار سیاسی نظاموں کو کلیت آازاد فضا فراہم کرتا ہے ۔ وہ برس مٹا دیتا ہے یا انہیں زیرنگیں کر کےاہانتخاب عقیدہ کی نر اطاعت خم کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔ اس طرح وہ کوئی ایسی رکاوٹ باقی نہیں رہنے دیتا جو اس جزیہ قبول کرنے اور سآازادی دیتا ہے کہ چاہے تو عقیدہ کو ماننے کی راہ میں لوگوں کے سامنے حائل ہوتی ہو۔ اس کے بعد وہ لوگوں کو مکمل

وہ اس عقیدہ کو قبول کریں یا نہ کریں۔

تیسری امتیازی خصوصیت تیسرا امتیازی وصف یہ ہے کہ دین کی یہ سخت کوش اور رواں دواں تحریک اور اس کے نوبنو وسائل دین کونز اول ہی سے ، خواہ وہ رسول کے قریبی رشتہ داروں سے اس کے بنیادی اصول و مقاصد سے دور نہیں کرتے ۔ دین نے روتاس ہم کلzم ہو یا قریش سے خطاب کر رہا ہو یا سب عربوں کی طرف اس کا روئے سخن ہو، یا تمام دنیا کے باشندے تاس نے سب سے ایک ہی بنیاد پر گفتگو کی ہے ۔۔۔۔۔ وہ سب سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انسانوں کے مخاطب ہوں،

ئی سودا بازی نہیںکوکی بندگی سے نکل کر صرف خدائے واحد کی بندگی کے لیے یکسو ہو جائیں۔ اس اصول پر وہ کرتا، اور نہ کسی لچک کو گوارا کرتا ہے ۔ پھر وہ اس یکتا مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک لگے بندھے منصوبے پر´ین مراحل پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر مرحلے کے لیے متوازی اور نئے وسائل بروئے کار عمل پیرا ہو جاتا ہے ، یہ منصوبہ چند مع

آائے ہیں۔ لائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ہم پیچھے بیان کر

چوتھی امتیازی خصوصیت چوتھا امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ دین مسلم معاشرے اور دیگر معاشروں کے باہمی تعلقات کو باقاعدہ قانونی شکل دیتا ہے ۔۔۔۔ جیسا کہ زاد المعاد کی مذکورہ تلخیص سے واضح ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ یہ قانونی ضابطہ جس بنیاد پر قائم ہے وہ یہ ہے کہ "اسلzم " )خدا کی فرمانبرداری اور اطاعت کیشی کا رویہ اختیار کرنا( ایک عالم گیر حقیقت ہے جس کیتاسے چاہیے طرف رجوع کر لینا انسانیت پر لازم ہے ۔ اور اگر وہ اس کی طرف رجوع نہ کرے اور اسے اختیار نہ کرے تو کہ وہ اسلzم کے ساتھ بالجملہ مصالحت کا موقف اختیار کرے اور کسی سیاسی نظام یا مادی طاقت کی شکل میںآازاد مرضی آازاد چھوڑ دے تا کہ وہ اپنی آاگے کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرے ۔ وہ ہر فرد کو اسلzم کی دعوت و تبلیغ کے تاسے اختیار کرے یا نہ اختیار کرے اور اگر اسے اختیار نہ کرنا چاہے تو اس کی مزاحمت بھی نہ کرے اور دوسروں سے

86

Page 87: Jada o Manzil Complete

ند راہ نہ بنے ۔ اگر کوئی شخص مزاحمت کا رویہ اختیار کرے گا تو اسلzم کا فرض ہو گا کہ وو اس سے جنگ کے لیے ستاتار دے یا پھر وہ وفاداری اور اطاعت کا اعلzن کر دے ۔ تاسے موت کے گھاٹ کرے یہاں تک کہ

شکست خوردہ اور مرعوب ذہنیت کے ادیب جب "اسلzم میں جہاد کی حقیقت " کے موضوع پر خامہ فرسائی کرتے ہیں اور دامن اسلzم سے جہاد کا "دھبہ" دھونے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ دو باتوں کو ایک دوسرے کے ساتھآانی )لا اا ٹھونسنے کی مخالفت کرتا ہے جیسا کہ نص قر خلط ملط کر دیتے ہیں۔ ایک دین کا یہ رویہ کہ وہ عقیدہ کو جبرنق کار کہ وہ ان تمام سیاسی اور مادی قوتوں کو نیست و نابود کرتا اکراہ فی الدین( سے عیاں ہے ۔ اور دوسرا دین کا یہ طری ہے جو عقیدہ دین اور انسانوں کے درمیان دیوار بن کر کھڑی ہوتی ہیں، اور جو انسان کو انسان کے سامنے سرافگندہتاسے اللہ کی عبودیت سے روکتی ہیں ۔۔۔۔ یہ دونوں اصول بالکل الگ الگ ہیں ۔ ان کا باہم کوئی تعلق کرتی ہیں اور اپنی شکست خوردہ ذہنیت سے یہ لوگ ہمہ بایں باہم گڈمڈ کرنے کی کوئی گنجائش ہے ۔ نہ دونوں کو اور نہیں ہے میں مفہوم اس کو صرف میں جہاد اسلzم کہ ہیں چاہتے اور ہیں کرتے کرنے کی کوشش مبحث کر خلط ہر مجبور آاج "دفاعی جنگ" سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ اسلzمی جہاد ایک جداگانہ حقیقت محصور کر دیا جائے جسے

حاضر کی انسانی جنگوں سے اس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ نہ اسباب جنگ کے لحاظ سے اورنہے ۔ عہد نہ جنگ کے ظاہری رنگ ڈھنگ کے لحاظ سے ۔ اسلzمی جہاد کے اسباب خود اسلzم کے مزاج اور دنیا میں اس کے

ہلی اصولوں کے اندر تلzش کرنے چاہئاصل کردار کے اندر تلzش کرنے چاہ ہلی نے اس دینئیں اور ان اع یں جو اللہ تعا کے لیے مقرر فرمائے اور جنہیں بروئے کار لانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت کے منصب عظیم پر

آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کوخاتم الرسالات کااور سرفراز فرمایا اور پھر درجہ قرار دیا۔

تن عام آازادی کا اعلا ہے اسلام انسان کی حق دراصل اس عالمگیر اعلzن کا نام ہے کہ دنیا میں انسان، انسان کی غلzمی سے ، اور خود نفس کیندین

تاس اعلzن کا طبعی نتیجہ ہے کہ الوہیت آازاد ہو، یہ اعلzن دراصل غلzمی سے جو انسانی غلzمی ہی کی ایک شکل ہے ، جہان کو محیط ہے ۔ اس کا مطلبنکا مقام صرف خدائے واحد کے لیے مخصوص ہے اور اس کی شان ربوبیت تمام اہل

´لی انقلzب اور روئے تک نت انسان کی ہر نوعیت، ہر شکل، ہر نظام اور ہر حالت کے خلzف ہمہ گیر اور یہ ہے کہ دین حاکمیتاس ہی ت کے خلzف مکمل بغاوت کرتا ہے جس میں کسی شکل میں بھی حکمرانی انسان کےئزمین پر قائم شدہ ہر

نہاتھ میں ہو۔ یا دوسرے الفاظ میں الوہیت کا مقام انسان نے کسی نہ کسی صورت میں حاصل کر رکھا ہو۔ ایسا نظامکو انسان ہوں۔ منبع کا اختیارات ہی انسان اور ہو ہوتا انسان کی طرف آاخری رجوع کا معاملzت میں حکمرانی جس درحقیقت الوہیت کا درجہ دیتا ہے ۔ اور بعض انسانوں کو اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کے لیے ارباب من دون اللہ ٹھیراتا ہے ۔ مگر جب یہ اعلzن کر دیا گیا کہ ربوبیت اور الوہیت صرف خدائے واحد کے لیے مخصوص ہے تو اس کا

87

Page 88: Jada o Manzil Complete

ہلی کی طرف لوٹا دیا جائے ۔ اور ان ہلی کا غصب شدہ اقتدار غاصبین سے لے کر دوبارہ اللہ تعا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعا حکومت بچھاتے ہیں، خودنغاصبین کو نکال باہر کیا جائے جو خانہ ساز شریعتوں کے ذریعہ انسانوں کی گردنوں پر تخت

کو ان کے لیے رب کا مقام دیتے ہیں اور انہیں اپنے غلzموں کا درجہ دیتے ہیں۔ مختصر لفظوں میں اللہ کی الوہیت اورآاوازہ بلند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ساری انسانی بادشاہتوں کی بساط لپیٹ کر اس زمین پر صرف پروردگار عالم ربوبیت کا

آان کریم کے الفاظ میں یہ اعلzن کر دیا جائے :کی بادشاہت کا ڈنکا بجا دیا جائے ۔ یا قر

تم۔ )زخرف : نلي نع مل تم ا ن¶ي نح مل نو ا تھ نو لہ نل نا نض مر نا مل نفي ا نو لہ نل نا نء نما نس نفي ال نذي ن´ل نو ا تھ (84نو

آاسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا ہے ۔ zوہی اکیل

تم )یوسف : ن´ي نق مل تن ا ندي ن« ال نل نذ تہ ´يا ن نا ´ا ن نال ما تدو تب مع نت ´ا ن نال نر نم نا نہ ´ل نل ´ا ن نال تم م¶ تح مل نن ا (40نا

تاس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، یہی دین حق ہے تاس کا فرمان ہے کہ حکم صرف اللہ ہی کے لیے ہے ۔ ۔

نل نا ما مو نل نعا نت نب نتا ن¶ مل نل ا مھ نا نيا مل ااىتق معض نب ننا تض مع نب نذ نخ ن´ت ني نا نول ائا مي نش نہ نب Áن نر مش تن نا نول نہ ´ل ´ا ال ن نال ند تب مع نن ´ا ن نال مم ت¶ نن مي نب نو ننا نن مي نب مء نوا نس مۃ نم نل ن³ آال عمران : نن۔ ) تمو نل مس تم ن´نا نا نب ما تدو نھ مش ما ا تلو تقو نف ما مو ´ل ن نو نت نان نف نہ ´ل نن ال تدو نمن ابا نبا مر (64نا

آاؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے ، یہ کہ نل کتاب، کہہ دیجیئے ، اے اہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے ۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو خدا کی

بندگی کرنے والے ہیں۔

ہہیہ کیسے قائم ہو سکتی ہے دنیا میں حکومت ال دنیا میں خدا کی بادشاہت کے قیام کی یہ صورت نہیں ہے کہ مسند حاکمیت پر کچھ "مقدس افراد" )یعنیکچھ کے دیوتاؤں کہ ہے درست یہ نہ اور تھا حال کا بادشاہت کی چرچ کہ جیسا جائیں، ہو فروکش رہنما( دینی

حاکمیت ہاتھ میں لے لیں جیسا کہ تھیوکریسی یا "خدا کی مقدس حکومت" کے نام پر یاد کیے جانےن"نمائندے " زمامآاخری والے نظام میں رائج تھا۔ خدا کی بادشاہت کا قیام یہ ہے کہ خدا کی شریعت حکمرانی کرے اور تمام معاملzت کا فیصلہ اس کے مطابق کیا جائے ۔ لیکن یہ پیش نظر رہے کہ دنیا میں خدا کی بادشاہت کا قیام، انسان کی بادشاہت کاہہی کی فرماں روائی، انسانی قوانین تاسے لوٹانا، شریعت ال خاتمہ، غاصبین کے ہاتھوں سے اقتدار چھین کر خدا کی طرف

خدا کی گردنوں پرند دعوت و تبلیغ سے انجام نہیں پا سکتیں۔ جو لوگ خلق´کی تنسیخ ۔۔۔۔۔۔ یہ سب مہمیں مجر

88

Page 89: Jada o Manzil Complete

نت اقتدار سے نر خداوندی پر غاصبانہ تسلط قائم کر رکھا ہے یہ نری تبلیغ اور اپیل سے اپنے تخ سوار ہیں اور انہوں نے اقتدا حق کیندستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ اگر ایسا ہی معاملہ ہوتا تو انبیاء علیہم السلzم کے لیے دنیا کے اندر دین

سرفرازی نہایت سہل اور خوش گوار کام ہوتا۔ لیکن انبیا کی تاریخ سے جو کچھ واضح ہوتا ہے اور دین حق کی صدیوں پرپھیلی ہوئی داستان جس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے وہ اس کے برعکس ہے ۔

اتنا اہم اعلzن کہ الوہیت اور ربوبیت صرف خداوند عالم کے لیے مخصوص ہے ، اور پھر اس اعلzن کا یہ اہمآازاد ہو گا یہ ک��� ئی محض نظریاتی، فلسفیانہ اور منفیونتیجہ کہ انسان اللہ کے ماسوا ہر قسم کے اقتدار اور حاکمیت سے

اz بروئے کار نم زندگی کو عمل نوعیت کا اعلzن نہ تھا۔ بلکہ یہ مثبت تحریکی دعوت تھی جس کے پیش نظر ایک ایسے نظاہہی کے مطابق انسانوں پر حکمرانی کرے اور انہیں عملی طاقت سے انسانوں کی غلzمی سے نکال لانا تھا جو شریعت ال

لاشریک کے حلق لیےۂکر خدائے وحدہ اہم مشن کو سرانجام دینے کے اتنے بندگی میں داخل کرے ۔ ظاہر ہے کہ د و تبلیغ و دعوت تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تحریک کا قالب بھی اختیار´ضروری تھا کہ یہ اعلzن مجر

نت حال کے ہر ہر پہلو کا مقابلہ متوازی اور عملی وسائل و ذرائع سے ہو سکے ۔ کرے تاکہ عملی صورعالم شاید اور بھی میں حاضر عہد بھی، میں ماضی دور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں دور ہر نے میںنانسان فردا

بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دین حق کا طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے مقابلہ کر کے اسے نیچا دکھانے کی کوششیں کی ہیںآازاد کرتا ہے ۔ چنانچہ انسانوں نے اس دین کے راستے میں فکری اور آاقائی سے کیونکہ یہ دین انسانوں کو غیر اللہ کی

نعرے´ماد طبقاتی اور نسلی کیں، حائل دیواریں اقتصادی اور اجتماعی سیاسی، کیں۔ کھڑی رکاوٹیں کی طرح ہر ی استعمال کیے ۔ انسان کے منحرف عقائد اور باطل تصورات بھی مذکورہ عوامل کے پہلو بہ پہلو کام کر رہے تھے ۔ اور ان

دونوں کے اتحاد سے انتہائی پیچیدہ صورت حال ظہور پذیر ہوتی رہی ہے ۔ اگر "تبلیغ " عقائد اور تصورات کی اصلzح کرتی ہے تو "تحریک " دوسرے مادی سنگہائے راہ کو صاف کرتی

سر میں ، جن اقتصادینہے اور اجتماعی طبقاتی، نسلی، فکری، مربوط مگر پیچیدہ ہے جو قوت سیاسی وہ فہرست سہاروں پر قائم ہوتی ہے ۔ اور یہ دونوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تبلیغ اور تحریک ۔۔۔۔۔۔ مل کر قائم شدہ نظام پر چاروں طرف سے اثرتان تمام عوامل و اسباب کے ساتھ اپنے نئے نظام کو برؤے کار لانے میں ممد ہوتے ہیں اور اس غرض انداز ہوتے ہیں۔ اور آازادی کے لیے ہر مخالف عامل کا اس کے ہم پلہ عوامل اور وسائل سے مقابلہ کرتے ہیں۔ اس زمین پر انسان کی حقیقی آازادی کا عظیم مشن سرانجام دینے کے لیے ان دونوں کو )یعنی تبلیغ اور بلکہ پوری دنیا میں پوری انسانیت کی حقیقی

تحریک کو( دوش بدوش کام کرنا ہوتا ہے ۔ یہ نہایت اہم نقطہ ہے جسے بار بار ذہن نشین کرنا نہایت ضروری ہے ۔

عبودیت کی اصل حقیقتآازادی کا اعلzن نہیں ہے اور نہ اس کا پیغام صرف عربوں تک محدود ہے ۔ اس دین کا یہ دین صرف عربوں کی

نع انسانی اور اس کا دائر ہلی صرف عربوںۂموضوع انسان ۔۔۔۔۔ پوری نو کار زمین ۔۔۔۔۔ پوری روئے زمین ۔۔۔۔ ہے ۔ اللہ تعا

89

Page 90: Jada o Manzil Complete

تاس کی ربوبیت ان لوگوں تک ہی محدود نہیں ہے جو عقید ہی کہ اسلzم کے ماننے والے ہیں۔ۂکا پروردگار نہیں ہے ۔ حتنل جہان کا رب ہے ۔ یہ دین تمام اہل ہلی تمام اہ ن جہان کو ان کے رب کی طرف لوٹا دینا چاہتا ہے ۔ انہیں عبودیتناللہ تعا

آازاد کرانا چاہتا ہے ۔ اسلzم کی نگاہ میں اصل عبودیت یہ ہے کہ انسان ایسے قوانین کا طوق اپنے غیر اللہ کے چنگل سے تاس جیسے انسانو نے ہی وضع کیے ہوں اور یہی وہ "عبادت " )بندگی( ہے جس کے بارےںگلے میں ڈال لے جو خود

آاگے اس ہلی کے لیے مخصوص رہے گی۔ جو شخص غیر اللہ کے میں اس دین نے فیصلہ کر دیا ہے کہ یہ صرف اللہ تعاہوے کرے مگر وہ دین سے خارج ہو جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ عبادت کو بجا لاتا ہے ، وہ چاہے دینداری کا لاکھ دع علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں یہ فرمایا ہے کہ رائج الوقت قانون اور حکومت کی اطاعت "عبادت" کا دوسرا نام ہے ۔ہی نے خدائے واحد کی "عبادت" سے روگردانی کی تو وہ "مشرکین" ترو سے جب یہود اور نصار عبادت کے اس مفہوم کو

میں شمار کیے گئے ۔تان )عدی بن حاتم( تک رسول اللہ صلی ترمذی نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جب اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچی تو وہ شام بھاگ گئے ۔ کیونکہ زمانہ جاہلیت میں انہوں نے عیسائیت اختیار کر لی تھی۔تان کی بہن اور قبیلے کے چند لوگ قیدی بنا لیے گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بہن پر احسان مگر تان کو آائیں اور آازاد کر دیا( اور کچھ عطیہ دے کر انہیں واپس کر دیا۔ وہ اپنے بھائی کے پاس فرمایا )اور انہیں بلz فدیہ نہ رسالت میں حاضر ہونے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ عدی تیار ہو گئے ۔ مدینہ میں لوگوں کے اسلzم کی ترغیب دی اور بارگاتو ان کے گلے میں ہوئے اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر اللہ صلی ہوا۔ جب وہ رسول آامد کا چرچا اندر عدی کی و احبارھم اتخذوا : تھے رہے فرما تلzوت آایات یہ وقت تاس وسلم علیہ اللہ اللہ صلی رسول تھی۔ کی صلیب چاندی

نل کتاب نے اپنے علماء اور راہبوں کو اللہ کو چھوڑ کر اپنا رب ٹھیرا لیا(۔ عدی کہتے ہیں:ھرھبان م ربابا من دون اللہ )اہآانجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس چیز کو ان کے علماءںمیں نے عرض کیا: وہ راہبوں کی عبادت نہی کرتے ۔

اور راہبوں نے حلzل کیا اسے وہ لوگ حلzل مان لیتے تھے اور جسے انہوں نے حرام قرار دیا اسے وہ حرام تسلیم کر لیتےآانحضور صلی اللہ ہلی کے اس ارشاد کی جو تشریح تھے ۔ اور یوں وہ اپنے علماء اور راہبوں کی عبادت کرتے تھے ۔ اللہ تعا

ہہی قانون اور حکومت کی پیروی ایک عبادت ہےنعلیہ وسلم نے فرمائی ہے وہ اس بارے میں نص قطعی ہے کہ کسی غیر ال ۔ اور اس کے ارتکاب کے بعد مسلمان دین کے دائرہ سے نکل جاتا ہے ۔ اس نص سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ غیر اللہ

حق اسی منکر کونکی عبادت سے مراد یہ ہے کہ بعض انسان بعض دوسرے انسانوں کو ارباب من دون اللہ ٹھیرا لیں۔ دیناللہ کی انسانوں کو غیر والے پر بسنے اعلzن ہے کہ اس خطہ زمین تاس کا اور آایا ہے ۔ لیے نابود کرنے کے نیست و

آازاد ہونا چاہیے ۔ عبودیت سے

ہواسلام دعوت اور تحریک دونوں پہلوؤں سے برپا

90

Page 91: Jada o Manzil Complete

نت حال کے آازادی کے خلzف پائی جاتی ہو تو اس صور نن zم کے مذکورہ اعلzاگر انسان کی عملی زندگی اسل تان تاترے ۔ اور ازالہ کے لیے ناگزیر ہے کہ اسلzم بیک وقت تبلیغ )بیان( اور تحریک )حرکت( دونوں پہلوؤں سے میدان میں سیاسی طاقتوں پر کاری ضربیں لگائے جو انسانوں کو غیر اللہ کی چوکھٹ پر سرافگندہ کرتی ہیں اور اللہ کی شریعت سے بے نیاز ہر کو ان پر حکمرانی کرتی ہیں۔ اور اسلzم کی دعوت کو لوگوں کے کانوں تک پہنچنے نہیں دیتیں۔ اور نتیجہ یہنراقتدار طاقت سے آازادی نہیں ہوتی کہ وہ برس ہوتا ہے کہ اگر وہ عقیدہ اسلzم کا انتخاب کرنا بھی چاہیں تو بھی انہیں یہ آانا اس لیے بھی ترو بکار بے خوف اور بے نیاز ہو کر اسے قبول کر سکیں۔ تبلیغ اور تحریک دونوں حیثیتوں سے اسلzم کا ضروری ہے تا کہ اسلzم طاغوتی اقتدار سے ملک خدا کو پاک کرنے کے بعد چاہے وہ نرا سیاسی نوعیت کا ہو، اور چاہے تاس نے نسلیت کا لبادہ پہن رکھا ہو یا ایک ہی نسل کے اندر طبقاتی امتیازات پیدا کر رکھے ہوں، ایک ایسا نیا معاشرتی،تاسے فروغ دینے آازادی انسان کو عملی جامہ پہنائے اور دنیا کے اندر نک اقتصادی اور سیاسی نظام قائم کر سکے جو تحری

میں ممد و معاون ہو۔

آازادی انسان کا مطلب اسلام کے نزدیک اسلzم کا ہرگز یہ منشا نہیں ہے کہ وہ لوگوں پر زبردستی اپنا عقیدہ ٹھونسے ۔ مگر یہ بھی واضح ہے کہ اسلzمآازاد کسی مجرد عقیدہ کا نام نہیں ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے ، اسلzم انسانوں کی غلzمی سے انسان کو آاغاز ہی اس نصب العین سے ہوتا ہے کہ وہ ایسے تمام نظاموں اور کرانے کا ایک عالم گیر اعلzن ہے ۔ اس کی دعوت کا انسانوں اور ہیں بچھاتی تخت کا حاکمیت کی انسانوں پر گردنوں کی انسانوں جو ہے چاہتا کرنا ختم کو حکومتوں کوانسان کا غلzم بناتی ہیں۔ جب وہ لوگوں کی گردنوں کو انسانی حاکمیت کے سیاسی دباؤ سے چھڑا دیتا ہے اور ان کےآازاد چھوڑ دیتا ہے کہ وہ جس سامنے انسان کی روح و عقل کو منور کر دینے والی دعوت پیش کر دیتا ہے تو پھر انہیں آازادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اپنی اہواء و آازاد مرضی سے اختیار کر لیں۔ لیکن اس عقیدہ اور نظریہ کو چاہیں اپنی ہلہ بنا لیں یا وہ خود یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ انسانوں کی غلzمی میں رہیں گے اور ایک دوسرے کو اپنا رب اغراض کو انی رب کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے ۔ اور قوانین حیات بنائیں گے ۔ دنیا کے اندر حکمرانی کا جو نظام بھی قائم ہو وہ بندگ

آازادی ہو کہ وہ جس عقیدہ کوتکا ماخذ صرف اللہ کی ذات ہونی چاہیے تاکہ اس ا صولی نظام کے سائے میں ہر فرد کو چاہے قبول کرے ۔ یہی صورت ہے جس میں دین یعنی قانون، سرافگندگی، اطاعت اور بندگی سراسر صرف اللہ کے لیے

نق عمل کا نامخ�� تاس نظام اور طری الص ہو سکتی ہے ۔ دین کا مفہوم عقیدہ کے مفہوم سے زیادہ وسیع اور جامع ہے ۔ دین ہے جو انسانی زندگی کو اس کی وسعتوں سمیت اپنے قبضہ اقتدار میں لاتا ہے ۔ اسلzم میں اس نظام کا تمام تر اعتماد

نم حکومت کے اندر اسۂعقیدہ پر ہوتا ہے ۔ مگر اس کی گرفت کا دائر عقیدہ سے زیادہ وسیع ہے ۔ چنانچہ اسلzمی نظاتملکی قانون کی )جو اللہ کی بندگی پر آابادیاں پائی جائیں جو اسلzم کے امر کی گنجائش ہے کہ اس میں ایسی متعدد

استوار ہوتا ہے ( وفادار تو ہوں مگر انہوں نے اسلzم کو عقیدہ کی حیثیت سے تسلیم نہ کیا ہو۔

91

Page 92: Jada o Manzil Complete

کیا اسلام "دفاعی تحریک" ہے ؟آائے ہیں، اچھی طرح سمجھ لیتا ہے ، جو شخص دین کے اس مخصوص مزاج کو، جس کی تشریح ہم اوپر کر یعنی جہاد ، ہے ناگزیر ہونا میں دونوں صورتوں آاغاز کا تحریک اسلzمی کہ گا پہنچ جائے پر نتیجہ اس بخود وہ خود تاس پر عیاں ہو جائے گی کہ بالسیف کی صورت میں بھی اور جہاد بالقول کی صورت میں بھی۔ اور یہ حقیقت بھی

حاضر کی مروجہ اصطلzح "مدافعانہ جنگ" سے متبادرناسلzم ان محدود معنی میں "دفاعی تحریک" نہیں ہے جو عہد ارانہ´ہوتے ہیں۔ یہ تنگ اور غلط مفہوم دراصل ان حضرات کا تجویز کردہ ہے جو حالات کے دباؤ اور مستشرقین کے عی�������

نل رواں تھا جو اس حملوں سے شکست کھا کر اسلzم کی تحریک جہاد کی یہ تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اسلzم ایک سیتام آازادی سے ہمکنار کرے ۔ وہ انسان کی عملی زندگی کے ایک ایک پہلو سےڈلیے ا کہ دنیا کے اندر انسان کو حقیقی

تاس کے لیے مناسب اور موزوں تھے ۔ اس تاس نے وہ وسائل اختیار کیے جو آازما ہوا۔ اور ہر پہلو کی اصلzح کے لیے نبرد جہاد متعین مرحلوں سے گزری اس نے ہر مرحلے میں نئے اور کارگر وسائل سے کام لیا۔نکی تحریک

جہاد ایک دفاعی تحریک ہے تو پھر ہمیں خودنبالفرض اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اسلzم کی تحریک کات و اسباب´لفظ "دفاع" کے مفہوم کو بدلنا ہو گا اور "دفاع" سے مراد انسانوں کا دفاع لینا ہو گا۔ یعنی ان تمام محر

آازادی کو آازادی کی راہ میںتامال کرتے ہیں یا اپکے مقابلے میں انسان کی مدافعت کرنا جو انسان کی س کی حقیقی رات اور اعتقادات کی صورت میں پائے جاتے ہیں اسی طرح یہ ایسے سیاسی´کات جس طرح تصو´حائل ہوتے ہیں۔ یہ محر

نظاموں کی شکل میں بھی پائے جا سکتے ہیں جو اقتصادی، طبقاتی اور نسلی حد بندیوں اور امتیازات پر قائم ہوتے ہیں۔آایا تھا تو اس وقت بھی روئے زمین پر ان محر ت حاضر کی تازہ جاہلینکات کا دور دورہ تھا اور عہد´جب اسلzم دنیا میں

تان ۔۔۔۔۔۔۔۔ آاسانی میں بھی ان کی بعض شکلیں دنیا میں رائج ہیں۔ لفظ "دفاع" کا یہ وسیع مفہوم اختیار کر کے ہم ب کا ادراک کر سکتے ہیں جن کی بدولت دنیا میں اسلzمی تحریک کا طلوع جہاد کے جلو میں ہوا۔ بلکہ اس طرح ہمارےآائے گی کہ اسلzم کا آائینہ ہو جائیگا اور ہمیں یہ سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ سامنے خود اسلzم کا صحیح مزاج بھی

بندگ کی انسان ہے سرافگندگی ئمطلب سامنے کے ربانی تعلیمات اور ہہی ال ربوبیت آازادی، سے انسان میںدنیا ہہی اور خدا کی حکومت نت ال نت انسانی کی خود سری اور سرکشی کا خاتمہ اور صرف شریع !!خواہشا

رف کی جا رہی ہیں، جن سے اسلzمی جہاد کونرہی وہ کوششیں جو ایسے دلائل اور وجوہ جواز گھڑنے میں ص تاسی محدود اور تنگ مفہوم کا جامہ پہنایا جا سکے جو "مدافعانہ جنگ" کی رائج الوقت اصطلzح میں پایا جاتا ہے اور وہ دیدہ ریزی جو اس غرض کے لیے ایسی روایات و اسناد کا کھوج لگانے میں کی جاتی ہے ، جن سے یہ ثابت ہو سکے

نن اسلzم" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں سے بعض کے نزدیکع اسلzمی کے جتنے وقائنکہ جہاد آائے ہیں وہ محض "وط پیش ندباب کے سلسلے میں پیش وطن اسلzم سے مراد جزیرۃ العرب ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر ہمسایہ طاقتوں کی جارحیت کے سئے ہیں۔ ایسی تمام کوششیں دراصل اس امر کی غماز ہیں کہ یا تو دین کے مزاج کو اور دنیا کے اندر اس کے اصل رول آا

92

Page 93: Jada o Manzil Complete

ند اسلzمی پر مستشرقین کو اسلzم کے ان کرم فرماؤں نے سمجھا ہی نہیں اور یا حالات کی سنگینی کے سامنے اور جہاکے عیارانہ حملوں کے مقابلے میں انہوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

یہ کو عنہم اللہ رضی عثمان اور حضرت عمر ابوبکر، حضرت اگر حضرت کہ ہے سکتا کہہ یہ کوئی کیا نل رواں کو دنیا کے آاور نہ ہوں گی تو وہ اسلzم کے سی اطمینان ہو جاتا کہ رومی اور فارسی طاقتیں جزیرۃ العرب پر حملہ اطراف و اکناف تک پہنچانے کی کوشش نہ کرتے ؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ اس کے بغیر اسلzماz ریاست تاس کے راہ میں متعدد مادی مشکلzت حائل تھیں: مثل آاگے بڑھایا ہی نہیں جا سکتا تھا کیونکہ کی دعوت کو

سیاسی نظام، معاشرے کے نسلی اور طبقاتی امتیازات، اور پھر ان نسلی اور طبقاتی نظریوں کی کوکھ سے جنم لینےکا تپشت پناہی کرنے والے ریاست کے مادی وسائل۔ یہ سب عوامل راستے کے والے اقتصادی نظام اور ان کی محافظت اور

سنگ ہائے گراں تھے ۔آازادی کا نع انسانی کی یہ تصور کرنا کتنی بڑی سادہ لوحی ہے کہ ایک دعوت روئے زمین پر بسنے والی پوری نو اعلzن بھی کرے اور پھر وہ مذکورہ بالا رکاوٹوں کا سامنا محض زبان و بیان کے جہاد سے کرتی پھرے ۔ بے شک یہآازاد ہوں۔ دعوت زبان و بیان سے بھی جہاد کرتی ہے ۔ مگر کب؟ اس وقت جب انسان اس دعوت کو قبول کرنے میں تان سے اپیل کرتی ہے ۔ اور آازادی کی فضا میں آازاد کر دینے کے بعد چنانچہ یہ دعوت تمام اثرات و موانع سے انسانوں کو

ی اثرات اور رکاوٹوں کی عمل داری´"لا اکراہ فی الدین" کے ضابطے کی پابندی کرتی ہے ۔ لیکن جب وہ مذکورہ بالا مادتدور کیا جائے ۔ تاکہ جب یہ دعوت انسان کے دل و دماغ ہو تو اس کے بغیر چارہ نہیں ہے کہ پہلے انہیں بذریعہ قوت تکھلے دل سے اس اپیل کے بارے میں اپنا فیصلہ دے آازاد ہوں اور سے اپیل کرے تو وہ ایسی تمام زنجیروں اور بیڑیوں سے

سکیں۔تکن اعلzن ہے ، اور پھر یہ اعلzن محض فلسفیانہ آازادی کا فیصلہ نت اسلzمی کا نصب العین اگر انسان کی دعو

آازما ہونا چاہتا ہے ۔ اور ہر ہر پہلوکا یاور نظریاتی تشریحات تک محدود نہیں ہے ، بلکہ وہ عمل ایسے حالات سے نبرد وسائل سے توڑ کرنا چاہتا ہے جو اس کے لیے موزوں و موثر ہوں تو ایسی انقلzبی دعوت کے لیے جہاد کا راستہ بنیادی

اسلzم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وطن ضروریات میں سے ہے ۔ اور اس کا جہاد سے وہی تعلق ہے جو چولی کا دامن سے ہے چاہے پر ہمسایہ طاقتوں کاسر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امن کی حالت میں ہو اور چاہے اس کے اور صحیح اسلzمی اصطلzح میں دارالاسلzم

خطرہ منڈلا رہا ہو۔ اسلzم جب امن کے لیے تگ و دو کرتا ہے تو اس کے پیش نظر وہ "سستا امن" نہیں ہوتا جس کیآا کر ٹوٹ جائے کہ اسلzم کے نام لیوا جس مخصوص خط ارض میں رہتے ہیں وہ خطرات سےۂتان صرف اس بات پر

ن ہو جائے ۔ اسلzم جس امن کا خواہاں ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے اندر دین پورے کا پورا قائم ہو جائے ۔صؤمحفوظ و م نتمام انسان صرف خدائے واحد کی عبودیت بجا لائیں اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے جیسے انسانوں کو رب نہ ٹھیرائیں۔ عہد

آاخری مراحل کا ہے جن تک اسلzم کی تحریک جہاد بحکم خداوندی پہنچی ہے ۔ دعوتننبوت کے بعد اصل اختیار ان

93

Page 94: Jada o Manzil Complete

کے ابتدائی مراحل یا درمیانی مراحل اب معتبر نہیں ہوں گے ۔ ابتدائی اور درمیانی مراحل گزر چکے ہیں اور جیسا کہ امامآانجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ برات کے نازل ہونے کے بعد کفار کے ساتھ جو"قیم نے بیان کیا ہے کہ ابن آاخر بال

تاس کی تین شکلیں ہوئیں: وہ کفار جو برسر ذمہ۔ن جنگ ہیں، دوسرے وہ جو معاہدین ہیں اور تیسرے اہلنرویہ اختیار فرمایا، آانجناب صلی اللہ علیہ وسلمۂمعاہدین اور اہل صلح بھی جب حلق بگوش اسلzم ہو گئے تو صرف دو ہی قسم کے کفار

آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خائف کے مقابلے میں رہ گئے ۔ ایک محاربین اور دوسرے اہل ذمہ۔ محاربین وہ لوگ ہیں جو آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھوقت ہیں )اس لیے ان کے ساتھ ہر نل جہان جنگ کی حالت رہتی ہے ( گویا تمام اہ

آاپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ترو سے تین قسموں میں منقسم ہو گئے ۔ ایک وہ مسلمان جو تعلقات کی نوعیت کی آاپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امن ملz )اور ان سے مراد اہل ذمہ ہیں جیسا کہ اوپر کی تجو جن کو لائے ، دوسرے وہ صلح

آاپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خائف تھے ۔ "عبارت سے واضح ہے ( اور تیسرے محاربین جو اس بحث میں کفار کے ساتھ دعوت اسلzمی کے رویے کی جو شکلیں بیان کی گئی ہیں منطقی طور پر یہی شکلیں اس دین کے مزاج اور مقاصد کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں۔ حالات سے شکست خوردہ ذہنیت اور مستشرقین

ترو سے وہ اس دین کے مزاج سےنکے حملوں سے بوکھلz جانے والی فکر جہاد کی جو تشریح کرتی ہے منطق و عقل کو کوسوں دور ہے ۔

جہاد کے تدریجی احکامہلی نے انہیں قتال سے باز رہنے کا حکم مسلمان جب شروع شروع میں مدینہ میں ہجرت کر کے گئے تو اللہ تعانۃ )اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو، اور نماز قائم کرو ہکو نز نتو ال نا نو ہلوۃ نص تموا ال نقی نا نو تکم نی ند نای توا تکف دیا اور مسلمانوں سے فرمایا کہ :

ہوۃ دو( بعد میں انہیں قتال کی اجازت دی گئی اور ارشاد ہوا کہ :اور زک

نل نع نہ ´ل ن نن ال نوا تموا نل تظ مم تھ ´ن ن نا نب نن تلو نت نقا تي نن نذي ´ل ن نل نن نذ تلواىتا تقو ني نان ن´لا نا مق نح نر مي نغ نب مم نھ نر نيا ند نمن تجوا نر مخ تا نن نذي ´ل ن لر ۔ ا ندي نق نل مم نھ نر مص نن ارا نثي ن³ نہ ´ل ن تم ال مس نھا ا نفي تر ن³ مذ تي تد نج نسا نم نو لت نوا نل نص نو لع ني نب نو تع نم نوا نص مت نم ند تھ ´ل ن مض مع نب نب تھم نض مع نب نس ن´نا نہ ال ´ل ن تع ال مف ند نلا مو نل نو ´لہ ننا ال ت´ب نر

تروا نم نا نو نۃ ن³ا نز توا ال نت آا نو نۃ zنل نص تموا ال نقا نا نض مر نا مل نفي ا مم تھ ´نا ن ن¶ نم نان نن نذي ´ل ن لز ۔ ا نزي نع لي نو نق نل نہ ´ل ن نن ال نا تہ تر تص نين نمن تہ ´ل ن نن ال نر تص نين نل نونر ۔ )الحج : تمو تا مل تۃ ا نب نق نعا نہ ´ل ن نل نو نر ن¶ تمن مل نن ا نع موا نھ نن نو نف ترو مع نم مل (41 – 39نبا

ہے کیوں کہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقینا ان کیجاری اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلzف جنگ مدد پر قادر ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے ، صرف اس قصور میں کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے ۔ اگر اللہ ان لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا تو خانقاہیں اور گرجے اور معابد اور مسجدیں جن

94

Page 95: Jada o Manzil Complete

میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے سب مسمار کر ڈالی جاتیں۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کیمدد کریں۔ اللہ بڑا طاقت ور اور زبردست ہے ۔

ہوۃ دیں گے ، معروف کا یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکحکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملzت کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔

آایا جس میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ جو لوگ ان کے خلzف تلوار اٹھائیں وہ اس کے بعد اگلz مرحلہ ہلی کا ارشاد ہے تان سے قتال کریں۔ اللہ تعا :بھی

مم )بقرہ ت¶ نن تلو نت نقا تي نن نذي ´ل ن نہ ا ´ل نل ال نبي نس نفي ما تلو نت نقا (190نو

اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔آاخر میں تمام مشرکین کے خلzف عمومی طور پر قتال کو فرض کیا گیا۔ اور حکم ملz کہ :اور

ن´فۃ )توبہ: آا ن³ مم ت¶ نن تلو نت نقا تي نما ن³ ن´فۃ آا ن³ نن ن³ي نر مش تم مل ما ا تلو نت نقا (3630نو

اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں۔

ما تتو تاو نن نذي ´ل ن نن ا نم نق نح مل نن ا ندي نن تنو ندي ني نا نول تہ تل تسو نر نو تہ ´ل نم ال نر نح نما نن تمو نر نح تي نا نول نر نخ آا مل نم ا مو ني مل نبا نا نول نہ ´ل نبال نن تنو نم مؤ تي نا نن ل نذي ´ل ن ما ا تلو نت نقانن ۔ )توبہ : ترو نغ نصا مم تھ نو مد ني نعن نۃ ني مز نج مل ما ا تطو مع تي ن´تي نح نب نتا ن¶ مل (29ا

آاخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور تان لوگوں کے خلzف جو اللہ اور روز جنگ کرو اہل کتاب میں سے حق کو اپنا دین نہیں مانتے ۔ ان سے لڑو یہاں تک کہناس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین

وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔ یوں امام ابن قیم رحمہ اللہ کی تشریح کے مطابق پہلے مسلمانوں کو مشرکین اور کفار کے خلzف قتال کرنے

تاس کی اجازت نا کیقتال فرض کیا گیا جو ول ہوئی، اس کے بعد ان لوگوں کے خلzف قتال ک������زسے منع کیا گیا پھر آان کی واضحءابتدا آاخر میں تمام مشرکین اور کفار کے خلzف قتال فرض کر دیا گیا۔ جہاد کے بارے میں قر کریں اور

برانگی پر تاریخ کاخنصوص، جہاد پوری اسلzمی بلکہ نث رسول، صدر اسلzم کی اسلzمی جنگیں، والی احادی تہ کرنے نت جہاد سے لبریز دفتر یہ تمام ایسے واضح اور روشن دلائل ہیں کہ ان کی موجودگی میں مسلمان کا دل جہاد کی سرگزش

نابا کرتا ہے جو ان حضرات کی نش فکر"وہ تفسیر قبول کرنے سے سخت کا نتیجہ ہے جن کا ذہن درحقیقت نامساعد"کاو ارانہ پروپیگنڈے سے مات کھا چکا ہے ۔ ایسا کون عقل کا دھنی ہو سکتا ہے جو´حالات کے دباؤ اور مشرقین کے مک�����

آایت نمبر ڈالا گیا )ابوشامل( 30 آایت نمبر درج نہیں، تلzش کر کے کتاب میں یہاں کوئی

95

Page 96: Jada o Manzil Complete

تسنے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح اقوال پر بھی اس کی نظر ہو اور اسلzمی ہلی کے واضح احکام بھی اللہ تعاتاس کے سامنے ہو اور پھر وہ اس خام خیالی میں مبتلz ہو جائے کہ جہاد کی پوری فتوحات سے لبریز تاریخ کا دفتر بھی

تاس کا تعلق تھا اور اس اسکیم کا صرف وہ´یغاسکیم ایک عارضی ہدایت تھی اور ت ر پذیر حالات اور اسباب کے ساتھ پہلو دائمی حیثیت رکھتا ہے جو سرحدوں کی حفاظت سے تعلق رکھتا ہے ۔

ہلی نے اہل ایماننناذن تان میں اللہ تعا ہلی کی طرف سے جو ابتدائی احکام نازل ہوئے قتال کے سلسلے میں اللہ تعاہلی کا یہ ابدی اور مسلسل اصول جاری ہے کہ وہ انسانوں کو آاگاہ کر دیا تھا کہ دنیاوی زندگی میں اللہ تعا کو اس امر سے

:ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع کرتا رہتا ہے تا کہ خدا کی زمین میں فساد کا قلع قمع ہوتا رہے ۔ ارشاد ہوتا ہے

تلوا تقو ني نان ن´لا نا مق نح نر مي نغ نب مم نھ نر نيا ند نمن تجوا نر مخ نن ا نذي ´ل ن لر۔ ا ندي نق نل مم نھ نر مص نن نلي نع نہ ´ل ن نن ال نا نو تموا نل تظ مم تھ ´ن ن نا نب نن تلو نت نقا تي نن نذي ´ل ن نل نن نذ تاارا نثي ن³ نہ ´ل ن تم ال مس نھا ا نفي تر ن³ مذ تي تد نج نسا نم نو لت نوا نل نص نو لع ني نب نو تع نم نوا نص مت نم ند تھ ´ل ن مض مع نب نب تھم نض مع نب نس ن´نا نہ ال ´ل ن تع ال مف ند نلا مو نل نو تہ ´ل ن ننا ال ت´ب نر

لز ۔ )الحج نزي نع لي نو نق نل نہ ´ل ن نن ال نا تہ تر تص نين نمن تہ ´ل ن نن ال نر تص نين نل (39،40نو

اا اجازت دے دی گئی ہے ان لوگوں کو جن کے خلzف جنگ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔ اور اللہ یقین ان کی مدد پر قادر ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گذروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھےاور معابد اور گرجے اور خانقاہیں تو رہے کرتا نہ دفع ذریعے کے دوسرے ایک کو لوگوں اللہ ۔اگر ہے اللہ رب ہمارا

مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے سب مسمار کر ڈالی جائیں۔ ہہذا یہ کشمکش ایک عارضی حالت نہیں ہے بلکہ ابدی اور مستقل جنگ ہے ۔ یہ جنگ اس ابدی فیصلے کا ل

رہ سکتے ۔ اسلzم نے جب کبھی دنیا میں اللہ کی ربوبیتنہيں لازمی تقاضا ہے کہ روئے زمین پر حق و باطل دوش بدوش نی انسان کی لعنت سے نجات دینے کی تحریک کی ہے تو پر مبنی نظام قائم کرنے کا اعلzن کیا ہے اور انسان کو بندگتاس کے اللہ کی حاکمیت پر غاصبانہ قبضہ رکھنے والی طاقتیں اس کے خلzف شمشیر برہنہ بن کر کھڑی ہو گئیں اور وجود کو کسی قیمت پر بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوئیں۔ خود اسلzم بھی ان باغیوں کے قلع قمع پر کمر بستہ رہا اور انسانوں کی گردنوں پر سوار ان کے طاغوتی نظام کو مٹاتا رہا۔ چراغ مصطفوی اور شرار بو لہبی کے درمیان یہ ستیزہنل رواں بھی اس وقت تک نہیں تھم سکتا جب تک بو لہبی ختم نہ ہو اور آازادی کا سی کاری ازل سے جاری ہے اور جہاد

دین پورے کا پورا اللہ کے لیے خالص نہ ہو جائے ۔

مکی دور میں جہاد بالسیف کیوں منع تھا؟ مکی زندگی میں قتال سے ہاتھ روک رکھنے کا حکم طویل المیعاد منصوبہ بندی کا محض ایک عارضی مرحلہ

جماعت جہاد کے لیےمتھا۔ یہی حکمت ہجرت کے ابتدائی ایام میں کارفرما تھی۔ لیکن ابتدائی ایام کے بعد جب مسل ک محض مدینہ منورہ کے تحفظ اور دفاع کا احساس نہ تھا۔ بلz شبہ یہ تحفظ بھی ناگزیر´ٹھ کھڑی ہوئی تو اس کا محرتا

96

Page 97: Jada o Manzil Complete

تھا لیکن یہ اسلzمی تحریک کا ایک ابتدائی مقصد یا حیلہ تھا منتہائے مقصود نہ تھا۔ اور اس کی روح یہ تھی کہ تحریکآازادی کا فریضہنکے "مرکز نن تحریک رواں دواں رہے اور انسان کی طلوع" کو خطرات سے محفوظ رکھا جائے تا کہ کاروا

آازادی انسان کی راہۂپای تان تمام دیواروں کو ڈھا دے جو تکمیل تک پہنچانے کے لیے برابر پیش قدمی کرتا رہے ۔ اور نن عقل معلوم ہوتا ہے ۔ نل فہم اور قری میں حائل ہوں۔ مکی زندگی میں مسلمانوں کا جہاد بالسیف سے دست کش رہنا قابتلواروں کی ہاشم کی بنو والتسلیم ہوۃ الصل تھا۔ صاحب دعوت علیہ انتظام موجود تبلیغ کا لیے کہ مکہ میں حریت اس تکھل کر اعلzن کرنے کے مواقع مل رہے نت حق کا آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعو حمایت میں تھے ۔ اور اس وجہ سے آاپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعوت کو انسانوں کے گوش گزار کر سکتے تھے ، ان کے دل و دماغ سے اپیل کر تھے ۔

ہر شخص سے مخاطب ہو سکتے تھے ۔ وہاں کوئی ایسی منظم سیاسی طاقت موجود نہ تھی جوا فردااسکتے تھے اور فرداہہذا تاسے سننے سے قطعی محروم ہو جاتے ، ل آاواز کے سامنے ایسی دیواریں کھڑی کر سکتی کہ افراد تبلیغ و دعوت کی اس مرحلہ میں تحریک کے لیے طاقت کے استعمال کی کوئی حاجت نہ تھی۔ علzوہ ازیں اور بھی متعدد ایسے اسباب موجود تھے جو اس مرحلہ میں دعوت کو قتال کے بغیر ہی جاری و ساری رکھنے کے متقاضی تھے ۔ ان تمام اسباب کو

نل نا نر نت مم نل نا آایت : آان" میں مم )النساء : يمیں نے بالاختصار اپنی تفسیر "فی ظلzل القر ت¶ ني ند مي نا ما تفو ت³ مم تھ نل نل نقي نن نذي ´ل ن ( کی77 اتشریح کے ضمن میں بیان کیا ہے ۔ اس تفسیر کے بعض حصوں کو یہاں نقل کر دینا غیر مفید نہ ہو گا۔

س دور میں جہاد بالسیف کی ممانعت کی دوسری وجہا س مرحلہ میں جہاد بالسیف کی ممانعت اس وجہ سے بھی ہو سکتی ہے کہ دعوت اسلzمی کا یہ مرحلہ ایکتا

تربیت اور فراہمی استعداد کا مرحلہ تھا۔ اس طرح کے مخصوص ماحول، مخصوص قوم اور مخصوص حالات کے اندر تان میں سے ایک مقصد یہدماحول میں تربیت اور استعدا کی فراہمی جن مختلف النوع مقاصد کے تحت ضروری تھی،

ا کے گوارا کرنے کی تربیت دی جائے جنہیں وہ گوارا کرنے کا عادی نہیں ہے ۔ مثلzںتھا کہ ایک عرب انسان کو ان باتو اپنی ذات پر یا ان لوگوں پر جو اس کی پناہ میں ہوں، ظلم و زیادتی کو صبر سے برداشت کرنا۔ تا کہ وہ اپنی شخصیتتاس کی پوری آازاد ہو۔ اور صرف ذات کا دفاع اور حلیفوں کا تحفظ ہی کی پرستش اور اپنے منہ زور نفس کے غلبہ سے کہ تا ہو مشق نفس کی نط تاسے ضب نیز ۔ جائے رہ نہ کر بن محرک کا سرگرمیوں تمام کی تاس اور محور کا زندگی تاس کی فطرت ہے ۔۔۔۔۔۔ ناگوار بات سنتے ہی بے قابو نہ ہو جایا کرے اور کسی بھی ہیجان خیز وہ ۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ تاس کے مزاج اور تمام حرکات و سکنات میں اعتدال اور وقار کی واقعہ کا سامنا کرتے ہی کف و روہن نہ ہو جائے ، بلکہ تاسے یہ تربیت بھی دی جائے کہ وہ ایک ایسی جماعت کے ڈسپلن کی پابندی کرے جو نہایت منظم شان جلوہ گر ہو۔ ہلی قائد کی سرپرستی حاصل ہے ۔ زندگی کے ہر معاملہ میں وہ اس قائد کی طرف رجوع کرے ، ہے اور جسے ایک اعتاس کی عادت یا ذوق کے خلzف ہے یا آائینہ دار ہو بلz لحاظ اس کے کہ وہ حکم تاس کا ہر فعل قائد کے حکم کا

مور بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتے تھےتموافق۔ مکی زندگی میں ایک عرب کی سیرت کی تعمیر و اصلzح کے لیے یہی ا

97

Page 98: Jada o Manzil Complete

ہلی سیرت و کردار کے حامل افراد سے ایک ایسا مسلم معاشرہ تشکیل کیا جائے جو قائد کے´۔ اور مد عا یہ تھا کہ اعتمنزہ ہو۔ۂاشار ابرو پر حرکت کرتا ہو، ترقی یافتہ اور مہذب ہو، وحشیانہ خصائل اور قبائلی مفاسد سے پاک اور

وجہتیسری اس دور میں جہاد بالسیف کے امتناع کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ قریش کا ماحول تفاخر اور نسبی شرافت

��پو برتری کے احساسات سے بھرپور ماحول تھا۔ اس طرح کے ماحول میں ر امن دعوت زیادہ مؤثر اور کارگر ہو سکتی ہےتہہذا اس مرحلے میں قتال کا طریقہ اختیار کرنا عناد اور عداوت کو مزی بھڑکانے کا باعث بن سکتا تھا اور خونی انتقامد۔ ل

انتقام کے چکر چل رہے تھے کے نئے جذبات اور محرکات کو جنم دے سکتا تھا۔ عربوں کے اندر پہلے سے خونی آاخر قبیلوں کے قبیلے مٹا کر رکھءاحس اور غبرادجنہوں نے اور بسوس کی جنگوں کو برس ہا برس تک جاری رکھا اور

تاترتے تو پھر وہ کبھی فرو نہ تان کے ذہنوں اور دلوں میں اسلzم کے ساتھ منسوب ہو کر دیے ۔ خونی انتقام کے نئے جذبات لامتناہی میں تبدیل ہوۂاسلzم ایک دعوت اور ایک دین کے بجائے خونی انتقام کے جھگڑوں کے سلسلنتیجتۂ ہو پاتے ۔

تان کو زندہ کرنے آائندہ کبھی نق نسیاں ہو کر رہ جاتیں اور نت طا آاغاز ہی میں زین جاتا اور یوں اس کی بنیادی تعلیمات مرحلہ آا پاتی۔ کی نوبت نہ

چوتھی وجہنت حال پیدا کرنے سے اجتناب مقصود تھا۔ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ وسیع پیمانے پر خانہ جنگی کی صوربلکہ بناتی، نشانہ ایذا رسانی کا اور تعذیب ایمان کو نل اہ تھا جو نہ باضابطہ حکومت کا کوئی وجود اس وقت کسی

کی فضا میںحتعذیب و تادیب کی خدمت ہر مومن کے اپنے ہی رشتہ دار اور سرپرست انجام دے رہے تھے ۔ اس طر قتال کے صاف معنی تھے کہ گھر گھر میں معرکہ برپا ہو جاتا اور خانہ جنگی کا طویل اور لامتناہی سلسلہ شروع ہوناذن

جاتا اور لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ: "یہ ہے اسلzم "۔ بلکہ فی الواقع اسلzم کے بارے میں ایسا کہا بھی گیاباوجودیکہ اسلzم نے قتال کی ممانعت کا حکم دے رکھا تھا۔ مگر قریش کے لوگ حج کے موسم میں حج اور تھا، آانے والے عرب قافلوں میں جا جا کر ان سے یہ کہتے تھے کہ "محمد نہ صرف اپنی قوم تجارت کی خاطر دور دراز سے اور اپنے قبیلے میں تفریق ڈال رہا ہے ، بلکہ باپ اور بیٹے میں جدائی پیدا کر رہا ہے ۔" قریش یہ اعتراض ایسی صورت میں

تاڑانے اورنکر رہے تھے جب کہ اہل ایمان کو تلوار اٹھانے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن اگر فی الواقع بیٹے کو باپ کی گردن لی کے قتل کرنے کا حکم دے دیا جاتا اور ہر گھر اور ہر محلہ میں یہ محاذ کھول دیا جاتا تو معترضین کیاوغلzم کو

zکیا صورت حال پیدا ہوتی؟اکہتے اور عمل

پانچویں وجہ

98

Page 99: Jada o Manzil Complete

آاغاز کار میں ہلی جانتا تھا کہ اسلzم کے مخالفین کی اکثریت جنہوں نے یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعاآازمائشوں میں ڈالا، زہرہ گداز اذیتیں دیں اور اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا، خود ایک مسلمانوں کو طرح طرح کی دینی نہ ایک دن اسلzم کے مخلص اور وفا شعار شپاہی بلکہ قائد تک بننے والے ہیں ۔۔۔۔۔ کیا عمر ابن خطاب انہی لوگوں میں

تان کو جو مرتبہ ملz ہے وہ محتاج وضاحت نہیں ہے ۔نسے نہیں تھے ؟ مگر اسلzم لانے کے بعد

ٹی وجہھچ ایسے ستم رسیدہایہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ عربوں کی نخوت و حمیت بالخصوص قبائلی ماحول میں فطرۃ

تتل جاتی ہے جو ظلم و اذیت تو برداشت کر لیتا ہے مگر پسپا ہونا نہیں جانتا۔ یہ حمیت اس وقت انسان کی حمایت پر تان کے اشراف اور اخیار بن رہے ہوں۔ مکہ کے ماحول میں ایسے آاتی ہے جب ظلم و ستم کا ہدف اور زیادہ جوش میں ہلی عنہ ۔۔۔۔۔۔۔ آائے جو اس نظریہ کی صحت کی تصدیق کرتے ہیں۔ مثلz جب ابوبکر رضی اللہ تعا بکثرت واقعات پیش ایک انتہائی شریف اور کریم النفس انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکہ کو چھوڑ کر کسی اور مقام کی طرف ہجرت کے لیے نکل کھڑے ہوئے تو ابن الدغنہ اسے برداشت نہ کر سکا اور انہیں ہجرت سے روک دیا۔ کیونکہ وہ اس بات کو عربوں کے لیےہلی عنہ کو اپنی حمایت اور اپنی پناہ پیش کی۔ ایسے تاس نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعا نث ننگ سمجھتا تھا۔ چنانچہ باعتاس وثیقہ کی تنسیخ ہے جس کے تحت بنو ہاشم کو شعب ابی طالب میں محصور کیا گیا، مگر واقعات کی بہترین مثال آاخر خود عرب نوجوانوں جب ان کی بھوک اور فاقہ زدگی کا دور طول پکڑ گیا اور ان کی تکلیف حد سے بڑھ گئی تو بالتپرزے کر ڈالے ۔ یہ نخوت عرب کا امتیازی وصف تھا۔ جب کہ قدیم تہذیبوں کے اندر جو تپرزے نے ہی اس وثیقہ کے

نت آاتی ہے ۔ وہاں ظلم و اذیت پر مہر بلب رہنےح���������انسانیت کی تذلیل کی عادی رہی ہیں اس کے برعکس صور ال نظر تالٹا موذی کی تعظیم و تکریم کی سے انسان خود ماحول کی طرف سے تمسخر و استہزاء اور حقارت کا نشانہ بنتا ہے اور

جاتی ہے ۔

ساتویں وجہپائے جاتے اور وہ صرف مکہ ہی میں تھی۔ تعداد کم ہو سکتی ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی بھی یہ وجہ تاڑتی تھے ۔ دعوت اسلzمی ابھی تک جزیرہ عرب کے دوسرے حصوں تک نہیں پہنچی تھی۔ یا اگر پہنچی تھی تو محض تاڑتی خبروں کی صورت میں دوسرے قبائل اسے قریش اور ابنائے قریش کی اندرونی جنگ سمجھ کر ابھی تک غیر جانبآاخری فیصلے کے منتظر۔ ان حالات میں اگر قتال مسلمانوں پر فرض کر دیا جاتا تو یہ محدود جنگ مسلمانوں دار تھے اور کی اس قلیل جماعت کے کلی خاتمہ پر منتج ہوتی۔ اور خواہ مسلمان اپنے سے کئی گنا زیادہ لوگوں کو مار ڈالتے مگر وہ خود پورے کے پورے صفحہ وجود سے محو ہو جاتے ۔ شرک کی عملداری جوں کی توں رہ جاتی اور اسلzمی نظام کے قیام کی صبح طلوع نہ ہو سکتی۔ اور کبھی اس کا عملی نظام اپنی بہار نہ دکھا سکتا۔ حالانکہ وہ اس لیے نازل ہوا ہے

تاس پر استوار ہو۔ "کہ انسانی زندگی کا عملی نقشہ

99

Page 100: Jada o Manzil Complete

رہا؟مدنی دور کے ابتدائی ایام میں جہاد کیوں ممنوع مدنی زندگی کے اوائل ایام میں بھی قتال کی ممانعت رہی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہآاباد تھے اور ابھی وسلم نے مدینہ کے یہود کے ساتھ اور ان عربوں کے ساتھ جو مدینہ کے اندر اور مدینہ کے اطراف میں آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اقدام درحقیقت اس نئے مرحلے کا تک شرک پر قائم تھے عدم جنگ کا معاہدہ کر لیا تھا۔

:طبعی تقاضا تھا اور اس کا پس منظر یہ تھا کہ تاس پر قدغن لگانے والی تکھلے مواقع حاصل ہو گئے تھے ۔ کوئی سیاسی قوت اا: وہاں تبلیغ و نصیحت کے اولتاس کے اور تھا لیا تسلیم کر ریاست کو نئی مسلم نے آابادی تمام تھی۔ نہ موجود والی تاس سے روکنے لوگوں کو اور ۔ چنانچہ تھے اتفاق کر چکے پر قیادت علیہ وسلم کی اللہ اللہ صلی لیے رسول تسلجھانے کے کو معاملzت سیاسی بغیر کوئی شخص اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے اللہ صلی تھا کہ رسول یہ طے کر دیا گیا میں معاہدے بالا مذکورہ معاہدہ صلح کرنے یا جنگ چھیڑنے یا خارجہ تعلقات قائم کرنے کا مجاز نہ ہو گا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو گئیتکھلے تھی کہ مدینہ منورہ کی اصل سیاسی قوت مسلم قیادت کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لیے دعوت کے فروغ کے دروازے تاسے اختیار کرنے میں کوئی قوت انہیں روکنے والی آازادی موجود تھی، اور لوگ جس عقیدہ کو چاہتے تھے ، عقیدہ کی

نہ تھی۔اا: اس مرحلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے ساتھ یکسو ہو کر نبٹنا چاہتے تھے ۔ کیونکہ ان ثانیندراہ بن رہی تھی۔ وہ قبائل اس انتظار میں تھے کہ کی مخالفت دوسرے قبائل کے اندر دین حق کی اشاعت کے لیے سندنظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ قریش اور ابنائے قریش کی یہ داخلی معرکہ کس نتیجہ پر پہنچتا ہے ۔ اسی منصوبے کے مآاپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تادھر بھیجنے میں جلدی کی۔ اور نادھر وسلم نے موقع گنوائے بغیر جنگی دستوں )سرایا( کو ہلی عنہ کے سپرد فرمائی۔ یہ تاس کی کمان حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ تعا سب سے پہلz دستہ جو روانہ کیا رمضان کا مہینہ تھا اور ابھی ہجرت کو چھ ماہ ہوئے تھے ۔ اس دستہ کے بعد پے درپے کئی دستے روانہ کیے گئے ۔

آاغاز پر، دوسرا تیر آاغاز پر اور جب ہجرت کاہایک ہجرت کے نویں ماہ کے آاغاز پر، تیسرا سولہویں ماہ کے ویں ماہ کے واں ماہ شروع ہوا تو عبد اللہ بن جحش کی قیادت میں ایک سریہ روانہ کیا گیا۔ اس سریہ نے وہ پہلz معرکہ برپا کیاہستر

آایا۔ اسی معرکے کے بارے میں سورۃ بقرہ کی یہ جس میں خونریزی تک نوبت پہنچی۔ یہ معرکہ ماہ حرام )رجب( میں پیش :آایات نازل ہوئیں

تج نرا مخ ن·ا نو نم نرا نح مل ند ا نج مس نم مل نوا نہ نب لر مف ت³ نو نہ ´ل نل ال نبي نس نعن لد نص نو لر نبي ن³ نہ نفي لل نتا نق مل تق نہ نفي مل نتا نق نم نرا نح مل نر ا مہ نش نن ال نع ن« نن تلو نµا مس نينل )بقرہ: مت نق مل نن ا نم تر نب م³ نµا تۃ نن مت نف مل نوا نہ ´ل ند ال نعن تر نب م³ نµا تہ من نم نہ نل مھ ( 217نµا

100

Page 101: Jada o Manzil Complete

نہ خدا سے لوگوں کو لوگ پوچھتے ہیں کہ ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے ؟ کہو، اس میں لڑنا بہت برا ہے ، مگر راند حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسج

ناس سے زیادہ برا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے ۔ کے نزدیک آایا۔ سورۂ انفال میں اس ہی پیش پھر ہجرت کے دوسرے سال کے اندر ہی ماہ رمضان المبارک میں غزوۂ بدر کبر

جنگ پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔تو یہ کہنے کی کوئی یہ موقف اگر حالات کے اس پس منظر میں رکھ کر دیکھا جائے اسلzمی تحریک کا گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اسلzمی تحریک کا بنیادی منصوبہ دراصل رائج الوقت مفہوم کے مطابق اپنی "مدافعت" کےآانکھوں" کا یارانہ رکھنے والے حضرات، اور مستشرقین کی نت حاضرہ کی "سرخ سوا کچھ نہ تھا۔ یعنی وہی تاویل جو حالاتاٹھنے ولے مفکرین کی طرف سے پیش کی جا رہی ہے ۔ درحقیقت جو لوگ غلبۂ اسلzم کی zعیارانہ تنقیدوں سے بوکھل تادھر ہاتھ نادھر بے نظیر تحریک کو خالص مدافعانہ اسباب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور پھر اس کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے

تاس جارحانہ تحریک سے مات کھاچکے ہیں جس نے اسلzم پر ایسےنپاؤں مارتے ہیں، یہ "ارباب تحقیق" مستشرقین کی وقت میں تابڑ توڑ حملے شروع کر رکھے ہیں جب نہ مسلمانوں کی شان و شوکت باقی رہی ہے ، اور نہ اسلzم کیساتھ اننل رشک ہے ۔ البتہ ایک گروہ قلیل بہ توفیق ایزدی ایسے ہتھکنڈوں سے ضرور محفوظ ہے ، اور وہی لوگ کی وابستگی قابہلہی کے سوا ہر اس بات پر بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ اسلzم کا یہ ابدی پیغام کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسان اقتدار ا قسم کے اقتدار و استبداد سے نجات پائیں اور دین سراسر اللہ کے لیے ہو، غالب و برتر کر کے رہیں گے ۔ مگر اس گروہ قلیل کے ماسوا باقی تمام مفکرین کا یہ حال ہے کہ وہ اس تلzش میں رہتے ہیں کہ انہیں اسلzمی جہاد کے لیے اخلzقیآان نے جو آانہا، اسلzمی فتوحات کے لیے قر نر وجوہ مل جائيں جن سے وہ معترضین کو مطمئن کر سکیں۔ مگر خاک بر س

آان کہتا ہے : وجوہ جواز پیش کر دیے ہیں ان سے زائد کسی اور اخلzقی سند کی ضرورت باقی نہیں ہے ۔ قر

نہ نتي مؤ تن نف مو نس نف مب نل مغ ني نµاو مل نت مق تي نف نہ ´ل نل ال نبي نس نفي مل نت نقا تي نمن نو نۃ نر نخ آا نبال نيا من تد نۃ ال نيا نح مل نن ا ترو مش ني نن نذي ´ل ن نہ ا ´ل نل ال نبي نس نفي مل نت نقا تي مل نفننا ´ب ن نر نن تلو تقو ني نن نذي ´ل ن نن ا ندا مل نو مل نوا نساء ن´ن نوال نل نجا نر نن ال نم نن نفي نع مض نت مس تم مل نوا نہ ´ل نل ال نبي نس نفي نن تلو نت نقا تت نا مم ل ت¶ نل نما نو اما • نظي نع ارا مج نµانن تلو نت نقا تي ما تنو نم آا نن نذي ´ل ن ارا • ا نصي نن ن« تدن ´ل ن نمن ننا ´ل ن نعل مج نوا ´يا ا نل نو ن« تدن ´ل ن نمن ننا ´ل ن نعل مج نوا نہا تل مھ نµا نم نل ن´ظا نۃ ال ني مر نق مل نہ ا نذ نھ� منہ نم ننا مج نر مخ نµاافا نعي نض نن ن³ا نن نطا مي نش ند ال مي ن³ نن ن·ا نن نطا مي نش نياء ال نل مو نµا ما تلو نت نقا نف نت تغو ن´طا نل ال نبي نس نفي نن تلو نت نقا تي ما ترو نف ن³ نن نذي ´ل ن نوا نہ ´ل نل ال نبي نس نفي

(76 تا 74)النساء:

آاخرت کے بدلے دنیا کی ز دگی کو فروخت کر دیں، پھر جو اللہ کین���اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے ان لوگوں جو آاخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ نر عظیم عطا کریں گے ۔ تاسے ضرور ہم اج راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا

101

Page 102: Jada o Manzil Complete

تان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کی راہ میں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے ۔جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کر لیا ہے ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں

نہایت کمزور ہیں۔

نن ت¶و نت نا ن´تی ل نح مم تھ تلو نت نقا نو نن • نلي نو نµا تۃ ال ´ن ن تس مت نض نم مد نق نف ما تدو تعو ني من ن·ا نو نف نل نس مد نق نما تہم نل مر نف نغ تي ما تہو نت نين ن·ان ما ترو نف ن³ نن نذي ´ل ن نل تقل نلي مو نم مل نم ا مع نن مم ت³ نا مول نم نہ ´ل نن ال نµا ما تمو نل مع نفا ما مو ´ل ن نو نت ن·ان نو لر • نصي نب نن تلو نم مع ني نما نب نہ ´ل نن ال ن·ا نف ما مو نہ نت نن ان ن·ا نف ´لہ نل تہ ت´ل ت³ تن ندي نن ال ت¶و ني نو لۃ نن مت نف

تر )الانفال نصي ن´ن نم ال مع نن (40 تا 38نو

آا جائیں تو جو کچھ پہلے ہو چکا ہے اس سے درگزر کر لیا اے نبی، ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز جائے گا، لیکن اگر یہ اسی پچھلی روش کا اعادہ کریں گے تو گزشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے وہ سب کوتان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو معلوم ہے ۔ اے ایمان والو، جائے ۔ پھر اگر وہ فتنہ سے رک جائيں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے اور اگر وہ نہ مانیں تو جان رکھو کہ اللہ

تمہارا سرپرست ہے اور وہ بہترین حامی و مددگار ہے ۔

ما تتو تµاو نن نذي ´ل ن نن ا نم نق نح مل نن ا ندي نن تنو ندي ني نا نول تہ تل تسو نر نو تہ ´ل نم ال نر نح نما نن تمو نر نح تي نا نول نر نخ آا نم ال مو ني مل نبا نا نول نہ ´ل نبال نن تنو نم مؤ تي نا نن ل نذي ´ل ن ما ا تلو نت نقانر نصا ن´ن مت ال نل نقا نو نہ ´ل تن ال مب لر ا مي نز تع تد تہو ني مل نت ا نل نقا نو نن • ترو نغ نصا مم تھ نو مد ني نعن نۃ ني مز نج مل ما ا تطو مع تي ن´تي نح نب نتا ن¶ مل نہىا ´ل تن ال مب تح ا نسي نم مل ا

مم تھ نن نبا مھ تر نو مم تھ نر نبا مح نµا ما تذو نخ ن´ت نن • ا ت¶و نف مؤ تي ن´ني نµا تھ ´ل تم ال تھ نل نت نقا تل مب نق نمن ما ترو نف ن³ نن نذي ´ل ن نل ا مو نق نن تؤو نھ نضا تي مم نھ نھ نوا مف نµا نب تھم تل مو نق ن« نل نذنن • ت³و نر مش تي نما نع تہ نن نحا مب تس نو تھ ´ا ن ن·ال نہ نل� ن·ا ´ا ن ادا ل نح نوا اھا نل� ن·ا ما تدو تب مع ني نل ´ا ن ن·ال ما ترو نم تµا نما نو نم ني مر نم نن مب نح ا نسي نم مل نوا نہ ´ل نن ال تدو نمن ابا نبا مر نµا

نن )التوبہ: ترو نف ن¶ا مل نہ ا نر ن³ مو نل نو تہ نر تنو نم نت تي نµان ´ا ن ن·ال تہ ´ل نبي ال مµا ني نو مم نھ نھ نوا مف نµا نب نہ ´ل نر ال تنو ما تؤو نف مط تي نµان نن تدو نري (32 تا 29تي

آاخر پر ایمان نہیں لاتے ، اور جو کچھ اللہ نز تان لوگوں کے خلzف جو اللہ اور رو نل کتاب میں سے جنگ کرو اہتاس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ان سے لڑو یہاں تک کہ اور نزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح تع وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں، یہودی کہتے ہیں اللہ کا بیٹا ہے ۔ یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلz ہوئے تھے ۔ خدا کی مار ان پر یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اس طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی

102

Page 103: Jada o Manzil Complete

کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہتبجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل لوگ کرتے ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے

کیے بغیر رہنے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ہلی کی الوہیت کا آایات کے اندر بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں: دنیا کے اندر اللہ تعا جہاد کے جو وجوہ و محرکات ان ہلی کے بھیجے ہوئے نظام حق کو قائم کرنا، تمام شیطانی قوتوں اور شیطانی سکہ رواں کرنا، انسانی زندگی میں اللہ تعاآاقائی ختم کرنا جو انسانوں کو اپنی غلzمی کی زنجیروں میں جکڑتی ہے نظامہائے حیات کا قلع قمع کرنا، انسان کی تاس کے کسی غلzم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ انسانوں کو اپنے حالانکہ انسان صرف خدا کے غلzم ہیں اور سوائے خود ساختہ اقتدار کا تابع بنائے اور ان پر اپنی اھواء و اغراض کی شریعت نافذ کرے ۔ یہی وجوہ و محرکات جہاد قائم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ اس اصول کی بھی پابندی کی جانی چاہیے کہ "لا اکراہ فی الدین" )دین

کے اقتدار اور الوہیت سے چھٹکارا پا جانے کے بعد اور اس اصول کی بالاتری کےںمیں کوئی جبر نہیں ہے (۔ یعنی بندو بعد کہ اقتدار صرف اللہ کا ہوگا یا بالفاظ دیگر دین سراسر اللہ کے لیے ہوگا کسی فرد بشر کو عقیدۂ اسلzم قبول کرنے کےآاپ غور کریں گے تو ان کا حاصل یہ نکلے گا کہ لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ جہاد کے ان وجوہ محرکات پر اگر یہ آازادی ہے ۔ اور اسلzم جس غرض کے لیے جہاد کا علمبردار ہے وہ اس دنیا کے اندر انسان کی مکمل اور حقیقی

تاسے خدا کی عبودیت کاملہ کی فضائےنآازادی تبھی مکمل ہو سکتی ہے کہ انسان کو انسان کی عبودیت سے نکال کر تاس کا کوئی ساجھی نہیں ہے ۔ کیا جہاد کو برپا کرنے کے لیے صرف یہی بسیط میں لایا جائے جو صرف ایک ہے اور

مقصد عظیم کافی نہیں ہے ؟آان نے جہاد کے جو وجوہ و مقاصد بیان کیے ہیں یہی وجوہ و مقاصد ہر وقت مسلمان مجاہدین کے بہرحال قر پیش نظر رہتے تھے ۔ ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ کسی مسلمان مجاہد سے یہ دریافت کیا گیا ہو کہ تم کس لیے جہادتاس کے دفاع کے لیے تاس نے یہ جواب دیا ہو کہ " ہمارے وطن کو خطرہ درپیش ہے ، ہم پر نکل کھڑے ہوئے ہو، اور

روم کی جارحانہ کاروائیوں کو روکنے کے لیے نکلے ہیں" یا "ہم ملک کےن فارس اور اہلنیا "ہم مسلمانوں پر اہل تاٹھے ہیں" ۔۔۔۔۔۔ اس کے برعکس ان کا"رقبہ کی توسیع چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ غنائم حاصل ہوں!!

جواب وہ ہوتا تھا جو ربعی ابن عامر، حذیفہ بن محصن اور مغیرہ بن شعبہ نے قادسیہ کی جنگ میں فارسی لشکر کے سپہنز جنگ سے تین روز پہلے تک برابر ان مجاہدین کرام سے الگ الگ یہ پوچھتا رہا کہ آاغا سالار رستم کو دیا تھا۔ رستم

آائی ہے ؟ مگر ان سب کا جواب یہ تھا کہ "کیا خواہش تمہیں یہاں لے کر یہ حکم دیا ہے کہ ہم انسان کو اپنے جیسے انسانوں کی غلzمی سے نکال کر صرف خدائے "اللہ نے ہمیں

واحد کی بندگی کی طرف لائیں، دنیا کی تنگی سے نکال کر انہیں دنیا کی فراخی سے بہرہ ور کریں، ادیان کے ظلم واللہ علیہ اپنے رسول )صلی نے ہلی تعا اللہ لیے نل اسلzم سے ہمکنار کریں۔ اس مقصد کے ستم سے نجات دے کر عد

103

Page 104: Jada o Manzil Complete

کے پاس بھیجا ہے ۔ پس جو ہمارے اس دین کو قبول کر لیتا ہے ، ہم اس کےقوسلم( کو اپنا دین دے کر اپنی مخلوتاسی کے حوالے کر دیتے ہیں، اور جو سرتابی کرتا تملک تاس کا اقرار کو تسلیم کر لیتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں اور

تاس سے جنگ کرتے ہیں یہاں تک کہ شہادت پا کر جنت حاصل کر لیں یا فتح یاب ہو جائیں۔" ہے

جہاد کی ایک اور طبعی وجہ جہاد کے خارجی وجوہ و محرکات کے علzوہ اس کی ایک قائم بالذات وجہ جواز بھی جو خود اس دین کی

آازادی کے ہمہ گیر مطالبے میں پنہاں ہے ۔ یہ دین جس طرح انسان کے عملیترشت میں متس ضمر، اور اس کے انسانی تدو ہوتا ہے ، اور متعی ب تدو ن مراحل کے اندر ہر ہر محاذ پر نئے نئے ذرائع´حالات سے کامیاب جوابی وسائل کے ساتھ

نز دعوت آاغا نق کار بھی جہاد کی اس طبعی وجہ کی نشاندہی کرتا ہے ۔ یہ وجہ اختیار کرتا ہے خود یہ حقیقت پسندانہ طریتاس کے مسلمان باشندوں پر کسی بیرونی حملے کا خطرہ ہو یا نہ ہو یہ نن اسلzم پر اور ہی سے پیدا ہو جاتی ہے اور سرزمی برقرار رہتی ہے ۔ اس وجہ کو وجود میں لانے کے ذمہ دار محدود نوعیت کے دفاعی تقاضے یا وقتی حالات نہیں ہیں بلکہاور وہ ایک طرف ہیں پائی جاتی رکاوٹیں اور لیے جو عملی مشکلzت اسلzمی کے نت اندر دعو معاشروں کے بے خدا تجل کر کر اس نمل نت کشمکش نز زندگی اور عملی زندگی میں اس کی دعو دوسری طرف خود اسلzم کا اپنا مخصوص طر وجہ کی تخلیق کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ بجائے خود جہاد کے حق میں ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ ایک مسلمان اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتا ہے ، ان اقدار کے غلبہ و فروغ کے لیے جہاد کرتا ہے جن کے اندر اس کی کوئی ذاتی منفعت شامل نہیں ہوتی اور نہ اس طرح کا کوئی اور لالچ اسے اس پر ابھارتا ہے ۔ ایک مسلمان جب جہاد کے لیے نکلتانن کارزار میں قدم رکھتا ہے تو اس سے بہت پہلے وہ ایک بڑا معرکۂ جہاد سر کر چکا ہوتا ہے ۔ اس معرکہ میں ہے اور میداآارزوئیں ہوتی ہیں، ذاتی تاس کا حریف نفس کا شیطان ہوتا ہے ، اس کی اھواء و خواہشات ہوتی ہیں، خوشنما امنگیں اور تاس نعرے سے ہوتا ہے جو اسلzم کے مفادات ہوتے ہیں، اپنی برادری اور قوم کے مفادات ہوتے ہیں۔ الغرض اس کا مقابلہ ہر ہلہیہ کے قیام اور طاغوت نت ا تاس جذبہ کے خلzف ہوتا ہے جو بندگئ خدا سے متصادم ہو اور دنیا میں حکوم خلzف ہو، ہر

میں خاتمہ حائل ہو۔

ررک تع وطن کا اصل مح اسلام کی نگاہ میں دفانن اسلzم" کے دفاع تک محدود رکھتے ہیں وہ دراصل اسلzم کے جو لوگ جہاد اسلzمی کا جواز صرف "وطنق زندگی اتنی اہمیت بھی نہیں رکھتا جتنی نق زندگی کی عظمت کو کم کرتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں یہ پاکیزہ طری طری اہمیت "وطن" کو حاصل ہے ۔ وطن اور ایسے ہی دوسرے عوامل کے بارے میں اسلzم کا نقطۂ نظر وہ نہیں ہے جو یہ

اانحضرات پیش کرتے ہیں۔ ان کا یہ نقطۂ نظر عہد حاضر کی تخلیق ہے ، یہ اسلzمی شعور اور اسلzمی تعلیم کے لیے قطعترو سے جہاد کو قائم کرنے کے لیے اصل اعتبار اسلzمی عقیدہ کے تحفظ کا ہے اجنبی اور نووارد ہے ۔ اسلzمی تعلیم کی تاس معاشرے کے تحفظ کا ہے نق حیات کے تحفظ کا ہے جو اس عقیدہ کی عملی تفسیر پیش کرتا ہے یا تاس طری ، یا

104

Page 105: Jada o Manzil Complete

نق حیات کی عملداری ہو۔ رہی "خاک وطن" تو بذات خود اسلzم کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت جس میں اس طری نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی وزن ہے ۔ تصور اسلzمی کے تحت "خاک وطن" میں اگر کوئی چیز شرف و عظمت بخشتاسے گراں قدر بنا سکتی ہے تو وہ صرف یہ بات ہے کہ وہاں اللہ کی حکومت کا سکہ رواں ہو اور اللہ کا سکتی ہے اور نم زندگی وہاں نافذ ہو۔ اس نسبت کے بعد وطن عقیدۂ اسلzم کا قلعہ، اسلzمی نظام حیات کی جلوہ گاہ، بھیجا ہوا نظاآازادئ کامل کی تحریک کا منبع و مرکز قرار پا جاتا ہے ۔ اور بلzشبہ دارالاسلzم اسلzم کا گھر )دارالاسلzم( اور انسان کی نم حیات اور اسلzم کے نمائندہ معاشرہ کا دفاع ہے ۔ لیکن کا تحفظ اور دفاع خود عقیدۂ اسلzم کا دفاع ہے ، اسلzمی نظاآاخری مقصد نہیں قرار دیا جا سکتا، اور نہ دار الاسلzم کا تحفظ ہی اسلzم کی تحریک جہاد کی اصل دفاع کو اصل اور

اس کی وجہ یہ ہےاغایت ہے ۔ بلکہ دار الاسلzم کی حفاظت تو خدا کی حکومت کے قیام کا ایک ذریعہ ہے ۔ اور ثانیاآافتاب جہاں تاب دنیا کے کونے کونے میں کہ دار الاسلzم کو وہ مرکزی مقام بنانا مقصود ہوتا ہے کہ جہاں سے اسلzم کا آازادی سے متمتع ہو ۔۔۔۔۔۔ یہ بات ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس دین کا موضوع نن zتاس کے اعل چمکے اور نوع انسانی

"نوع انسان" ہے اور اس کا دائرۂ کار پورا کرۂ ارضی ہے ۔

جہاد اسلام کی فطری ضرورت ہے جیسا کہ ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں دنیا میں اللہ کی حکومت کے قیام میں کئی مادی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ ریاست کی بے پناہ طاقت، معاشرے کا نظام اور روایات، پورا انسانی ماحول۔ ان میں سے ہر ہر چیز اسلzم کی راہنگ گراں ہے ۔اسلzم ان تمام رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے طاقت کا استعمال کرتا ہے تاکہ اسلzم کے درمیان اور میں ایک سنآازاد فضا کے اندر انسان کی روح اور عقل سے اپیل کر سکے ۔ افراد انسانی کے درمیان کوئی حجاب حائل نہ رہے اور وہ آازاد مرضی سے آازادی فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنی آاقاؤں کی قیود سے رہا کر کے وہ انسان کو ارادہ و انتخاب کی بناوٹی

جس بات کو چاہیں قبول کریں اور جسے چاہيں رد کر دیں۔ تان سے ہمیں ہر گز دھوکا نہیں اسلzم کے نظریۂ جہاد پر مستشرقین نے جو مکروہ حملے شروع کر رکھے ہیں کھانا چاہیے اور نہ کسی گھبراہٹ کا اظہار کرنا چاہیے ۔ یہ بات بھی ہماری حوصلہ شکنی کا باعث نہیں ہونی چاہیے کہ

رہا ہے اور دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں بھی ہمارے خلzف ہیں۔ یہ باتیں ایسی نہیں ہیںہحالات کا دھارا ہمارے خلzف بہ کہ ہم ان سے متاثر ہو کر اسلzمی جہاد کے وجوہ جواز دین کی فطرت و حقیقت سے کہیں باہر تلzش کرنا شروع کر دیں۔ اور جہاد کو دفاعی ضرورت اور وقتی اسباب و حالات کا نتیجہ قرار دینے لگیں۔ جہاد جاری ہے اور جاری رہے گا۔ خواہ دفاعی ضروریات اور وقتی اسباب و حالات پائے جائیں یا نہ پائے جائیں۔ تاریخ کے نشیب و فراز کا جائزہ لیتے وقتنن zہمیں ان اصل محرکات اور تقاضوں کو ہرگز نظر انداز نہ کرنا چاہیے جو اس دین کی طبیعت میں، اس کے عالم گیر اعل نق کار میں پنہاں ہیں۔ یہ بات درست نہ ہوگی کہ ہم ان اصل محرکات اور آازادی میں، اور اس کے حقیقت پسندانہ طری

تقاضوں کے درمیان اور دفاعی ضروریات اور وقتی داعیات کے درمیان خلط مبحث کریں۔

105

Page 106: Jada o Manzil Complete

آاوروں سے اپنے دفاع کا پورا پورا انتظام کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ دین کا محض اس بلzشبہ اس دین کو بیرونی حملہ آانا کہ یہ اللہ کی عالمی ربوبیت کا اعلzن اور غیر اللہ کی بندگی سے انسان کی رستگاری کی دعوت ہے ، اور شکل میں تجداگانہ طرز کی پھر اس کا ایک منظم تحریک کا قالب اختیار کر لینا جو جاہلی قیادتوں سے باغی اور ایک بالکل نئی اور قیادت کے تابع ہو، اور ایک نرالے اور مستقل معاشرے کی تخلیق کرنا جو انسانی حاکمیت کو اس لیے تسلیم نہ کرتا ہو کہ حاکمیت صرف خدائے واحد کا حق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دین کا اس شکل میں دنیا سے اپنا تعارف کرانا ہی اس امر کے لیے بہت کافی ہے کہ اردگرد کے وہ تمام جاہلی معاشرے اور طبقے جو بندگئ انسان کی بنیاد پر قائم ہیں اس کوآائیں۔ ظاہر نیست و نابود کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے وجود کے تحفظ و دفاع کے لیے خم ٹھونک کر باہر نکل نت حال کا رونما ہے کہ ایسی صورت میں نئے اسلzمی معاشرے کو بھی اپنے تحفظ و دفاع کا انتظام کرنا ہوگا۔ اس صور

نت حال بھی لازما پیدا ہوگی۔ اس کشمکش کو چھیڑنے میں اسلzم کیاہونا ناگزیر ہے جوں ہی اسلzم کا ظہور ہوگا یہ صور پسند و ناپسند کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیوں کہ یہ کشمکش تو اسلzم پر ٹھونسی جاتی ہے ۔ یہ وہ طبعی کشمکش ہے جو دو ایسے نظاموں کے مابین چھڑ کر رہتی ہے جو زیادہ عرصہ تک بقائے باہم کے اصول پر ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ترو سے اسلzم کے لیے اپنی مدافعت یہ وہ حقیقت ہے جس میں مجال شک نہیں ہے ۔ اور اسی نفس الامری حقیقت کی

تاسے یہ مسلط کردہ دفاعی جنگ لڑے بغیر چارہ نہیں ہے ۔ ضروری ہو جاتی ہے ۔

جاہلیت کے مقابلے میں اسلام "جنگ بندی" نہیں کر سکتا لیکن اس حقیقت نفس الامری کے علzوہ ایک اور اٹل حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے جو اس پہلی حقیقت سے زیادہ اہم اور روشن ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلzم کی فطرت کا یہ ایک اٹل تقاضا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو غیر اللہنز اول ہی سے پیش قدمی شروع کر دیتا ہے ۔ لہذا اس کے لیے جغرافی کی بندگی کے گڑھے سے نکالنے کے لیے روتاسے یہ گوارا نہیں ہے کہ وہ حدود کی پابندی ناممکن ہے ، اور نہ وہ نسلی حد بندیوں میں محصور ہو کر رہ سکتا ہے ، مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی پوری نوع انسانی کو شر و فساد اور بندگئ غیر اللہ کا لقمہ بنتے دیکھے اور پھر اسےآا سکتا ہے کہ ان کی مصلحت کا چھوڑ کر گوشہ نشینی اختیار کرلے ۔ اسلzم کے مخالف کیمپوں پر تو ایک ایسا وقت تقاضا یہ ہو کہ اسلzم کے خلzف کوئی جارحانہ کاروائی نہ کی جائے بشرطیکہ اسلzم انہیں اس بات کی اجازت دے دے کہ وہ اپنی علzقائی حدود کے اندر رہ کر بندگئ غیر اللہ کی ڈگر پر چلتے رہیں، اسلzم انہیں ان کے حال پر چھوڑتان کے ساتھ "جنگ بندی" کا آازادی کی پیروی پر مجبور نہ کرے ۔ مگر اسلzم نن zدے اور انہیں اپنی دعوت اور اپنے اعل آاگے اپنا سر خم کر دیں، اور جزیہ دینا قبول کر لیں۔ جو ´لا یہ کہ وہ اسلzم کے اقتدار کے نا مؤقف اختیار نہیں کر سکتا۔ تاس کی راہ میں کسی نت اسلzم کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں، اور اس امر کی ضمانت ہوگا کہ انہوں نے دعو سیاسی طاقت کے بل پر روڑے نہیں اٹکائیں گے ۔ اس دین کا یہی مزاج ہے اور اللہ کی عالمی ربوبیت کا اعلzن، اور مشرق و مغرب کے انسانوں کے لیے غیر اللہ کی بندگی سے نجات کا پیغام ہونے کی حیثیت سے اس کا یہ ناگزیر فرض

106

Page 107: Jada o Manzil Complete

بھی ہے ۔ اسلzم کے اس تصور میں اور اس تصور میں جو اس کو جغرافیائی اور نسلی حدود میں مقید کر دیتا ہے ، اور جب تک کسی بیرونی جارحیت کا خطرہ نہ ہو، اس کو کسی اقدام کی اجازت نہیں دیتا، فرق ظاہر ہے ؛ پہلی حالتنت عمل سے یکسر میں وہ ایک زندہ اور متحرک قوت ہے ، جب کہ دوسری صورت میں وہ تمام داخلی اور فطری محرکا

محروم ہو جاتا ہے ! اسلzم کی پیش قدمی اور حرکت پسندی کے وجوہ جواز زیادہ مؤثر اور واضح طور پر سمجھنے کے لیے یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ اسلzم انسانی زندگی کا خدائی نظام ہے ، یہ کسی انسان کا وضع کردہ نہیں ہے ، نہ یہ کسینق حیات۔ اسلzم کی انسانی جماعت کا خود ساختہ مسلک ہے ، اور نہ یہ کسی مخصوص انسانی نسل کا پیش کردہ طریآاتی ہے جب ہماری نگاہوں سے یہ عظیم تحریک جہاد کے اسباب خارج میں ڈھونڈنے کی ضرورت صرف اسی وقت پیش ہلی کی حکومت کے قیام کے حقیقت اوجھل ہو جاتی ہے ، اور ہم بھول جاتے ہیں کہ دین کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعا ذریعے سارے مصنوعی خداؤں کی خدائی کی بساط لپیٹ دی جائے ۔ یہ ناممکن ہے کہ انسان اس اہم اور فیصلہ کن حقیقت کو اپنے ذہن میں ہر وقت تازہ بھی رکھے اور پھر جہاد اسلzمی کے سلسلے میں کسی خارجی وجہ جواز کی

تلzش و جستجو میں سرگرداں بھی ہو۔

اسلام کے بارے میں دو تصور اور ان کا فرقتاس کا صحیح اندازہ سفر کی پہلی منزل پر نہیں ہو سکتا۔ اسلzم کے ان دو تصوروں کے درمیان جو فرق ہے ایک تصور تو یہ ہے کہ اسلzم کو جاہلیت کے خلzف غیر ارادی طور پر جنگ لڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس لیے کہ اس کےآاور ہوں۔ اور اسلzم بامر مجبوری مدافعت کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ وجود کا طبعی تقاضا تھا کہ جاہلی معاشرے اس پر حملہ آاخر معرکۂ کارزار میں داخل ہوگا۔ نت خود شروع سے پیش قدمی کرے گا اور بال اا بذا اور دوسرا تصور یہ ہے کہ اسلzم لازمآاغاز میں تو ان دونوں تصورات کا باہمی فرق نمایاں طور پر واضح نہیں ہو سکتا اس لیے دونوں حالتوں نف مسلک کے zاختل تاترنا پڑے گا لیکن منزل پر پہنچ جانے کے بعد معلوم ہوگا کہ دونوں تصوروں میں زمین و اا اسلzم کو جنگاہ میں میں لازم آاسمان کا فرق ہے ۔ اسلzم کے بارے میں دونوں کے احساس و جذبات میں اور خیالات و تصورات میں بڑا بنیادی اور

نازک سا فرق ہے ۔ہلہی نظام حیات ہے اور اس خیال میں کہ وہ ایک علzقائی نظام ہے بہت بڑا اور غیر اس خیال میں کہ اسلzم اآایا ہے کہ وہ خدا کی زمین پر خدا کی حکومت کا معمولی فرق ہے ۔ اول الذکر خیال کے مطابق اسلzم دنیا میں اس لیے ہلہ کی بندگی کی دعوت دے ، اور اپنے اعلzن اور دعوت کو عملی سانچے میں نا اعلzن کرے ، اور تمام انسانوں کو ایک آازاد ہوں اور بندگئ رب پر جمع ہوں، ڈھالے ، اور پھر ایک ایسا معاشرہ تیار کرے جس میں انسان انسانوں کی بندگی سے یہ حق نمائندگی کرتی ہے حکمراں ہو۔ صرف اسی اسلzم کو اقتدار کی بالاتر اللہ کے ہلہی جو ا پر صرف شریعت ان یا نظام ریاست کے سیاسی تاکہ وہ ہوں۔ میں حائل راستے زائل کرے جو اس کے موانع کو تمام تان وہ پہنچتا ہے کہ

107

Page 108: Jada o Manzil Complete

آازادانہ اپیل کر سکے انسانوں کی خود ساختہ معاشرتی روایات کی دیواروں کو ڈھانے کے بعد افراد کے عقل و وجدان سے تاسے صرف اتنا حق حاصل ہے کہ ترو سے اسلzم محض ایک وطنی نظام ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثانی الذکر خیال کی آاپ کے سامنے ہیں۔ اس کی علzقائی حدود پر جب کوئی طاقت حملہ کرے تو وہ اپنا دفاع کرے ۔ اب یہ دونوں تصور بے شک اسلzم دونوں حالتوں میں جہاد کو قائم کرتا ہے ، لیکن دونوں حالتوں میں جہاد کے محرکات، جہاد کے مقاصد اور جہاد کے نتائج سے جو دو عملی تصویریں بنتی ہیں وہ ایک دوسرے سے بے حد مختلف ہیں۔ فکر و نظر کے لحاظ

سے بھی اور منصوبہ و رحجان کے اعتبار سے بھی۔ یا وطن کی ابتداء ہی پیش قدمی سے کرے ۔ اسلzم کسی قوم پہنچتا ہے کہ وہ یہ حق بے شک اسلzم کو میراث نہیں ہے ۔ یہ خدا کا دین ہے اور تمام دنیا کے لیے ہے ۔ اسے یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ ان موانع کو پاشند سلzسل کرتے آازادئ انتخاب کو پابن پاش کر دے جو روایات اور نظاموں کی شکل میں پائے جاتے ہیں اور جو انسان کی ہیں۔ وہ افراد پر حملہ نہیں کرتا اور نہ ان پر اپنا عقیدہ زبردستی ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے ، وہ صرف حالات و نظریاتتان کی فطرت کو مسخ کر دیا تان فاسد اور زہریلے اثرات سے بچائے جنہوں نے سے تعرض کرتا ہے تاکہ افراد انسانی کو

آازادئ انتخاب کو پامال کر رکھا ہے ۔ ہے اور ان کی آاقائی سے اسلzم اپنے اس حق سے بھی کسی طور دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں کہ وہ انسانوں کو بندوں کی کامل کی آازادی کی انسانوں اور ربوبیت کی ہلی تعا اللہ وہ تاکہ کرے پر جمع بندگی کی ایک خدا کر صرف نکال ہلی کی بندگی اپنی نر واقع دونوں کے نقطۂ نظر سے اللہ تعا تحریک کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکے ۔ تصور اسلzمی اور امآا سکتی ہے ۔ اسلzمی نظام ہی ایک ایسا منفرد نظام ہے ترو بعمل پوری شان سے صرف اسلzمی نظام ہی کے سائے میں تدور کے جس میں تمام انسانوں کا خواہ وہ حاکم ہوں یا محکوم، کالے ہوں یا گورے ، غریب ہوں یا امیر، قریب کے ہوں یا تاس ہلی ہی قانون ساز ہوتا ہے ، اور اس کا قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے اور سب انسان یکساں طور پر ، صرف اللہ تعاآاگے سرنگوں ہوتے ہیں۔ رہے دوسرے نظام ہائے حیات تو ان میں انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کی بندگی کرتے ہیں، کے اور وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کی گھڑی ہوئی شریعت کی اطاعت کرتے ہیں۔ شریعت سازی الوہیت کی خصوصیات میںتاسے اختیار ہے تو بالفاظ دیگر نب منشا قانون بنانے کا ہی کرے کہ انسانوں کے لیے حس سے ایک ہے ۔ جو انسان یہ دعوہی کرے یا نہ کرے ۔ جو اس کے دعوے کا مطلب یہ ہے کہ وہ الوہیت کا مدعی ہے ، خواہ وہ زبان سے الوہیت کا دعوتاس نے اس کے حق آازادانہ قانون سازی کا حق ۔۔۔۔۔۔۔۔ تسلیم کرے گویا شخص ایسے مدعی کا یہ حق ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی الوہیت کو تسلیم کیا چاہے وہ اسے الوہیت کا نام دے یا اس کے لیے کچھ دوسرے نام یا اصطلzحیں تجویز کرتا پھرے ۔ اسلzم محض عقیدہ و فکر کا نام نہیں ہے کہ وہ لوگوں تک محض وعظ و بیان کے ذریعے اپنا پیغام پہنچا دینےآازادی کے لیے عملی اقدام نق زندگی ہے جو منظم تحریک کی صورت میں انسان کی پر اکتفاء کر لے ۔ اسلzم ایک طری

تاسے یہ موقع نہیں دیتے کہ وہ اپنے نام لیواؤں کو اپنے طریق کار کےنکرتا ہے ۔ غیر اسلzمی معاشرے اور نظام ہائے حیات

108

Page 109: Jada o Manzil Complete

ند آازادئ کامل کے لیے س تحت منظم کر سکے ، اس لیے اسلzم کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے نظاموں کو، جو انسان کی راہ بن رہے ہوں، ختم کرے ۔ صرف اسی صورت میں دین پورے کا پورا اللہ کے لیے قائم ہو سکتا ہے ۔ پھر نہ کسی انسان کا اقتدار باقی رہے گا اور نہ کسی انسان کی بندگی کا سوال پیدا ہوگا۔ جیسا کہ دوسرے نظامہائے زندگی کا حال

آاقائی اور انسان کی بندگی پر اپنی عمارت قائم کرتے ہیں۔ ہے جو انسان کی

اسلام میں مغرب کے تصور جہاد کی گنجائش نہیں ہمارے وہ معاصر مسلمان محقق جو حالات حاضرہ کے دباؤ اور مستشرقین کی مکارانہ تنقیدوں سے مرعوب ہیںآامادہ نہیں ہیں۔ مستشرقین نے اسلzم کی جو تصویر بنائی وہ اسلzم کی مذکورہ بالا حقیقت کے اظہار و اثبات کے لیے پر اپنے آاشام تحریک کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ، جو شمشیر بدست انسانوں تاس میں اسلzم کو ایک خون ہے اا پاک ہے ، عقاید و نظریات ٹھونستی پھرتی ہے ۔ یہ بدطینت مستشرقین خوب جانتے ہیں کہ اسلzم اس تصور سے قطع لیکن اس ہتھکنڈے سے کام لے کر دراصل وہ اسلzمی جہاد کے اصل محرکات و اسباب کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ہمارے مسلمان محققین ۔۔۔۔۔ یہی شکست خوردہ محققین ۔۔۔۔ اسلzم کی پیشانی سے اس "داغ" کو دھونے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور ایسے دلائل کی تلzش میں لگ جاتے ہیں جن سے وہ یہ ثابت کر سکیں کہ

ااس کے اصل کارنامے سے قطعااور اسلzم میں جہاد سے مراد "مدافعانہ جنگ" ہے ۔ حالانکہ یہ لوگ اسلzم کی فطرت نابلد ہیں، انہیں یہ تک معلوم نہیں ہے کہ اسلzم ۔۔۔۔۔۔ ایک عالمی اور انسانی مذہب ۔۔۔۔۔ کا یہ ناگزیر حق ہے کہ وہ

آازادی کے لیے خود اقدام کرے ۔ عصر نب تخلیق کے ذہنوں پر دیننانسانوں کی حاضر کے ان مرعوب و ہزیمت خوردہ اربااz مغرب کا تصور ہے ۔ مغربی تصور کے لحاظ سے دین محض ایک عقیدہ کا نام ہے ، اس کا وہ تصور غالب ہے جو اصلتاسے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے نام پر جب کوئی کا مقام ضمیر ہے ۔ زندگی کے عملی نظام سے نل مغرب کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ دوسروں پر اپنا عقیدہ اور نظریہ جنگ جنگ لڑی جاتی ہے تو اہ

کے ذریعے زبردستی ٹھونسنا چاہتے ہیں۔نم جہاد بلند کیا لیکن اسلzم میں دین کا یہ تصور کبھی نہیں رہا، اور نہ اس تصور کے تحت اس نے کبھی عل

ہلے کی بندگ کا قائل ہے ، اس کے نزدیک الوہیت کایہے ۔ اسلzم انسانی زندگی کا خدائی نظام ہے جو صرف اللہ تعاانسان کی عملی زندگی کے بڑے سے بڑے مسائل سے لے کرنصحیح مظہر حاکمیت نظام یہ خدا ہے ، اسی طرح

نم جہاد دراصل اس خدائی نظام کو برپا کرنے تاس کا نظا روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے معاملzت کی مکمل تنظیم کرتا ہے ۔ آازادئ رائے سے ہے تاس کا تعلق اور اسے غالب کرنے کی کوشش ہی کا دوسرا نام ہے ۔ رہا عقیدہ کا معاملہ تو ظاہر ہے کہ ، اسلzم چاہتا ہے کہ انسانی رائے کو متاثر کرنے کی راہ میں حائل ہونے والی تمام رکاوٹیں دور ہوں، اور ہمہ پہلو اسلzم کاآازادی ہو، اور وہ اپنی مرضی سے جو عقیدہ نظام غالب ہو جائے ۔ فرد کو ہر قسم کا عقیدہ اور نظریہ کے رد و قبول کی

109

Page 110: Jada o Manzil Complete

تاس نقشے اپنے اساسی نظریات اور تفصیل دونوں کے لحاظ سے چاہے اختیار کر سکے ۔ ظاہر ہے کہ دین کا یہ نقشہ سرتاپا مختلف ہے جو مغرب نے پیش کیا ہے ۔

ہلہی نظام حیات کی عملی تفسیر و تعبیر ہو تو اللہ چنانچہ جہاں کہیں ایسا اسلzمی معاشرہ پایا جاتا ہے جو اآاگے بڑھ کر اقتدار کی زمام ہاتھ میں سنبھال لے اور تاسے یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اقدام کرے اور ہلی کی طرف سے تعاآازاد ہلہی نظام حیات کا نقش ثبت کر دے ۔ البتہ عقیدہ اور ایمان کے مسئلے کو وہ انسان کے وجدان اور جریدۂ عالم پر اہلی نے امت مسلمہ کو ایک معین عرصہ تک اگر جہاد سے روکا تھا تو یہ منصوبہ بندی کے رائے پر چھوڑ دیتا ہے ۔ اللہ تعا طور پر تھا۔ نہ کہ کسی اصول و ضابطے کی تعلیم تھی۔ یہ تحریک کے ایک خاص مرحلے کی ضروریات کا مسئلہ تھا،آان مجید کی بکثرت ایسی نہ کہ اسلzم کے بنیادی عقیدہ اور نظریہ کا مسئلہ۔ اسی واضح بنیاد کی روشنی میں ہمیں قرآایات کو پڑھتے وقت آا سکتا ہے جن کا تعلق تحریک کے بدلتے ہوئے مراحل سے رہا ہے ۔ ان آایات کا مفہوم سمجھ میں ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ان کا ایک مفہوم وہ ہے جو اس مرحلے کے ساتھ وابستہ ہے جس میں یہ نازل ہوئی تھیں،نہ حیات سے ہے ۔ ہمیں ان اور دوسرا ان کا عمومی مفہوم ہے جس کا تعلق اسلzمی تحریک کی ناقابل تغیر اور ابدی شاہرا

دونوں حقیقتوں کو کبھی گڈ مڈ نہ کرنا چاہیے ۔

110

Page 111: Jada o Manzil Complete

واپس اوپر جائیے

باب پنجم

ہلہ الا اللہ لا ااسلzم کا نظام حیات

اسلامی نظام زندگی کی اساس کلمہ یعنی ۔۔۔۔۔ اول رکن کے عقیدہ اسلzمی ) ہے نہیں معبود کوئی سوا کے )اللہ اللہ" الا ہلہ ا "لا شہادت ۔۔۔۔۔ کا پہلz جزو ہے جس میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ بندگی و عبادت کے لائق صرف ایک اللہ ہے ۔ "محمد رسول اللہ" اس کا دوسرا جزو ہے اور اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس بندگی کی کیفیت اور اس طریقہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے حاصل کیا جائے گا۔ مومن اور مسلم کا دل وہ دل ہے جس کی گہرائیوں میں یہ کلمہ اپنے ان دونوں اجزا سمیت پوری طرح جاگزیں ہوتا ہے ۔ اس لیے کہ ان دونوں شہادتوں کے بعد ایمان کے جتنے ستون اور اسلzم کے جتنے ارکان ہیں وہ دراصل ان شہادتوں ہی کے تقاضے میں پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ ملzئکہ پر ایمان، اللہ کیہکوۃ اور حج، آاخرت پر ایمان، تقدیر خیر و شر پر ایمان، اسی طرح نماز، روزہ ز کتابوں پر ایمان، اللہ کے رسولوں پر ایمان، اور پھر حدود، تعزیرات، حلzل و حرام، معاملzت، قوانین، اسلzمی ہدایات و تعلیمات ان سب کی اساس اللہ کی عبودیت پر استوار ہوتی ہے ۔ اور ان سب کا منبع وہ تعلیم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی طرف سے ہم تک

پہنچائی ہے ۔ شہادت اور اس کے تمام تقاضوں کی عملی تفسیر ہو۔ اگر یہ کلمہ اورۂاسلzمی معاشرہ وہ معاشرہ ہے جو کلم

اس کے تقاضوں کی کوئی جھلک معاشرے کی عملی زندگی میں نہ پائی جاتی ہو تو وہ اسلzمی معاشرہ نہیں ہے ۔ گویاہلہ الا اللہ محمد رسول اللہ( ایک ایسے مکمل نظام کی بنیاد ٹھیرتا ہے جس پر امت مسلمہ کی زندگی کلمہ شہادت )لا ا اپنی تمام تفصیلzت اور ضروریات سمیت تعمیر ہوتی ہے ۔ اس بنیاد کے قیام سے پہلے زندگی کی تعمیر کا سوال ہی پیدابنیاد کے ساتھ بنیاد پر زندگی کی عمارت اٹھائی جائے یا اس بنیاد کے ماسوا کسی اور نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر اس کسی اور بنیاد کو یا متعدد خارجی بنیادوں کو بھی شامل کر کے زندگی کی تعمیر کی کوشش کی جائے تو ان کے

111

Page 112: Jada o Manzil Complete

ہلی کا نتیجے میں قائم ہونے والے معاشرے کو اسلzمی زندگی کا نمائندہ کسی طرح بھی نہیں کہا جا سکے گا۔ اللہ تعاارشاد ہے :

تم )یوسف ن´ي نق مل تن ا ندي ن« ال نل نذ ن´ياہ ن·ا ´ا ن ن·ال ما تدو تب مع نت ´ا ن نµال نر نم نµا ´لہ نل ´ا ن ن·ال تم م¶ تح مل نن ا (40ن·ا

´یم ق اللہ کا ہے ۔ اس کا فرمان ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کی جائے ۔ یہی دین حکم صرف )ٹھیٹھ اور سیدھا طریق زندگی( ہے ۔

´لہ )النساء نع ال نطا نµا مد نق نف نل تسو نر نع ال نط تي من (80نم

تاس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔ جس نے رسول کی اطاعت کی ن بیان دین حق اور اس کی عملی تحریک سے تعلق رکھنے والے بنیادی مسائلتیہ مختصر، اصولی اور فیصلہ ک

اا: یہ "مسلم معاشرے کی فطرت" کے تعی ن میں´کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ کرنے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ اولاا: اا: "مسلم معاشرے کے طریقۂ تعمیر" کی نشاندہی میں ہمیں اس سے مدد ملتی ہے ، ثالث ہماری رہنمائی کرتا ہے ، ثانی

نق کار تجویز کیا ہے ۔ اور رابعا : وہ یہ تعیناہمیں یہ بتاتا ہے کہ اسلzم نے جاہلی معاشروں کے ساتھ نمٹنے کے لیے کیا طرینت حال کو بدلنے کے لیے اسلzم کا ضابطۂ کار کیا ہے ۔ یہ تمام مسائل وہ ہیں کرتا ہے کہ انسانی زندگی کی عملی صورآاج تک اسلzمی تحریک کے نظام کار میں نہ صرف اساسی اہمیت کے حامل رہے ہیں بلکہ جو قدیم زمانے سے لے کر

بڑے نازک اور فیصلہ کن سمجھے جاتے رہے ہیں۔

اسلامی معاشرے کا امتیازی وصفنت زندگی میں صرف اللہ کی عبودیت کی zمسلم معاشرے کا امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ معاشرہ اپنے تمام معامل ہلہ الا اللہ محمد رسول اللہ( اسی عبودیت کا اظہار کرتا ہے اور اس کی کیفیت اساس پر قائم ہوتا ہے ۔ کلمۂ شہادت )لا ا متعین کرتا ہے ۔ انسان کا اعتقاد بھی اس عبودیت کا مظہر ہوتا ہے ، عبادات و شعائر میں بھی اس عبودیت کا پرتو پایاہلی کی وحدانیت پر یقین نہیں رکھتا جاتا ہے ، قوانین و ضوابط اس کی عملی تصویر ہوتے ہیں۔ جو شخص اللہ سبحانہ تعا

تاس نے دراصل ایک اللہ کی بندگی اختیار ہی نہ کی: تو

ابا نص نوا تن ندي نلہ ال نو نض مر نµا نوال نت نوا نما نس مل نفي ا نما نلہ نو نن • تبو مرہ نفا ني ن´يا ·ا نف لد نح نوا ن·الہ نو نما ہ ´ن ن ن·ا نن مي نن مث نن ا مي ن·ال�ہ ما تذو نخ ن´ت نت نا ´لہ ل نل ال نقا نونن • )النمل: تقو ´ت ن نت ´لہ نر ال مي نغ نف (52 – 51نµا

112

Page 113: Jada o Manzil Complete

تاسی کا ہے وہ اور اللہ کا فرمان ہے کہ دو خدا نہ بنا لو، خدا تو بس ایک ہی ہے ، لہذا تم مجھی سے ڈرو، آاسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور خالصا تاسی کا دین )کائنات میں( چل رہا ہے ۔ پھر کیا اللہ کواسب کچھ جو

ہی کرو گے ۔ چھوڑ کر کسی اور سے تقوآاگے یا اللہ کے ساتھ کسی اور ذات کو شریک کر کے اسی طرح جو شخص اللہ کے سوا کسی اور ہستی کے

عبادات و شعائر بجا لاتا ہے وہ بھی خدائے واحد کا بندہ نہیں ہو سکتا:

نن • نمي نل مس تم مل تل ا نو نµا ما نن نµا نو تت مر نم تµا ن« نل نذ نب نو نلہ ن« نري نش نا نن • ل نمي نل نعا مل نب ا نر ´لہ نل نتي نما نم نو ني نيا مح نم نو ن¶ي تس تن نو نتي zن نصل نن ن·ا مل تق(163 – 162)انعام

نم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے کہہ دیجیے میری نماز، میرے تمام مراس شریک نہیں، اسی کامجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔ یہے جس کا کوئ

ہلی نے ہم کو اسی طرح جو شخص ان قوانین کو چھوڑ کر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعادیے ہیں کسی اور منبع سے قوانین اخذ کرتا ہے تو وہ بھی اللہ کی بندگئ خالص سے محروم ہے :

ہی ´لہ )شور ن نبہ ال نذن مµا ني مم نل نما نن ندي نن ال نم نلہم تعوا نر نش ن³اء نر تش مم نلہ مم (21نµا

نک خدا رکھتے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایسا کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریطریقہ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اذن نہیں دیا۔

نتہوا )حشر نفان منہ نع مم ت³ ننہا نما نو تذوہ تخ نف تل تسو نر تم ال ت³ نتا آا نما (7نو

ترک جاؤ۔ تاس سے تاسے پکڑ لو اور جس چیز سے روکے جو کچھ رسول تمہیں دل میں تصورات و معتقدات کے افراد طرح میں جس معاشرے اس اصلی۔ نر اقدا کی معاشرے اسلzمی ہیں یہ بندگئ رب رچی بسی ہوتی ہے ، اسی طرح ان کی عبادات اور شعائر و مناسک پر بھی بندگئ خالص کا رنگ چڑھا ہوتا ہے اور ان کا جماعتی نظام اور قوانین و ضوابط بھی بندگئ رب کے عملی پیکر ہوتے ہیں۔ ان پہلوؤں میں سے ایک پہلو میں بھی اگر بندگی کا رنگ معدوم ہو تو پورے کا پورا اسلzم کالعدم ہو جاتا ہے ۔ اس لیے کہ اس طرح اسلzم کا رکن

شہادت، جس پر اسلzم کی بنیاد ہے سرے سے وجود پذیر ہی نہیں ہو سکتا۔ۂاول، کلم اوپر ہم نے یہ عرض کیا ہے کہ اسلzمی معاشرے کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے افراد کے اعتقاداتآائینہ دار ہوتے ہیں۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ بتا دیا جائے کہ اسلzمی اعتقاد کیا ہے ؟ بھی اسی جذبۂ عبودیت کے

اسلامی اعتقاد کیا ہے ؟

113

Page 114: Jada o Manzil Complete

"اسلzمی اعتقاد" کس چیز کا نام ہے ، دراصل یہ ایک ایسا اعتقاد اور تصور ہے جس کا پودا انسان کے شعور وآان( سے ادراک میں اس وقت پھوٹتا ہے جب وہ عقیدۂ اسلzم کے حقائق و رموز کو براہ راست ربانی سرچشمۂ ہدایت )قرتاسے اپنے رب نسم ہو جاتا ہے تو پھر نق تمر اخذ کرتا ہے ۔ اور جب اس تصور اور اعتقاد کا نقش پوری طرح انسان کے ذہن پر تاس کی خفی اور جلی حقیقتیں بھی کی حقیقت کا عرفان حاصل ہوتا ہے ، جس کائنات میں وہ سانس لے رہا ہوتا ہے تاس پر منکشف ہوتی ہیں، جس زندگی کی بدولت وہ زندہ انسانوں میں شمار ہوتا اور ان کے ساتھ مربوط ہوتا ہے تاسی وقت نن ذات بھی اسے نصیب ہوتا ہے ۔ یعنی وہ تاس پر روشن ہو جاتے ہیں۔ اور ساتھ ہی عرفا تاس کے پنہاں اور عیاں حقائق بھی خود انسان کی اصلیت سے باخبر ہو جاتا ہے ۔ پھر اسی تصور کی بنیاد پر وہ تمام حقائق کے ساتھ اپنے معاملzت کی کیفیت متعین کرتا ہے ۔ اپنے پروردگار کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتا ہے جس میں اس کی عبودیت اور بندگی کے نور کا پرتو ہو، کائنات اور کائنات کے قوانین و نوامیس، ذی روح مخلوقات، نوع انسانی اور اس کے مختلف اداروں کے بارےتاس تعلیم سے ماخوذ ہوتی ہیں جو مین وہ ایسا رویہ اختیار کرتا ہے جس کی جڑیں اللہ کے دین میں پیوست ہوتی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچتی ہے ۔ اس طرح وہ اپنے پورے رویۂ زندگی کے اندر اللہ کیتمہر ثبت ہوتی عبودیت و بندگی کا اظہار کرتا ہے ، اور یوں اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر اسی پاکیزہ روش کی

جاتی ہے

تق کار اسلامی معاشرہ کو وجود میں لانے کا طریمعاشرے کے حدود معاشرہنمسلم کا نوعیت اس کہ ہے ہوتا پیدا یہ سوال اب بعد ہو جانے کے متعین اربعہ

نق کار کیا ہے ؟ آاتا ہے ؟ اور اس کی تعمیر کا طری کیسے وجود میں آا سکتا جب تک پہلے ایک ایسا انسانی گروہ ظہور پذیر نہ ہو جو یہ یہ معاشرہ اس وقت تک وجود میں نہیں فیصلہ کر چکا ہو کہ اس کی بندگی اور عبودیت تمام کی تمام صرف اللہ کے لیے مخصوص ہوگی، اور وہ اللہ کی بندگیاللہ کی نہ عقیدہ و تصور کے لحاظ سے غیر کے ساتھ کسی اور ہستی کی بندگی کی شرکت گوارا نہیں کرے گا، بندگی کو قبول کیا جائے گا، نہ عیادات و شعائر میں غیر اللہ کی اطاعت کو دخل اندازی کا موقعہ دیا جائے گا، اور نہ قوانین اور نظام زندگی کے اندر غیر اللہ کی بندگی کا کوئی شائبہ برداشت کیا جائے گا۔ اس فیصلہ کے بعد یہ گروہ

ل کین خالصہ کی بنیاد پر منظم کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ اپنے ضمیر اور دنانسانی بالفعل اپنی زندگی کو اللہ کی عبودیت دنیا سے وہ ان تمام اعتقادات و تصورات کو کھرچ دیتا ہے جو غیر اللہ کی الوہیت کے قائل اور اللہ کی الوہیت میں سے کسی اور کو بھی شریک ٹھیراتے ہیں۔ اس معاشرے کی تمام مراسم عبادت ایک اللہ کے لیے مخصوص ہو جاتے ہیں اور اس کے سوا باقی سب سے اس کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے ۔ اس طرح کے مثالی اسلzمی معاشرے کے تمام قوانین کا

آامیزش گوارا نہیں کرتا۔ ہلہی قوانین میں وہ کسی اور قانون کی ماخذ صرف خدا کی ذات ہوتی ہے ، اور ان ا

114

Page 115: Jada o Manzil Complete

یہی وہ رویہ ہے ، جس کو اختیار کرنے کے بعد یہ جماعت صحیح معنوں میں مسلم جماعت کہلzئے گی اورتاسے "مسلم معاشرہ" کہا جا سکے گا۔ کوئی انسانی جماعت اس طرز پر جو ہم جو معاشرہ یہ جماعت منظم کرے گی نے اوپر بیان کی ہے اللہ کی خالص عبودیت کا اقرار کرنے سے قبل مسلم جماعت شمار نہیں ہو سکتی، اور نہ عبودیتتاس کا قائم کردہ معاشرہ "مسلم معاشرہ" قرار دیا جا نم حیات کو استوار اور منظم کرنے سے قبل کی اساس پر اپنے نظا سکتا ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ اولین بنیاد جس پر اسلzم کی عمارت قائم ہوتی ہے اور مسلم معاشرہ تشکیل پاتا ہے

ہلہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کی شہادت، وہ اپنے دونوں اجزاء سمیت قائم نہیں ہوئی ہے ۔ یعنی "لا ا اس لیے قبل اس کے کہ اسلzم کے اجتماعی نظام کو قائم کرنے کے بارے میں سوچ بچار کیا جائے اور اس نظام کی اساس پر ایک مسلم معاشرے کے قیام کی تدبیریں تلzش کی جائیں، ضروری ہے کہ اولین توجہ افراد کے قلب و ضمیر کو غیر اللہ کی بندگی کی تمام صورتوں سے پاک کرنے پر صرف کی جائے ۔ اور جن لوگوں کے قلوب و اذہان غیرتپوری طرح پاک صاف ہوتے جائیں وہ سب مل کر ایک جماعت بنائیں، یہی جماعت جس کے افراد اللہ کی بندگی سے اپنے اعتقادات و تصورات کے لحاظ سے ، مراسم عبادت کے لحاظ سے اور شریعت و قانون کے لحاظ سے غیر اللہ کیآازاد ہوں، اسلzمی معاشرے کی داغ بیل ڈال سکتی ہے ، اور جو شخص بھی اسلzمی معاشرے بندگی سے پوری طرح تاس کا وہ قانون تاس کی عبادات اور تاسے اس کا عقیدہ میں زندگی بسر کرنا چاہے گا وہ اس میں شامل ہوتا جائے گا، اور ہلہ اختیار کرنا ہوگا جس میں اللہ کی عبودیت خالص کے کسی اور چیز کا شائبہ تک نہ ہوگا یا دوسرے لفظوں میں وہ لا ا الا اللہ محمد رسول اللہ کی قولی شہادت کی عملی تصویر ہوگا۔ یہی وہ نہج ہے جس کے مطابق دنیا کی پہلی اسلzمیآائندہ بھی صرف اسی نہج پر اسلzمی جماعت کی آایا۔ جماعت کی تشکیل ہوئی اور پہلz اسلzمی معاشرہ منصۂ شہود پر

نشوونما ہو سکتی ہے اور اسلzمی معاشرہ پھل پھول سکتا ہے ۔ہستی ہر ماسوا اللہ کے گروہ اور افراد انسانی کہ ہے ہو سکتا آاشنائے وجود میں اسی صورت معاشرہ اسلzمی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہے وہ مستقل بالذات ہو یا اللہ کی شریک ہو ۔۔۔۔۔۔۔ ٹھکرا کر صرف خدائے واحد و لا شریک کی

نم زندگی اللہ کی بندگی پر اس����� وار کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔تبندگی کو اپنائیں، اور مستقل طور پر طے کر لیں کہ وہ اپنا نظاآامد ہوگا، مگر اسی اجتماع اور فیصلے سے ایک نیا معاشرہ جنم لے گا جو اگرچہ قدیم جاہلی معاشرہ ہی کے اندر سے برنم نم زندگی کی بدولت فرسودہ جاہلی معاشرے کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوگا۔ یہ نیا نظا اپنے نئے عقیدہ و فکر اور نئے نظا

ہلہ الا اللہ محمد رسول اللہ( کے نور ازل کی جلوہنزندگی اسلzم کے رکن اول توحید، اور رسالت محمدی ۔۔۔۔۔۔۔ )لا اگاہ ہوگا !!

اہ نئے اسلzمی معاشرے میں مدغم ہو جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ عین ممکن ہے کہ قدیم جاہلی معاشرہ کلیتنہیں کہ جاہلی معاشرہ مسلم معاشرے کے ساتھ مصالحت کرنے کی کوشش از امکان یہ بات بھی خارج نہ ہو۔ ایسا کرے ۔ اسی طرح مسلم معاشرے کے خلzف جاہلیت کا ردعمل مسلح تصادم کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے ۔

115

Page 116: Jada o Manzil Complete

تاس نے آا رہی ہے کہ جاہلی معاشرہ ہی اسلzم پر شب خون مارتا ہے ۔ کبھی ہلہی تو یہی چلی ویسے اس باب میں سنت اتاس ہراول دستے پر چڑ نش اسلzم کے ائی کی، جو اسلzمی معاشرے کی داغ بیل ہی سے ابھی فارغ نہ ہوا تھا، اورھ�����������جی

تاس پر چڑھائی کی۔ متفق افراد اور گروہوں کی شکل میں بٹا ہوا تھا۔ اور کبھی اس نے اسلzمی معاشرے کے قیام کے بعد حضرت نوح علیہ السلzم سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک بلz استثنا اسلzمی دعوت کی پوری تاریخ

آاتی رہی ہے ۔ میں یہی صورت حال پیش یہ ایک اور واضح اور طبعی حقیقت ہے کہ نیا اسلzمی معاشرہ اس وقت تک نہ تعمیر کے مرحلے کو طے کرہلی درجہ قوت حاصل نہ کر لے کہ اس کے بل پر قدیم نہ اپنے وجود کو منوا سکتا ہے ، جب تک وہ اع سکتا ہے اور آاسانی مقابلہ کر سکے ۔ یہی نہیں بلکہ یہ قوت ہمہ جہتی اور ہمہ گیر بھی ہونی چاہیے ۔ جاہلی معاشرے کے دباؤ کا ب اعتقاد اور تصور کی قوت، اخلzقی اور نفسیاتی تربیت کی قوت، تنظیم کی قوت اور جماعتی نظام کی قوت، اور وہ ساریتاس تاس پر اگر غلبہ حاصل نہ کر سکے تو کم از کم قوتیں جن کی مدد سے وہ جاہلی معاشرے کا مقابلہ کر سکے ، اور

کے سامنے ڈٹا رہے اور کسی طرح کی ہزیمت کا شکار نہ ہو۔

جاہلی معاشرے کی خصوصیات آائیے دیکھیے کہ "جاہلی معاشرہ" کی حقیقت کیا ہے اور اسلzم اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا طریق کار اب

اختیار کرتا ہے ؟ مختصر لفظوں میں اسلzم کی نظر میں مسلم معاشرہ کے سوا ہر دوسرا معاشرہ جاہلی معاشرہ ہے ۔ اگر ہم اس کی صحیح منطقی تعریف کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ: ہر وہ معاشرہ جو اپنی بندگی کو خواہ وہ اعتقاد و تصور میں ہو، مراسم عبادت میں ہو یا قانونی نظام میں، صرف اللہ کے لیے خالص نہیں کرتا، وہ جاہلی معاشرہ کہلzئے گا۔ اس

آاج دنیا میں جتنے معاشرے پائے جاتے ہیں وہ سب کے سب "جاہلی معاشرے " ہیں۔ تعریف کی رو سے اس بنا پر کہ انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالی کی ذاتاکمیونسٹ معاشرے اس سلسلے میں سرفہرست ہیں۔ اولا

نکر ہیں اور اس نظریہ کے علمبردارتبرتر کے متعلق الحاد کی روش اختیار کر رکھی ہے اور خدا کی ہستی کے سرے سے مآالاتہہیں کہ اس کائنات کا خالق اور علت ماد ن یا نیچر ہے ، اور انسان اور اس کی تاریخ کا خالق اور محرک اقتصاد یا

ثانیا ہیں۔ بلکہاپیداوار نہیں کو تعالی اللہ حق کا بندگی میں اس ہیں کرتے قائم وہ زندگی نظام جو کہ پر بنا اس کمیونسٹ پارٹی کو حاصل ہوتا ہے ۔ اس کی دلیل وہ اقتدار اور پیشوائی ہے جو کمیونسٹ ملکوں میں بالفعل کمیونسٹ

zآاں کمیونزم کے ان تصورات اور اس نظام کو جو نتائج عمل مترتب ہوتے ہیں وہ بھیاپارٹی کو حاصل ہوتی ہے ۔ مزید برzانہی تصورات کا یہ شاخسانہ ہے کہ انسان کے "بنیادی مطالبات"اایک "جاہلی معاشرہ" ہی کے رنگ ڈھنگ ہیں۔ مثل

صرف وہی سمجھے جاتے ہیں جو حیوان کے مطالبات ہوتے ہیں۔ یعنی کھانا پینا، لباس، مکان اور جنسی تسکین۔ انسان ی اخلzقی اوصاف پائے جاتے ہیں،ہکو ایک جانور سمجھنے کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بحیثیت انسان اس میں جو اعل

116

Page 117: Jada o Manzil Complete

انہیں پوری طرح پامال کیا جاتا ہے ۔ اور ان تمام ضروریات اور تقاضوں سے اسے محروم کر دیا جاتا ہے جو "انسانی روح" کا لازمہ ہیں اور انسان کو حیوان سے متمیز کرتی ہیں۔ ان ضروریات اور تقاضوں میں سرفہرست اللہ پر ایمان، اس ایمان کوآازادی اور اس کے اظہار و اعلzن کا غیر مشروط حق ہے ۔ اسی طرح انسان کے لیے اظہار "انا" اختیار کرنے کی کھلی

آازادی بھی انسان کی خاص خصوصیت ہے ۔ یہ انا گوناگوں رو وں میں جلوہ گر ہوتی ہے ۔ انفرادی ملکیت میںی����������کی اسی انا کا ظہور ہوتا ہے ۔ نوعیت کار کے انتخاب اور اس میں خصوصی مہارت پیدا کرنے میں بھی اسی کو دخل ہوتا

ی ہذا القیاس اشتراکی نظام ہر اسہہے ، فن کے ذریعہ شخصیت کے اظہار میں اس کا اضطراب کارفرما ہوتا ہے ۔ علآاتا ہے جو انسان اور حیوان اور انسان اور مشین کے درمیان ما بہ آازادی سے انسان کے لیے پیغام حرمان نصیبی لے کر

الامتیاز ہے ۔ آاج تمام بت پرست اور مشرک معاشرے بھی جاہلی معاشروں کی صف میں شامل ہیں۔ اس نوعیت کے معاشرے تک ہندوستان، جاپان، فلپائن اور افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔ جو بات انہیں جاہلی معاشروں میں داخل کرتی ہے وہ یہ ہے

یہ معاشرے اللہ کے ماسوا کچھ اور ہستیوں کی صفت الوہیت میں اعتقاد رکھتے ہیں یا الوہیت میں اللہ کے ساتھاکہ اولا انہوں نے طرح طرح کے دیوتا اور معبود تراش رکھے ہیں جن کے بارےادوسری ہستیوں کو بھی شریک ٹھیراتے ہیں۔ ثانیا

zمراسم عبودیت و نیاز مندی بھی بجا لاتے ہیں۔ یہامیں نہ صرف الوہیت کا عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ ان کے سامنے عمل بات بھی ان معاشروں کو جاہلی معاشرہ ٹھیرانے کے لیے کافی ہے کہ ان میں جو قوانین اور شرائع نافذ کیے جاتے ہیں ان کا منبع و ماخذ بھی خدا اور اس کی شریعت نہیں بلکہ دوسری ہستیاں ہوتی ہیں، خواہ وہ پادری ہوں یا کاہن پروہت ہوں یا

ہی سے بے نیاز ہو کر قانون سازی کرتے ہیں، اور جنہیںہجادوگر ہوں، اکابر قوم ہوں یا وہ سیکولر ادارے ہوں جو شریعت ال ی کا منصبہ اعلنی کا منصب حاصل ہوتا ہے ، حالانکہ حاکمیتہ اعلنقوم، پارٹی یا کسی ہستی کے نام سے حاکمیت

ل نہیں ہے اور اسے صرف اسی شکل میں بروئے کار لایا جا سکتا ہے جو خدا نے اپنےص����������خدا کے سوا کسی کو حارسولوں کے ذریعے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمائی ہے ۔

روئے زمین پر پائے جانے والے تمام یہودی اور عیسائی معاشرے بھی جاہلی معاشرے ہیں۔ انہوں نے اپنے عقائدتاس ہلی کی مخصوصی صفت قرار دینے کے بجائے دوسروں کو بھی میں تحریف کر رکھی ہے اور الوہیت کو صرف اللہ تعایہ ابنیت کی شکل میں ہے اور کہیں میں شریک ٹھیراتے ہیں۔ اس شرک نے کئی صورتیں اختیار کر رکھی ہیں۔ کہیں تثلیث کی شکل میں۔ کہیں اس نے اللہ کے بارے میں ایسا تصور قائم کر رکھا ہے جو اللہ کی حقیقت کے منافی ہے ۔

نف حق ہے ۔ zتاس نے مخلوق کے ساتھ اللہ کے تعلق کو ایسا رنگ دے رکھا ہے جو سراسر خل کہیں

نمن ما ترو نف ن³ نن نذي ´ل ن نل ا مو نق نن تؤو نضاہ تي مم نواہہ مف نµا نب تلہم مو نق ن« نل نذ ´لہ تن ال مب تح ا نسي نم مل نری ا نصا ن´ن مت ال نل نقا نو ´لہ تن ال مب لر ا مي نز تع تد نيہو مل نت ا نل نقا نونن )التوبہ ت¶و نف مؤ تي ن´نی نµا ´لہ تم ال نلہ نت نقا تل مب (30نق

117

Page 118: Jada o Manzil Complete

زیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ یہ بے حقیقت باتیں ہیںتیہودی کہتے ہیں عتان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلz ہوئے ۔ خدا کی مار ان پر جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں

یہ کہاں سے دھوکا کھا رہے ہیں۔

ما ترو نف ن³ نن نذي ´ل ن نن ا نس نم ني نل نن تلو تقو ني نما نع ما نتہو نين مم ´ل ن ن·ان نو لد نح نوا نل�ہ ن·ا ´ا ن ن·ال نل�ہ ن·ا من نم نما نو نثۃ zن نثل تث نل نثا ´لہ نن ال ن·ا ما تلو نقا نن نذي ´ل ن نر ا نف ن³ مد نق ´ل نلم )المائدہ نلي نµا لب نذا نع مم منہ (73نم

اا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے ، حالا کہ ایک خدا کے سوا کوئی خدانیقینااس کو درد آائے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے اک سزا دین��������نہیں ہے ۔ اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہ

جائے گی۔

نشاء )المائدہ ني نف مي ن³ تق نف تين نن نتا نط تسو مب نم نداہ ني مل نب ما تلو نقا نما نب ما تنو نع تل نو مم نديہ مي نµا مت ´ل ن تغ نلۃ تلو مغ نم ´لہ تد ال ني تد نيہو مل نت ا نل نقا (64نو

نان کی اس بکواس کی یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، باندھے گئے ان کے ہاتھ اور لعنت پڑی بدولت جو یہ کرتے ہیں، اللہ کے ہاتھ توکشادہ ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے ۔

نق نل نخ من نم نم لر نش نب تتم نµان مل نب ت¶م نب تنو تذ نب ت¶م تب نذ نع تي نم نل نف مل تق تؤہ ´با ن نح نµا نو ´لہ نناء ال مب نµا تن مح نن نری نصا ن´ن نوال تد نيہو مل نت ا نل نقا (18 )المائدہ نو

ہی کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ ان سے پوچھو پھر وہ تمہارے گناہوں پر یہود اور نصارتمہیں سزا کیوں دیتا ہے ۔ در حقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے اور انسان خدا نے پیدا کیے ہیں۔

یہ معاشرے اس لیے بھی جاہلی ہیں کہ انہوں نے اپنے لیے عبودیت کے جو مراسم اور پرستش کی جو شکلیں وضع کر رکھی ہیں وہ ان کے گمراہانہ عقائد اور مشرکانہ تصورات سے ماخوذ ہیں اور اس لیے بھی یہ جاہلی معاشرے ہیں کہ ان کے تمام قوانین و شرائع بندگئ رب کی اساس پر قائم نہیں ہیں، نہ وہ خدا کی بے ہمتا حاکمیت کا اقرار کرتے ہیں اور نہ خدا کی شریعت کو اختیارات کی واحد اساس تسلیم کرتے ہیں۔ بلکہ انہوں نے انسانوں پر مشتمل ایسے ادارے قائمہلی کا حق ہے ۔ تاس منصب و مقام پر قبضہ جما رکھا ہے جو صرف اللہ تعا ہلی کے نت اع کر رکھے ہیں جنہوں نے حاکمی

آان نے اپنے نزول کے دور میں ایسے لوگوں کو مشر اور کافر کا لقب دیا تھا۔ کیونکہ ان لوگوں نے حاکمیت کا یہیکقر حق اپنے احبار و رہبان کو دے رکھا تھا، جو من مانی شریعت وضع کرتے تھے اور یہ لوگ اسے بے چون و چرا قبول کرتے

تھے ۔

118

Page 119: Jada o Manzil Complete

نو ´ا ہ ن ن·ال نل�ہ ن·ا ´ا ن ادا ل نح نوا نل�ہا ن·ا ما تدو تب مع ني نل ´ا ن ن·ال ما ترو نم تµا نما نو نم ني مر نم نن مب نح ا نسي نم مل نوا ´لہ نن ال تدو نمن ابا نبا مر نµا مم ننہ نبا ترہ نو مم نرہ نبا مح نµا ما تذو نخ ن´ت انن )التوبہ ت³و نر مش تي نما نع ننہ نحا مب (31تس

بنا لیا ہے اور اسی طرح مسی نن مریم کو بھیحانہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب اب حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق

عبادت نہیں ہے ، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو لوگ کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے احبار و رہبان کی الوہیت کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے اور نہ ان کے سامنے مراسم بندگی بجا لاتے تھے بلکہ وہ فقط یہ تسلیم کرتے تھے کہ احبار و رہبان کو حاکمیت کا مقام حاصل ہے ۔ چنانچہ وہ اللہ کے اذن و حکمآان نے انہیں مشرک تاس وقت قر تاسے اختیار کر لیتے تھے ۔ اگر سے بے نیاز ہو کر جو شریعت سازی کر کرتے تھے یہ لوگ آاج انہوں نے جن لوگوں ہلی ان کا مشرک اور کافر ہونا ثابت ہے ۔ اس لیے کہ آاج تو بدرجہ او اور کافر کہہ کر پکارا تھا تو

کو یہ حق دے رکھا ہے وہ احبار اور رہبان نہیں ہیں بلکہ انہی کے ہم پلہ افراد ہیں۔ "مسلم" نہاد نام والے جانے پائے میں دور موجودہ کہ چاہیے لینی سمجھ یہ بات آاخری میں سلسلے اس معاشرے بھی دراصل جاہلی معاشرے ہیں۔ جس بنا پر ہم انہیں جاہلی معاشروں میں شمار کرتے ہیں وہ یہ نہیں ہے کہ وہ

بندگی بجا لاتے ہیں بلکہ وہ اسناللہ کے سوا کسی اور ہستی کی الوہیت پر ایمان رکھتے ہیں یا غیر اللہ کے سامنے مراسم حیات بندگئ رب کے اصول پر نہیں چل رہا ہے ۔ وہ اگرچہ اللہ کے سوانمعنی میں جاہلی معاشرے ہیں کہ ان کا نظام

ہلہ پر ایمان نہیں رکھتے ۔ مگر انہوں نے الوہیت کی صفت خاص یعنی حاکمیت کو دوسروں کے حوالے کر کسی اور ااقدار و معیار حیات، اللہ کی حاکمیت تسلیم کر رکھی ہے ۔ یہی حاکمیت ان کے نظام زندگی، رکھا ہے ، اور غیر

ان کی پوری حیات اجتماعی کی اساس ہے ۔ روایات، رسم و رواج الغرض تقریباہلی کا ارشاد ہے : ارباب حاکمیت کے بارے میں اللہ تعا

نن )المائدہ ترو نف ن¶ا مل تم ا ن« ہ نئ نل� مو تµا نف ´لہ نل ال نز نµان نما نب ت¶م مح ني مم ´ل ن نمن (44نو

جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔ اور محکومین کے بارے مین فرمایا:

مد نق نو نت تغو ن´طا نلی ال ن·ا ما تمو ن³ نحا نت ني نµان نن تدو نري تي ن« نل مب نق نمن نل نز تµان نما نو ن« مي نل ن·ا نل نز تµان نما نب ما تنو نم آا مم ن´نہ نµا نن تمو تع مز ني نن نذي ´ل ن نلی ا ن·ا نر نت مم نل نµانبہ )النساء: ما ترو تف م¶ ني نµان ما ترو نم (60تµا

119

Page 120: Jada o Manzil Complete

تاس کتاب پر جو تمہاری ہی تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں تان لوگوں کو جو دعو اے نبی! تم نے دیکھا نہیں طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے ہیں کہ اپنے معاملzت کا فیصلہ

کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

ما تمو ´ل ن نس تي نو نت مي نض نق نما نم اجا نر نح مم نسہ تف نµان نفي ما تدو نج ني نا نم ل تث مم ننہ مي نب نر نج نش نما نفي Áن تمو ن¶ نح تي ن´تی نح نن تنو نم مؤ تي نا ن« ل ن´ب نر نو zن نفلاما )النساء: نلي مس (65نت

تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلzفات میں!نہیں اے محمد یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ

کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔ہی کو اسی جرم کا مرتکب قرار دیا تھا اور ان کے جرائم کی فہرست ہلی نے یہود اور نصار اس سے پہلے اللہ تعا میں شرک، کفر، اللہ کی بندگی سے انحراف اور اس کے مقابلے میں احبار اور رہبان کی بندگی اختیار کر لینا بتایا تھا،آاج اور ان تمام جرائم کی واحد بنیاد یہ بتائی کہ انہوں نے احبار اور رہبان کو وہی حقوق اور اختیارات دے رکھے تھے جو

ہی کرنے والوں نے اپنی ہی مل ہلی´اسلzم کا دعو ہی کا یہ فعل اللہ تعا ت کے کچھ لوگوں کو دے رکھے ہیں۔ یہود اور نصارتان کی بندگی کرنا تھا۔ ہلہ بنانا، اور ہسی ابن مریم کو رب اور ا ہی کا عی کے نزدیک ویسا ہی شرک قرار پایا جیسا شرک نصار

ے واحد کی بندگیئاسلzم کے نزدیک شرک کی ان دو اقسام میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ دونوں یکساں لحاظ سے خداہلہ الا اللہ کی شہادت سے انحراف کے مترادف ہیں۔ نسے خروج، دین ہلہی سے سرتابی اور لا ا ا

موجودہ مسلم معاشروں میں سے بعض تو برملz اپنی "لادینیت" کا اعلzن کرتے ہیں اور دین کے ساتھ اپنے ہر نی طور پر نفی کرتے ہیں۔ بعض معاشرے زبان کی حد تک "دین کا احترام" کرتے ہیں مگر اپنے نظام´گونہ تعلقات کی کل

اجتماعی سے انہوں نے دین کو فارغ خطی دے رکھی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم "غیب" کے قائل نہیں ہیں، ہم اپنے اجتماعی نظام کی عمارت "علم و تجربہ" پر اٹھائیں گے ۔ جہاں "علم و تجربہ" ہوگا وہاں "غیب" نہیں چل سکے گا۔ یہ

خود ایک نوع کی جہالت ہے ، اور صرف وہی لوگ اسند ہیں۔ لیکن ان کا یہ خیال بذاتندونوں ایک دوسرے کی ض�������� طرح کی باتیں کر سکتے ہیں جو سراسر جہالت کے پتلے ہوں کچھ ایسے معاشرے بھی ہیں جنہوں نے حاکمیت کیاپنی اس خانہ ساز پھر اور ہیں، لیتے ہیں گھڑ اللہ کو سونپ رکھی ہے ، وہ جیسی شریعت چاہتے اz غیر نم کار عمل زماہی کرتے ہیں کہ "یہ خدا کی شریعت ہے " ۔۔۔۔۔۔۔ یہ تمام معاشرے اس لحاظ سے مساوی شریعت کے بارے میں یہ دعو

حیثیت رکھتے ہیں کہ ان کی بنیادیں بندگئ رب پر قائم نہیں ہیں۔ صولی حقیقت کے الم نشرح ہو جانے کے بعد ان تمام جاہلی معاشروں کے بارے میں اسلzم کا موقف استاس ا

ایک فقرے میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ "اسلzم ان تمام معاشروں کی اسلzمیت اور قانونی جواز کو تسلیم نہیں کرتا"

120

Page 121: Jada o Manzil Complete

اسلzم کی نظر ان لیبلوں، ٹائٹلوں اور سائن بورڈوں پر نہیں ہے جو ان معاشروں نے اپنے اوپر لگا رکھے ہیں۔ اس ظاہر فریبیہلی نم زندگی اللہ تعا کے باوجود ان تمام معاشروں میں ایک بات مشترک پائی جاتی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ان سب کا نظا کی کامل بندگی سے خالی ہے ۔ اس لحاظ سے یہ معاشرے دوسرے کافر اور مشرک معاشروں کے ساتھ جاہلیت کے

آاہنگ ہیں۔ وصف میں ہم رنگ اور ہم آاغاز میں بیان آاخری نکتے تک پہنچ گئے ہیں، جسے ہم نے اس فصل کے اس بحث سے اب ہم خود بخود اس ند نق کار کیا ہے ، وہ طریق کار جو قی کیا ہے ، یعنی انسانی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے اسلzم کا دائمی اور ابدی طرینر بعید ۔۔۔۔۔ اسلzم کا واحد طریقہ آانے والا کوئی دو آازاد ہے اور ہر زمانے میں خواہ وہ دور حاضر ہو یا زمان و مکان سے تاس بحث کی روشنی میں معلوم کر سکتے ہیں جو ہم اوپر "مسلم معاشرے کی کار رہے گا ۔۔۔۔۔ اس سوال کا جواب ہم فطرت و حقیقت" کے عنوان سے کر چکے ہیں، اور جس کا خلzصہ یہ ہے کہ مسلم معاشرہ اپنی زندگی کے ہر چھوٹے

ن ہو جانے کے بعد ہمیں ایک اور اہم´بڑے معاملے کو اللہ کی بندگی پر قائم کرتا ہے ۔ مسلم معاشرے کی یہ فطرت معی سوال کا دو ٹوک جواب بھی مل سکتا ہے ۔ وہ سوال یہ ہے کہ وہ اصل کیا ہے جسے انسانی زندگی کا ماخذ و مرجع اورنم حیات ہماری یہ ضرورت پوری کر سکتا ہے ؟ یا اس نبنا اور اساس ہونا چاہیے ؟ کیا اللہ کا دین اور اس کا پیش کردہ نظا

نم حیات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا؟ کے لیے ہمیں کسی انسانی نظا د ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے ۔ وہ کہتا ہے´ل و ترد´اسلzم اس سوال کا نہایت دو ٹوک اور غیر مبہم جواب بلz تام��

ع و اساس قرار دینا چاہیے وہ اللہ کا دین اور اس کا تجویز´کہ انسانی زندگی کو من حیث المجموع جس اصل کو اپنا مرجہلہ الا اللہن حیات ہے ۔ جب تک اس کو حیاتنکردہ نظام اجتماعی کی اساس اور اس کا محور و مرکز نہ بنایا جائے گا لا ا

اول ہے نہ قائم ہو سکے گی اور نہ اپنے حقیقی اثرات و نتائج ہی پیداناور محمد رسول اللہ کی شہادت جو اسلzم کا رکنتاس وقت تک خدا کر سکے گی۔ جب تک اس اصل کو تسلیم نہ کیا جائے اور بے چون و چرا اس کا اتباع نہ کیا جائے

ہلیکی بندگئ خالص کا تقاضا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہرگز پورا نہ ہوگا۔ اللہ تعاکا ارشاد ہے :

نتہوا )حشر نفان منہ نع مم ت³ ننہا نما نو تذوہ تخ نف تل تسو نر تم ال ت³ نتا آا نما (7نو

ترک جاؤ۔ تاس سے تاسے پکڑ لو اور جس چیز سے منع کرے رسول جو کچھ تمہیں سے آاں اسلzم انسان کے سامنے یہ سوال بھی رکھتا ہے کہ: انتم اعلم ام اللہ )کیا تم زیادہ علم رکھتے ہو یا مزید بر اللہ؟( اور پھر خود ہی یہ جواب دیتا ہے کہ: واللہ یعلم وانتم لا تعلمون )اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (، وما اوتیتم من

لا قلیلz )جو کچھ تمہیں علم دیا گیا ہے وہ بہت کم ہے ( اب ظاہر ہے کہ وہ ہستی جو علم رکھتی ہے ، جس نےاالعلما تاس کا تاسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انسان کی حکمران بھی ہو اور انسان کو پیدا کیا، اور جو اس کی رزق رساں ہے

121

Page 122: Jada o Manzil Complete

تاسی کو زندگی کا مرجع و منبع ٹھیرایا جائے ۔ رہا انسان کے خود ساختہ افکار و نظریات تو دین زندگی کا نظام ہو، اور ان میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے ۔ اور وہ انحراف کا شکار ہو جاتے ہیں، کیوں کہ وہ انسانی علم پر مبنی ہوتے ہیں اور ناقص

آاشنائے راز ہے اور جو علم اسے دیا گیا ہے وہ بہت تھوڑا اور ناقص ہے ۔ ہوتے ہیں، ۔۔۔۔۔۔ انسان خود نانم حیات کوئی سیال شے ہے کلمۂ شہادت کے تاس کا پیش کردہ نظا خدا کا دین کوئی چیستاں نہیں ہے اور نہ

تاسے منضبط کر دیا گیاتدوسرے ج��� تان نصوص و قواعد و اصول میں تاس کی واضح حد بندی کر دی گئی ہے ، اور ز میں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔ اگر کسی معاملے میں نص موجود ہو تو وہی بنائے فیصلہ ہوگی اور نص کے ہوتے ہوئے اجتہاد کی گنجائش نہ ہوگی، اور اگر نص نہ پائی جائے گی تو اجتہاد اپنا رول ادا کرے گا، مگرنم حیات میں بیان کر دیے ہیں نہ کہ اہواء و خواہشات کا تابع بن تان اصولوں اور ضابطوں کے تحت جو اللہ نے اپنے نظا

کر:

نل )النساء تسو نر نوال ´لہ نلی ال ن·ا تدوہ تر نف مء مي نش نفي مم تت مع نز ننا نت ن·ان (59نف

تاسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو۔ اگر کسی بات میں تمہارے درمیان نزاع برپا ہو جائے تو اجتہاد و استنباط کے اصول بھی مقرر کر دیے گئے ہیں۔ اور وہ معلوم و معروف ہیں۔ ان میں کوئی ابہام نہیںتان میں کسی نوعیت کا ڈھیلz پن پایا جاتا ہے ۔ مگر کسی کو یہ اجازت نہیں ہے وہ اپنے بنائے ہوئے پایا جاتا ہے اور نہ ہلی کا اعلzن کر دیا جائے ، اور قوت و اختیار کا ماخذ قانون کو اللہ کی شریعت بتائے ۔ البتہ اگر اللہ کی حاکمیت اعہلہی معلوم کرنے کے ہلی ہو، کوئی قوم یا پارٹی یا کوئی فرد بشر اس کا سرچشمہ نہ ہو، اور منشائے ا صرف اللہ سبحانہ و تعا لیے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی طرف رجوع کیا جاتا ہو تو ایسی صورت میں جو قانون سازی ہوگی وہتاس شخص کو نہیں دیا جا سکتا جو اللہ کے نام پر اپنے اقتدار کا شریعت کی حدود کے اندر شمار ہوگی۔ مگر یہ حق ہر

ہ جمانا چاہتا ہو۔ جیسا کہ کسی زمانے میں یورپ تھیاکریسی اور "مقدس بادشاہت" کے پردے میں اس کا مزہ چکھ´سک چکا ہے ۔ اسلzم میں اس طرز کی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، یہاں رسول کے سوا اللہ کے نام پر کسی اورہلہی کے حدود اربعہ کا تعین کو اپنا حکم چلzنے کا اختیار نہیں ہے ۔ یہاں واضح اور بین نصوص موجود ہیں جو شریعت ا

کر دیتی ہیں۔ "دین زندگی کے لیے ہے " یہ ایک ایسا جملہ ہے جسے انتہائی غلط معنی پہنائے گئے ہیں اور اسے یکسر غلط

استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ بے شک "دین زندگی کے لیے ہے " مگر کس قسم کی زندگی کے لیے ؟ نق کار کے مطابق پروان چڑھاتا ہے ۔ یہ یہ دین اس زندگی کے لیے ہے جسے یہ خود تعمیر کرتا، اور اپنے طریہوتی ہے ۔ تمام حقیقی ضروریات کی کفیل انسان کی اور ہوتی ہے آاہنگ ہم پر انسانی فطرت سے مکمل طور زندگی ضروریات سے مراد وہ "ضروریات" نہیں ہیں جن کو انسان بزعم خویش اپنی ضروریات سمجھ بیٹھتا ہے ، بلکہ ان کا تعین

122

Page 123: Jada o Manzil Complete

صرف وہی ہستی طے کر سکتی ہے اور کرے گی، جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی اور اپنی اور دوسری مخلوقکی تمام ضروریات سے بخوبی واقف ہے ۔

تر )ملک نبي نخ مل تف ا نطي ´ل ن نو ال نوہ نق نل نخ من نم تم نل مع ني نا (14نµال

تاس کے حال کو نہیں جانتا ہے ۔ وہ تو باریک بین اور باخبر ہے ۔ کیا جس نے مخلوق کو پیدا کیا ہے وہ تاس کے لیے سند تاسے برحق ثابت کرتا پھرے ، اور دین کا کام یہ نہیں ہے کہ جس طرز کی بھی زندگی ہو وہ ہ اس کے لیے مہیا کر دے جسے وہ مستعار لیبل کی طرح اپنے اوپر چسپاں جواز فراہم کر کے دے اور ایسا شرعی فتوےتاسے برقرار رکھے اور جو کھوٹا کر لے ۔ بلکہ دین تو اس لیے ہے کہ وہ زندگی کو اپنی کسوٹی پر پرکھے ، جو کھرا ہو

تاس کی مرضی کے خلzف ہو تو وہ اسے ختم کراث�� بت ہو اسے اٹھا کر پرے پھینک دے ۔ اگر زندگی کا پورا نظام بھی تاس کی جگہ نئی زندگی کی تعمیر کرے ۔ کے

دین کی تعمیر کردہ یہ زندگی ہی اصل اور برحق زندگی ہوگی۔ اس فقرے کا مفہوم یہی ہے کہ اسلzم زندگی کادین ہے ۔ اس فقرے میں اس کے علzوہ کسی اور مفہوم کی تلzش کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہوگی!

یہاں پر یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ "کیا بشری مصلحت ہی وہ اصل چیز نہیں ہے جسے انسانی زندگی کیتاٹھاتا ہے صورت گری کرنا چاہیے ؟" لیکن ہم یہاں پھر اسی سوال کو قارئین کے سامنے رکھیں گے ، جسے اسلzم خود اور خود ہی اس کا جواب دیتا ہے کہ انتم اعلم ام اللہ )کیا تمہیں زیادہ علم ہے یا اللہ کو( واللہ یعلم و انتم لا تعلمونہلہی جس شکل میں اللہ نے نازل فرمائی ہے اور )دراصل اللہ ہی جانتا ہے اور علم رکھتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو( شریعت اپورا لحاظ کرتی ہے ۔ اگر کبھی پورا اللہ کے رسول نے ہم تک پہنچائی ہے وہ خود بشری مصالح کا جس شکل میں انسان کو یہ گمان ہوتا ہے کہ اس کی مصلحت اس قانون کی پابندی میں نہیں بلکہ خلzف ورزی میں ہے جو اللہ نے

اولا تو فرمایا ہے لیے تجویز زیادہاانسانوں کے اور وسوسہ سے واہمہ اور احساس کی حیثيت ایک قیاس تو اس کے اس نہیں:

نلی تµاو مل نوا نرۃ نخ آا مل ´لہ ا ن نل نف ن´نی • نم نت نما نن نسا ن·zن مل نل مم نµا ندی • ملہ تم ا ن´بہ نر نمن نجاءہم مد نق نل نو تس تف نµان مل نوی ا نتہ نما نو نن ن´ظ نا ال ن·ال نن تعو نب ´ت ن ني ن·ان (25 – 23)النجم

یہ لوگ بس اٹکل اور اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہیں اس کے باوجود کہ ان کے پروردگار کی طرف سے انآاخرت اور دنیا میں سب کچھ اللہ ہی کے آاچکی ہے ۔ کہیں انسان کو من مانی مراد بھی ملی ہے ۔ سو کے پاس ہدایت

اختیار میں ہے ۔

123

Page 124: Jada o Manzil Complete

لینا چاہیے کہ شریعت کے بارے میں اس موقف کا اختیار کرنا کفر کے یہ اچھی طرح سمجھ اا اسے ثانی اور آاخر یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ ایک شخص یہ اعلzن بھی کرے کہ اس کی رائے میں مصلحت و منفعت مترادف ہے ۔ نل ہلہی کی مخالفت میں ہے اور اس کے باوجود وہ اس دین کا پیرو بھی رہے ، اور صرف پیرو ہی نہ رہے بلکہ اہ شریعت ا

دین میں شمار ہو!!!

124

Page 125: Jada o Manzil Complete

واپس اوپر جائیے

باب ششم

آافاقی ضابطۂ حیات اسلzم فکر و عمل کی دنیا میں اپنے عقیدہ کی عمارت اللہ کی بندگئ کامل کی بنیاد پر اٹھاتا ہے ۔ اس کے اعتقادات، عبادات اور جملہ قوانین حیات، سب میں یکساں طور پر اس بندگی کا اظہار ہوتا ہے ۔ بندگی کی اسی جامع صورت کو وہ "لا الہ الا اللہ" کی قولی شہادت کا صحیح عملی تقاضا گردانتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےنتیجہ عملی ناگزیر کا شہادت کی اللہ" رسول "محمد نزدیک کے اس حصول کا تفصیل کی بندگی نت کیفینم زندگی کا تعین ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلzم اپنی عمارت اس طرح اٹھاتا ہے کہ کلمۂ شہادت کے دونوں حصے اسلzمی نظا کریں اور اس کے نورانی خدوحال کی صورت گری کریں اور اس کی خصوصیات کو طے کریں، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلzم اگر

تاسے جداگانہ حیثیت دے دیتی ہے توتایسی لاثانی طرز پر اپنی عمارت چ نتا ہے جو تاریخ کے تمام انسانی نظاموں سے آاہنگ ہو جاتا ہے جو صرف انسانی وجود ہی کو نہیں تاس "مرکزی قانون" سے ہم دراصل اسلzم اپنے اس رویے کی بدولت

عمل صرف انسانی زندگی کے نظام تک ہی محدود نہیں ہے بلکہۂحیط ہے ، اور جس کا دائرتپوری کائنات کو بھی مپورے نظام ہستی کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے ۔

پوری کائنات ایک ہی مرکزی قانون کے تابع ہے تاس کو وجود میں ہلی نے نت تخلیق بخشا ہے ، اللہ تعا اسلzمی نظریہ کے مطابق اس تمام کائنات کو اللہ نے خلع

نس فطرت تاس کے اندر ایسے نوامی ہلی نے دیعت کر دیے جنولانے کا ارادہ فرمایا اور وہ وجود پذیر ہو گئی اور پھر اللہ تعاآاہنگیوہ کی بدولت حرکت کر رہی ہے ۔ اسی کے طفیل اس کے تمام اجزاء اور پرزوں کی حرکت میں بھی تناسب اور ہم

ی حرکت میں بھی نظم و ضبط اور تناسب و توازن ملتا ہے : ´پائی جاتی ہے اور اس کی کل

تن )نحل ت¶و ني نف ت³ن نلہ نل تقو ´ن ن نµان نناہ مد نر نµا نذا ن·ا مء مي نش نل ننا تل مو نق نما ´ن ن (40ن·ا

تاسے صرف یہی کہنا ہوتا ہے کہ ہو جا اور بس وہ ہو جاتی جب ہم کسی چیز کو وجود میں لانا چاہتے ہیں تو ہے ۔

ارا )فرقان ندي مق نت نرہ ند نق نف مء مي نش نل ت³ نق نل نخ (2نو

تاسے ٹھیک ٹھیک اندازے پر رکھا۔ تاس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اور

125

Page 126: Jada o Manzil Complete

پردہ ایک ارادہ کارفرما ہے جو اس کی تدبیر کرتا ہے ، ایک طاقت ہے جو اسے حرکتناس کائنات کے پس نظام رکھتا ہے ۔ یہی قوت اس کائنات کے مختلف اجزاء میں نظم و ضبط قائمنبخشی ہے ، ایک قانون ہے جو اسے پابند

نکس کر رکھتی ہے ۔ چنانچہ نہ وہ کبھی ایک دوسرے سے رکھتی ہے اور ان کی حرکت و گردش کو ایک ضابطے میں تان کی ٹکراتے ہیں، نہ ان کے نظام میں کبھی کوئی خلل ہی واقع ہوتا ہے ، وہ کبھی متعارض و بے ہنگم نہیں ہوتے ، نت ایزدی ´ی تاس وقت تک جاری ہے اور رہے گی جب تک مش مسلسل و منظم حرکت میں کبھی ٹھیراؤ راہ نہیں پاتا، وہ

ر ارادے ، محرک قوت اور غالب و قاہر ضابطے کی مطیع اور تابع اور´تاسے جاری رکھنا چاہے گی۔ یہ کائنات اس مدبہلہی ارادے ہتی کہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ اس ا آاگے سر عجز و نیاز خم کیے ہوئے ہے ۔ ح اس کے اور اطاعت شعاری قانون کے خلzف چلے ۔ اسی ہوئے بنائے اور اس کے نافرمانی کرے سے سرتابی کرے ، اس کی فرمانبرداری کی وجہ سے یہ کائنات صحیح و سلzمت گردش کر رہی ہے ، اور اس وقت تک اس میں کوئی خرابی اور

فساد اور انتشار راہ نہیں پا سکتا جب تک مشیت ایزدی اسے ختم کرنے کا فیصلہ نہ کر دے ۔

اثا نثي نح تبہ تل مط ني نر ن´نہا نل ال مي ´ل ن نشي ال مغ تي نش مر نع مل نلی ا نع نوی نت مس نم ا تث مم ´يا ن نµا ن´تۃ نس نفي نض مر نµا نوال نت نوا نما نس نق ال نل نخ نذي ن´ل ´لہ ا تم ال ت¶ ´ب ن نر نن ن·انن )اعراف نمي نل نعا مل تب ا نر ´لہ نÁ ال نر نبا نت تر مم نµا نوال تق مل نخ مل نلہ ا نا نµال نرہ مم نµا نب مت نرا نخ نس تم نم تجو ت´ن نوال نر نم نق مل نوا نس مم نش (54نوال

آاسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر اپنے تخت سلطنت درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آاتا ہے ۔ جس نے سورج اور چاند zپر متمکن ہوا۔ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چل تاسی کا امر ہے ۔ بڑا بابرکت ہے تاسی کی خلق ہے اور اور تارے پیدا کیے ۔ سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبردار رہو،

اللہ، سارے جہانوں کا مالک اور پروردگار۔

ہے انسان غیر ارادی پہلوؤں میں مرکزی قانون کا تابع ز ہے ۔ جو قوانین انسان کی فطرت پر فرمانروائی کرتے ہیں وہ اس مرکزی نظام سےتانسان اس کائنات کا ایک ج���

ہنی نہیں ہیں جو پوری کائنات کو محیط ہے ۔ اس کائنات کو بھی اللہ ہی نے خلعت وجود بخشا، اور انسان کانمستثہلی نے اس کے اندر خالق بھی اللہ ہے ۔ انسان کی جسمانی ساخت اسی زمین کی مٹی سے کی گئی ہے لیکن اللہ تعا

آادمی انسان بنتا ہے ،ںکچھ ایسی خصوصیات بھی رکھ دی ہیں جو ایک ذرہ خاکی سے فزو تر ہیں۔ انہی کی بدولت تاسے ارزا ہلی نے ایک مقررہ اندازے کے مطابق عطا فرمائی ہیں۔ انسان اپنے جسمانی وجودنیلیکن یہ خصوصیات اللہ تعا

تاس کے لیے مقرر فرما دیا ہے ۔ اس کی تخلیق کا ہلی نے نن فطرت کا تابع ہے جو اللہ تعا تاس قانو اا اا و کرہ کی حد تک طوعتاس کی اپنی مرضی سے یا اپنے باپ اور ماں کی مرضی سے ۔ اس کے ماں اور آاغاز اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے نہ کہ

آاب کو وجودباپ انسانی میں بدلنے کی طاقت و ہرگز نہیں رکھتے ۔ اللہ نےنصرف باہمی اتصال پر قادر ہیں، لیکن قطرۂ تاسی ہوا میں تاسی کے مطابق پیدا ہوتا ہے اور نت حمل اور طریقۂ ولادت کے لیے جو اصول وضع فرما دیا ہے انسان مد

126

Page 127: Jada o Manzil Complete

تاسی کیفیت کے تحت لیتا ہے جو اللہ نے اس تاس کے لیے پیدا کی ہے ، اور اتنی مقدار میں اور سانس لیتا ہے جو اللہ نے تاسے بھوک اور پیاس ستاتی ہے ، کے لیے مقرر کر دی ہے ۔ وہ قوت احساس و ادراک رکھتا ہے ، درد سے متاثر ہوتا ہے ، ہلہی کے مطابق بسر کرنا پڑتی ہے ، اور نس ا وہ کھاتا اور پیتا ہے ، الغرض وہ چاہے نہ چاہے اس کو اپنی پوری زندگی نامو تاس کے ارادہ و اختیار کو اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے اس میں اور اس کائنات اور اس میں پائی جانےآاگے غیر اور قانون کے اللہ کی مشیت، قدرت نہیں ہے ۔ سب تمو فرق نر والی ذی روح اور غیر ذی روح مخلوق میں س

مشروط طور پر سر تسلیم و اطاعت خم کیے ہوئے ہیں۔ جس اللہ نے اس کائنات کو وجود بخشا اور انسان کو پیدا کیا، اور جس نے انسان کو بھی ان قوانین کے تابعنن تاسی ہمہ گیر قانو تاسی ذات بے عیب نے انسان کے لیے ایک شریعت بنایا جن قوانین کے تابع یہ پوری کائنات ہے ، ہلہی کا ایک حصہ ہے جو انسان کی فطرت پر اور اس مجموعی کائنات کی فطرت پر فرماں روائی کر رہا ہے اور اس کو ا

ایک لگے بندھے ضابطے کے تحت چلz رہا ہے ۔ اللہ کا ہر کلمہ، اس کا ہر امر و نہی، اس کا ہر وعدہ، اس کی ہر وعید، اس کا ہر قانون، اور اس کی ہر ہدایت کائنات کے مرکزی قانون ہی کا ایک حصہ ہے اور ویسے ہی سربسر سچائی اور صحت پر مبنی ہے جو ان قوانین میں پائی جاتی ہے جنہیں ہم نوامیس فطرت ۔۔۔۔۔ یا خدا کے کائناتی قوانین ۔۔۔۔۔ سے تعبیر کرتے ہیں اور جو اپنی پوری فطرتہلی کے مقرر کردہ آاتے ہیں۔ ان کی کار فرمائی میں اللہ تعا اور ازلی صداقت کے ساتھ ہمیں اس کائنات میں رو بعمل نظر

ان اندازوں کا پرتو ملتا ہے جو اس نے ان کے لیے ٹھیرا رکھے ہیں۔

آاہنگ ہلہی مرکزی قانون سے ہم ہے شریعت اہلی نے انسانی زندگی کی تنظیم کے لیے وضع یہ اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ وہ شریعت جسے اللہ تعاآاہنگ ہے ۔ فرمایا ہے دراصل ایک کائناتی شریعت ہے ۔ اس لحاظ سے کہ وہ کائنات کے مرکزی قانون سے مربوط اور ہم ہلہی کا اتباع انسانی زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت بن جاتا ہے کیوں کہ صرف اسی اس حقیقت کے پیش نظر شریعت اآاہنگی پیدا ہو سکتی ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ واقعہ طرح انسان اور کائنات میں جس میں وہ جی رہا ہے ، توافق اور ہم

( اور اس کی ارادی زندگیPhysical Lawsیہ ہے کہ انسان کی طبعی زندگی میں کار فرما )طبعی( قوانین )آاہنگی شریعتMoral Lawsکے )اخلzقی( قوانین ) ہلہی کے اتباع سے ہی ابھر سکتی ہے ۔ صرفن( میں بھی ہم ا

اسی طریقہ سے "اندر" اور "باہر" کے انسان کو وحدت اور یگانگی سے ہم کنار کیا جا سکتا ہے ۔ انسان کائنات کے تمام قوانین اور اس میں کار فرما مرکزی نظام کے ادراک سے عاجز اور قاصر ہے ۔ کائناتی قوانین کا ادراک فہم تو بڑی بات ہے ۔ وہ تو اس قانون کو بھی نہیں سمجھ پاتا جس کے ضابطے میں اس کی ذات جکڑی ہوئی ہے ، اور جس سے

نرم و انحراف بھی اس کے لیے ناممکن ہے ۔ یہی وہ عجز و درماندگی ہے جس کی وجہ سے انسان اس بات پر قادرتس نہیں کہ وہ اپنی زندگی کے لیے کوئی ایسی شریعت وضع کر سکے جس کی تنقید سے حیات انسانی اور حرکت کائنات

127

Page 128: Jada o Manzil Complete

آاہنگی قائم ہو سکے ۔ کے مابین ہمہ گیر توافق تو کجا خود اس کی اپنی فطرت خفی اور حیات ظاہری کے درمیان ہی ہم یہ قدرت صرف اسی ذات کو حاصل ہے جو کائنات کی صانع ہے اور انسان کی خالق بھی، جو کائنات کی تدبیر و انتظام بھی کرتی ہے اور انسانی معاملzت کی مدبر و منتظم ہے ۔ اور سب کو اسی ایک مرکزی قانون میں جکڑے ہوئے ہے

تاس نے خود منتخب و پسند فرمایا ہے ۔ جسے ساتھ کے کائنات تاکہ ۔ ہے دیتی بنا ناگزیر اور لازم کو اتباع کے شریعت ہے حقیقت وہ یہی کملمپس

موافقت پیدا ہو سکے ۔ اس کا اتباع اتنا ہی لازم و ناگزیر ہے جتنا اعتقادی اور نظری طور پر اسلzم کا قیام۔ کسی فرد یاہلی کے لیے جماعت کی زندگی اس وقت تک اسلzم کے رنگ سے خالی رہے گی جب تک بندگی کو صرف اللہ تعا مخصوص نہ کیا جائے گا، اور بندگی کو بجا لانے کا وہ طریقہ نہ اپنایا جائے گا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو سکھایا ہے ۔ بالفاظ دیگر جب تک اسلzم کے رکن اول کے دونوں اجزاء لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا

نر اسلzم سے بے بہرہ ہوگی۔ عملی زندگی میں ظہور نہ ہوگا، زندگی خواہ وہ انفردی ہو یا اجتماعی نو

ہلہی کا اتباع کیوں لازم ہے شریعت ا انسانی زندگی اور قانون کائنات کے مابین ہمہ گیر توافق بنی نوع انسان کے لیے سراسر خیر و فلzح کا موجب ہے ۔ یہی ایک صورت ہے جس سے انسانی زندگی فساد و شر سے محفوظ رہ سکتی ہے ۔ انسان کو اگر کائنات کے ساتھ سلzمتی کا رویہ اختیار کرنا ہے اور خود اپنی ذات سے بھی امن میں رہنا ہے ، تو اس کے لیے کائنات سے توافق وآاہنگی پیدا کرنا ایک ناگزیر ضرورت ہے ! اب رہا کائنات کی جانب سے انسان کے مامون و مصؤن رہنے کی صورت تو ہم وہ صرف انسان اور کائنات کی حرکت میں باہمی مطابقت اور یک جہتی پر موقوف ہے ۔ اسی طرح خود انسان اور اس کی اپنی ذات کے درمیان امن و سلzمتی کا قیام بھی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسان کی ظاہری حرکت اورآارائی کی کیفیت اس کے صحیح فطری تقاضوں میں مکمل ہمنوائی ہو تاکہ انسان اور فطرت کے درمیان تصادم اور معرکہ نت حقیقی ہلہی ہی کا کمال ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی مادی زندگی اور اس کی فطر نت ا رونما نہ ہو۔ یہ صرف شریعپیدا کیا جا سکتا ہے اور جب فطرت کے ساتھ انسان توافق اور تعاون کے درمیان نہایت سہولت اور ہمواری کے ساتھ عمومی کی زندگی اور تعلقات باہمی کے انسانوں میں نتیجہ کے اس تو ہے لیتا کر پیدا فضا کی یکجہتی و تعاون جدوجہد کے درمیان از خود توافق کی عمل داری قائم ہو جاتی ہے ، کیوں کہ انسان جب فطرت کے ساتھ تعاون کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حیات انسانی اور کائنات میں مکمل توافق جنم لیتا ہے ، اور انسان کی زندگی اور کائنات میں ایک ہی نظام کی کارفرمائی قائم ہوجاتی ہے ۔ یوں انسانی زندگی کا اجتماعی پہلو بھی باہمی

ی سے بہرہ اندوز ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد کائنات کے´تصادم اور تعارض سے پاک ہو جاتا ہے اور انسانیت خیر کلآاشنائے راز بن جاتا ہے ، کائنات کی مخفی طاقتیں مختلف اسرار بھی اس کے لیے اسرار نہیں رہتے ۔ انسان فطرت کا آاشکار ہو جاتی ہیں، اور کائنات کی پہنائیوں میں چھپے ہوئے خزانوں کا سراغ اسے مل جاتاہے ۔ وہ ان اس کے سامنے

128

Page 129: Jada o Manzil Complete

ی فلzح و سعادت کے لیے استعمال کرتا ہے اس´قوتوں اور خزانوں کو اللہ کی شریعت کی رہنمائی میں انسانی کی کلآاتی ہے ، بصورت دیگر´طرح کہ نہ کہیں تصادم پیدا ہوتا ہے ، اور نہ انسان اور فطرت میں رس����� ہ کشی اور نزاع کی نوبت

ان دونوں میں مستقل طور پر کھینچا تانی ہوتی رہتی ہے اور اللہ کی شریعت کے بالمقابل انسان کی خواہشات اور نفسانیاہواء سر اٹھاتی رہتی ہیں۔ اس بارے میں اللہ کا ارشاد ہے کہ:

نن )مومنون نفيہ نمن نو تض مر نµا مل نوا تت نوا نما نس نت ال ند نس نف نل مم نواءہ نµاہ تق نح مل نع ا نب ´ت ن نو ا نل (71نو

آابادی کا نظام درہم برہم ہو آاسمان اور ان کی ساری اور اگر حق ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین اور جاتا۔

تل تقسیم ہے "حق" ناقابترو سے "حق" ایک اکائی ہے ۔ یہی اس دین کی بنیاد ہے ، اور اسی پر اس سے معلوم ہوا کہ اسلzمی نظریہ کی آاخرت کے تمام معاملzت درست ہوتے ہیں، اسی کے بارے میں آاسمان کا نظام قائم ہے ، اور اسی سے دنیا و زمین و ہلی کے روبرو جواب دہی کرنی ہے ۔ اور جو اس سے تجاوز کرتے ہیں، ان کو وہ سزا بھی دیتا ہے ۔ حق انسانوں کو اللہ تعاہلی تاسی مرکزی قانون سے عبارت ہے جس کو اللہ تعا ایک وحدت ہے ، جس کی تقسیم نا ممکن ہے ۔ اور یہ کائنات کے آاگے عالم وجود کی تمام انواع اور تمام ذی روح و جل شانہ نے تمام حالات کے لیے جاری فرما رکھا ہے اور جس کے

غیر ذح روح مخلوقات سر اطاعت خم کیے ہوئے ہیں اور مکمل طور پر اس کی گرفت میں ہیں:

نن • نري نخ آا اما مو نق ندہا مع نب ننا مµا نش نµان نو نمۃ نل نظا مت نن ن³ا نيۃ مر نق نمن ننا مم نص نق مم ن³ نو نن • تلو نق مع نت zن نفل نµا مم ت³ تر م³ نذ نفيہ ابا نتا ن³ مم ت¶ مي نل ن·ا ننا مل نز نµان مد نق نلتلوا نقا نن • تلو نµا مس تت مم ت¶ ´ل ن نع نل مم ت¶ نن ن³ نسا نم نو نفيہ مم تت مف نر مت تµا نما نلی ن·ا تعوا نج مر نوا تضوا ت³ مر نت نا نن • ل تضو ت³ مر ني منہا نم نذا ہم ن·ا ننا نس مµا نب تسوا نح نµا نما نل نفنض مر نµا مل نوا نماء نس ننا ال مق نل نخ نما نو نن • ندي نم نخا ادا نصي نح مم نناہ مل نع نج ن´تی نح مم نواہ مع ند ن« مل ن´ت نلت نزا نما نف نن • نمي نل نظا ن´نا ت³ ن´نا ن·ا ننا نل مي نو نيا نل نط نبا مل نلی ا نع نق نح مل نبا تف نذ مق نن مل نب نن • نلي نع نفا ن´نا ت³ ن·ان ن´نا تد ´ل ن نمن نناہ مذ نخ ´ت ن نا اوا ل نلہ نذ نخ ن´ت ´ن ن نµان ننا مد نر نµا مو نل نن • نبي نع نا نما ل ننہ مي نب نما نومن نع نن ترو نب م¶ نت مس ني نا ندہ ل نعن من نم نو نض مر نµا مل نوا نت نوا نما نس نفي ال نمن نلہ نو نن • تفو نص نت نما نم تل مي نو مل تم ا ت¶ نل نو لق نزاہ نو نذا ہ ن·ا نف تغہ نم مد ني نف

نن )انبیاء ترو تت مف ني نا نر ل ن´نہا نوال نل مي ´ل ن نن ال تحو ن´ب نس تي نن • ترو نس مح نت مس ني نا نول نتہ ند نبا (20 تا 10نع

بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے ۔ کیا تم سمجھتےتان کو ہمارا تان کے بعد دوسری قوم کو اٹھایا۔ جب نہیں ہو۔ کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیا اور عذاب محسوس ہوا تو لگے سر پٹ دوڑنے )کہا گیا( بھاگو نہیں، جاؤ اپنے گھروں اور عیش کے سامانوں میں جن کے اندر تم چین کر رہے تھے ، شاید کہ تم سے پوچھا جائے ۔ کہنے لگے ہائے ہماری کم بختی، بے شک ہم خطا وار

129

Page 130: Jada o Manzil Complete

آاسمان اور زمین۔تھے ۔ اور وہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کھلیان کر دیا اور وہ بھسم ہو کر رہ گئے ۔ ہم نے اس کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے ۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے ۔ مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتیآاسمان تان باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔ زمین و ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے

آاپ کو ب������������� تاس کیتمیں جو مخلوق بھی ہو وہ اللہ کی ہے اور جو )فرشتے ( اس کے پاس ہیں وہ نہ اپنے را سمجھ کر ندم نہیں لیتے ۔ تاسی کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملول ہوتے ہیں۔ شب و روز

ہے کائنات "حق" پر قائم انسان کی فطرت اپنی گہرائیوں میں اس "حق" کا پورا پورا ادراک رکھتی ہے ۔ ایک طرف انسان کی اپنی ہیئت اور ساخت اور دوسری طرف اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی وسیع و عریض کائنات کی ساخت و تربیت ہر لحظہ انسان کو یاد دلاتی رہتی ہے کہ یہ کائنات حق پر استوار ہے ، اور حق ہی اس کا اصل و جوہر ہے ، اور یہ ایک ایسے مرکزی قانون سے مربوط ہے جس نے اس کو ثبات و دوام بخش رکھا ہے ۔ چنانچہ اس کائنات میں کوئی اختلzل پیدا نہیں ہوتا، اسندور نہیں ہے ، اس کے اجزاء میں کوئی تضاد نہیں ہے ، وہ الل ٹپ نف zکی راہیں جدا جدا نہیں ہیں، اس میں اختل نن منت ہے ، نہ ایک باقاعدہ منصوبے اور اسکیم کے طریقے پر کام نہیں کر رہی ہے ، نہ وہ محض بخت و اتفاق کی مرہوآان بدلتی ہوئی خواہشات اور سرکش اہواء انسانی کے ہاتھوں میں محض کھلونا بھی نہیں ہے ، بغیر رواں دواں ہے ، وہ ہر آاغاز انسان اور تجز رس، سخت گیر اور مقررہ نظام کی شاہراہ پر بے چون و چرا چل رہی ہے ۔ اختلzفات کا بلکہ وہ اپنے تاس "حق" سے منحرف ہو اس کی فطرت کے درمیان تصادم پیدا ہو جانے سے ہوتا ہے اور وہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان تاس پر حاوی ہو جاتی ہے ، اور پھر تاس کی خواہشات تاس کی فطرت کی اتھاہ گہرائیوں میں پنہاں ہے اور جاتا ہے ، جو وہ اپنا قانون حیات اللہ کی شریعت سے اخذ کرنے کے بجائے خواہشات کی شریعت سے حاصل کرنے لگتا ہے ، اور جسآاگے سر افگندہ ہونے کے تاس کے تاسی طرح وہ اپنے ارادہ و اختیار اور آاگے سر افگندہ ہے ہلی کے طرح یہ کائنات اپنے مو

بجائے سرتابی اور سرکشی کو شیوہ بنا لیتا ہے ۔

حق سے انحراف کے نتائج جس طرح انسان اور اس کی فطرت اور انسان اور کائنات کے درمیان تصادم اور اختلzف پیدا ہو جاتا ہے اسی

اور مل قوموں گروہوں، انسانی افراد، انسانی بڑھتے بڑھتے اختلzفات یہی باہمی´طرح نسلوں کے انسانی مختلف اور توں اختلzف کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کائنات کی تمام قوتیں اور ذخائر و خزائن بجائےنع انسانی کی فلzح و ترقی میں استعمال ہوں، الٹا اس کے حق میں وسائل ہلzکت اور اسباب شقاوت بن اس کے کہ نو

جاتے ہیں۔

130

Page 131: Jada o Manzil Complete

ہلی کی شریعت کا قیام اس تفصیل سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ واضح مقصد جس کے لیے دنیا میں اللہ تعاآاخرت دو مختلف چیزیں نہیں ہیں بلکہ آاخرت کے لیے ذخیرۂ عمل جمع کرنا ہی نہیں ہے ۔ دنیا اور مطلوب ہے وہ صرف ہلی ایک ہی منزل کے دو مرحلے ہیں، دونوں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اللہ تعاپوری اور دوسری طرف ہے کرتی پیدا رنگ کا توافق میں مرحلوں دونوں ان میں زندگی انسانی ایک طرف کی شریعت انسانی زندگی کو کائنات کے مرکزی قانون کے ساتھ مربوط کرتی ہے ۔ چنانچہ کائنات کے مرکزی قانون کے ساتھ جب

آاخرت تک کے لیےکو توافق پیدا ہوگا تو اس کے نتیجے میں انسان سعادت و خوش بخشی کی جو دولت ملے گی وہ نج آاخرت میں وہ او تاس کے فوائد ظاہر ہو کر رہیں گے ۔ البتہ ملتوی نہیں رکھی جائے گی بلکہ پہلے مرحلہ )دنیا( میں بھی

کمال اور نقطۂ عروج کو پہنچے گی۔ ز، انسانی وجود کے بارے میں اسلzمی تصور کیتکے بارے میں اور اس کے ایک ج��������� یہ ہے اس پوری کائنات

بنیاد۔ یہ تصور اپنی فطرت و اصلیت کے لحاظ سے ان تمام تصورات سے بنیادی اختلzف رکھتا ہے جو دنیا میں اب تکاپنے ج یہ تصور یہی وجہ ہے کہ ہیں۔ آاتا ہے وہ دنیا کے کسینرائج رہے فرائض کو لے کر اور لو میں جن ذمہ داریوں

ہلہی کا اتباع اور دراصل اس ضرورت کا ترو سے شریعت ا دوسرے تصور اور نظریۂ حیات میں نہیں ملتے ۔ اس تصور کی تس قانون کے درمیان جو انسانی فطرت اور کائنات میں کار اقتضاء ہے کہ حیات انسانی اور حیات کائنات کے درمیان اور ا

کامل ارتباط ہونا چاہیے ۔ اسی ضرورت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ کائنات کے مرکزی قانون کے درمیان اور،فرما ہے ہلہی کے اتباع ہی سے انسانن انسانی کی تنظیم کرنے والی شریعت کے درمیان بھی پوری مطابقت ہو۔ نیز شریعتنحیات ا

کماحقہ اللہ کی بندگی کا فریضہ انجام دے سکتا ہے جس طرح یہ کائنات صرف اللہ کی بندگی کر رہی ہے اور کوئیانسان اپنے لیے اس کی بندگی کا مدعی نہیں ہے ۔

تاس گفتگو میں بھی موجود تاسی کا اشارہ جس توافق اور مطابقت کی ضرورت کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے ت مسلمہ کے باپ ۔۔۔۔۔۔ اور نمرود کے درمیان ہوئی۔ یہ شخص ایک جابر فرمانروا´ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلzم ام

نن خدا پر اپنی خدائی کا دعویدار تھا، مگر اس کے باوجود افلzک اور سیاروں اور ستاروں کی تھا اور ملک کے اندر بندگا خدائی سے خارج رہی۔ اس کے سامنے جب حضرت ابراہیم علیہ السلzم نے یہ دلیل پیش کی کہ "جوہئدعوکے دنیا اس

( اقتدار بھی پر زندگی انسانی کو ذات تاسی صرف ہے مالک کی اقتدار کے کائنات پوری اس ذات Sovereignty،حاصل ہونا چاہیے "۔ تو وہ مبہوت ہو کر رہ گیا، اس دلیل کا اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا )

آان سے اس قصے کو یوں نقل کیا ہے : قر

131

Page 132: Jada o Manzil Complete

ني�ي مح تµا ننا نµا نل نقا تت نمي تي نو ني�ي مح تي نذي ن´ل ني ا ن´ب نر تم نراہي مب ن·ا نل نقا مذ ن·ا ن« مل تم مل ´لہ ا نتاہ ال آا من نµا ن´بہ نر نفي نم نراہي مب ن·ا نج آا نح نذي ن´ل نلی ا ن·ا نر نت مم نل نµاندي نيہ نا ´لہ ل نوال نر نف ن³ نذي ن´ل نت ا تبہ نف نب نر مغ نم مل نن ا نم نبہا نت مµا نف نق نر مش نم مل نن ا نم نس مم نش نبال نتي مµا ني ´لہ نن ال ن·ا نف تم نراہي مب ن·ا نل نقا تت نمي تµا نو

نن )بقرہ: نمي نل ن´ظا نم ال مو نق مل (258ا

تاس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم سے جھگڑا کیا تھا، اس بات پر کہ ابراہیم کا کیا تم نے رب کون ہے ۔ اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جستاس نے جواب دیا زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے ۔ ابراہیم نے کہا: اچھا، کے اختیار میں زندگی اور موت ہے ، تو اللہ رہ گیا۔ مگر نر حق ششدر منک تسن کر وہ یہ لا، نکال تاسے مغرب سے تتو ذرا ہے نکالتا اللہ سورج کو مشرق سے

ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا۔ بے شک اللہ نے سچ فرمایا:

آال عمران نن ) تعو نج مر تي ميہ نل ن·ا نو مرہا ن³ نو اعا مو نط نض مر نµا نوال نت نوا نما نس نفي ال نمن نم نل مس نµا نلہ نو نن تغو مب ني ´لہ نن ال ندي نر مي نغ نف (83نµا

آاسمان اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ )دین اللہ( چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں، حالانکہ زمین و تاسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے ۔ کی ساری چیزیں چاروناچار اللہ ہی کی تابع فرمان ہیں، اور

واپس اوپر جائیے

ہفتمباب

اسلzم ہی اصل تہذیب ہے معاشرے اور جاہلی معاشرے کا بنیادی فرق ی اسلام

اسلzم صرف دو قسم کے معاشروں کو جانتا ہے ۔ ایک اسلzمی معاشرہ اور دوسرا جاہلی معاشرہ۔ اسلzمی معاشرہنم قیادت اسلzم کے ہاتھ میں ہو۔ انسانوں کے عقائد و عبادات پر، ملکی قانون اور وہ ہے جس میں انسانی زندگی کی زما

132

Page 133: Jada o Manzil Complete

نظام ریاست پر، اخلzق و معاملzت پر غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو پر اسلzم کی عملداری ہو۔ جاہلی معاشرہ وہ ہے جس میں اسلzم عملی زندگی سے خارج ہو۔ نہ اسلzم کے عقائد و تصورات اس پر حکمرانی کرتے ہو، نہ اسلzمی اقدار اور رد و قبول کے اسلzمی پیمانوں کو وہاں برتری حاصل ہو، نہ اسلzمی قوانین و ضوابط کا سکہ رواں ہو اور نہ اسلzمی اخلzق و

معاملzت کسی درجہ فوقیت رکھتے ہوں۔ اسلzمی معاشرہ وہ نہیں ہے جو "مسلمان" نام کے انسانوں پر مشتمل ہو، مگر اسلzمی شریعت کو وہاں کوئی قانونی پوزیشن حاصل نہ ہو۔ ایسے معاشرے میں اگر نماز، روزے اور حج کا اہتمام بھی موجود ہو، تو بھی وہ اسلzمیآازاد ہو کر اپنے مطالبۂ نفس معاشرہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو خدا اور رسول کے احکام اور فیصلوں سے نل مثال ۔۔۔۔۔ "ترقی پسند اسلzم" کے نام تاسے ۔۔۔۔ برسبی کے تحت اسلzم کا ایک جدید ایڈیشن تیار کر لیتا ہے ، اور

سے موسوم کرتا ہے ! جاہلی معاشرہ مختلف بھیس بدلتا رہتا ہے ، جو تمام کے تمام جاہلیت ہی سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ کبھی وہ ایک ایسے اجتماع کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے ، جس میں اللہ کے وجود کا سرے سے انکار کیا جاتا ہے اور انسانی تاریخ کی مادی

تعبیر ) ( کی جاتی ہے اور "سائنٹفک سوشلزم" نظام زندگی کیDialectal Interpretationاور جدلی حیثيت سے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے ۔ کبھی وہ ایک ایسی جمعیت کے رنگ میں نمودار ہوتا ہے جو خدا کے وجودآاسمانوں تک محدود رکھتی ہے ۔ رہی زمین کی تاس کی فرماں روائی اور اقتدار کو صرف کی تو منکر نہیں ہوتی، لیکن نم زندگی میں نافذ کرتی ہے ، اور نہ خدا فرماں روائی تو اس سے خدا کو بے دخل رکھتی ہے ۔ نہ خدا کی شریعت کو نظانر حیات کو جسے خدا نے انسانی زندگی کے لیے ابدی اور غیر متغیر اقدار ٹھیرایا ہے فرماں روائی کا کی تجویز کردہ اقدا منصب دیتی ہے ۔ وہ لوگوں کو یہ تو اجازت دیتی ہے کہ وہ مسجدوں، کلیساؤں اور عبادت گاہوں کی چار دیواری کےہلہی نت ا اندر خدا کی پوجا پاٹ کر لیں، لیکن یہ گوارا نہیں کرتی کہ لوگ زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے اندر بھی شریعتاسے عملی وہ کیونکہ ہے ہوتی باغی الوہیت کی پر خدا کی زمین تختۂ وہ جمعیت لحاظ سے بنائیں۔ اس کو حاکم ہلی کا صریح فرمان ہے : وھو الذی فی السماء الہ و فی الارض زندگی میں معطل کر کے رکھ دیتی ہے ، حالانکہ اللہ تعا

ہلہ ہے اور زمین میں بھی( اس طرز آاسمان میں بھی ا عمل کی وجہ سے یہ معاشرہ اللہ کے اس پاکیزہنالہ )وہی خدا ہے جو ´یم" سے تعبیر فرمایا ہے : آایت ذیل میں "دین ق ہلے نے آاتا جسے اللہ تعا نظام کی تعریف میں نہیں

تم )یوسف ن´ي نق مل تن ا ندي ن« ال نل نذ ن´ياہ ن·ا ´ا ن ن·ال ما تدو تب مع نت ´ا ن نµال نر نم نµا ´لہ نل ´ا ن ن·ال تم م¶ تح مل نن ا (4031ن·ا

تاس کے سوا کسی کی بندگی نہ کی جائے ۔ یہی دین قی تاسی کا فرمان ہے کہ م´حکم صرف اللہ کا ہے ۔ نق زندگی( ہے ۔ )ٹھیٹھ سیدھا طری

آایت نمبر 31 آایت کا درست نمبر یعنی 84کتاب میں غلطی سے درج کیا گیا )ابوشامل( 40 درج ہے ، جس کی جگہ

133

Page 134: Jada o Manzil Complete

نز عمل ہے جس کی وجہ سے یہ معاشرہ بھی جاہلی معاشروں کی صف میں شمار ہوتا ہے ۔ یہی وہ اجتماعی طرآاگے مذہبی چاہے وہ لاکھ اللہ کے وجود کا اقرار کرے اور لوگوں کو مسجدوں اور کلیساؤں اور صوامع کے اندر اللہ کے

مراسم کی ادائیگی سے نہ روکے ۔

صرف اسلامی معاشرہ ہی مہذب معاشرہ ہوتا ہے تاس کی بنا پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صرف اسلzمی آائے ہیں آاغاز میں ہم اسلzمی معاشرہ کی جو تعریف کر معاشرہ ہی درحقیقت "مہذب معاشرہ" ہے ۔ جاہلی معاشرے خواہ جس رنگ اور روپ میں ہوں بنیادی طور پر پسماندہ اور

غیر مہذب معاشرے ہوتے ہیں۔ اس اجمال کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے ۔ تاس کا نام رکھا "نحو مجتمع اسلzمی متحضر"نایک مرتبہ میں نے اپنی ایک زیر طبع کتاب کا اعلzن کیا اور

)مہذب اسلzمی معاشرہ(۔ لیکن اگلے اعلzن میں میں نے "مہذب" کا لفظ حذف کر دیا اور اس کا نام صرف "اسلzمی معاشرہ" رہنے دیا۔ اس ترمیم پر ایک الجزائری مصنف کی جو فرانسیسی زبان میں لکھتے ہیں نظر پڑی اور انہوں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس تبدیلی کا محرک وہ نفسیاتی عمل ہے جو اسلzم کی مدافعت کے ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ موصوف نے افسوس کیا کہ یہ عمل جو ناپختگی کی علzمت ہے مجھے اصل مشکل کا حقیقت پسندانہ سامنا کرنے سےتانہی کا ہم خیال تھا اور جب میں ناس الجزائری مصنف کو معذور سمجھتا ہوں۔ میں خود بھی پہلے روک رہا ہے ۔ میں آاج وہ سوچ رہے ہیں۔ تاسی انداز پر سوچ رہا تھا جس انداز پر تاس وقت میں بھی نے پہلی مرتبہ اس موضوع پر قلم اٹھایا تو آاج انہیں درپیش ہے وہی مشکل اس وقت خود مجھے درپیش تھی۔ یعنی یہ کہ "تہذیب کسے کہتے ہیں؟" اور جو مشکل تان علمی اور فکری کمزوریوں سے نجات نہیں پائی تھی جو میری ذہنی اور نفسیاتی تعمیر میں تاس وقت تک میں نے اپنی

ان کمزوریوں کا ماخذ مغربی لٹریچر اور مغربی افکار و تصورات تھے جو بلzشبہ میرے اسلzمی جذبہ و۔رچ بس چکی تھیںتاس دور میں بھی وہ میرے واضح اسلzمی رحجان اور ذوق کے خلzف تھے ۔ تاہم ان شعور کے لیے اجنبی تھے ، اور تاس کے پاکیزہ نقوش کو مسخ کر رکھا تھا۔ تہذیب وہ تصور جو یورپی فکر آالود اور بنیادی کمزوریوں نے میری فکر کو غبار پردہ ڈال رکھا تھا اور مجھے نکھری ہوئی اور پر آانکھوں میں سمایا رہتا تھا، اس نے میرے ذہن پایا جاتا ہے میری میں آا گئی اور مجھ پر یہ راز کھلz کہ حقیقت رسا نظر سے محروم کر رکھا تھا۔ مگر بعد میں اصل تصویر نکھر کر سامنے اسلzمی معاشرہ ہی دراصل مہذب معاشرہ ہوتا ہے ۔ میں نے اپنی کتاب کے نام پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس میں لفظتاس "مہذب" زائد ہے ۔ اور اس سے مفہوم میں کسی نئی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا بلکہ یہ لفظ الٹا قاری کے احساسات پر اجنبی فکر کی پرچھائیاں ڈال دے گا جو میرے ذہن پر بھی چھائی رہی ہیں اور جنہوں نے مجھے صحت مندانہ نگاہ

سے محروم کر رکھا تھا۔اب موضوع زیر بحث یہ ہے کہ "تہذیب کسے کہتے ہیں" اس حقیقت کی وضاحت ناگزیر معلوم ہوتی ہے ۔

134

Page 135: Jada o Manzil Complete

جب کسی معاشرے میں حاکمیت صرف اللہ کے لیے مخصوص ہو، اور اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ اللہ کی شریعت کو معاشرے میں بالاتری حاصل ہو تو صرف ایسے معاشرے میں انسان اپنے جیسے انسانوں کی غلzمی سے کاملآازادی کا نام "انسانی تہذیب" ہے ۔ اس لیے کہ انسان آازادی حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی کامل اور حقیقی اور حقیقی اور ہو سرشار آازادی سے حقیقی اور مکمل انسان میں حدود کی ہے جس چاہتی ادارہ بنیادی ایسا ایک تہذیب کی معاشرے کا ہر فرد غیر مشروط طور پر انسانی شرف و فضیلت سے متمع ہو۔ اور جس معاشرے کا یہ حال ہو کہ اس میں کچھ لوگ رب اور شارع بنے ہوں اور باقی ان کے اطاعت کیش غلzم ہوں، تو ایسے معاشرے میں انسان کو بحیثیت انسان

آازادی نصیب نہیں ہوتی اور نہ وہ اس شرف و فضیلت سے ہمکنار ہو سکتا ہے جو لازمۂ انسانیت ہے ۔ کوئی یہ نکتہ بیان کردینا بھی ضروری ہے کہ قانون کا دائرہ صرف قانونی احکام تک ہی محدود نہیں ہوتا،ایہاں ضمنا

آاج کل لفظ شریعت کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں محدود اور تنگ مفہوم پایا جاتا ہے ۔ بلکہ تصورات، جیسا کہ آاتے ہیں اور یہ طریقۂ زندگی، اقدار حیات، رد و قبول کے پیمانے ، عادات و روایات یہ سب بھی قانون کے دائرے میں افراد پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر انسانوں کا ایک مخصوص گروہ یہ سب بیڑیاں یا دباؤ کے اسالیب ہدایت الہی سے بے نیازآازاد معاشرے کو کیوں کر ایسے تو مقید کر کے رکھ دے میں ان افراد کو معاشرے کے دوسرے اور لے تراش ہو کر معاشرہ کہا جا سکتا ہے ۔ یہ تو ایسا معاشرہ ہے جس میں بعض افراد کو مقام ربوبیت حاصل ہے اور باقی لوگ ان اربابمیں اسے جاہلی اسلzمی اصطلzح یا ہوگا معاشرہ شمار پسماندہ معاشرہ یہ ہیں۔ اس وجہ سے میں گرفتار کی عبودیت

معاشرہ کہیں گے ۔ ہ کے ہاتھ میںہصرف اسلzمی معاشرہ ہی وہ منفرد اور یکتا معاشرہ ہے جس میں اقتدار کی زمان صرف ایک ال

کر صرف اللہ کی غلzمی میں داخل ہو جاتے ہیں اور یوں ہوتی ہے اور انسان اپنے ہم جنسوں کی غلzمی کی بیڑیاں کاٹآازادی سے جو انسان کی تہذیب کا نقطۂ ماسکہ ہے ، بہرہ ور ہوتے ہیں۔ اس معاشرے میں انسانی وہ کامل اور حقیقی فضیلت و شرف اسی حقیقی صورت میں نور افگن ہوتی ہے جو اللہ تعالی نے اس کے لیے تجویز فرمائی ہے ۔ اس معاشرے میں انسان ایک طرف زمین پر اللہ کی نیابت کے منصب پر سرفراز ہوتا ہے ، اور دوسری طرف ملz اعلی میں اس کے لیے

غیرمعمولی اعزاز اور مرتبہ بلند کا اعلzن بھی ہو جاتا ہے ۔

اسلامی معاشرہ اور جاہلی معاشرہ کی جوہری خصوصیات جب کسی معاشرے میں انسانی اجتماع اور مدنیت کے بنیادی رشتے عقیدہ، تصور، نظریہ اور طریق حیات سے

ال ایک منبع صرف و ماخذ کا ان اور ہوں کہہعبارت ہو نہ یہ صورت اور ہو سرفراز پر درجہ نیابت کے انسان اور ہو ہ پڑا ہو ۔۔۔۔۔ بلکہ اس کے فرمانروائی کا سرچشمہ زمینی ارباب ہوں اور انسان کے گلے میں انسان کی غلzمی کا طوق آاسکتا ہے ، جو ان تمام برعکس انسان صرف ایک خدا کے بندے ہوں تو تبھی ایک ایسا پاکیزہ انسانی اجتماع وجود میں

ی انسانی خصائص کی جلوہ گاہ ہوتا ہے جو انسان کی روح اور فکر میں ودیعت ہیں۔ لیکن اس کے برعکس اگرہاعل

135

Page 136: Jada o Manzil Complete

معاشرے کے اندر انسانی تعلقات کی بنیاد رنگ و نسل، اور قوم و ملک اور اسی نوعیت کے دوسرے رشتوں پر رکھی گئی ی خصائص کو ابھرنے کا موقع نہیں دیتے ۔ انسانہہو تو ظاہر ہے کہ یہ رشتے زنجیریں ثابت ہوتے ہیں اور انسان کے اعل

آازاد رہ کر بھی انسان ہی رہے گا مگر روح اور عقل کے بغیر وہ انسان رنگ و نسل اور قوم و وطن کی حد بندیوں سے آازاد ارادہ سے بدلنے کا بھی اختیار رکھتا ہے آاں یہ کہ وہ اپنے عقیدہ و تصور اور نظریۂ حیات کو اپنے نہیں رہ سکتا۔ مزید بر ، مگر اپنے رنگ اور اپنی نسل میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے ، اور نہ اس بات کی اسے قدرت حاصل ہے کہ وہ کسی

ذا یہ ثابت ہوا کہ وہ معاشرہ جس میں انسان کاہمخصوص قوم یا مخصوص وطن میں اپنی پیدائش کا فیصلہ کرے ۔ لہ�������������آازاد مرضی اور ان کی ذاتی پسند سے ہو وہی معاشرہ نور تہذیب سے اجتماع ایک ایسی بات پر ہو جس کا تعلق ان کی منور ہے ۔ اس کے برعکس وہ معاشرہ جس کے افراد اپنے انسانی ارادے سے ہٹ کر کسی اور بنیاد پر مجتمع ہوں، وہ

پسماندہ معاشرہ ہے یا اسلzمی اصطلzح میں وہ جاہلی معاشرہ ہے ۔ اسلzمی معاشرے کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں اجتماع کا بنیادی رشتہ عقیدہ پر استوار ہوتا ہے ، اور اس میں عقیدہ ہی وہ قومی سند ہوتا ہے جو کالے اور گورے اور احمر و زرد، عربی اور رومی، فارسی اور حبشی اور ان تمام اقوام

آاباد ہیں ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتا ہے اور ایک ہی امت میں انہیں جمع کر دیتا ہے ، جسوک������ جو روئے زمین پر آاگے سر عجز و نیاز جھکاتی ہے ، اس میں معزز وہ ہے جو زیادہ کا پروردگار صرف اللہ ہوتا ہے اور وہ صرف اسی کے

متقی اور خدا ترس ہوگا، اس کے تمام افراد یکساں حیثیت رکھتے ہیں اوروہ سب ایسے قانون پر متفق ہوتے ہیں جو کسیانسان کا بنایا ہوا نہیں بلکہ اللہ نے ان کے لیے وضع فرمایا ہے ۔ اعل ہی انسانیت کی انسان اندر کے معاشرے ہیہجب خصوصیات انسانی اور ہو، جاتی سمجھی قدر ی

مستحق تکریم اور لائق قدر ہوں تو یہ معاشرہ مہذب معاشرہ ہوتا ہے ۔ اور اگر مادیت ۔۔۔۔۔ خواہ وہ کسی شکل و صورت ی کا درجہ رکھتی ہو، قطع نظر اس کے کہ وہ نظریہ کی صورت میں ہو جیسے تاریخ کی مارکسیہمیں ہو ۔۔۔۔۔ قدر اعل

ی مادہ پرستی ہے ، یا مادی پیداوار کے رنگ میں ہو جیسا کہ امریکہ، یورپ اور ان تمام معاشروں کاہتعبیر میں قدر اعلاعل ہی کو پیداوار مادی جو ہے انسانیہحال اور اقدار دوسری تمام پر گاہ قربان کی اس اور ہیں دیتے قرار قدر ی

خصوصیات کو بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔۔۔۔ تو یہ معاشرہ پسماندہ معاشرہ کہلzئے گا یا اسلzمی اصطلzح میں اسے جاہلیمعاشرہ کہیں گے ۔

مہذب معاشرہ ۔۔۔۔۔ یعنی اسلzمی معاشرہ ۔۔۔۔۔۔ مادہ کو حقارت سے نہیں دیکھتا۔ نہ نظری طور پر اسے خارج از اعتبار ٹھیراتا ہے ، اور نہ مادی پیداوار میں ہی اسے نظر انداز کرتا ہے ۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ یہ کائنات جس میں ہم جی رہے ہیں اور جس پر ہم اثر انداز بھی ہوتے ہیں اور جس سے اثر پذیر بھی، مادہ ہی سے بنی ہے ۔ مادی پیداوار

ی کا لباس پہناہہیہ کا پشتیبان سمجھتا ہے ۔ پس فرق یہ ہے کہ اسلzمی معاشرہ مادہ کو قدر اعلہکو وہ دنیا میں خلzفت الآاستان تقدس پر انسان کی تمام روحانی و عقلی خصوصیات اور لوازمۂکر اسے ایک ایسا معبود قرار نہیں دیتا جس کے

136

Page 137: Jada o Manzil Complete

آازادی اور شرف اس پر قربان کر دیا جائے ، خاندانی نظام کی بنیاد و اساس انسانیت کو نچھاور کر دیا جائے ، فرد کی کو اس کی خاطر منہدم کر دیا جائے ، معاشرتی اخلzق اور معاشرے کے مقدس رشتوں کو پامال کر دیا جائے ، الغرضتر اقدار فضائل و مکارم اور عز و شرف کو خاک میں ملz دیا جائے ۔ جیسا کہ تمام جاہلی معاشرے مادی بلند تمام

پیداوار کی فراوانی کے لیے سب کچھ کر ڈالتے ہیں۔ نم کار ہو تو لاریب ہلی انسانی اقدار اور ان پر تعمیر ہونے والے انسانی اخلzق کے ہاتھ میں معاشرے کی زما اگر اع ایسا معاشرہ ہی صحیح معنوں میں گہوارۂ تہذیب ہوگا۔ انسانی اقدار اور انسانی اخلzق کوئی ڈھکی چھپی چیز یا ایسیآاسکتی ہو، اور نہ یہ تاریخ کی مادی تعبیر اور سائنٹفک سوشلزم کے دعوے کے مطابق زمانے چیز نہیں جو گرفت میں نہ آامادۂ تغیر رہنے والی ہیں کہ کسی حال پر انہیں ٹھیراؤ نہ ہو اور کسی اصل آان کے ساتھ ساتھ "ترقی" کرنے والی اور یوں ہر تان انسانی خصائص و مرکز کے ساتھ ان کے قلzبے ملے ہوئے نہ ہوں۔ بلکہ یہ وہ اقدار و اخلzق ہيں جو انسان کے اندر

تاسے حیوان سے ممی���������� آابیاری کرتی ہیں جو تاس جوہر کو زیادہ سے زیادہ نمایاں´کی ز کرتی ہیں، اور جو انسان کے اندر تاسے حیوانوں کی صف سے نکال کر انسانوں کی صف میں لاتا ہے ۔ یہ اقدار و اخلzق ایسے نہیں ہیں کہ کرتی ہیں جو تابھاریں جن میں انسان اور حیوان یکساں طور پر شریک تان پہلوؤں کو تان صفات کی پرورش کریں اور یہ انسان کے اندر

ہیں۔

تہذیب کا اصل پیمانہ فاصل ابھر کرنر خط´مسئلہ تہذیب کو جو اس پیمانے سے ناپا جائے تو ایک ایسا قطعی، اٹل اور ناقابل تغی�����������

آا جاتا ہے جو ان تمام کوششوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے جو ترقی پسندوں اور سائنٹفک سوشلزم کے سامنے ہیں رہی جا کی متواتر صرف لیے کے بنانے سیال مادۂ کو اخلzق و اقدار تہذيبی کی طرف سے مسئلہ۔علمبرداروں

نح بالا سے یہ بھی عیاں ہو گیا کہ "ماحول رف" کی اصطلzحیں دراصل اخلzقی اقدار کا تعینتور "ع��������" اتہذیب کی تشریآاشنا میزان ہوتی ہے جو ان کا نہیں کرتی ہیں بلکہ بدلتے ہوئے ماحول اور عرف کے پس پردہ ایک ایسی ٹھوس اور تغیر نا تعین کرتی ہے ، اور اس میزان کے اندر اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کچھ اخلzقی اور اقدار "زرعی" کہلzئیں

دار "سرمایہ دارانہ" ہوں اور کچھ "سوشلسٹ" یا "بورژو اخلzق" اور "پرولتاریق�������������اور کچھ "صنعتی" یا کچھ اخلzق و انر زیست، عبوری دور اور ایسے ہی دیگر پھر ان اخلzقیات کا وجود بھی ختم ہو جاتا ہے جو ماحول، معیا اخلzق"۔ اور

ر پیمانوں کی پیداوار ہوں۔ بلکہ اس سطحی تقسیم اور تعبیر کے برعکس یہاں "انسانی" اخلzق و اقدار´سطحی اور متغی��������ہیں کہ یوں کہہ سکتے بات کو ہم اقدار۔ اسلzمی اصطلzح میں اسی برعکس "حیوانی" اخلzق و یا ان کے ہیں ہوتی

اخلzقیات کی صرف دو ہی اصناف ہیں: اسلzمی اخلzق و اقدار اور جاہلی اخلzق و اقدار! تجدا اور نجلz دیتے ہیں جو انسان کو حیوان سے تان پہلوؤں کو یہ انسانی اخلzق و اقدار انسان کے نفس میں تاسے غلبہ و سیادت نصیب ہوتی ہے ان اخلzق و اقدار کی تخم ممتاز کرتے ہیں، اسلzم ان تمام معاشروں کے اندر جن پر

137

Page 138: Jada o Manzil Complete

ریزی کرتا ہے اور پھر انہیں سینچتا ہے ، پروان چڑھاتا ہے ، ان کی دیکھ بھال کرتاہے ، اور ان کی جڑوں کو مضبوط سے مضبوط تر کرتا ہے ۔ خواہ یہ معاشرے زرعی دور سے گزر رہے ہوں یا صنعتی دور سے ۔ اور خواہ بدویانہ اور چرواہوں کے

ن اور قرار یافتہ ہوں، خواہ نادار مفلس ہوں اور خواہ´معاشرے ہوں اور جانوروں اور مویشیوں پر ان کی گزر بسر ہو، خواہ متمد توانگر اور سرمایہ دار۔ اسلzم ہر حالت میں انسانی خصائص کو ترقی دیتا رہتا ہے اور حیوانیت کی طرف جانے سے انہیں

تابھارنبچائے رکھتا ہے ۔ دراصل اخلzق و اقدار کی دنیا میں وہ خط تاس کا آائے ہیں فاصل جس کی طرف ہم اوپر اشارہ کر نیچے سے اوپر کی طرف ہے ۔ حیوانیت کی پست سطح سے انسانیت کی سطح مرتفع کی طرف جاتا ہے اور اگر یہ خط معکوس شکل اختیار کرلے تو مادی ترقی )تہذیب( کے ہوتے ہوئے بھی اس کو تہذیب کا نام نہ دیا جا سکے گا، بلکہ یہ

تنزل و پسماندگی ہوگی یا جاہلیت۔

تہذیب کے فروغ میں خاندانی نظام کی اہمیت اگر خاندان معاشرے کی اکائی ہوں، اور خاندان کی بنیاد اس اصول پر ہوکہ زوجین کے درمیان تقسیم کار ہو اورتاسی کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرے ، آایا ہے جو جس کام کی خصوصی صلzحیت اور فطری اہلیت لے کر دنیامیں

ت خاندان کا اصل وظیفہ ہو تو ایسا معاشرہ بلz شبہ مہذب معاشرہ ہوتا ہے ۔ اس طرز کاش����اور نئی پود کی تربیت و نگہداہلی انسانی قدروں اور انسانی اخلzقنخاندانی نظام اسلzمی اصول حیات کے تحت وہ ماحول مہیا کر دیتا ہے جس میں اع

کے شگوفے کھلتے ہیں اور نمو پذیر ہوتے ہیں اور نژاد نو کو اپنی تازگی اور نکہت سے نوازتے ہیں۔ یہ قدریں اور اخلzقآازاد خاندانی اکائی کے علzوہ کسی اور اکائی کے اندر شرمندۂ وجود نہیں ہو سکتے لیکن اگر جنسی تعلقات، جنہیں "باہمی رشتہ مرد و عورت کا اور ہوں، اینٹ بنیادی معاشرے کی ناجائز نسل اور ، نام دیا جاتا ہے تعلقات" کا جنسی مطابق قدرتی صلzحیتوں کے اور داریوں ذمہ اور خاندانی ہو قائم پر اکساہٹ اور حیوانی بھوک نفسانی خواہش، جنسی آارائش، دلربائی اور ناوک اندازی ہو، اور نئی پود کی تقسیم کار کے اصول پر استوار نہ ہو۔ عورت کا کام صرف زینت و

اساسی سے دست بردار ہو جائے ، اور خود یا معاشرے کی طلب پر کسی ہوٹل، یا بحرینتربیت و نگہداشت کے منصبانسان سازی کے قوتیں اور اپنی صلzحیتیں اور اس طرح ترجیح دے ، بننے کو نواز" ہوائی جہاز میں "مہمان یا جہاز تاس کے لیے مادی پیداوار بجائے مادی پیداوار اور سامان سازی پر صرف کر دے ۔ کیوں کہ "انسانی پیداوار" کی نسبت لیے تو اسے انسانیت کے آا جائے یہ نوبت نث نمود و ستائش ہے پس جب باع افزا اور زیادہ زیادہ نفع بخش،زیادہ عزت تہذیبی پس ماندگی اور تہذیبی افلzس کا پیغام سمجھنا چاہیے ۔ اسی حالت کو اسلzمی اصطلzح میں جاہلیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ خاندانی نظام اور زوجین کے باہمی تعلقات کی بنیاد یہ ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جو معاشرے کی حیثیتآاخر کا درجہ رکھتا ہے ۔ اسی کے ذریعے سے ہم جان سکتے ہیں کہ کوئی معاشرہ متعین کرنے میں فیصلہ کن اور حرف پسماندہ ہے یا مہذب، جاہلی ہے یا اسلzمی۔ جن معاشروں پر حیوانی اقدار و اخلzق اور حیوانی جذبات و رحجانات کی

138

Page 139: Jada o Manzil Complete

سیادت ہوتی ہے وہ کبھی مہذب معاشرے نہیں ہو سکتے ۔ چاہے صنعتی، اقتصادی اور سائنسی ترقی میں وہ کتنے ہیعروج پر ہوں۔ یہ وہ پیمانہ ہے جو "انسانی ترقی" کی مقدار معلوم کرنے میں کبھی غلطی نہیں کرتا۔

تب مغرب کا حال تہذی مفہوم اس حد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے کہ اس کے دائرے عہد حاضر کے جاہلی معاشروں میں اخلzق کا

ان ۔ ہے کام دے سکتا کا فاصل نط خ میں حیوانی صفات اور انسانی صفات ہے جو ہو چکا پہلو خارج وہ ہر سے معاشروں کی نگاہ میں ناجائز جنسی تعلقات بلکہ افعال ہم جنسی تک بھی اخلzقی رذالت اور عجیب شمار نہیں ہوتے ۔ اخلzق کا مفہوم قریب قریب اقتصادی معاملzت کے اندر محصور ہو کر رہ گیا ہے ، اور کبھی کبھار سیاست کے اندر بھی اس کا چرچا ہوتا ہے مگر ریاست کے مفادات کی حد تک۔ چنانچہ مثال کے طور پر کریسٹن کیلر اور برطانوی وزیریہ اگر "شرمناک" تھا تو پروفیمو کا اسکنڈل جنسی پہلو سے برطانوی معاشرے کے اندر کوئی گھناؤنا واقعہ نہیں تھا۔ صرف اس پہلو سے کہ کریسٹن کیلر بیک وقت پروفیمو کی معشوقہ بھی تھی اور روسی سفارت خانے کے ایک بحریتاس کا معاشقہ تھا۔ اس وجہ سے نو عمر حسینہ کے ساتھ ایک وزیر کا تعلق قائم کرنا ریاست کے رازوں اتاشی سے بھی

ے دروغ گوئی سے کام لیا اور برطانوی پارلیمنٹ کے سامنےنکے لیے باعث خطرہ تھا۔ اس پر اضافہ یہ ہوا کہ اس وزیر تھل گیا۔ اس واقعہ سے ملتے جلتے وہ اسکنڈل ہیں جو امریکی سینٹ کے اندر افشا ہوتے رہتے تاس کے جھوٹ کا پول ک ہیں، اور ان انگریز اور امریکی جاسوسوں اور سرکاری ملzزمین کی حیا سوز داستانیں ہیں جو فرار ہو کر روس پناہ لے چکےہم جنسی کا پیچھے فعل نہیں سمجھے گئے کہ ان کے پہلو سے کوئی اخلzقی حادثہ واقعات اس یہ سب ہیں مگر آاتے میں لپیٹ راز ان کی ریاست کے ہو گئی کہ اہمیت حاصل انہیں صرف اس وجہ سے بلکہ منظر ہے گھناؤنا پس

تھے ۔ صحافت اور ادباء و افسانہن نگارش، اہلندور و نزدیک کے تمام جاہلی معاشروں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ارباب

اا اخلzقی عیب آازاد جنسی تعلقات قطع نویس نوخیز دوشیزاؤں اور شادی شدہ جوڑوں کو برملz یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ نہیں ہیں۔ ہاں اگر کوئی لڑکا اپنی فرینڈ گرل یا کوئی لڑکی اپنے فرینڈ بوائے سے سچی محبت کے بجائے جھوٹا پیار کرے تو یہ بلzشبہ عیب کی بات ہے ۔ برائی یہ ہے کہ بیوی ایسی صورت میں بھی اپنی عفت و ناموس کی حفاظت کرتی رہےآاگ بجھ چکی ہو۔ اور خوبی یہ ہے کہ وہ کوئی دوست تلzش تاس کے سینے میں اپنے خاوند کی محبت کی جب کہ آازاد آاوارگی اور تاسے پیش کر دے ۔ بیسیوں ایسی تحریریں ملتی ہیں جن میں اسی کرے اور فراخ دلی کے ساتھ اپنا جسم خیالی کی دعوت دی جا رہی ہے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اخبارات کے اداریے ، فیچر، کارٹون، سنجیدہ اور مزاحیہ کالم

نز حیات کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ناسی طر

خاندانی نظام کا اصل رول

139

Page 140: Jada o Manzil Complete

ر نظر کی نقطۂ اورتانسانیت کے پسماندہ معاشرے ایسے مطابق پیمانے کے انسانیت کے ارتقائے اور و سے ہیں کہ حیوانی تاس میں ہم دیکھتے ارتقاء کا خط جس سمت کو جاتا ہے انسانیت کے ہیں۔ تہذیب معاشرے بیگانۂ تان کی تسکین کا دائرہ محدود کیا جاتا ہے ۔ اس غرض کے لیے ایک خاندان کی جذبات کو لگام دی جاتی ہے ، اور بنیاد ڈالی جاتی ہے ، اور اس میں کام اور فرائض کی تقسیم فطری صلzحیتوں اور ذمہ داریوں کے مطابق کی جاتی ہے ۔ اس خاندانی نظام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ جذبات وہ اصل انسانی وظیفہ سر انجام دیں جس کی غرض و غایت محضتاس ممتاز لذت پسندی نہیں ہے بلکہ ایسی انسانی نسل کی فراہمی ہے جو نہ صرف موجودہ نسل کی جانشیں ہو بلکہ تاٹھے جس میں انسانی خصوصیات و اوصاف کے گلہائے رنگ رنگ اور بے نظیر انسانی تہذیب کی سچی وارث بن کر عطر بیز رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی انسانی نسل جو حیوانی خصائص اور جذبات کو پابجولاں رکھے اور انسانی خصائصتاسی گہوارہ سے نکل سکتی ہے ۔ جس کے چاروں طرف تحفظات کو زیادہ سے زیادہ ترقی و کمال تک پہنچائے صرف کی ایسی باڑھ کھڑی کر دی گئی ہو جس کے اندر ذہنوں کو پورا سکون نصیب ہو اور جذبات کسی ہیجان خیزی کا نشانہ نہ بننے پائیں اور جس گہوارہ کی داغ بیل ایک ایسے اہم فرض کو ادا کرنے کے لیے ڈالی گئی ہو جو وقتی جذباتآالود مشورے کر رہے ہوں اور آابیاری ناپاک تعلیمات اور زہر اور ہنگامی تاثرات سے متاثر نہیں ہوتا۔ مگر جس معاشرے کی آاداب سے عاری ہو جائے تو ایسے تسکڑ جائے کہ وہ معاشرہ تمام جنسی جس میں اخلzقی تصور کا دائرہ اس حد تک معاشرے میں انسانیت ساز گہوارہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اسلzمی اقدار و اخلzق راور اسلzمی تعلیمات و تحفظات ہی انسان کے لیے مفید اور مناسب ہو سکتے ہیں اور ترقی کے ٹھوس اور غیر متغی�������������

و سے اسلzم ہی اصل تہذیب ہے اور اسلzمی معاشرہ ہی تہذیب کی اصل جلوہ گاہ ہے ۔ تپیمانے کی ر

خدا پرست تہذیب اور مادی ترقی خلzصہ یہ ہے کہ جب انسان دنیا کے اندر اللہ کی خلzفت کو ہمہ پہلو قائم کرتا ہے ، اور اس کے تقاضے میں

چھٹکارا پا لیتا ہے ،اۃوہ صرف اللہ کی بندگی کے لیے وقف ہو جاتا ہے ، غیر اللہ کی ہر نوعیت کی عبودیت سے کاملہلہی نظام ہائے حیات کے جواز کو مسترد کر نم زندگی کو قائم کرتا ہے اور دوسرے تمام غیر ا صرف اللہ کے پسندیدہ نظا دیتا ہے ، اپنی زندگی کے ہر زاویے اللہ کی شریعت کو فرماں روا بناتا ہے اور دوسرے ہر قانون اور شریعت سے دستبردار ہوآاویزۂ گوش بناتا ہے جو اللہ نے پسند فرمائے ہیں اور نام نہاد اخلzق و اقدار کو دیوار پر جاتا ہے ، ان اقدار و اخلzق کو ہلے تان کائناتی قوانین کا کھوج لگاتا ہے جو اللہ تعا دے مارتا ہے ۔ ایک طرف وہ یہ رویہ اختیار کرتا ہے اور دوسری طرف نے مادی اسباب کے اندر ودیعت کر رکھے ہیں، اور زندگی کو ترقی سے ہمکنار کرنے کے لیے ان قوانین سے استفادہ کرتاتان لامتناہی ذخیروں کی دریافت کے لیے استعمال کرتا ہے جو اللہ ہے ، انہیں زمین کے بے بہا خزانوں اور خوراک کے ہلی نے سینۂ کائنات کے اندر چھپا رکھے ہیں اور اپنے نوامیس میں سے انہیں سر بہمر کر رکھا ہے اور انسان کو یہ تعاہلہی کا قدرت دے دی ہے کہ وہ ان مہروں کو اس حد تک توڑ سکتا ہے جس حد تک ایسا کرنا اس کے لیے نیابت ا

140

Page 141: Jada o Manzil Complete

فرض سر انجام دینے کے لیے ضروری اور ناگزیر ہو۔ الغرض جب انسان دنیا کے اندر اللہ کے عہد و میثاق کے مطابقہلہیہ کا بول بالا کرتا ہے اور اس خلzفت کے زیر سایہ وہ رزق کے خزانوں کا اکتشاف کرتا ہے ، مادۂ خام کو خلzفت اتان سارے فنی تجربوں اور علمی معلومات کو کام صنعت میں تبدیل کرتا ہے اور گوناگوں صنعتیں وجود میں لاتا ہے اور میں لاتا ہے جو انسانی تاریخ کا حاصل ہیں۔ وہ ان تمام امور کو ایک خدا پرست انسان، اللہ کا خلیفۂ برحق اور سچا

اور اخلzقی پہلوؤں میں یہ رویہ اختیار کرتایعبادت گزار ہونے کی حیثیت سے انجام دیتا ہے جب انسانی زندگی کے مادنم عروج پر تاس وقت انسان تہذیبی لحاظ سے درجۂ کمال کو پہنچتا ہے اور ایسا انسانی معاشرہ تہذیب کے با ہے تو بلzشبہ تانہیں تہذیب نہیں کہا جا سکتا۔ مادی ترقی اور متمکن ہوتا ہے ۔ رہیں محض مادی ایجادات تو اسلzم کی نگاہ میں جاہلیت ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔ عین ممکن ہے کہ معاشرے کے اندر مادی ترقی عروج پر ہو مگر اس کےآان حکیم میں متعدد مقامات پر جاہلیت کا ذکر کرتے وقت جاہلی ہلی نے قر تعا اللہ باوجود جاہلیت کا دور دورہ ہو بلکہ

آایات میں اس کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں: معاشروں کی مادی ترقی کو بھی بیان کیا ہے ۔ ذیل کی

´لہ ن تقوا ال ´ت ن نفا نن • نري ´با ن نج مم تت مش نط نب تتم مش نط نب نذا ن·ا نو نن • تدو تل مخ نت مم ت¶ ´ل ن نع نل نع نن نصا نم نن تذو نخ ن´ت نت نو نن • تثو نب مع نت نيۃ آا مع نري نل ت¶ نب نن تنو مب نت نµانب نذا نع مم ت¶ مي نل نع تف نخا نµا ن´ني ن·ا من • تيو تع نو مت ن´نا نج نو نن • نني نب نو مم نعا من نµا نب ت³م ند نم نµا نن • تمو نل مع نت نما نب ت³م ند نم نµا نذي ن´ل تقوا ا ´ت ن نوا نن • تعو نطي نµا نو

مم )الشعراء: نظي نع مم مو ( 135 تا 128ني

یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو، اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے ۔ اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو جبار بن کر ڈالتے ہو۔ پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اورتاس سے جس نے تمہیں وہ کچھ دیا ہے جو تم جانتے ہو۔ تمہیں جانور دیے ، اولادیں دیں، باغ میری اطاعت کرو۔ ڈرو

دیے اور چشمے دے ۔ مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے ۔

نن • نرہي نفا اتا تيو تب نل نبا نج مل نن ا نم نن تتو نح من نت نو لم • نضي تعہا ہ مل نط مل مخ نن نو مع ترو تز نو من • تيو تع نو مت ن´نا نج نفي نن • نني نم آا ننا نما ہاہ نفي نن ت³و نر مت تت نµانن )الشعراء: تحو نل مص تي نا نول نض مر نµا مل نفي ا نن تدو نس مف تي نن نذي ´ل ن نن • ا نفي نر مس تم مل نر ا مم نµا تعوا نطي تت نا نول نن • تعو نطي نµا نو ´لہ ن تقوا ال ´ت ن تا146نفا

152)

تیونہی اطمینان سے رہنے دیے جاؤ گے ؟ ان باغوں اور تان سب چیزوں کے درمیان، جو یہاں ہیں، بس کیا تم میں ان فخریہ کر کھود کھود پہاڑ تم ہیں؟ بھرے رس خوشے کے جن میں نخلستانوں اور کھیتوں ان میں؟ چشموں تان بے لگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے عمارتیں بناتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

ہیں اور کوئی اصلzح نہیں کرتے ۔

141

Page 142: Jada o Manzil Complete

نن • تسو نل مب تم نذا ہم ن·ا نف نتۃ مغ نب نناہم مذ نخ نµا ما تتو تµاو نما نب ما تحو نر نف نذا ن·ا ن´تی نح مء مي نش نل ت³ نب نوا مب نµا مم ميہ نل نع ننا مح نت نف نبہ ما ترو ن³ تذ نما ما تسو نن نما نل نفنن )انعام: نمي نل نعا مل نب ا نر ´لہ نل تد مم نح مل نوا ما تمو نل نظ نن نذي ´ل ن نم ا مو نق مل تر ا نب ندا نع نط تق (4532، 44نف

تھلzدیا، تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو، جو انہیں کی گئی تھی، بتان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہو دروازے ان کے لیے کھول دیے ، یہاں تک کہ جب وہ گئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے ۔ اس طرح ان لوگوں کی جڑ کاٹ

کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا اور تعریف ہے اللہ رب العالمین کے لیے )کہ اس نے ان کی جڑ کاٹ دی(۔

ادا نصي نح نناہا مل نع نج نف ارا ننہا مو نµا zا ميل نل ننا تر مم نµا نتاہا نµا آا ميہ نل نع نن ترو ند نقا مم ن´نہ نµا تلہا نµاہ نن نظ نو مت نن ´ي ن نز نوا نفہا تر مخ تز تض مر نµا نت ال نذ نخ نµا نذا ن·ا ن´تی نحنس )یونس: مم نµا نبال نن مغ نت مم ´ل ن نµان (24ن³

پھر عین اس وقت جب کہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک سمجھآا گیا اور ہم نے اسے ایسا رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں۔ یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم

غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ لیکن، جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں اسلzم مادی ترقی اور مادی وسائل کے خلzف نہیں ہے اور ان کیہلے ایک نعمت کی حیثیت دیتا ہلہی کے زیر سایہ ہونے والی مادی ترقی کو اللہ تعا ا اہمیت کو کم نہیں کرتا بلکہ نظام

ہے ۔ اور اطاعت و فرمانبرداری کے صلہ میں انسانوں کو اس نعمت کی بشارت بھی دیتا ہے ۔

مم ت¶ ´ل ن نعل مج ني نو نن نني نب نو مل نوا مم نµا نب مم ت³ مد ند مم تي نو ارا • نرا مد نم ت¶م مي نل نع نماء نس نل ال نس مر تي ارا • نفا نغ نن ن³ا ن´نہ ن·ا مم ت¶ ´ب ن نر تروا نف مغ نت مس تت ا مل تق نفارا )نوح: منہا نµا مم ت¶ ´ل ن نعل مج ني نو مت ن´نا (12 تا 10نج

وہ بیشک کرو۔ مغفرت طلب پروردگار سے اپنے تم کہ کہا قوم سے نے میں کہ( ہیں کہتے حح نو )حضرت مغفرت قبول کرنے والا ہے ۔ وہ تم پر موسلz دھار بارشیں برسائے گا اور اموال اور اولادوں سے تمہیں قوت بخشے گا اور

تمہارے لیے باغ بنائے گا اور ان میں تمہارے لیے نہریں جاری کرے گا۔

ما تنو ن³ا نما نب نناہم مذ نخ نµا نف ما تبو نذ ن³ ن¶ن نل� نو نض مر نµا نوال نماء نس نن ال نم مت ن³ا نر نب ميہم نل نع ننا مح نت نف نل ما نقو ´ت ن نوا ما تنو نم آا نری تق مل نل ا نµاہ نن نµا مو نل نونن )الاعراف: تبو نس م¶ (96ني

آایت 32 آایت نمبر 44 اور43اصل کتاب میں غلطی سے اا یہ ( ابوشامل ہیں )45 اور 44 درج ہو گیا ہے جبکہ حقیقت

142

Page 143: Jada o Manzil Complete

آاسمان اور زمین سے برکتوں کے تان پر ہی کی روش اختیار کرتے تو ہم اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوتانہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ تبری کمائی کے حساب میں تاس تھٹلzیا،لہذا ہم نے تانہوں نے تو ج دروازے کھول دیتے ، مگر

رہے تھے ۔ مادی ترقی اصل چیز نہیں ہے بلکہ اصل چیز وہ بنیادی تصور ہے جس پر مادی اور صنعتی ترقی کی عمارتنر حیات ہیں جن کو معاشرے میں قدر و منزلت حاصل ہوتی ہے اور جن کے مجموعی عمل سے قائم ہوتی ہے اوروہ اقدا

انسانی تہذیب کے خصائص و نقوش تیار ہوتے ہیں۔

آاغاز اور ارتقاء کا فطری نظام اسلامی معاشرے کے اسلzمی معاشرہ کا ایک تحریکی بنیاد پر قائم ہونا اور اس کا ایک نمو پذیر نظام کی حیثیت اختیار کرنا یہ دونوں

و رحجانات نظریات وہ پر ہیں جس دیتی بنا معاشرہ لاثانی اور منفرد کا اپنی طرز معاشرے کو اسلzمی مل کر خوبیاں منطبق نہیں ہو سکتے جو جاہلی معاشروں کے قیام اور ان کی نمو پذیر فطرت کے لیے مناسب ہوتے ہیں۔ اسلzمی معاشرے

نر عمل رہتا ہے ، یہنکی ولادت ایک تحریک کی جدوجہد کی رہین منت ہوتی ہے ۔ یہ تحریکی نظام اس کے اندر برابر برس ن کرتی ہے اور پھر اس اصل قیمت کی روشنی´تحریک ہی معاشرے کے ہر ہر فرد کی قیمت اور اس کا مرتبہ و مقام متعی

تاس کی اصل ڈیوٹی اور اجتماعی حیثیت طے کرتی ہے ۔ جس تحریک کے بطن سے یہ معاشرہ میں معاشرے کے اندر نگل سے ماوراء اور بشری دائرہ سے خارج ہوتا ہے ۔ یہ تحریک آاب و نم جنم لیتا ہے اس تحریک کا فکری و عملی ماخذ عالہلی کی طرف سے انسان پر نازل کیا گیا ہے اور جو انسان کو تاس عقیدہ کی متحرک تصویر ہوتی ہے جو اللہ تعا درحقیقت کائنات اور زندگی اور انسانی تاریخ کے بارے میں مخصوص تصور دیتا ہے ، زندگی کے مقاصد اور اقدار کا نیا مفہوم عطا کرتا ہے اور جدوجہد کا مخصوص طریقہ سکھاتا ہے جو اس کے مزاج اجتماعی کی صحیح ترجمانی کرتا ہے ۔

تاس کی چنگاریوں کا مرکز انسانی نفوس نہیں ہوتےنچنانچہ وہ محرک نب تحریک کے طلوع کا باعث بنتا ہے آافتا اولین جو تاس کی حرارت اور سرگرمی کا ماخذ ہوتا ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے وہ اور نہ مادی کائنات کا کوئی گوشہ

ارضی سے ماوراء اور عالم بشری سے بالاتر ماخذ سے صادر ہوتا ہے ۔ اور یہی وہ خاص خوبی ہے جو اسلzمیۂمحرک کرتاس کے اجزائے ترکیبی کو دوسرے تمام معاشروں سے ممیز کرتی ہے ۔ معاشرے اور

تم عمل تحریک اسلامی کے فطری عوامل اور اس کا مخصوص نظاآانے سے پہلے انسان آاتا ہے اس کے وجود میں ہلہی سے پردۂ غیب سے وجود میں نر ا یہ غیر مادی عنصر جو تقدیناسی عنصر کے ہوتا۔ نہیں انسان کی کسی کوشش کو دخل بھی میں آاغاز تاس کے اور ہے ہوتا بالکل خالی کا ذہن تاس کی طرف سے تاٹھاتی ہے ۔ اور اس کے ساتھ ہی مطالبے پر تحریک ایک اسلzمی معاشرے کی تخم ریزی کا پہلz قدم "انسان سازی" کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔ ایک ایسے انسان کی تیاری کی مہم شروع ہو جاتی ہے جو اس عقیدہ پر

اا تقدیر خداوندی نے جاری فرمایا ہے ۔ اگر ایک انسانی فردنایمان رکھتا ہو جو منبع غیب سے القاء ہوا ہے اور جسے خالص

143

Page 144: Jada o Manzil Complete

اا اسلzمی معاشرے کی داغ بیل پڑ جاتی ہے ۔ یہ فرد واحد اس نئے عقیدہ کو آاتا ہے تو اصول بھی اس عقیدہ پر ایمان لے تاسے اپنے نہا تاٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔ اسںقبول کرنے کے بعد خانۂ دماغ کی زینت بنا کر نہیں رکھتا، بلکہ وہ اسے لے کر

عقیدے کی یہی فطرت ہے اور ایک توانا اور فعال تحریک کی فطرت بھی یہی ہوتی ہے ۔ جس بالاتر طاقت نے اس عقیدہ کا چراغ انسان کے دل میں روشن کیا ہے وہ خوب جانتی ہے کہ یہ عقیدہ وادئ دل سے نکل کر کائنات انسانی کے ذرہ ذرہ پر نقش ثبت کر کے رہے گا، اور وہ پہلz شعلۂ فروزاں جس کی بدولت دل کی دنیا نور عقیدہ سے منور ہوتی ہے وہ

اا باہر کی دنیا میں بھی پھیل کر رہے گا۔ لازمتان کو بتاتا ہے کہ: "اب اس عقیدہ پر ایمان لانے والوں کی تعداد جب تین افراد تک پہنچ جاتی ہے تویہ عقیدہ تم ایک معاشرہ بن گئے ہو، ایک جداگانہ اسلzمی معاشرہ، اور اس جاہلی معاشرے سے ممتاز معاشرہ، جو اس عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتا اور جس میں اس عقیدہ کی بنیادی اقدار کو بالاتری حاصل نہیں ہوتی )وہی بنیادی اقدار جن کی طرف

آائے ہیں آاگے بڑھ کر دس بن جاتے۔ "(ہم اوپر اشارہ کر آا گیا ہے ۔ یہی تین افراد اب اسلzمی معاشرہ بالفعل وجود میں ناس طرح اسلzمی معاشرے کا ڈھانچہ12ہیں، اور دس کی جدوجہد سے سو ۔۔۔۔۔۔ ہزار ۔۔۔۔۔۔ ہزار بن جاتے ہیں۔ اور

متشکل ہوتا جاتا ہے ، اور اس کی جڑیں گہری ہوتی جاتی ہیں۔ اس تحریکی ترقی کے دوران میں جاہلیت سے کشمکش بھی چھڑچکی ہوتی ہے ۔ ایک طرف وہ نومولود معاشرہ ہوتا ہے جو عقیدہ و تصور کے لحاظ سے ، اقدار حیات اور تہذیبی پیمانوں کے لحاظ سے ، اپنے تنظیمی ڈھانچے اور جداگانہ وجود کے لحاظ سے جاہلی معاشرے سے الگ ہوچکا ہوتا ہے ، اور دوسری طرف جاہلی معاشرہ ہوتا ہے جس کے اندر اسلzمی معاشرہ موزوں افراد کو چھانٹ کر اپنے اندر جذب کرتاس کے ایک نمایاں اور قائم بالذات معاشرے کی آاغاز سے لے کر لیتا ہے ۔ یہ تحریک اس درمیانی مرحلہ میں جو اس کے آازمائش کر صورت میں نمایاں ہونے تک کی مدت پر پھیلz ہوتا ہے ، اپنے معاشرے کے ہر ہر فرد کی خوب اچھی طرح چکی ہوتی ہے ، اور معاشرے کے اندر ہر فرد کو وہی مرتبہ و مقام اور وزن دیتی ہے جس کا وہ اسلzمی میزان اور اسلzمیتاس کے اس مرتبہ و مقام کا اعتراف کیا جاتا ہے ترو سے مستحق ہوتا ہے ۔ معاشرے کی طرف سے خود بخود کسوٹی کی تاس کا اعلzن کرتا آاتی کہ خود بڑھ کر اپنی اہلیت کا ثبوت پیش کرے اور پھر تاس کو اس بات کی ضرورت پیش نہیں اور تاس کے معاشرے پر بالاتری حاصل ہوتی ہے تاس کی ذات پر اور تاس کا عقیدہ اور وہ مقدس اقدار جنہیں پھرے ۔ بلکہ تاٹھ رہی ہیں تاس کی جانب آاس پاس تاس کے تھپا کر رکھے جو آاپ کو چ تاسے مجبور کرتی ہیں کہ وہ ان نگاہوں سے اپنے تاسے کوئی ذمہ دارانہ منصب سونپنا چاہتی ہیں۔ لیکن تحریک ۔۔۔۔۔۔ جو عقیدہ اسلzمی کا طبعی نتیجہ اور اس عقیدہ اور کی کوکھ سے جنم لینے والے معاشرے کا فطری جوہر ہے ۔۔۔۔۔۔ اپنے کسی فرد کو گوشۂ مخمول کی نذر نہیں ہونےنم عمل ہو، اس کے عقیدہ میں جوش و خروش ہو، اس کے دیتی۔ اس تحریک کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ سرگرتاس کا معاشرہ سیمابی کیفیت کا حامل ہو اور اس توانا معاشرے کی تکمیل کے لیے ہر شخص دانۂ خون میں حرارت ہو، تاس کے ماحول پر مسلط ہے ، جس کے تپور مقابلہ کرے جو سپند کی مانند مضطرب و بے قرار ہو۔ اور اس جاہلیت کا بھر

144

Page 145: Jada o Manzil Complete

بچے کھچے اثرات خود اس کے اپنے نفس میں اور اس کے ساتھیوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔ پس یہ کشمکش ایک دوامی کشمکش ہے ۔ یہی مفہوم ہے اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جس میں فرمایا گیا ہے کہ جہاد قیامت تک

کے لیے جاری و ساری رہے گا۔ اپنے سفر کے دوران میں تحریک جن نشیب و فراز سے گزرتی ہے وہی دراصل یہ طے کر دیتے ہیں کہ تحریکی

تاس کا دائر کار کیا ہے ۔ یہ بات نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ افرادۂمعاشرے کے اندر ہر ہر رکن کی حیثیت اور پہنچتی پایۂ تکمیل تک آاہنگی کی بدولت ہی تحریک ہلی قسم کی مناسبت اور ہم اع اور مناصب و فرائض کے درمیان نب تکمیل اس کی دو ایسی نمایاں خصوصیتیں ہیں جو اس آاغاز و نشو و نما اور یہ اسلو نز ہے ۔ اسلzمی معاشرے کا یہ طرنق کار کو دوسرے تمام معاشروں کے وجود و ترکیب کو، اس کے مزاج اور شکل کو، اس کے نظام اور اس کے عملی طری

ز کرتی ہیں اور اسے منفرد اور جداگانہ حیثیت عطا کرتی ہیں۔ اس کے بعد یہ سوال ہی خارج از بحث ہو جاتا´سے ممی������� ہے کہ دوسرے اجتماعی نظریات کے ذریعہ بھی اسلzمی معاشرہ اور اس کے ان تمام اوصاف کو جن کا ہم نے ابھی ذکرنم تعلیم کے ذریعہ ان کو سمجھا جا سکتا ہے جو اس کی فطرت کے کیا ہے حاصل کیا جا سکتا ہے ، یا کسی ایسے نظا

نم حیات سے مستعار طریقہ کار کے ذریعے قائم کیا جا سکتا ہے ۔ خلzف ہو یا انہیں کسی دوسرے نظا

ہے اسلامی تہذیب پوری انسانیت کی میراث عام ڈگر سے ہٹ کر ہم نے "تہذیب" کی جو تعریف کی ہے ، اس کی روشنی میں اسلzمی معاشرہ محض ایکند حاضر کی طلب اور تاریخی مرحلے کا نام نہیں ہے جسے صرف اوراق ماضی میں تلzش کیا جا سکتا ہے ۔ بلکہ یہ عہآائندہ آاج بھی شرف یاب ہو سکتی ہے اور آارزو اور تمنا ہے ۔ یہ وہ گوہر مقصودہے جس سے تمام انسانیت مستقبل کی آاج وہ لڑھک رہی ہے ، اس قعر تاس قعر مذلت سے نکل سکتی ہے جس میں بھی۔ اور اس کی بدولت وہ جاہلیت کے

بھی گری ہوئی ہیں جو صنعتی اور اقتصادی ترقی میں دوسروں کی امام ہیں وہ بھی جو پسماندہ اورںمذلت میں وہ قومیکمزور کہلzتی ہیں۔

آائے ہیں، انسانی اقدار ہیں، انسانیت نے ان اقدار کو اب تک صرف یہ اقدار جن کی طرف ہم مجمل اشارہ کر ندور میں جلوہ گر دیکھا ہے ، اور وہ تھا "اسلzمی تہذیب" کا دور ۔۔۔۔۔۔۔۔ "اسلzمی تہذیب" سے ہماری مراد وہ ایک تہذیب ہے جس میں یہ اقدار بدرجہ اتم پائی جاتی ہوں۔ اور جو تہذیب ان اقدار سے خالی ہو چاہے وہ صنعت و اقتصاد

اور سائنس میں کتنی ہی بام عروج پر ہو، اسلzمی تہذیب ہر گز نہ ہوگی۔ یہ اقدار محض تخیل کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ سر تا پا عملی اقدار ہیں اور حقیقت کی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ انسان جب بھی صحیح اسلzمی مفہوم کی روشنی میں ان کو بروئے کار لانے کی کوشش کرے گا، ان کو پا لےپایا جاتا ہو اور صنعت و پہنایا جا سکتا ہے ، خواہ وہاں کوئی سا نظام زندگی ہر ماحول میں عملی جامہ گا۔ ان کو

ارضی کے کسی بھی پہلو میںناقتصاد اور سائنس میں اس کی ترقی کی حد خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ اقدار خلzفت

145

Page 146: Jada o Manzil Complete

انسان کو ترقی سے نہیں روکتیں۔ کیونکہ اسلzمی عقیدہ کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ ہمہ پہلو ترقی کی حوصلہ افزائینر حیات ان ممالک کے اندر خاموش تماشائی بن کر رہنے پر بھی راضی نہیں جو کرتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ اقدا اخلzقی میدان میں پسماندہ ہیں۔ یہ ایک عالم گیر تہذیب ہے اور ہر ماحول میں اور ہر خطے میں پروان چڑھ سکتی ہیں مگر انہی اقدار کے ستونوں پر جو اس کی اپنی امتیازی اقدار ہیں۔ رہی ان اقدار کی مادی تشکیلzت اور مظاہر تو ان کیتانہی صلzحیتوں اور قوتوں کو، جو بالفعل وہاں پائی تحدید اور حصر ناممکن ہے کیونکہ مادی تشکیلzت ہر ماحول میں

جاتی ہیں، استعمال کرتی ہیں اور ان کو نشو و نما دیتی ہیں۔ زندگی کے اعتبار سےناس سے یہ واضح ہو گیا کہ اسلzمی معاشرہ اپنی ہیئت و صورت، حجم و وسعت اور طرز

اا ایسی اقدار ناسلzمی معاشرہ کا وجود اور اس کی تہذیب لازم تو بلzشبہ جامد اور غیر متبدل تاریخی تصویر نہیں ہے مگر آاشنا اور تاریخ انسانی کے اٹل حقائق ہیں۔ زندگی کی ان اسلzمی اقدار کو میر نا سے مربوط ہوتا ہے جو حد درجہ ٹھوس، تغ جب ہم "تاریخی حقائق" کہتے ہیں، تو اس سے ہماری مراد صرف اتنی ہوتی ہے کہ یہ اقدار تاریخ کے ایک مخصوص مرحلے میں جلوہ گر رہی ہیں اور انسان ان کو خوب جانتا پہچانتا ہے ۔ ان کو تاریخی اقدار قرار دینے کا یہ مقصد ہر گز نہیں ہے کہ یہ تاریخ کی پیدا کردہ ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدار اپنی فطرت کے لحاظ سے کسی مخصوص زمانے سےآائی ہیں جوربانی منبع ہے ، اور تاس سرچشمۂ ازل سے ندور کے لیے ہیں، اور یہ انسانوں کے پاس وابستہ نہیں ہیں، بلکہ ہر

جو دائرۂ انسانیت سے بلکہ خود مادی کائنات کے دائرہ سے ماوراء اور بالاتر ہے ۔

زمانے اور ماحول کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں اسلامی تہذیب کی مادی شکلیں اسلzمی تہذیب اپنی مادی اور ظاہری تنظیم کے لیے گوناگوں اور بوقلموں شکلیں اختیار کر سکتی ہے لیکن یہپر استوار ہوتی ہے وہ بیشک دائمی اور جامد اقدار ہیں، اس لیے کہ وہ اس تہذیب کے تہذیب جن اصولوں اور قدروں حقیقی ستون اور پشتیبان ہیں، اور وہ ہیں: صرف خدا کی بندگی، عقیدۂ توحید کی بنیاد پر انسانی اجتماع، مادیت پر انسانیت کا غلبہ، انسانی اقدار کا فروغ اور اس کے ذریعے انسان کے اندر کے حیوان کی تسخیر اور انسانیت کی نشو وہلی کی خلzفت کا قیام اللہ ہی کی ہدایت و تعلیم اور عہد و نما میں استعمال، خاندانی نظام کا احترام، زمین پر اللہ تعا

ہلہی طریق حیات کی حکمرانی! شرط کے مطابق، اور خلzفت کے تمام معاملzت پر صرف اللہ کی شریعت اور اتان صلzحیتوں کو استعمال کرتی ہے جو جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ اسلzمی تہذیب مادی تنظیمات کے لیے بالفعل کسی ماحول میں موجود ہوتی ہیں، اس لیے اسلzمی تہذیب کی مادی صورتیں اور خاکے پائیدار اور ابدی اقدار پر استوار ہونے کے باوجود صنعتی، اقتصادی اور سائنٹفک ترقی کے مختلف درجوں اور مرحلوں سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے ان شکلوں اور خاکوں میں برابر تبدیلی ہوتے رہنا ناگزیر ہے بلکہ یہ تبدیلی بجائے خود یہ ضمانت فراہم کرتی ہے کہ اسلzم کے اندر ایسی لچک اور گنجائش موجود ہے کہ وہ ہر قسم اور ہر سطح کے ماحول میں داخل ہو کر زندگی کوپذیری کاوجود تغیر اور میں لچک اور خارجی صورتوں تہذیب کی ظاہری اسلzمی ۔ ہے منشا ڈھال سکتا اپنے حسب

146

Page 147: Jada o Manzil Complete

عقیدۂ اسلzم پر جو تہذیب کا ماخذ ہے ، کہیں باہر سے ٹھونسا نہیں گیا ہے بلکہ یہ خود اس عقیدہ کی فطرت اور مزاجتاسے مادۂ سیال میں کا تقاضا ہے ۔ البتہ یہ پیش نظر رہے کہ کسی چیز کے لچک دار ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ

تبدیل کر دیا جائے ۔ لچک میں اور اس طرح کے سیال پن میں بہت بڑا فرق ہے ۔ اسلzم نے وسطی افریقہ کے ننگ دھڑنگ اقوام کے اندر تہذیب کی بنیاد ڈال دی تھی، اور اس کا اثر یہ تھا کہ جہاں جہاں اور جیسے جیسے وہ اسلzم سے متاثر ہوتے عریانی اور ننگے جسم ستر پوش ہوتے جاتے اور برہنہ گھومنے والے

یمات ہی کا کرشمہ تھا، ان تعلیمات کا، جول تہذیب میں داخل ہو جاتے ۔ یہ سب اسلzمی تعۂانسان لباس پہن کر دائر لا بخشتیں اورنفکر انسانی کو عزلت و تنہائی سے نکال کر بصیرت افروز حقائق سے روشناس کرتیں، انسانی ذہنوں کو ج اثر انسان قبیلہنانسانوں کو اس قابل بنا دیتیں کہ وہ کائنات کے مادی خزانوں کو اپنے تصرف میں لا سکیں۔ ان کے زیر

اور برادری کے محدود دائروں سے نکل کر امت اور ملت کے دائرہ میں داخل ہو جاتے ۔ اور غاروں میں بیٹھ کر سورج عالم کی بندگی اختیار کر لیتے ۔۔۔۔۔۔۔ پس اگر اس عظیم انقلzب کا نامندیوتا کی پرستش کرنے کے بجائے پروردگار

تہذیب نہیں ہے تو پھر تہذیب کس بلz کا نام ہے ؟ یہ اس خاص ماحول کی تہذیب ہے جو اپنے اندر بالفعل پائے جانے والے وسائل و ذرائع پر اعتماد کرتا ہے ۔ اگر اسلzم کسی اور ماحول میں داخل ہوگا، تو وہاں وہ اپنی تہذیب کو وہ شکلتاس کے اندر بالفعل پائی جانے والی صلzحیتوں کو استعمال کرنے اور انہیں دے گا جو اس ماحول کے وسائل و ذرائع اور فروغ صنعتی، و قیام کا تہذیب تحت کے حیات طریق اسلzمی الغرض ۔ ہے لیے ضروری کے دینے نما و نشو مزید اقتصادی اور علمی ترقی کے کسی مخصوصی معیار پر موقوف نہیں ہے ، تہذیب جہاں بھی قائم ہوگی وہاں کے مادیہلی و ارفع حیثیت وسائل و امکانات کا پورا پورا استعمال کرے گی اور انہیں مزید ترقی دے گی، ان کے مقاصد کو اعتان عطا کرے گی، اور جہاں جہاں مادی وسائل و امکانات موجود نہ ہوں گے وہاں تہذیب خود ان کو مہیا کرے گی اور کے نشو و نما اور ترقی کا انتظام کرے گی، لیکن قائم بہرحال وہ اپنے مستقل، پائدار اور ابدی اصولوں پر ہی ہوگی۔ اورتاس کا مخصوص مزاج اور مخصوص تحریکی نظام ہر حال میں باقی آائے گا تاس کے ذریعہ جو اسلzمی معاشرہ وجود میں آانے کے بعد پہلے روز سے ہی اسے دوسرے تمام رہے گا، وہ مزاج اور تحریکی نظام جو اسلzمی معاشرے کے وجود میں

جاہلی معاشروں کے مقابلے میں ممتاز اور الگ کر دیتا ہے : "صبغۃ اللہ و من احسن من اللہ صبغۃ؟"

147

Page 148: Jada o Manzil Complete

واپس اوپر جائیے

باب ہشتم

اسلzم اور ثقافتترکن کا پہلz ج����� ز یہ ہے کہ بندگئ مطلق صرف اللہ کےتچھٹی فصل میں ہم بتا چکے ہیں کہ اسلzم کے پہلے

ہضی کی شہادت ادا کی جاتی ہے ۔ اس رکن کا دوسرا ج������ ز یہتلیے مخصوص ہے اور لا الہ الا اللہ میں اسی مفہوم اور مقت ہے کہ اس بندگی کی تفصیل اور صحیح کیفیت جاننے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائےناسی امر کی جانب اشارہ کیا گیا ہے ۔ اللہ کی بندگئ مطلب کی عملی صورت ۔ "محمد رسول اللہ" کی شہادت میں اا تسلیم کیا جائے ۔ کسی مسلمان کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں ہو سکتا اz اور قانون اا، عمل یہ ہے کہ صرف اللہ کی ذات کو اعتقاد کہ اللہ کے سوا کسی اور کو بھی خدائی کا منصب حاصل ہے اور نہ مسلمان ہوتے ہوئے کوئی شخص یہ تصور رکھ سکتا ہے کہ خدا کے سوا کسی مخلوق کی عبادت بھی کی جا سکتی ہے یا کسی کو حاکمیت کا مقام دیا جا سکتا ہے ۔آائے ہیں کہ عبودیت، عقیدہ اور عبادات کا صحیح مفہوم و مدعا کیا ہے ۔ گزشتہ صفحات میں ہم یہ بات بھی واضح کر

148

Page 149: Jada o Manzil Complete

)نزیر بتائیں گے کہ حاکمیت ہم میں کاSovereignty بحث فصل مفہوم اور اس ہے کیا مفہوم ( کا صحیح ( کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ Cultureثقافت )

ہلہی کا دائرۂ کار تت ا شریع اسلzمی نظریہ کی رو سے اللہ کی حاکمیت کا مفہوم صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ قانونی احکام صرف اللہ سےفیصلے کیے مطابق انہیں کے اور کیا جائے لیے رجوع فیصلوں کے انہیں احکام کی طرف پھر اور اخذ کیے جائیں، جائیں۔ اسلzم میں خود "شریعت" کا مفہوم بھی محض قانونی احکام کے دائرے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہتاس کی مختلف تشکیلzت تک بھی محدود نہیں ہے ۔ شریعت کا یہ تاس کے نظام اور حکمرانی کے اصولی ضوابط، ہلہی نت ا محدود اور تنگ تصور اسلzمی شریعت اور اسلzمی نظریہ کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا۔ اسلzم جس چیز کر شریعہلی نے انسانی زندگی کی تنظیم کے لیے وضع فرمائی ہے ۔ فکر و نظر تاس پوری اسکیم پر حاوی ہے جو اللہ تعا کہتا ہے وہ آائے ہیں اور نل اخلzق و تمدن بھی اس دائرے میں نل حکمرانی بھی، اصو کے ضابطے بھی اس میں شامل ہیں اور اصو

ہلہی انسانی فکر و نظر کے ہر زاویے کا احاطہ کرتی ہے ۔ نت ا نن معاملzت اور ضوابط علم و فن بھی شریع قوانینقطۂ نظر، مادی دنیا ہو جو بارے میں اس کا یا کائنات کے بارے میں انسان کا تصور ہو، ہلہی کے ا نت ذا انسان کے ادراک اور مشاہدے کی زد میں ہے ، یا ماورا الطبیعت حقائق، جو انسانی حواس و ادراک کی گرفت سے باہر ہیں، زندگی کا تکوینی دائرہ ہو یا تشریعی، انسان کی حقیقت و ماہیت کا سوال ہو یا اس کائنات میں خود انسان کی

زندگی کےنحیثیت کی بحث، شریعت اسی طرح ۔ ہے کرتی بحث تمام گوشوں سے ان زندگی کے انسانی اسلzمی اz سیاست و معاشرت اور اقتصاد و عدالت اور ان کے اساسی اصول و قواعد سے بھی شریعت اسلzمی عملی شعبوں مثل

رف نظر نہیں کرتی، بلکہ چاہتی ہے کہ ان کے اندر بھی خدائے واحد کی عبودیت کاملہ کا سکہ رواں ہو۔ اس کےنص�������تان قانونی احکام پر بھی قائم کرنا چاہتی ہے جو ان عملی شعبہ ہائے حیات کی تنظیم کرتے ساتھ ہی وہ اپنی عمل داری آاج کل "شریعت" کا نام دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ شریعت کا یہ تنگ اور محدود مفہوم ہیں )یہ وہی چیز ہے ، جسے بالعموم تاس وسیع تر مفہوم کو ہرگز ادا نہیں کرتا جو اسلzم میں اختیار کیا گیا ہے ۔( اخلzق اور معاملzت کے ضابطوں میں یہتان اقدار اور پیمانوں کے ذریعہ اس شریعت کا اظہار ہوتا ہے جو معاشرے میں پائے جاتے ہیں شریعت کار فرما ہوتی ہے ، اور

ذا القیاس یہ شریعت علمہاور جو اجتماعی زندگی میں اشخاص اور اشیاء اور اعمال کا وزن اور قیمت طے کرتے ہیں۔ علی ہ و فن کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہوتی ہے اور تمام فکری کاوشوں اور فنی سرگرمیوں میں اس کا ظہور ہوتا ہے ۔ ان میں بھیہلہی کے تاسی اللہ کی رہنمائی کے محتاج ہیں جس طرح جدید اور محدود مفہوم کے قانونی احکام میں ہم ہدایت ا ہم

حاجت مند ہیں۔ ہلہی کو تسلیم کرنے کا سوال ہے وہ ہماری گزشتہ نت ا چنانچہ جہاں تک حکومت اور قانون کے باب میں حاکمی بحثوں میں واضح ہو چکی ہوگی۔ اسی طرح اخلzق و معاملzت اور معاشرے کی اقدار اور رد و قبول کے پیمانوں کے اندر

149

Page 150: Jada o Manzil Complete

ہلہی کے نفاذ کی ضرورت بھی کسی نہ کسی حد تک امید ہے واضح ہو چکی ہوگی۔ اس لیے کہ معاشرے نت ا حاکمی کے اندر جو قدریں پائی جاتی ہیں، رد و قبول کے جو پیمانے رائج ہوتے ہیں، اخلzق اور معاملzت کے جو ضابطے جاریتان کے سوتے بھی تاس معاشرے پر غالب ہوتے ہیں، تان تصورات سے ماخوذ ہوتے ہیں جو و ساری ہوتے ہیں وہ بلz واسطہ

تاسی سرچشمہ سے پھوٹتے ہیں جہاں سے ان تصورات کی تہ میں کار فرما عقیدہ ماخوذ ہوتا ہے ۔لٹریچر کے قارئین کرام کے لیے بھی باعث حیرت و تکجا خود اسلzمی تو لیکن جو بات عام لوگوں کے لیے

اا ہمارا مرجع´استعجاب ہوگی وہ یہ ہے کہ فکری اور فنی میدانوں میں بھی اسلzمی تصو ر اور ربانی ماخوذ و منبع کو ہی لازماور راہنما ہونا چاہیے ۔

آا چکی ہے جس میں اس موضوع پر اس نقطۂ نظر آارٹ( کے موضوع پر ایک مستقل کتاب منصۂ ظہور پر فن ) اور۔سے کلzم کیا گیا ہے کہ تمام فنی کاوشیں در حقیقت انسان کے تصورات اور اس کے وجدان و انفعال کی تعبیر ہیں

تاس کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ انسان کے وجدان میں ہستی اور زندگی کی جو اور جیسی کچھ تصویر پائی جاتی ہے وہ تمام امور ایسے ہیں جنہیں اسلzمی تصور نہ صرف کنٹرول کرتا ہے بلکہ ایک مومن و مسلم کے وجدان میں ان کی تخلیق بھی کرتا ہے ۔ کیونکہ اسلzمی تصور کائنات، انسان کی ذات اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط ہوتا ہے اور ان تمامتاس کی نشان دہی کرتا ہے ۔ اس کا خصوصی موضوع ہے : انسان کی حقیقت پہلوؤں کا ان کے خالق سے جو تعلق ہے

فرض کا اس ند وجود، مقص کا اس حیثیت، تاس کی اندر کائنات کے ناس نرناور اقدا زندگی کی اس کی اور منصبی، حقیقی !! یہ سب اسلzمی تصور کے ضروری اجزا ہیں کیونکہ اسلzمی تصور محض ایک فکری اور تجریدی ڈھانچہ نہیں ہے بلکہ ایک زندہ، فعال، اثر انگیز اور محرک حقیقت کا نام ہے جو ان تمام جذبات و تاثرات و پر تصرف کرتا ہے جو

۔ 33انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں الغرض فکر و فن کا مسئلہ اور فکر و فن کو اسلzمی تصور اور ربانی منبع سے وابستہ کرنے کی بحث تاکہ اس پہلو میں بھی اللہ کی بندگئ کامل کا اظہار ہو ہم سے مفصل گفتگو کا تقاضا کرتی ہے ، اور جیسا کہ ہم نے ابھی عرض کیا ہے عہد حاضر کے تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے بلکہ خود ان مسلمانوں کے لیے بھی جو اللہ کی حاکمیت اور

قانون سازی کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں یہ بحث نرالی اور اچھوتی بحث ہوگی۔

ہلہی کا پابند ہے وہ علوم جن میں انسان وحی ا مسلمان کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے معاملہ میں جس کا تعلق عقیدہ، ہستی کے عمومی تصور، عبادات، اخلzق و معاملzت، اقدار و معیارات، سیاست و اجتماع، معیشت کے اصول و قواعد، انسانی سرگرمیوں کے محرکات کی توجیہ، یا انسانی تاریخ کی تعبیر سے ہو اللہ کے سوا کسی اور ماخذ و منبع سے رہنمائی اور روشنی

یہ اقتباس محمد قطب کی کتاب "منہج الفن الاسلzمی" سے ماخوذ ہے ۔ مصنف سے اسی کتاب کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ 33

150

Page 151: Jada o Manzil Complete

لیے ایسے اور روشنی کے حصول کے رہنمائی پابند ہے کہ وہ اس بھی امر کا حاصل کرے ۔ اسی طرح مسلمان اس تاسے اعتماد ہو اور جس کے عقیدہ و عمل میں تضاد اور دو رنگی نہ ہو۔ ہی پر مسلمان کو ذریعہ بنائے جس کے دین و تقو

ہلہی کا پابند نہیں ہے وہ علوم جن میں انسان وحی ا البتہ مسلمان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ علوم مجروہ کو مسلمان اور غیر مسلم سبھی سے حاصل کر سکتا

( کیمیا zا مثل )Chemistryہے طبعیات ،)Physics( حیاتیات ،)Biology( فلکیات ،)Astronomy( طب ،)Medicine( صنعت ،)Industry( زراعت ،)Agricultureنظم و ،)

نن حرب )فنی پہلو سے ( اور انہیAdministrationنسق ) ( )صرف فنی پہلو کی حد تک(، ٹیکنالوجی، فنو جیسے دوسرے اور علوم و فنون، اگرچہ اصل الاصول یہ ہے کہ مسلم معاشرہ جب وجود پذیر ہو جائے تو وہ خود کوشش

کفایہ ہیں۔ اننکرے کہ ان تمام میدانوں کے اندر یہ صلzحیت بافراط پیدا کرے ۔ اس لیے کہ یہ تمام علوم و فنون فرض کے اندر کچھ لوگوں کا خصوصی مہارت اور قابلیت پیدا کرنا ضروری ہے اور اگر یہ صلzحیتیں پیدا نہ کی جائیں گی اورتاجاگر ہوں، پروان چڑھیں، رو بعمل ہوں اور مفید نتائج پیدا ایسی فضا بھی مہیا نہ کی جائے گی جس میں یہ صلzحیتیں آائے مسلمان کو اجازت ہے کہ کریں تو پورا معاشرہ بحیثیت مجموعی گناہ گار ہوگا۔ لیکن جب تک یہ سب کچھ میسر نہ

ور غیر مسلملموہ یہ علوم و فنون اور ان کی عملی تشریحات مسلم اور غیر مسلم سبھی سے حاصل کر سکتا ہے ، اور مس دونوں کی کاوشوں اور تجربوں سے استفادہ کر سکتا ہے ، اور مسلم اور غیر مسلم کو بلz تفریق یہ خدمات سونپ سکتا ہے ،۔ یہ ان امور میں شامل ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : "انتم اعلم بامور دنیاکم" )تممیں بارے کائنات کے و ہے جو حیات نہیں امور سے ان تعلق کا ان ہو(۔ بہتر سمجھتے زیادہ کو امور دنیاوی اپنے

تخلیق اور انسان کی ذمہ داری کی حقیقت اور اردنمسلمان کے تصور سے تعلق رکھتے ہیں یا انسان اور انسان کے مقصد ہستی کے ساتھ اس کے تعلق سے بحث کرتے ہیں۔ ان کانگرد کی کائنات سے انسان کے تعلقات کی نوعیت اور خالق

تعلق ان اصول و ضوابط اور قوانین و شرائع سے بھی نہیں ہے جو فرد اور جماعت کی زندگی کی تنظیم کرتے ہیں۔ اخلzقآاداب اور رسوم و روایات اور ان اقدار و معیارات سے بھی ان کا تعلق نہیں ہے جن کو معاشرے میں سیادت حاصل ہوتی و ہے اور جو معاشرے میں اپنے نقش و نگار ابھارتے ہیں لہذا ان علوم کے حصول میں مسلمان کو یہ خطرہ نہیں ہے کہ اس

کے عقیدہ میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے گی یا وہ جاہلیت کی طرف پلٹ جائے گا۔ لیکن جہاں تک انسانی جدوجہد کی توجیہ کا تعلق ہے خواہ وہ جدوجہد انفرادی صورت میں ہو یا اجتماعیسے نظریات کے تاریخ انسانی اور ذات کی انسان راست براہ تعلق کا جدوجہد اس اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں صورت آاغاز، زندگی کی ابتداء اور خود انسان کی ابتداء کی تعبیر و توجیہ کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح جہاں تک کائنات کے

( سے ہے )اور کیمسٹری، فزکس، فلکیات اورMetaphysicsتعلق ہے تو چونکہ ان سب امور کا ماوراء الطبعیات ) طب وغیرہ سے اس کا تعلق نہیں ہے ( اس لیے ان کی وہی حیثیت ہے جو انسان کی زندگی اور انسانی تگ و دو کو

151

Page 152: Jada o Manzil Complete

منظم کرنے والے اصول و ضوابط اور قوانین و شرائع کی ہے ۔ ان کے رشتے بلz واسطہ عقیدہ و تصور سے ملتے ہیں۔ لہذاتاسے یہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان امور کو مسلمان کے سوا کسی اور سے حاصل کرے بلکہ تاسے پختہ یقین ہو کہ وہ تاسے کامل بھروسہ ہو، اور ہی پر تاسی مسلمان سے حاصل کرنے چاہئیں جس کے دین و تقو صرف ان امور میں صرف اللہ سے رہنمائی حاصل کرتا ہے ۔ اصل غرض یہ ہے کہ مسلمان کے احساس و شعور میں یہ حقیقت پوری طرح جاگزیں ہو جائے کہ ان تمام امور کا تعلق عقیدہ سے ہے ، اور وہ یہ اچھی طرح جان لے کہ ان امور میں وحیہلہی سے روشنی اخذ کرنا اللہ کی بندگی کا لازمی تقاضا یا اس شہادت کا ناگزیر نتیجہ ہے جس میں یہ اعلzن کیا گیا ا

ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ آاثار اس میں البتہ کوئی قباحت نہیں کہ ایک مسلمان ان امور میں جاہلی تحقیقات اور کاوشوں کے تمام نتائج و مواد ادراک کا لیے تصور و اپنے بارے میں ان سے امور کے نہيں کہ وہ ان نظر سے نقطۂ لیکن اس کھنگال ڈالے ، حاصل کرے بلکہ صرف یہ جاننے کے لیے کہ جاہلیت نے کیا کیا انحراف کی راہیں اختیار کی ہیں اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ان انسانی گمراہیوں کو ختم کیوں کر کیا جا سکتا ہے ، اور کس طرح انسانی کج رویوں کو راست روی میں تبدیل کر کے انسان کو اسلzمی تصور حیات اور اسلzمی عقیدہ کے تحت صحیح اصولوں سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے ۔

انسانی علوم پر جاہلیت کے اثراتآاراء کے جو تعبیر و توجیہ سےنفلسفہ، تاریخ انسانی کی تعبیر، علم النفس )بہ استثنا ان مشاہدات اور اختلzفی

بحث نہیں کرتیں(، اخلzقیات، مذہبیات اور مذاہب کا تقابلی مطالعہ، سماجی اور عمرانی علوم )مشاہدات، اعداد و شمارنہ راست حاصل کردہ معلومات کو چھوڑ کر صرف ان نتائج کی حد تک،جو ان معلومات اور مشاہدات سے کشید اور براترخ اور نصب العین کیے گئے ہیں اور وہ اساسی نظریات جو ان کی بنیاد پر مترتب ہوتے ہیں( ان تمام علوم کا مجموعی نہ راست متاثر رہا ہے ، بلکہ جاہلی معتقدات و خرافات قدیم اور جدید، ہر دور میں، اپنے جاہلی عقائد اور خرافات سے براتان کی عمارت تعمیر ہوتی رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان علوم میں سے بیشتر علوم اپنے بنیادی اصولوں میں مذہب پر ہی

تھپی عداوت رکھتے ہیں۔ تھلی یا چ سے متصادم ہیں اور مذہب کے تصور سے بالعموم اور اسلzمی تصور سے بالخصوص کتاس اہمیت کے حامل نہیں ہیں جو کیمسٹری، فزکس، فلکیات، حیاتیات اور انسانی فکر و علم کے یہ گوشے طب وغیرہ کو حاصل ہے ، بشرطیکہ مؤخر الذکر علوم صرف عملی تجربات اور عملی نتائج کی حد تک ہیں، اور اس حداz ڈارون ازم نے کو پھاند کر فلسفیانہ تاویلzت و توجیہات )خواہ کسی صورت میں ہوں( تک تجاوز نہ کریں۔ جیسا کہ مثلدلیل بلz کسی کر پھلzنگ جائز حدود اپنی دیتے دیتے انجام سر کام کا ترتیب و اثبات کے مشاہدات میں حیاتیات آاغاز وحجت کے بلکہ بلz کسی ضرورت کے ، محض جذبات سے مغلوب ہو کر یہ نظریہ بھی پیش کر دیا کہ زندگی کے تاس کے ارتقاء کے لیے طبعی دنیا سے بالاتر کسی قوت کا وجود فرض کرنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اور

۔

152

Page 153: Jada o Manzil Complete

مسلمان کے پاس ان معاملzت کے بارے میں اپنے پروردگار کی طرف سے ضروری اور اٹل معلومات پہنچ چکیہلی و ارفع ہیں کہ ان کے مقابلے میں انسانی معلومات اور کاوش نہایت مضحکہ خیز اور ہیچ معلوم ہیں، اور وہ اس درجہ اع ہوتی ہے ، مگر اس کے باوجود انسان اس دائرے میں دخل اندازی کا مرتکب ہوتا ہے ، جس کا تعلق براہ راست عقیدہ اور

بندگئ رب سے ہے ۔

ثقافت اور صیہونیت د نہیں ہے ، نہ اس کی کوئی´یہ بات کہ ثقافت ایک انسانی میراث ہے ، یہ کسی مخصوص وطن سے مقی�����������

ن مذہب سے رشتہ ہے یہ بیان سائنسی اور فنی علوم اور ان کی علمی تشریح´مخصوص قومیت ہے اور نہ اس کا کسی معی کی حد تک تو صحیح ہے ۔ بشرطیکہ ہم ان علوم کو دائرہ کار کو پھاند کر اس حد تک تجاوز نہ کر جائیں کہ ان علوم

( کرنے لگیں، اور انسان، اور انسانMetaphysical Interpretationsکے نتائج کی فلسفیانہ تعبیر )تعبیر کے مظاہر تک کی پڑ جائیں۔ اور فن و ادب اور وجدانی تاویل میں تاریخ کی فلسفیانہ اور انسانی کی تگ و دو فلسفیانہ توجیہ کر ڈالیں۔ لیکن ثقافت کے بارے میں یہ نظریہ جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے دراصل عالم یہودیت کی مختلف چالوں میں سے ایک چال ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ تمام حدود و قیود کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ جن میں سر فہرست عقیدہ و مذہب کی حدود و قیود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ پامال کر دیا جائے تاکہ یہودیت کا زہر تمام دنیا کے جسم میں جب وہ بے حس،آاسانی سرایت کر جائے اور پھر یہودیوں کو دنیا کے اندر اپنی شیطانی سرگرمیوں کو آالود اور نیم جاں ہو چکی ہو، با خمار نرفہرست سودی کاروبار ہے ۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ تمام آازادی حاصل ہو۔ ان سرگرمیوں میں س جاری رکھنے کی پوری

تسود کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ انسانیت کے خون و پسینہ کا حاصل ان یہودی اداروں کے قبضہ میں چلz جائے جو میں دو قسم کی منظر تجربات کے پس ان کے عملی اور فنی علوم اور تمام سائنسی ان نزدیک اسلzم کے ثقافتیں کارفرما ہیں۔ ایک اسلzمی ثقافت جو اسلzم کے نظریۂ حیات پر قائم ہے اور دوسری جاہلی ثقافت جو بظاہر مختلفہلہ کا مقام دینے النوع مناہج پر قائم ہے مگر درحقیقت ان سب کی اساس و بنیاد ایک ہی ہے ، اور وہ ہے فکر انسانی کو اقرار دیا جائے ۔ اسلzمی نہ اللہ کو مرجع لیے پرکھنے کے تاس کی صحت و عدم صحت کو تاکہ ادعا، اور کا داعیہ و مناہج اور قواعد و اصول ایسے دامن کا تاس اور ، ہے محیط کو سرگرمیوں عملی اور فکری تمام کی انسان ثقافت نت ابدی اور خصائص سے مالا مال ہے جو نہ صرف ان سرگرمیوں کی مزید نشوونما کی ضمانت دیتے ہیں بلکہ ان کو حیا

تحسن بھی عطا کرتے ہیں۔ ہیں یورپ کے تجرباتی علوم اسلامی دور کی پیداوار

( جوEmpirical Sciencesاس حقیقت سے کسی کو بے خبر نہ رہنا چاہیے کہ تجرباتی علوم )ند حاضر میں یورپ کی صنعتی تہذیب کی روح رواں ہیں، ان کی جنم بھومی یورپ نہیں ہے بلکہ اندلس اور مشرق عہتان تعلیمات اور ہدایات سے اخذ کے مسلم ممالک کی اسلzمی یونیورسٹیاں ہیں۔ ان علوم کے بنیادی اصول اسلzم کی

153

Page 154: Jada o Manzil Complete

تاس کے سینے میں مدفون طرح طرح کے ذخائر وخزائن کی جانب کیے گئے تھے جن میں کائنات اور اس کی فطرت اور ہواضح اشارے موجود ہیں۔ بعد میں اسی نہج پر یورپ کے اندر ایک مستقل علمی تحریک برپا ہوئی، اور کشاں کشاں و

رقی اور تکمیل کے مراحل طے کرتی رہی۔ اس عرصہ میں عالم اسلzم کا یہ حال ہوگیا کہ وہ اسلzم سے دور ہوتا چلzت��������� گیا۔ جس کے نتیجے میں اسلzمی دنیا میں یہ علمی تحریک پہلے جمود اور سہل انگاری کا شکار ہوئی اور پھر بتدریجمعاشرے کی داخلی اسلzمی تھا۔کچھ عوامل اس وقت کے متعدد عوامل کو دخل میں ہو گئی۔ اس کے خاتمہ ختم تان لگاتار حملوں سے تھا جو صلیبی اور صیہونی دنیا کی طرف سے اسلzمی ساخت میں مضمر تھے ۔ اور بعض کا تعلق نق کار اخذ کیا تھا اس کا رشتہ اس دنیا پر اس عرصے میں کیے گئے ۔ یورپ نے اسلzمی دنیاسے تجرباتی علوم کا جو طری

یورپ آاخر جب بال اور دیا۔ معتقدات سے کاٹ اسلzمی اور بنیادوں اسلzمی ے چرچ سے ، جو خدائیننے اس کی ( ناسیHeavenly Kingdomبادشاہت تو کیا تعلق نع قط تھا، رہا توڑ مظالم پر انسانوں کر لے آاڑ کی )

نق کار کو بھی اللہ کی ہدایت سے محروم کر دیا تاس نے تجرباتی علوم کے اسلzمی طری ں۔ یو34افراتفری کے دوران میں یورپ کا فکری سرمایہ مجموعی طور پر ہر دور اور ہر جگہ کے لیے جاہلی فکر کی طرح ایک بالکل ہی نئی چیز بن کر رہ گیا جو اپنی فطرت و بنیاد میں اسلzمی تصور سے نہ صرف اجنبی تھا بلکہ اسلzمی تصور کے بالکل متضاد بھی تھا، اور اس سے سربسر متصادم تھا۔ بنا بریں ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ صرف اسلzمی تصور زندگی کے اصول و قواعد کونہ راست اخذ نر بصیرت حاصل کرے ۔ اگر وہ ان تعلیمات کو برا اپنا مرجع ٹھیرائے اور صرف تعلیمات خداوندی ہی سے نو کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو فبہا ورنہ اگر اسے یہ قدرت حاصل نہ ہو تو کسی ایسے خدا پرست مسلمان سے انہیں حاصل

تاسے بھروسہ ہو اور جسے وہ پورے قلبی اطمینان کے ساتھ اپنا ذریعہ علم بنا سکتا ہو۔ ہی پر کرے جس کے دین و تقو

ہے علم میں انفصال درست نہیں ۂعلم اور ذریع یہ نظریہ کہ علم الگ چیز ہے اور ذریعۂ علم الگ، اسلzم اس نظریہ کو ان علوم کے بارے میں تسلیم نہیں کرتا جن کا تعلق عقیدہ کی ان تفصیلzت سے ہے جو ہستی و زندگی، اخلzق و اقدار، عادات و رسوم اور انسانی نفس اور

ے شبہ اسلzم اس حدبانسانی جدوجہد سے متعلق گوشوں کے بارے میں انسان کے نقطۂ نظر پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ تک تو رواداری برتتا ہے کہ ایک مسلمان کسی غیر مسلم کو یا ناخداترس مسلمان کو کیمسٹری، فزکس، فلکیات، طب، صنعت و زراعت، ایڈمنسٹریشن اور ایسے ہی دوسرے فنون میں اپنا ماخذ علم بنائے ، اور وہ بھی ان حالات میں جب کہآاج ان لوگوں کو ہہ یہی صورت کوئی ایسا خدا پرست مسلمان نہ مل رہا ہو جو ان فنون کی تعلیم دے سکے ۔۔۔۔۔۔۔ بعینآاپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ یہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ یہ مسلمان اپنے دین اور اپنے درپیش ہے جو اپنے

ہلہی کےنطریق ا تاس نے خلzفت ہیں جو فراموش کر چکے اور اسلzم کے اس تصور کو ہیں، حیات سے دور ہو چکے امور جو ہے کیا پیش میں بارے کے النوع صلzحیتوں مختلف اور تجربات و علوم ان اور دینے سرانجام کو مقتضیات

" دام النکصملzحظہ ہو کتاب: "المستقبل لھذا الدین" باب: "الف 34

154

Page 155: Jada o Manzil Complete

ہلہی کے تحت سر انجام دینے کے لیے ناگزیر ہیں۔ بہرحال علوم ہ کی حد تک اسلzم مسلمانوجرمخلzفت کو منشائے ا کو اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی غیر مسلم کو اپنا ذریعہ بنا لے ، مگر وہ اس کو اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنےعلیہ وسلم کی اللہ نبوی صلی اور سیرت تفسیر، حدیث آان کی قر اساسات، تصور حیات کی اپنے عقیدہ کے اصول، اپنی نظام، کا اپنی حکومت اطوار، و عادات کی معاشرے اپنے تعبیر، فلسفیانہ کی فلسفہ، حرکت کا تاریخ تشریح، آاخذ سے حاصل کرے یا کسی ایسے مسلمان کو ان سیاست کا ڈھنگ، اپنے ادب و فن کے محرکات بھی غیر اسلzمی م

ہی اور خدا خوفی سے عاری ہو۔ کا ذریعہ بنائے جس کا دین ناقابل اعتماد ہو اور جو تقوبینی میں گزارے ہیں اور اس پورے آاپ سے وہ شخص کر رہا ہے جس نے پورے چالیس سال کتب بات یہ تان کا تاس کا کام صرف یہ رہا ہے کہ انسانی علم و تحقیق نے مختلف گوشوں میں جو نتائج مہیا کیے ہیں عرصے میں

( کر رہا تھاSpecialiseزیادہ سے زیادہ مطالعہ کرے ۔ علم و تحقیق کے کچھ شعبے وہ تھے جن میں تخصص )آاگہی کے انبار کو تاس نے طبعی میلzن اور فطری رغبت کے تحت خاک چھانی۔ اس سرمایۂ علم و اور کچھ گوشوں میں تاسے معلوم ہوا تان کا مطالبہ کیا تو تاس نے اپنے اصل عقیدہ اور تصور کے سرچشموں کی طرف رجوع کیا اور لے کر جب نان اتھاہ خزانوں کے مقابلے میں نہایت حقیر اور ہیچ میرز ہے )بلکہ اسے حقیر اور آاج تک پڑھا ہے وہ تاس نے کہ جو کچھ تاس نے اپنی زندگی کے چالیس سال کن چیزوں میں گزارے ۔ ہیچ میرز ہونا ہی چاہیے ( وہ اس بات پر نادم نہیں ہے کہ

لیkتکیوں کہ اس مدت میں اس نے gس ہیں،ے کرلVVی معلوم حاالت ہکند پوستے ک ہجا ےن اkت لی یوں کی ہجا M کو ہگمرا kت ،ے ہ دیکھVVا سVVر بچشVVم لی کVVا مVVائیگیے ب کی ہجVVاد ہمشا لیkتے ہ کیا ہ ہجا gس اور کیا ہانداز کا پستی کی ۔ ہنگVVاموںے کھVVوکھلے ک ا

gس ،ے ہ دیکھا ہوکو ہاؤ ۂہنگام مصنوعی اور دعVووں اور اسVتکبار و غVرورے ک ا

gسVV اور ۔ے ہ پرکھVVا خVVوب کVVو انے ک علم مسVVلمان ایVVک ہک ہوگیVVا یقینے ایn ہ)ذریع ذریعوں دونوں)متضاد( لیت( ہذریع اور ہال مسVVتفید وقت بیVVکے س ہجا

یں ۔وسکتا ہن ہہم بایں یںے رائ ذاتی میری ہی ہ یںے س اس ہمعامل ہکیونکے ہ ہن ےہ بVVاال ہک

مVVیزان ،ے جVVائ کیا ہفیصل پر بنیاد کیے رائ ذاتی کی شخص کسی میں اس ہک

nی کی مسلمان کسی میںے مقابلے ک اgسے ہ وزن جو کاے معامل اس میں ہالیں پیدا ہی سوال کا اعتماد عدم یا اعتماد پرے رائ ۔وتا ہن ےک اس اور ہالل تو ہی ہ

ےٹھVVیرات حکم میںے معVVامل اس ہم کو فرمان اسی اور ،ے ہ فرمان کا رسولم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں gسVVی طرف کی رسولے ک اس اور ہالل میںے معامل اس ہ طVVرح ا

لM ہک جیسا ہیںے کرت رجوع یئ ہونا ہشیو کا ایمان ہا می ہو ہکے ہچا اختالفVVات ہبVVا ہخVVاتم کVVریں، رجVVوع طVVرف کی رسVVولے ک اس اور ہاللے لVVیے ک ہفیصVVلے ک

ود میںے بارے ک المسلمین ہالل ہیںے رکھVVت عVVزائم انگیز شر جو نصاریn اور ہیnنے ن تعالیg :ے ہ فرمایاے ہوئے کرت نقابے ب کو ا

155

Page 156: Jada o Manzil Complete

تق نح مل تم ا نلہ نن ´ي ن نب نت نما ند مع نب نمن نسہم تف نµان ند نعن من نم ادا نس نح اا نفار ت³ مم ت¶ نن نما ن·اي ند مع نب نمن ت¶م نن تدو تر ني مو نل نب نتا ن¶ مل نل ا نµاہ من نم لر نثي ن³ ند نولر ندي نق مء مي نش نل ت³ نلی نع ´لہ نن ال ن·ا نرہ مم نµا نب ´لہ ني ال نت مµا ني ن´تی نح ما تحو نف مص نوا ما تفو مع )109)بقرہ: نفا

Mل ت ہی لوگ اکثرے س میں کتاب ہا یں طVVرح کسVVی ہک ہیںے ہچا ایمVVان ہتمgفر پھر کر پھیرے س ۔پر بنا کی ح³سدے ک نفسے اپن ۔جائیںے ل پلٹا طرف کی ک

ر حق پر ان ہک بعدے ک اس کام لوے س گزر در و عفو تم پس ،ے ہ چکا ہو ہظااں قVVدرت پVVر چVVیز ہر ہالل شVVکے ب ۔ے کرد نافد ہفیصل اپنا ہی خود ہالل ہک تک ہی

۔ے ہرکھتا

نذي ن´ل ند ا مع نب نواءہم نµاہ نت مع نب ´ت ن نن ا نئ نل نو ندی ملہ نو ا ´لہ ہ ندی ال نن ہ ن·ا مل تق مم نتہ ´ل ن نم نع نب ´ت ن نت ن´تی نح نری نصا ن´ن نا ال نول تد نيہو مل ن« ا نعن نضی مر نت نلن نومر نصي نن نا نول مي نل نو نمن ´لہ نن ال نم ن« نل نما نم مل نع مل نن ا نم Áن (120)بقرہ: نجاء

ودی ےک ان تم تVVک جبے گ ہوں ہن راضVVی گز ہرے س تم عیسائی اور ہی اور ۔ے ہ ہدایت اصVVل ہی ہدایت کی ہالل ہک دو ہہک صاف ۔لگوے چلن ہن پرے طریق

ار جو بعدے ک علم اسے ن تم اگر ودے ہ آچکVVا پVVاسے ہتم کی نصVVاری( و ہان)ی

شات اور دوسVVت کVVوئی واالے بچVVانے سVV پکVVڑ کی ہالل تVVو کی پیروی کی ہخواار مدگار یںے لیے ہتم ۔ے ہ ہن

نن نري نف ن³ا مم ت¶ نن نما ن·اي ند مع نب ت³م تدو تر ني نب نتا ن¶ مل ما ا تتو تµاو نن نذي ´ل ن نن ا نم اقا نري نف ما تعو نطي تت ن·ان ما نو تن نم آا نن نذي ´ل ن ت´يہا ا نµا آال عمران: نيا (100)

لM انے ن تم اگر والو! ایمانے ا بVVات کی ہگVVرو کسVVیے س میں کتاب ہایں ہی تو مانی ۔ے گ جائیںے پھیرل طرف کی کفر پھر ہتم

ابVVو حافVظے جسV مبVVارک ارشVVاد کVا سVVلم و ہعلی ہالل صVلی ہالل رسول ےہ کیا نقلے س ہعن ہالل رضی جابر حضرت شعبی اور حماد بروایتے ن لعیلی

ےن وسVVلم ہعلی ہالل صVVلی آنجناب ،ے ہ کرتا تشریح مزید کی بیاناتے ک قرآن ،:فرمایا

´لوا ، و انکم اما ان تصدقو بباطل، و اما ان تکذبوا لا تسئا لوا اھل الکتاب عن شئ فانہم لن یھدوکم وقد ضاا بین اظھرکم ما حل لہ الا ان یتبعنی ´ی بحق، و انہ وا اللہ لو کان موسی ح

ل یں ہی کVVرو ہن دریVVافت میںے بVVارے ک چVVیز کسVVیے سVV کتVVاب ہا ہتمیں ہرا سیدھی ۔یں ہکVVرد گم ہرا خVVود تو ہی ،ے گ بتائیں ہن پVVر بVVات کی ان اگVVر ہ

کVVردو تکذیب کی بات ححیص کسی یا تصدیق کی باطل کسی تم تو یا توے گئ

ار بھی موسیn اگر قسم کی خدا ۔ے گ ےلVVیے ک ان تVVوے ہوت ہزنVVد درمیانے ہتم۔وتا ہن جائز کرنا اختیار ہراست اور کوئی سواے ک اتباعے میر بھی ہ

156

Page 157: Jada o Manzil Complete

ود میںے بVVVارے ک مسVVVلمانوںے ن تعVVVالیn ہالل جب ہی کVVVا نصVVVاری و ہی ہی بعدے ک اس توے ہ دیا فرما بیان میں شکل واضح اور قطعی عزم خطرناک

ائی می خوش ہیے لیے ک بھر ہلمح ہک ہوگی بات کی نظری کم اور بالدت ہانت ہفود ہکے جائ رکھی جو میںے بارے ک تاریخ اسالمی یا عقائد اسالمی ہنصاری و ہی

مسVVلم یVVا سیاسVVت مسلم یا ، نظامے کے معاشر مسلم ہو یا ہیںے کرت بحثkی نیVVک کسی ہو ہیںے کرت پیش تجویز جو میںے بارے ک معیشت مبVVنی پVVر نیتبVVود کی مسVVلمانوںے س ان یا ہیں، ہوسکتی ہو یVVا ،ے ہ ہوتی مVVد·نظرے ک ان ہب

واضVVحے ک تعVVالیn ہالل لVVوگ جVVو ہیں، طVVالبے ک روشنی اور ہدایت الواقع فی ےرکھVVت ظن حgسVVن ہی میںے بVVارے ک ان بھی بعدے کے فیصل قطعی اور اعالن

gن ہیں ۔ے ہ قابلے ک ماتم دانش و عقل کی ا ھVVو ہالل ھVVدی ان قVVل " ہکے ہ فرمایVVا بھی ہیے ن تعVVالیn ہالل طVVرح اسVVی

ہیے ن ارشVVاد اس ۔(ے ہ ہدایت اصVVل ہدایت کی ہی ہالل ہکے دیجVVی ہہ)ک الھVVدی" ےہ ماخVذ و مرجVع واحVد ہو ہی تعلیم کی تعVالیn ہالل ہک کVردی ن´معی بھی بVاتی کرتVا رجVوع میں معVامالتے سVارے اپVن کو مسلمان طرف کی جس ۔ے ہچVا

یn ہدایت یے سVVوائ بعدے ک اعراضے س ہال کچھ اورے ک روی ہراے ب اور ہگمVVرا۔وگا حاصل ہن یں ہی موجودے سے سر منبع ایسا اور کوئی سواے ک ہالل ہبلک ہ ہن جVVو میں آیت بVVاال ہمذکور ہو، ہوسکتی حاصل روشنی اور ہدایتے س جسے ہ ۂصVVیغ اس تVVوے ہ ہدایت سVVچkی دراصVVل ہی ہدایت کی ہالل ہکے ہ گیVVا فرمایVVا ہی

یn وحی ہکے ہ کرنVVا ثابت ہی ہی بیانے س حصر ضVVاللیے ہ کچھ جVVو بعVVدے ک ہالی دزیغ، وم ہی کVVا آیت ۔ے ہ ہی بVVدبختی اور ٹVVیڑھ ہگمVVرا قVVدر اس مVVدkعا و ہمفیں ہی گنجائش کوئی کی تاویل اور شک کسی میں اس ہکے ہ واضح ۔ے ہ ہن

تعلVVق کVVوئیے س شخص اس ہکے ہ وارد بھی حکم قطعی ہی میں قرآنوے س ذکرے ک ہالل جو ،ے جائ رکھا ہن gرف اورے ہ کرتا گردانی رVVا صVVبی دنیVVطل

gس ہی ےبVVارے ک آدمیے ایسVVے ن قرآن ۔ے ہ جستجو مدار اور نظر مطمح کا ا و علم اورے ہ پجاری کا تخمین و ظن صرف ہ و ہک کردی بھی وضاحت ہی میںgسVV کی یقین یں تVVک ہواے ا کی تخمین و ظن کVVو مسVVلمان قVVرآن ۔ے ہ لگی ہن

ری کی دنیVا حیVاتM ہنگVا کی شVخص جس اور ،ے ہ کرتVا منVعے س پیروی ہظVا صVVحتM اور علم ہر جو ہو نزدیکے ک قرآن ہو گئی ہر کر اٹک ہی پر دمک چمکہوتا محرومے س دونوں نظر :ے ہ ارشاد کا تعالیn ہالل ۔ے ہ

نل نض نمن نب تم نل مع نµا نو ن« ہ ن´ب نر نن ن·ا نم مل نع مل نن ا نم تغہم نل مب نم ن« نل نذ نيا • من تد نياۃ ال نح مل نا ا ن·ال مد نر تي مم نل نو ننا نر م³ نذ نعن ن´لی نو نت نمن نعن مض نر مع نµا نفندی نت نن اہ نم نب تم نل مع نµا نو نوہ نلہ نبي نس (30۔29) النجم : نعن

زنVVدگی کی دنیVVا ہو اورے ہ رکھا موڑ ہمنے س یاد ہماریے ن شخص جسش اور کوئی سواے ک یں ہخوا gس تو رکھتا ہن کی علمے ک ان ۔کVVر ہن دھیVVان پر ا

ا اں صرف ہانت جVVو کVVو شVVخص اgسے ہ جانتا خوب پروردگار تیرا ۔ے ہ ہی تک ہیgس اورے ہ چکا بھٹکے س ہرا کی ہالل ۔چال پر راست Mہجو را کو شخص ا

157

Page 158: Jada o Manzil Complete

نن تلو نف نغا مم نرۃ ہ نخ آا مل نن ا نع مم نوہ نيا من تد نياۃ ال نح مل نن ا نم ارا نظاہ نن تمو نل مع (7)روم : ني

رے ک زندگی کیدنیا صرف ہو غافVVلے سVV آخVVرت اور ہیںے جVVانت کو ہظا

۔یں ہر ، بین سطح ہی ی خVبرے بے سV حقیقی علم اور پرسVت ہظا شVخص ہو طلب کVVا دنیا حیاتM ناپائیدار صرف اور ، غافلے س ذکرے ک ہالل جوے ہ ہوسکتا

دM ہو، گار رین اور دان سVائنس تمVامے ک حاضر ہع ی کVا فن ہمVا ہی ۔ے ہ حVال ہییں علم ہو ہی ہیں علمVVبردارے ک علم جس لVVوگ ایVVک میںے بVVارے ک جسے ہ ہن

و، کVVر اعتمVVادے س یکسوئی پر حاملے ک اس مسلمان و چVVونے ب اور ہسVVکتاgس چVVرا میںے معVVامل علم اس ہبلک ۔ے جVVائ چال کرتVVا ہاسVVتفاد و اخVVذے سVV ا

gس تVVک حد علمی خالص ہکے ہ مجاز قدر اس صرف مسلمان ہاسVVتفادے سVV اgسVVV لیکن ۔ے کVVVر ےک اس اور انسVVVانی نفس اور میںے بVVVارے ک زنVVVدگیے اgس میںے بارے ک متعلقات راتی´تصو ہن دھیVVان پر ہتوجی و تعبیر ہکرد پیش کی ایئ دینا یں بھی علم ہو ہی ۔ے ہچا کی توصVVیف و تعریVVفے ن قVVرآن کی جسے ہ ہن

ہوتا ارشاد ۔ے ہ : ہکے ہل کیVVا ) الیعلمVVون" والVVذین یعلمVVون الVVذین یستوی ھل" علم اور علم ہا

۔یں(ے ہوسکت برابر لوگ خالیے س سVVباق و سVVیاق کVVو آیVVات ایسی لوگ جو ہ ۔ ہیں پVVر غلطی یکسر ہو ہیںے کرت استداللے س ان محلے بے ک کر الگے س

آیت جس بیVVان واالے کVVرن قائم امتیاز خطM اور کن ہفیصل ہی میںے بارے ک علم:ے ہ ہی آیت ہوے ہ ہوا وارد میں

نا نن ل نذي ´ل ن نوا نن تمو نل مع ني نن نذي ´ل ن نوي ا نت مس ني مل مل ہ تق ن´بہ نر نمۃ مح نر تجو مر ني نو نرۃ نخ آا مل تر ا نذ مح ني اما نئ نقا نو ادا نج نسا نل مي ´ل ن نناء ال آا لت نن نقا نو من ہ نم نµانب نبا مل نµا مل تلوا ا مو تµا تر ن³ نذ نت ني نما ´ن ن ن·ا نن تمو نل مع (9)زمر : ني

، میں قیVVام و سVVجود ناوقVVاتے ک راتے ہ کرتا بندگی کی ہالل جو ہو کیا

ہک بتVVادیںے ہ رکھتVVا امkیVVد کی رحمت کی ربے اپن اورے ہ ڈرتاے س آخرت اور ےب ۔ ہیں سVVمجھے ب جVVو ہو اور ہیںے رکھVVت سVVمجھ جVVو لVVوگ ہو ہیں برابر کیا

۔یںے پکڑت نصیحت ہیے وال عقل شک ہائیو کی رات جو حق ۂبند ہی ،ے ہ ہوتVVا ہافگنVVد سرے آگے ک خدا میں ں ہتن

خVVرت ،آے ہ ہوتVVا مناجات و سرگوشی محوMے س خالقے اپن میں سجود و قیامتا ترساں و لرزاںے س خوفے ک gمیVVد کی رحمتے سVV ربے اپVVن ۔ے ہ ہر ےسVV ا

ی ،ے ہ رکھتا فروزاں کو نظر و قلب صVVیحح جVVوے ہ انسVVان بخت خوش ہ و ہیرے سVV علم دولتM میں معنVVوں ہب ی اورے ہ یVVاب ہ طVVرف کی جسے ہ علم ہو ہی

کی انسVVان طVVرف کی ہالل جVVو علم ایسVVا یعVVنی ۔ے ہ کیVVا ہاشVVارے ن بVVاال آیتنمائی gسے س نعمت کی راستبازی اور تقویn ،ے ہ کرتا ہر ہی ۔ے ہ کرتا ہمکنارے ا

158

Page 159: Jada o Manzil Complete

یں علم ہو gسVV اورے ہ کردیتا مسخ کو فطرت انسانی جو ہن انکVVارM اور الحVVادے ا۔ے ہ دیتا ڈال پر کج نہرا کی خدا

شVVرائع و احکVVام اور واجبات و فرائض دینی عقائد، صرف ہدائر کا علمیں محدود ہی تک علمے ک ایت ہدائر کا علم ،ے ہ ہن تعلVVق کVVا اس ۔ے ہ وسVVیع ہن

نخالفت اور فطVVرت نقVVوانین ہی اتنVVاے ہے سVV شVVرائع اور فVVرائض و عقائد جتناk ۔ے ہ بھیے سV تسVخیر کی قVوانین ان تحتے ک مفاد و مصلحت کی ہیہال ہالبت

یں پر ایمان بنیاد کی علم جس gس ہو ہوتی ہن ےہ خVVارجے سVV تعریف کی علم ا و مVVدح ہو کی حVVاملینے ک جس اورے ہ کرتVVا ہاشVVار قVVرآن طVVرف کی جس

gن اور درمیانے ک ایمان اساس ،ے ہکرتا ستائش جن درمیVVانے ک علوم تمام ا¿ے ہے س فطرت قوانین اور ئنات کا نوامیس تعلق کا حیاتیVVات، فلکیVVات، ۔)مثال

ےسVVار ہی ۔ے ہجاتVVا پایا ہرشت مضبوط ایک ( االرض طبقات اور کیمیا ، طبیعاتgھال کVVا ہسVVتی کی ہالل جو ہیں علوم ہوے سارے ک gھال ک ہیںے کVVرت پیش ثبVVوت ک

شVVات انسانی ہوئی بھٹکی ہبشرطیک یں اور آجVVائیں ہن میں تصVVرفے ک ہخوا ہانورے ک ہالل kVVتص VVاریے سVVردیں، ہن عVVا کVVع فی ہک جیسVVورپ الواقVVعلمی میں ی

دراصVVل ۔ے ہ چکی آ پیش حVVال صVVورتM نVVاک افسVVوس ہی میں دورے ک تVVرقی چVVرچ کVVار جفVVا و ظVVالم اور علماء جب آیا دور ایسا ایک میں تاریخ کی یورپ

ائی درمیانے ک ےک جن ،ے ہوگVVئ پیVVدا اختالفVVات آگیں نفVVرت اور دو تکلیف ہانت ۔پVVڑی چVVل پVVر ہرا کی خدابیزاری تحریک علمی تر تمام کی یورپ میںے نتیجلVو ہرے ک زندگی میں یورپے ن تحریک اس ،ے ڈال اثVرات ر³س دgورے اپVن پVر ہپورے ک یورپ ہبلک gVVامے پVVر نظVVا فکVVزاج کVVدل ہی مVVررکھ بVVا، کVVر ان دی آگیں ہز

ےک معتقVVدات و نظریVVاتے ک چVVرچ اور چVVرچ صVVرف ہک ہوا ہی ہنVVتیج کVVا اثراتب خVVود پر طور مجموعی ہبلک ، کی بھڑ ہن عداوت و غیظ آتش ہی خالف ہمVVذ

اں آگیVVا میں لVVپیٹ کی عنVVاد و نفVVرت بھی تصkور کا و علمے ن یVVورپ ہک تVVک ہییا ہسرمای فکری کچھ جو میں میدانوں تمامے ک دانش سارا کاے سار ہو کیا ہمب ۔وگیا لبریزے س عداوت کی ہمذ د ہو ہفلسVVف الطبیعی ماوراء ہو ہخوا ہ kامجرVVی kی اور علمی ر کا جن ہوں تحقیقات فن یں سVVروکار کوئیے س دین ہبظا ۔ہوتVVا ہن

35

میVVدان ہرے ک علم پھVVر اور فکVVر اندازM کا مغرب ہک لیا جانے ن آپ تو ہی بنیVVاد و اسVVاس جس میں ہی ر کVVا آغVVاز ہسرمای تر تمام کا فکر کی اس میں

ب جVVوے تھ فرما کار اثرات مسموم میں ہہت کی اgسے ہ ہوا پراستوار کی ہمVVذ

ت اور عداوت دشVVوار لینVVا جVVان ہی بعدے ک اس ۔ے تھ ہکرد پیداے ک بیزاری ہمذیں تا ہن مجمVVوعی نبحیVVثیت میں اندازے ک اس اور ہسرمای فکری کا مغرب ہک ہر

۔ ہیںے جVاتے پVVائ کیVVوں جVذباتے ک نفVرت و عVداوت شVVدید خالفے ک اسالمر کا نفرت اس خالفے ک اسالم ہمظا ،ے ہ جاتVVا کیا ہدانست ۂدید پر طور خاص ہ

"النکد صامفال باب: الدین" ھذال "المستقبل : کتاب ہو ہمالحظ 35

159

Page 160: Jada o Manzil Complete

کوشVVش بھرپVVور تحتے ک اسVVکیم ہوئی سمجھی سوچی میں حاالت اکثر اور¿ ہکے ہ جاتی کی مVVتزلزل کVVو عمارت ہپاکیز کی تصوkرات و عقائد اسالمی اوالgن ہرفت ہرفت پھر اورے جائ کیا مسVلم جVوے جVائ کردیا مسمار کو ہی اساسات ا

۔یں کVVرتی ممیزkے س معاشروںے دوسر کوے معاشر کVVا سVVازش ناپVVاک اس ہ انVVداز مغVVربی میں تVVدریس کی علVVوم اسVVالمی ہم اگر بھی بعدے کے ہون علم شVVرمناک کVر بVVڑھے سVV اس توے گ کریں ہتکی پر فکر ۂسرمای مغربی اور فکر

ل ی معافی ناقابل اور ہتسا ۔وگی ہن ئی کVVو ہکوتا الزم بھی ہیے لVVیے ہمVVار ہبلک ہ بھی، وقتے کVVرت حاصل تعلیم کی ٹیکنالوجی اور علوم سائنسی خالص ہکے ہ

محتVاط ، ہیں مجبVور پVرے لیVنے س مآخذ مغربی میں ہحاضر حاالت ہمے جیس

یں، ی ہکے لVVی اس ۔رکھیں دgورے س پرچھائیوں کی ہفلسف کو علوم ان اور ہر ہیب پVVر طور بنیادی جو ہیں پرچھائیاں ہفلسفیان ہو اسVVالم اور بVVالعموم کی ہمVVذ

۔یں ہوئی واقع نقیض اور اور ضد بالخصوص کی اثVVر سVVا معمVVولی کا ان اور ہ۔ے ہ کافیے لیے کے کرن مکدر کو ہچشم شفاف و ہپاکیزے ک اسالم بھی

واپس اوپر جائیے

باب نہم

مسلمان کی قومیتمسلمانوں کی اجتماعی تنظیم کی بنیاد

نع انسانی کو اخلzق و اقدار کا نیا تصور دیا، اور ان اخلzق و اقدار کے نت سعیدہ میں اسلzم نے نو جس ساعنت سعیدہ میں اس نے انسان کے باہمی تعلقات و روابط کا ایک نیا تصور بھی عطا تاسی ساع آاستانہ بایا، حصول کا نیا آانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ انسان اور اس کے رب کے درمیان تعلقات کو درست کرے ۔ اور انسان کو یہ کیا۔اسلzم کے تاسے اپنی زندگی کی اقدار اور رد و قبول نہ عزت سے نر عالم ہی وہ واحد با اختیار ہستی ہے جس کی بارگا بتائے کہ پروردگا

تاسے خلعت تاسی نے ہستی اور سرمایۂ حیات ارزانی فرمایا ہے ۔ اپنے روابط اورنکے پیمانے حاصل کرنے چاہئیں۔ کیوں کہ

160

Page 161: Jada o Manzil Complete

آایا تکن فکاں سے وہ عدم سے وجود میں تاسی ذات کو مرکز و مرجع سمجھے جس کے ارادۂ رشتوں کے بارے میں بھی آا کر پوری قوت و صراحت کے ساتھ انسان کو یہ بتایا آاخر کار لوٹ کر جانا ہے ۔ اسلzم نے تاسے ہے اور جس کی طرف کہ اللہ کی نظر میں انسانوں کو باہم جوڑنے والا صرف ایک ہی رشتہ ہے ۔ اگر یہ رشتہ پوری طرح استوار ہو گیا تو اس کے

مقابلے میں خون اور مؤدت و الفت کے دوسرے رشتے مٹ جاتے ہیں:

مو نµا مم ننہ نوا مخ ن·ا مو نµا مم نناءہ مب نµا مو نµا مم نباءہ آا تنوا ن³ا مو نل نو نلہ تسو نر نو ´لہ ن ند ال نحا من نم نن تدو نوا تي نر نخ آا مل نم ا مو ني مل نوا ´لہ ن نبال نن تنو نم مؤ تي اما مو نق تد نج نت نا لمم )مجادلہ: نتہ نر نشي (22نع

آاخرت کے روز پر ایمان بھی رکھتے ہیں ان کو تم نہ دیکھو گے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول جو لوگ اللہ اور نل قبیلہ ہی کیوں نہ ہوں۔ تان کے باپ اور بیٹے اور بھائی اور اہ کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں گو وہ

دنیا کے اندر اللہ کی پارٹی صرف ایک ہے ۔ اس کے مقابلے میں دوسری تمام پارٹیاں شیطان اور طاغوت کی:پارٹیاں ہیں

ند مي ن³ نن ن·ا نن نطا مي نش نياء ال نل مو نµا ما تلو نت نقا نف نت تغو ن´طا نل ال نبي نس نفي نن تلو نت نقا تي ما ترو نف ن³ نن نذي ´ل ن نوا ´لہ نل ال نبي نس نفي نن تلو نت نقا تي ما تنو نم آا نن نذي ´ل ن اافا )النساء: نعي نض نن ن³ا نن نطا مي نش (76ال

جن لوگوں نے ایمان کاراستہ اختیار کیا ہے ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کاراستہ اختیار کیاہیں۔ پس شیطان کے ساتھیوں لڑتے میں راہ نہایتسے ہے ، وہ طاغوت کی یقین جانو کہ شیطان کی چالیں اور لڑو

کمزور ہیں۔ اللہ تک پہنچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے ،اس کے ماسوا جو راستہ ہے وہ اللہ سے دور لے جانا والا ہے :

نلہ )انعام: نبي نس نعن مم ت¶ نب نق نر نف نت نف نل تب تس ما ال تعو نب ´ت ن نت نا نول تعوہ نب ´ت ن نفا اما نقي نت مس تم نطي نرا نص نذا نن ہ� نµا (153نو

تاس کے راستے سے ہٹا کر یہی میرا سیدھا راستہ ہے ، لہذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستے پر نہ چلو کہ وہ تمہیں پراگندہ کر دیں گے ۔

نم حق ہے ، اور وہ ہے اسلzمی نظام۔ اس کے علzوہ جتنے نظام ہیں وہ انسانی زندگی کے لیے صرف ایک ہی نظانن جاہلیت ہیں: عی

نن )المائدہ: تنو نق تيو مم مو نق ن´ل اما م¶ تح ´لہ نن ال نم تن نس مح نµا من نم نو نن تغو مب ني ´يۃ ن نل نجاہ مل نم ا م¶ تح نف ( 50نµا

161

Page 162: Jada o Manzil Complete

تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالاں کہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہترفیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔

صرف ایک ہی شریعت واجب الاتباع ہے اور وہ ہے اللہ کی شریعت۔اس کے سوا جتنی شریعتیں ہیں، سوائے نفس ہی ہیں:

نن )جاثیہ: تمو نل مع ني نا نن ل نذي ´ل ن نواء ا نµاہ مع نب ´ت ن نت نا نول معہا نب ´ت ن نفا نر مم نµا مل نن ا نم نعۃ نري نش نلی نع Áن ننا مل نع نج نم (18تث

تاس پر چلو اور اے نبی ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ )شریعت( پر قائم کیا ہے ۔ لہذا تم ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے ۔

اور تنوع محال ہے ۔ حق کے سوا جو کچھ ہے وہ ضلzلت و تعدد میں ایک ہے جس میں حق صرف دنیا تاریکی ہے :

نن )یونس: تفو نر مص تت ن´نی نµا نف تل zن نضل ´ا ال ن ن·ال نق نح مل ند ا مع نب نذا نما (32نف

آاخر یہ تم کدھر پھرائے جا رہے ہو۔ پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ دنیا میں صرف ایک ہی ایسی سرزمین ہے جسے دارالاسلzم کہا جا سکتا ہے ۔ اور وہ ملک ہے جہاں اسلzمینر مملکت ہلہی کی فرماں روائی ہو، حدود اللہ کی پاسداری ہو، اور جہاں مسلمان باہم مل کر امو نت ا ریاست قائم ہو، شریع سر انجام دیتے ہوں۔ اس کے علzوہ جو بھی سرزمین ہوگی وہ دارالحرب کے حکم میں داخل ہے ۔ دارالحرب کے ساتھتصلح، معاہد ملک دارالاسلzم کے ایک مسلمان دو ہی طرح کا رویہ اختیار کر سکتا ہے : جنگ یا معاہدۂ امان کے تحت

حکم میں ہرگز نہیں ہوگا۔ اس کے اور دارالاسلzم کے مابین ولایت کا رشتہ قائم نہیں ہو سکتا:

مض مع نب نياء نل مو نµا مم تضہ مع نب ن« نئ نل� مو تµا ما ترو نص نن نو ما نوو آا نن نذي ´ل ن نوا ´لہ نل ال نبي نس نفي مم نسہ تف نµان نو مم نلہ نوا مم نµا نب ما تدو نجاہ نو ما ترو نج نوہا ما تنو نم آا نن نذي ´ل ن نن ا ن·اتر مص ن´ن تم ال ت¶ مي نل نع نف نن ندي نفي ال مم ت³ ترو نص نتن مس نن ا ن·ا نو ما ترو نج تيہا ن´تی نح مء مي نش نمن نتہم ني نا نول نمن ت¶م نل نما ما ترو نج تيہا مم نل نو ما تنو نم آا نن نذي ´ل ن نوات¶ن نت تلوہ نع مف نت ´ا ن ن·ال مض مع نب نياء نل مو نµا مم تضہ مع نب ما ترو نف ن³ نن ن´لذي نوا لر • نصي نب نن تلو نم مع نت نما نب ´لہ نوال لق نثا نمي ننہم مي نب نو مم ت¶ نن مي نب مم مو نق نلی نع ´ا ن ن·ال

نن تنو نم مؤ تم مل تم ا ن« ہ نئ نل� تµاو ما ترو نص نن نو ما نوو آا نن نذي ´ل ن نوا ´لہ نل ال نبي نس نفي ما تدو نجاہ نو ما ترو نج نوہا ما تنو نم آا نن نذي ´ل ن نوا لر • نبي ن³ لد نسا نف نو نض مر نµا نفي ال ننۃ مت نفمم )انفال: ت¶ نمن ن« نئ نل� مو تµا نف مم ت¶ نع نم ما تدو نجاہ نو ما ترو نج نوہا تد مع نب نمن ما تنو نم آا نن نذي ´ل ن نوا لم • نري ن³ لق مز نر نو نرۃ نف مغ نم ن´لہم اقا (75 تا 72نح

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے ، اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایکدوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جوآا نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک آائے مگر ہجرت کر کے )دار الاسلzم( ایمان تو لے

162

Page 163: Jada o Manzil Complete

آا جائیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے ، کہ وہ ہجرت کر کے نہ لیکن کسی ایسی قوم کے خلzف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے ۔ جو لوگنل ایمان ایک دوسرے کی حمایت( نہ کرو گے تو زمین نر حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں، اگر تم )اہ منک میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے ۔ اور جو لوگ

آا گئے اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کر کے ناس قطعی اور فیصلہ کن تعلیم کو لے کر اسلzم دنیا میں رونق افروز ہوا۔ اور اس اس روشن اور مکمل ہدایت اور ہلی و ارفع مقام بخشا۔ تاسے اع نے انسان کو خاک اور مٹی کے رشتوں اور خون و گوشت کے رابطوں سے نجات دے کر نت اسلzم کی نظر میں مسلمان کا کوئی وطن نہیں ہے ۔ اگر اس کا کوئی وطن ہے تو صرف وہ خطۂ زمین جہاں شریعنلم لہرا رہا ہو، اور باشندوں کے باہمی روابط تعلق باللہ کی بنیاد پر قائم ہو۔ اسلzم کی نظر میں مسلمان کی نع ہلہی کا ا کوئی قومیت نہیں ہے ۔ اگر اس کی کوئی قومیت ہے تو وہ صرف وہ عقیدہ ہے جس کے تحت وہ دارالاسلzم کے اندر بسنے والی جماعت مسلمہ کا ایک رکن بنا ہے ۔ مسلمان کی کوئی رشتہ داری اور قرابت نہیں ہے ، سوائے اس کے جوتاس کے اور اس کے دوسرے دینی ساتھیوں کے آاتی ہے اور جس کے بعد ایمان اور عقیدہ کے تقاضے میں وجود میں آا جاتا ہے ۔ مسلمان کی اپنے ماں، باپ، بھائی، بیوی اور خاندان درمیان ایک نہایت مضبوط و مستحکم ناطہ وجود میں تاس وقت تک کوئی رشتہ داری استوار نہیں ہو سکتی جب تک وہ بنیادی اور اولین رشتہ قائم نہ ہو جو سب کو کے ساتھ تان کے درمیان خونی اور نسلی قرابتیں بھی استوار تر ہو تاسی ربانی رشتہ کی بنیاد پر اپنے خالق سے جوڑتا ہے ، اور پھر

جاتی ہیں:

نساء نن نو ارا نثي ن³ اا نجال نر نما منہ نم نث نب نو نجہا مو نز منہا نم نق نل نخ نو ندۃ نح نوا مس مف ´ن ن نمن ت¶م نق نل نخ نذي ن´ل تم ا ت¶ ´ب ن نر ما تقو ´ت ن تس ا ن´نا ت´يہا ال نµا نيا نم )نساء: نحا مر نµا نوال نبہ نن تلو نساء نت نذي ن´ل ´لہ ا ما ال تقو ´ت ن (1نوا

تاس کا جوڑا بنایا اور ان اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے تاس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلz دیے ۔

مانگتے ہو۔ ساتھ کے والدین باوجود کے عقیدہ اختلzف مسلمان ایک کہ ہے نہیں مانع میں امر اس رشتہ ربانی لیکن نن معاشرت رکھے جب تک وہ اسلzمی محاذ کے دشمنوں کی نن سلوک اور حس تحس معروف کی حد تک اس وقت تک آائیں تو ایسی صورت میں مسلمان کی اپنے والدین تاتر تھلz حمایت پر تھلم ک صفوں میں شامل نہ ہوں۔ اگر وہ کفار کی کنن معاشرت اور نیک برتاؤ کی تمام پابندیاں ختم کے ساتھ کوئی رشتہ داری اور صلہ رحمی کا تعلق باقی نہیں رہتا۔ اور حس

163

Page 164: Jada o Manzil Complete

تاس کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ نے اس معاملے میں ہمارے لیے ہو جاتی ہیں۔ عبد اللہ بن ابی جو رئیس المنافقین تھا نہایت درخشاں مثال پیش کی ہے :

ابن جریر نے ابن زیاد کی سند سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی کےآاپ کا باپ کیا کہہ رہا ہے ؟ عبد اللہ نے عرض کیا: آاپ کو معلوم ہے کہ تبلz کر فرمایا: صاحبزادے حضرت عبد اللہ کو آانجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کہتا ہے کہ اگر ہم مدینہ تاس نے کیا کہا ہے ؟ آاپ پر قربان ہوں میرے ماں باپ لوٹ گئے تو وہاں عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا! حضرت عبد اللہ نے کہا: اے اللہ کے رسول خدا کی قسمآاپ کی مدینہ آاپ عزت والے ہیں اور وہی ذلیل ہے ۔ یا رسول اللہ! خدائے برتر کی قسم، تاس نے درست کہا ہے ، بخدا نل یثرب کو معلوم ہے کہ اس شہر میں مجھ سے زیادہ اپنے والد کا فرمانبردار کوئی شخص آاوری کے وقت اہ میں تشریف تان کی خدمت میں پیش تاس کے رسول کی خوشنودی اس میں ہے کہ میں والد کا سر اللہ اور نہیں تھا۔ اور اب اگر آاب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسا نہ کرو" چنانچہ جب تاس کا سر لائے دیتا ہوں۔ جناب رسالت م کردوں تو میں مسلمان مدینہ پہنچے تو عبد اللہ بن ابی کے لڑکے حضرت عبد اللہ مدینہ کے باہر اپنے باپ کے سامنے تلوار سونت کر کھڑے ہو گئے ۔ اور اس سے کہنے لگے کیا تونے یہ کہا ہے کہ اگر ہم مدینہ لوٹے تو وہاں کا عزت والا ذلیل لوگوں کو نکال دے گا، خدائے بزرگ کی قسم تجھے ابھی معلوم ہو جائے گا کہ تو عزت والا ہے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ خدا کی قسم جب تک اللہ اور اس کے رسول اجازت نہ دیں، تجھے مدینہ کا سایہ نصیب نہیں ہو سکتا اور تو مدینہ میں ہر گز پناہ نہیں لے سکتا۔ عبد اللہ بن ابی نے چلz کر دو مرتبہ کہا : اے خزرج کے لوگو! دیکھو یہ میرا ہی بیٹاتاس کے شور و ہنگامہ کے باوجود یہی کہتے رہے کہ مجھے گھر میں داخل ہونے سے روک رہا ہے ۔ حضرت عبد اللہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اذن نہ ہو خدا کی قسم تجھے ہر گز مدینہ میں قدم نہ رکھنے دوںتسن کر کچھ لوگ حضرت عبد اللہ کے پاس جمع ہو گئے اور انہیں سمجھایا بجھایا۔ مگر وہ اس بات پر گا۔ یہ شور لوگ چنانچہ چند گا۔ دوں نہیں میں گھسنے مدینہ اسے میں بغیر اذن کے رسول کے اس کے اور اللہ کہ رہے تمصر آاپ نے سن کر فرمایا، عبد اللہ آاپ کو اس واقعہ کی اطلzع دی۔ آائے اور آانحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آائے اور انہیں آانے سے نہ روکے !" چنانچہ وہ لوگ عبد اللہ کے پاس کے پاس جاؤ اور اسے کہو: "اپنے باپ کو گھر آاگاہ کیا۔ حضرت عبد اللہ کہنے لگے : اگر اللہ کے نبی کا حکم ہے تو اب یہ داخل ہو سکتا ہے رر کے ارشاد سے آانحضو

۔ نل جب عقیدہ و ایمان کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو اس کے بعد نسب و رحم کے رشتے نہ بھی ہوں تو بھی تمام اہآاتا ہے جو انہیں یک قالب و یک جان بنا ایمان باہم بھائی بھائی بن جاتے ہیں۔ اور ان میں وہ مضبوط تر رابطہ وجود میں ہلی کا ارشاد ہے : انما المومنون اخوۃ )تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں(۔ اس مختصر ارشاد میں حصر بھی دیتا ہے ۔ اللہ تعا

ہے اور تاکید بھی۔ نیز فرمایا:

164

Page 165: Jada o Manzil Complete

مض مع نب نياء نل مو نµا مم تضہ مع نب ن« نئ نل� مو تµا ما ترو نص نن نو ما نوو آا نن نذي ´ل ن نوا ´لہ نل ال نبي نس نفي مم نسہ تف نµان نو مم نلہ نوا مم نµا نب ما تدو نجاہ نو ما ترو نج نوہا ما تنو نم آا نن نذي ´ل ن نن ا ن·ا(72)انفال:

جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑا اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سےجہاد کیا اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ آایت میں جس ولایت کا ذکر کیا گیا ہے وہ صرف ایک ہی وقت میں پائی جانے والی اور ایک ہی نسل تک اس آانے والی نسلوں تک بھی منتقل ہوتی رہتی ہے ، اور امت مسلمہ کے اگلوں کو پچھلوں سے آائندہ محدود نہیں ہے بلکہ وہ

اور وفاداری و غمگساری اور رحم دلی و شفقت کی ایک مقدس و لازوالتاور پچھلوں کو اگلوں کے ساتھ محبت و مؤدلڑی میں پرو دیتی ہے :

نن ترو نث مؤ تي نو تتوا تµاو نما نم نجۃ نحا مم نرہ تدو تص نفي نن تدو نج ني نا نول مم ميہ نل ن·ا نر نج من ہا نم نن ت´بو نح تي مم نلہ مب نق نمن نن نما ن·اي مل نوا نر ندا تؤوا ال نو نب نت نن نذي ´ل ن نوانن تلو تقو ني مم ندہ مع نب نمن تؤوا نجا نن نذي ´ل ن نوا نن • تحو نل مف تم مل تم ا ن« ہ نئ نل مو تµا نف نسہ مف نن نح تش نق تيو نمن نو نصۃ نصا نخ مم نبہ نن ن³ا مو نل نو مم نسہ تف نµان نلی نع

لم نحي نر لف تؤو نر ن« ن´ن ن·ا ننا ´ب ن نر تنوا نم آا نن نذي ´ل ن ن´ل zال نغ ننا نب تلو تق نفي مل نع مج نت نا نول نن نما ن·اي مل نبا ننا تقو نب نس نن نذي ´ل ن ننا ا نن نوا مخ نا نول ننا نل مر نف مغ ننا ا ´ب ن نر(936 - 10)حشر:

اور جو لوگ مہاجرین کی ہجرت سے پہلے مدینے میں رہتے تھے اور ایمان لا چکے تھے )یعنی انصار( وہ ہجرتتاس کی وجہ سے یہ نل غنیمت میں سے مہاجرین کو جو کچھ بھی دے دیا جائے کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور ماتاس کی کوئی طلب نہیں پاتے اور خواہ انہیں تنگی ہی کیوں نہ ہو مگر وہ )اپنے مہاجرین بھائیوں کو( ترجیح اپنے دل میں تان دیتے ہیں۔ اور جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا تو ایسے ہی لوگ فلzح پانے والے ہیں۔ اور جو تدعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جو ہم سے پہلے آائے وہ یہ کے بعد نل ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رہنے دے ، اے ہمارے پروردگار بے ایمان لا چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے دلوں میں اہ

شک تو بڑا شفقت رکھنے والا اور مہربان ہے ۔

تھا ہر دور میں عقیدہ ہی بنائے جمع و تفریق ہلی نے اپنی کتاب حکیم میں مومنین کے سامنے انبیائے سابقین کی برگزیدہ جماعت کی متعدد مثالیں اورناللہ تعا

قصے بیان فرمائے ہیں۔ ان انبیاء علیہم السلzم نے مختلف ادوار میں ایمان کی قندیلیں فروزاں کیں، اور ایمان و عقیدہ کےہلی نے واضح کیا ہے کہ ہر نبی کی نگاہ میں اصل رشتہ اسلzم اور نورانی قافلوں کی قیادت فرمائی۔ ان مثالوں میں اللہ تعا

عقیدہ کا رشتہ تھا۔ان کے مقابلے میں کوئی اور رشتہ اور قرابت داری کسی لحاظ سے بھی نافع ثابت نہیں ہو سکتی۔

آایت نمبر 36 آایات نمبر 10کتاب میں اس مقام پر صرف اور ان کا ترجمہ ہے 10 اور 9 لکھا ہے حالانکہ یہ

165

Page 166: Jada o Manzil Complete

من نم نس مي نل ن´نہ ن·ا تح تنو نيا نل نقا نن • نمي ن³ نحا مل تم ا ن¶ مح نµا نت نµان نو تق نح مل نÁ ا ند مع نو نن ن·ا نو نلي نµاہ من نم نني تب نن ا ن·ا نب نر نل نقا نف ن´بہ نر لح تنو ندی ننا نوتذ تعو نµا ن´ني ن·ا نب نر نل نقا نن • نلي نجاہ مل نن ا نم نن ت¶و نت نµان ن« تظ نع نµا ن´ني ن·ا لم مل نع نبہ ن« نل نس مي نل نما نن مل نµا مس نت zن نفل مح نل نصا تر مي نغ لل نم نع ن´نہ ن·ا ن« نل نµاہ

نن نري نس نخا مل نن ا نم ت³ن نµا نني مم نح مر نت نو نلي مر نف مغ نت ´ا ن ن·ال نو لم مل نع نبہ نلي نس مي نل نما ن« نل نµا مس نµا من نµا ن« (47 تا 45ھود: ﴿نب

تتو اور نوح نے اپنے رب کو پکارا۔ کہا اے رب میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے ۔ جواب میں ارشاد ہوا اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے ۔ وہ تونہیں جانتا میں تجھے تو نہ کر جس کی حقیقت بات کی مجھ سے درخواست تو اس لہذا ہوا کام ہے ۔ بگڑا ایک اا عرض کیا: اے میرے رب میں تیری پناہ مانگتا آاپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے ۔ نوح نے فور نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو

میں برباد ہو جاؤں گا۔

ندي نعہ تل ننا ني نا نل ل نقا نتي ´ي ن نر تذ نمن نو نل نقا اما نما ن·ا نس ن´نا نلل ن« تل نع نجا ن´ني ن·ا نل نقا نن نمہ نت نµا نف مت نما نل ن¶ نب ت´بہ نر نم نراہي مب ن·ا نلی نت مب نذ ا ن·ا نونن )بقرہ: نمي نل ن´ظا (124ال

آازمایا اور وہ ان سب پر پورا اتر گیا۔ تو اس نے کہا: اور یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں "میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں" ابراہیم نے عرض کیا: اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے ؟ اس نے

جواب دیا: میرا وعدہ ظالموں متعلق نہیں ہے ۔

نر نف ن³ نمن نو نل نقا نر نخ آا نم ال مو ني مل نوا ´لہ نبال منہم نم نن نم آا من نم نت نرا نم ´ث ن نن ال نم نلہ نµاہ مق تز مر نوا انا نم آا ادا نل نب نذا ن� مل ہ نع مج نب ا نر تم نراہي مب ن·ا نل نقا مذ ن·ا نوتر )بقرہ: نصي نم مل نس ا مئ نب نو نر ´نا ن نب ال نذا نع نلی ن·ا ترہ نط مض نµا نم تث zا نليل نق تعہ ´ت ن نم تµا (126نف

اور جب ابراہیم نے دعا کی: اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے ، اور اس کے باشندوں میں سےآاخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے ، اللہ نے فرمایا: اور جو نہ مانے گا دنیا کی چند روزہ جو اللہ اور نب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا اور وہ بدترین ٹھکانا تاسے عذا آاخر کار تاسے بھی دوں گا، مگر زندگی کا سامان تو میں

ہے ۔ تان سے کنارہ کش ہو نصر دیکھا تو وہ تم نل خاندان کو گمراہی پر حم نے جب اپنے بات کو اور اپنے اہ حضرت ابراہی

گئے اور فرمایا:

´يا )مریم: ا نق نش ن´بي نر نعاء تد نب نن ت³و نµا نا نµال نسی نع ن´بي نر تعو مد نµا نو ´لہ ن نن ال تدو نمن نن تعو مد نت نما نو مم ت¶ تل نز نت مع نµا (48نو

166

Page 167: Jada o Manzil Complete

تپکاراکرتے ہیں۔ میں تو آاپ لوگ خدا کو چھوڑ کر تان ہستیوں کو بھی جنہیں آاپ لوگوں کو چھوڑتا ہوں اور میں اپنے رب ہی کو پکاروں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کے نامراد نہ رہوں گا۔

تان پہلوؤں کو مومنین کے سامنے خاص طور پر حم اور ان کی قوم کا ذکر کرتے ہوئے ہلی نے حضرت ابراہی اللہ تعانش قدم پر چلنا چاہیے ۔ فرمایا: پیش کیا ہے جن میں مومنین کو ان کے نق

ننا مر نف ن³ ´لہ ن نن ال تدو نمن نن تدو تب مع نت نما نم نو مم ت¶ نمن نراء تب ن´نا ن·ا مم نمہ مو نق نل تلوا نقا مذ ن·ا نعہ نم نن نذي ´ل ن نوا نم نراہي مب ن·ا نفي ننۃ نس نح نوۃ مس تµا مم ت¶ نل مت نن ن³ا مد نقندہ )ممتحنہ: مح نو ´لہ ن نبال تنوا نم مؤ تت ن´تی نح ادا نب نµا نضاء مغ نب مل نوا نوۃ ندا نع مل تم ا ت¶ نن مي نب نو ننا نن مي نب ندا نب نو مم ت¶ (4نب

بے شک تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھی بہترین نمونہ ہیں جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے دو ٹوک کہہ دیاتان سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ ہم تمہارے )معبودوں اور کہ ہم کو تم سے اور جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو تھلz عداوت اور دشمنی قائم ہو گئی ہے تھلم ک عقیدوں کو( کو بالکل نہیں مانتے اور ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لیے ک

آاؤ۔ یہاں تک کہ تم صرف اللہ پر ایمان لے وہ جواں ہمت اور جواں سال رفقاء جو اصحاب کہف کے لقب سے مشہور ہیں جب انہوں نے دیکھا کہ دین و

ن و قبیلہ میں کوئی گنجائش نہیںایدہ کی متاع گراں بہا کے لیے ان کے وطن، ان کے اہل و عیال اور ان کے خاندعق رہی ہے تو وہ اپنے اہل و عیال کو خیر باد کہہ کر اپنی قوم سے کنارہ کش ہو گئے ، وہ اپنے وطن سے ہجرت کر گئے اور

ایمان کو لے کر اپنے پروردگار کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے تاکہ وہ دین و ایمان کی بنیاد پر صرف ایک اللہ کےنمتاعبندے بن کر رہ سکیں:-

نو تع مد ´ن ن نلن نض مر نµا مل نوا نت نوا نما نس تب ال نر ننا ت´ب نر تلوا نقا نف تموا نقا مذ ن·ا مم نبہ تلو تق نلی نع ننا مط نب نر نو ادی • مم ہ نناہ مد نز نو مم ن´بہ نر نب تنوا نم آا نيۃ مت نف مم ن´نہ ن·اتم نل مظ نµا من نم نف من ن´ي نب من نطا مل تس نب ميہم نل نع نن تتو مµا ني نا مول ´ل ن نلہۃ آا ننہ تدو نمن تذوا نخ ن´ت ننا ا تم مو نق ناء تؤل اطا • ہ نط نش اذا ن·ا ننا مل تق مد نق نل نلہا ن·ا ننہ تدو نمن نرحمتہ نمن ت¶م ت´ب نر مم ت¶ نل مر تش نين نف ن¶ہ مل نلی ا ن·ا تووا مµا نف ´لہ ن نا ال ن·ال نن تدو تب مع ني نما نو مم تموہ تت مل نز نت مع نذ ا ن·ا نو ابا • نذ ن³ ´لہ ن نلی ال نع نری نت مف نن ا نم نم

اقا )الکھف: نف مر نم ت³م نر مم نµا من نم ت¶م نل مئ ن´ي تيہ ( 16 تا 13و

تان آائے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ہم نے وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آاسمانوں اور تاٹھے اور انہوں نے اعلzن کر دیا کہ ہمارا رب تو بس وہی ہے جو تاس وقت مضبوط کر دیے جب وہ کے دل تاسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے ۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات زمین کا رب ہے ۔ ہم نب کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا آاپس میں ایک دوسرے سے کہا( یہ ہماری قوم تو ر کریں گے ۔ )پھر انہوں نے تاس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو آاخر بیٹھی ہے ۔ یہ لوگ اپنے اس عقیدے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے ؟ نان غیر اللہ سے بے تعلق ہو چکے ہو تو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے ؟ اب جب کہ تم ان سے اور ان کے معبود

167

Page 168: Jada o Manzil Complete

چلو اب فلzں غار میں چل کر پناہ لو۔ تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لیے سرو سامان مہیا کرے گا۔

آاتا ہے ۔ان برگزیدہ پیغمبروں اور آان میں حضرت نوح علیہ السلzم اور حضرت لوط علیہ السلzم کی بیویوں کا ذکر قر ہ جاتی ہے کہ ان کی بیویوں کا عقیدہ خاوندوں کے عقیدہ سے جدا تھاران کی بیویوں کے درمیان صرف اس بنا پر تفریق

آالود شرک تھیں: ۂاور وہ

نيا نن مغ تي مم نل نف نما نتاہ نن نخا نف نن مي نح نل نصا ننا ند نبا نع من نم نن مي ند مب نع نت مح نت نتا نن ن³ا مط تلو نµاۃ نر مم نا نو مح تنو نµاۃ نر مم نا تروا نف ن³ نن نذي ´ل ن ن´ل zال نث نم ´لہ ن نب ال نر نضنن )تحریم: نلي نخ ندا نع ال نم نر ´نا ن نz ال تخل مد نل ا نقي نو ائا مي نش ´لہ ن نن ال نم نما منہ (10نع

حط کی عورت کی مثال دیتا ہے ۔ یہ دونوں عورتیں ہمارے حح کی عورت اور لو کافروں کی عبرت کے لیے اللہ نو بندوں میں سے دو بندوں کے نکاح میں تھیں۔ ان دونوں نے ان سے خیانت کی مگر اللہ کی گرفت سے دونوں کے شوہران کو نہ بچا سکے اور دونوں عورتوں کو حکم دیا گیا کہ جاؤ دوسرے لوگوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں داخل ہو جاؤ۔ تاسوہ نل ایمان کے لیے ساتھ ہی جابر و سر کش فرمانروا فرعون مصر کی بیوی کی مثال بیان کی گئی ہے اور اہ

تاس کا ذکر کیا گیا ہے : کے طور پر

نلہ نم نع نو نن مو نع مر نف نمن نني نج نن نو ن´نۃ نج مل نفي ا اتا مي نب Áن ند نعن نلي نن مب نب ا نر مت نل نقا مذ ن·ا نن مو نع مر نف نµاۃ نر مم نا تنوا نم آا نن نذي ´ل ن ن´ل zال نث نم ´لہ ن نب ال نر نض نونن )تحریم: نمي نل ن´ظا نم ال مو نق مل نن ا نم نني نج نن (11نو

تاس نے دعا کی: اے نل ایمان کی نصیحت کے لیے اللہ فرعون کی بیوی کی مثال بیان کرتا ہے جب کہ اور اہنر بد سے نجات دے اور تاس کے کردا میرے پروردگار! میرے لیے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھ کر فرعون اور

مجھے ظالم لوگوں سے بھی نجات دے ۔ آان نے ہر نوعیت کے رشتوں اور قرابتوں کے بارے میں مختلف مثالیں بیان کی ہیں۔ نوح علیہ علی ہذا القیاس قرحم کے قصے میں بیٹے اور وطن کے رشتے کی مثال بیان السلzم کے قصہ میں رشتۂ پدری کی مثال ملے گی، حضرت ابراہینب کہف کے قصے میں اعزہ و اقارب، قبیلہ و برادری اور وطن و قوم کے رشتہ کی جامع مثال پیش کی گئی ہے ، اصحا کی گئی ہے ، حضرت نوح اور لوط علیہما السلzم کے قصے اور فرعون کے تذکرے میں ازدواجی تعلق کی مثال دی گئینل لحاظ آان کی نظر میں یہ تمام رشتے عقیدہ و ایمان کے ابدی رشتہ اور سرمدی رابطہ کے انقطاع کے بعد ناقاب ہے ۔ قر

قرار پاتے ہیں۔

تبنائے ترکیب تل ہاشمی کی تم رسو قو

168

Page 169: Jada o Manzil Complete

جب انبیاء کی برگزیدہ جماعت روابط و تعلقات اور رشتوں اور برادریوں کا حقیقی پیمانہ اور پاکیزہ تصور پیش کرآاتی ہے ۔ چنانچہ امت وسط کے اندر بھی اس نوعیت کی مثالوں اور نمونوں اور تجربوں چکتی ہے تو امت وسط کی باری نل ہلی نے اہ آاتی ہے جو ازل سے اللہ تعا تاسی ربانی راستے پر گامزن نظر کا وسیع اور ایمان افروز ذخیرہ ملتا ہے ۔ یہ امت بھی آاپ دیکھیں گے کہ جب رشتۂ ایمان ٹوٹ ایمان کے گروہ کے لیے منتخب و پسند فرمایا ہے ۔ اس امت کے اندر بھی جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں جب انسان اور انسان کے درمیان اولین رشتہ منقطع ہو جاتا ہے تو ایک ہی خاندان اور قبیلےتجدائی واقع ہو جاتی ہے ۔ اللہ تجدا گروہوں میں بٹ جاتے ہیں، بلکہ ایک ہی گھر کے مختلف افراد میں تجدا کے لوگ

ہلی مومنین کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : تعا

مو نµا مم ننہ نوا مخ ن·ا مو نµا مم نناءہ مب نµا مو نµا مم نباءہ آا تنوا ن³ا مو نل نو نلہ تسو نر نو ´لہ ن ند ال نحا من نم نن تدو نوا تي نر نخ آا مل نم ا مو ني مل نوا ´لہ ن نبال نن تنو نم مؤ تي اما مو نق تد نج نت نا لنن ندي نل نخا تر منہا نµا مل نتہا ا مح نت نمن نري مج نت مت ن´نا نج مم تلہ نخ مد تي نو منہ نم مح ترو نب ندہم ´ي ن نµا نو نن نما ن·اي مل تم ا نبہ تلو تق نفي نب نت ن³ ن« نئ نل مو تµا مم نتہ نر نشي نع

نن )مجادلہ: تحو نل مف تم مل تم ا ´لہ ہ ن نب ال مز نح نن ن·ا نا نµال ´لہ ن تب ال مز نح ن« نئ نل مو تµا منہ نع تضوا نر نو مم منہ نع ´لہ ن ني ال نض نر (22نفيہا

تاس تتو انہیں ان لوگوں سے دوستی کرتے نہ پائے گا جو اللہ اور آاخرت پر ایمان رکھتے ہیں نم جو لوگ اللہ پر اور یونل قبیلہ ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ )اہل ایمان( وہ لوگ ہیں جن تان کے باپ، یا بیٹے یا بھائی یا اہ کے رسول کے دشمن ہیں گو وہ تان کی تائید کی ہے ۔ اور وہ ان کو ایسے باغوں نن غیبی سے کے دلوں کے اندر اللہ نے ایمان نقش کر دیا ہے اور فیضاتان سے خوش اور وہ خدا تان میں ہمیشہ رہیں گے ۔ خدا میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ

آاگاہ رہو کہ خدائی گروہ ہی فلzح پانے والا ہے ۔ سے خوش۔ یہ خدائی گروہ ہے ۔ اور آاپ کے ہم قبیلہ عمرو بن ہشام )ابو آاپ کے چچا ابو لہب اور اللہ علیہ وسلم( اور ایک طرف محمد )صلی آاتے نر جنگ نظر نن مکہ اپنے اہل و اقربا کے خلzف برس جہل( کے درمیان خونی اور نسلی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، مہاجریآارا ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف مکہ کے ان مہاجرین کے درمیان اور یثرب ہیں اور معرکۂ بدر میں ان کے خلzف صف کے انصار کے درمیان عقیدہ کا سرمدی رشتہ استوار ہو جاتا ہے اور وہ سگے بھائی بن جاتے ہیں اور خونی اور نسلی رشتے سے بھی زیادہ قریب ہوجاتے ہیں۔ یہ رشتہ مسلمانوں کی ایک نئی برادری کو جنم دیتا ہے اس برادری میں عرب بھی شامل ہیں اور غیر عرب بھی۔ روم کے صہیب بھی اس کے رکن ہیں اور حبش کے بلzل اور فارس کے سلمان بھی۔ ان کے درمیان قبائلی عصبیت مٹ جاتی ہے ، نسلی تعصب و تفاخر ختم ہو جاتا ہے ، وطن اور قوم کے نعرے تحلیل ہو جاتے

تان سب سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے : ہیں۔ اور اللہ کا پیغمبر )دعوھا فانھا منتنۃ )ان عصبیتوں سے دست بردار ہو جاؤ یہ متعفن لاشیں ہیں

169

Page 170: Jada o Manzil Complete

لیس منا من دعا الی عصبیۃ، و لیس منا من قاتل علی عصبیۃ، و لیس منا من مات علی عصبیۃ )جو کسی جاہلی عصبیت کی طرف دعوت دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کے لیے جنگ کرتا ہے وہ ہم میں سے

نہیں، جو عصبیت پر مرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے (

دارالاسلام اور دارالحرب الغرض ان مردار و متعفن عصبیتوں کا چلن ختم ہو گیا۔ نسبی تعصب کا مردار لاشہ دفن کر دیا گیا، نسلیتاس کا نام و نشان تک باقی برتری کا جاہلی نعرہ پاؤں تلے روند ڈالا گیا، قومی گھمنڈ کی گندگی زائل کر دی گئی اور آافاق عالم کے عطر بیز چمنستان آازاد رہ کر نہ رہا۔ اور انسان نے گوشت اور خون کے تعفن اور زمین و وطن کے لوث سے میں مشام جان کو معطر کیا۔ اس دن سے مسلمان کا وطن جغرافی حدود اربعہ میں محدود نہیں رہا بلکہ پورا دارالاسلzمہلہی کا سکہ رواں ہوتا ہے ۔ نت ا اس کا وطن ٹھیرا۔ وہ وطن جہاں عقیدہ و ایمان کی حکمرانی ہوتی ہے ، اور صرف شریعتاس نے یہی وطن مسلمان کی پناہ گاہ بنا، اسی کی مدافعت کے لیے وہ کمربستہ رہا اور اسی کے تحفظ و استحکام میں تاس شخص کا تاس نے جام شہادت نوش کیا۔ یہ دارالاسلzم ہر تاس کی توسیع و اضافہ میں جان کا نذرانہ پیش کیا اور نمن ہے جو عقیدۂ اسلzم کا قلzوہ گلے میں ڈال لیتا ہے ، اور شریعت اسلzمی کو قانون زندگی کی حیثیت سے تسلیم ما کرتا ہے ، وہ ش�خص بھی اس پناہ گاہ سے استفادہ کر سکتا ہے جو مسلمان تو نہیں ہے مگر اسلzمی شریعت کو نظامنل کتاب کا معاملہ ہے جو دارالاسلzم کے اندر بودوباش رکھتے ہیں۔ ریاست کی حیثیت سے قبول کرتا ہے ۔ جیسا کہ ان اہہلہی کو نافذ نہ کیا جاتا ہو وہ مسلمان کے نت ا مگر وہ سرزمین جس پر اسلzم کی حکمرانی کا پھریرا نہ لہراتا ہو اور شریع لیے بھی اور دارالاسلzم کے معاہد ذمی کے لیے بھی دارالحرب ہے ۔ مسلمان اس کے خلzف شمشیر بکف رہے گا خواہتاس میں موجود تاس کے نسبی اور سسرالی رشتہ وابستہ ہوں، اس کے اموال و املzک تاس سے تاس کی جنم بھومی ہو، وہ تاس سے وابستہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے خلzف تلوار اٹھائی حالانکہ تاس کے مادی مفادات ہوں اور رپ کے آا رپ کے اور آا رپ کے اعزہ و اقارب اور خاندان کے لوگ رہتے تھے ، آا آابائی وطن تھا۔ وہیں رپ کا پیدائشی اور آا مکہ تھے ۔ مگر مکہ کی آائے وہاں چھوڑ رپ ہجرت کے وقت آا تھیں۔ جنہیں وہیں بھی اور جائیدادیں صحابہ کے مکانات آاگے تاس وقت تک دارالاسلzم نہ بن سکی جب تک وہ اسلzم کے سرزمین پیغمبر خدا کے لیے اور ان کی امت کے لیے

آا گئی۔´سرنگوں نہیں ہو گئی اور شریعت غر ا کے ہاتھ اقتدار کی مسند نہیں ناسلzم ہے ، یہی نرالا تصور زندگی اسلzم کہلzتا ہے ، اسلzم چند اشلوکوں کا نام نہیں ہے کہ بس اسی کا نام یا جو پر اسلzم کا بورڈ چسپاں ہو تدہرا دینا ہی کافی ہو، اور نہ کسی مخصوص سرزمین کے اندر جس انہیں زبان سے آادمی کو خود بخود اسلzم کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے ، اور نہ یہ اسلzمی نام سے پکاری جاتی ہو پیدا ہو جانے سے کسی

مسلمان والدین کے گھر میں پیدا ہونے سے وراثت میں مل جاتا ہے ۔

170

Page 171: Jada o Manzil Complete

ما تمو ´ل ن نس تي نو نت مي نض نق نما نم اجا نر نح مم نسہ تف نµان نفي ما تدو نج ني نا نم ل تث مم ننہ مي نب نر نج نش نما نفي Áن تمو ن¶ نح تي ن´تی نح نن تنو نم مؤ تي نا ن« ل ن´ب نر نو zن نفلاما )نساء: نلي مس (65نت

نہیں اے محمد، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے ۔ جب تک کہ اپنے باہمی اختلzفات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ

کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔ صرف اسی کا نام اسلzم ہے ، اور صرف وہی سرزمین دارالاسلzم ہے جہاں اس کی حکومت ہو۔ یہ وطن و نسل،

نسب و خون اور قبیلہ و برادری کی حد بندیوں سے بالا و برتر ہے ۔

اسلامی وطن اور اس کے دفاع کا اصل محرکتاسے زمین کی پستی سے باندھ رکھا تھا، آا کر انسانوں کو ان تمام زنجیروں سے رہا کیا جنہوں نے اسلzم نے آاسمان کی پہنائیوں میں پرواز کے قابل ہو سکے ۔ خون و نسب کے تمام سفلی طوق و سلzسل پاش پاش کر تاکہ انسان زمین کا کوئی بتایا کہ مسلمان کا وطن نے اسلzم ۔ پرواز کر سکے میں ترین فضاؤں بلند ہو کر آازاد انسان تاکہ دے لگانی بازی کی جان تاسے میں دفاع کے اور جس چاہیے تڑپنا تاسے میں محبت کی ہے جس نہیں خطہ مخصوص چاہیے ، مسلمان کی قومیت جس سے وہ متعارف ہوتا ہے کسی حکومت کی عطا کردہ نیشنلٹی نہیں ہے ، مسلمان کی

مسVVلمانبرادری جس کی وہ پناہ لیتا ہے اور جس کی خاطر لڑتا اور مرتا ہے وہ خون کے رشتہ سے ترکیب نہیں پاتی۔

تVVک جVVان ہوے لیے کے رکھن اونچا کو جس اورے ہ کرتا ناز ہو پر جس پرچم کایں پVVرچم کا قوم کسی ہوے ہ دیتا لگا بازی کی یVVابی فتح کی مسVVلمان ،ے ہ ہن

تVVا تVVابے ب ہوے لVVیے ک جس ےک خVVدا ہو پVVرے ہون ہمکنVVارے سVV جس اورے ہ ہریں ہغلب فوجی محض ہو ،ے ہ کرتا ادا شکرۂ سجدے سامن حVVق نفتح ہو ہبلکے ہ ہن

:ے ہ فرمایا بیان میں الفاظ انے ن قرآنے جسے ہ

نن ن³ا ن´نہ ن·ا مرہ نف مغ نت مس نوا ن« ن´ب نر ند مم نح نب مح ن´ب نس نف اجا • نوا مف نµا ´لہ ن نن ال ندي نفي نن تلو تخ مد ني نس ن´نا نت ال مي نµا نر نو تح • مت نف مل نوا ´لہ ن تر ال مص نن نجاء نذا ن·اابا نوا )سورۃ النصر( نت

gو اور ۔فتح اور مدد کی ہالل گئی آ جب ےک ہالل کVVو لوگVVوں لیVVا دیکھے ن تgو سو ۔ے ہوت داخل فوج در فوج میں دین کVVر تسVVبیح کی حمVVد کی ربے اپVVن تgس اور ۔ے ہ واالے کرن قبول ہتوب ہو شکے ب کر، استغفارے س ا

کسVVیے دوسرے ہ ہوتی حاصل تحتے ک ایمان پرچمM صرف یابی فتح ہییں شVVامل میں اس عصVVبیت کیے جھنڈ اد ہی ہوتی، ہن نصVVرت کی خVVدا دینM ہج

مفاد اور مقصد اور کسی ،ے ہ جاتا کیاے لیے ک سربلندی کی ہحقk شریعتM اوریں دخل میں اس کو ۔وتا ہن gس ہی ہ و شVVرائط کی جسے ہ دفاع کا دار االسالم ا

gوپر ہم خصائص قVVومی اور وطVVنی اور کسی میں دفاع اس ہیں،ے آئ کر بیان ا

171

Page 172: Jada o Manzil Complete

یں آمیزش کی تصور تVVر تمام کی فوج فاتح بعدے ک یابی فتح ۔جاسکتی کی ہن، ماک اور دلچسپی ہتوج یں حصVVول کVVا غنیمت مالM مرکز کا ہان ہی ہن اور ہوتVVا، ہنرت دنیVVاوی کسVVی جنگ کVVا اس ہبلک ،ے ہ جVVاتی لVVڑیے لVVیے ک نVVاموری یVVا ہش

کی اس اور رضVVاجوئی کی ہالل اورے ہ ہوتVVا رضVVا کی تعالیn ہالل اہخالصت مقصدkت وطنی جنگ ہی ۔ے ہ مقصود اصل کا اس استغفار اور تسبیح قVVومی اور حمی

یں بھی پر بنیاد کی عصبیت ل ہن جاتی لڑی ہن اصل کی اس تحفظ کا عیال و ہا بنVVا اس اگVVر ہجذب کا حمایت اور تحفظے ک ان ہالبت ۔ے ہ ہوتا محرک اور غرض

اس تVVوے جVVائ بچایاے س آزمائش و ہفتن کو ایمان و دینے ک ان ہک ہو شامل پریں قباحت کوئی میں ۔ن ہ

صلی ہالل رسول ہکے ہ مرویے س ہعن ہالل رضی اشعری موسیn حضرتادری شخص ایک ہک گیا کیا دریافتے س وسلم ہعلی ہالل لڑتVVاے لVVیے کے دکھان ہب

kت دوسرا ،ے ہ میں ان ۔ے ہ لڑتVاے لVیے ک ریا تیسرا اورے ہ لڑتا خاطر کی حمی ےہ لڑتVVاے لی اس جو دیا، جوابے ن آپ ؟ے ہ لڑتا میں ہرا کی ہالل سا کونے س۔ے ہ لڑتا میں ہرا کی ہالل ہو صرف ہو بلند ہکلم کا ہالل صرف ہک

ادت سVVکتا ہو نصVVیب میںے نتیجے ک جوئی جنگ اس صرف ہمرتب کا ہش۔و خVVاطر کی ہالل صرف جوے ہ آرائی قتVVال جVVو خVVاطر کی مقاصVVدے دوسVVر ہ

gس ہوگی ۔گا ہو ہن حاصل بلند ہمرتب ہی کو ا کVVو امور دینی ہو، پیکار برسرMے س ایمان و ہعقیدے ک مسلمان ملک جوgس میںے دین سرانجام ہو ہو رکھVVا کVVر معطVVل کVVو شریعت اتباعM اور ہو مانعے ا

gس میں اسے ہچا گا، ہو شمار دارالحرب اور خانVVدان اور اقVVارب و ہاعزkے ک اgس میں اس ہوں،ے بست لوگے ک ہقبیل تجVVارت کی اس اور ہو، لگا ہسرمای کا ا

gس حالی خوش و ۔و ہوابستے س ا جس ارض ہخط ہو ہر میںے مقVVابلے ک اس ہ کی شVVریعت کی ہالل ہو، حاصVVل ہغلب و فVVروغ کVVو ہعقیVVدے ک مسVVلمان میں

الئ سVVالمادارال ہو ہو عملداری gس ہخVوا گVاے ہک لے ک مسVلمان میں ا عیVVال و ہا

gس ہو، ہن بودوباش کی اں لVVوگے ک ہقبیل اور خاندانے ک ا ت ہن ہو ہوںے بسVVتے ہرgس اور gس منفعت مVVVVVادkی اور تجVVVVVارت کVVVVVوئی کی ا ہن ہوابسVVVVVتے سVVVVV ا

gس میں اصVVطالح اسVVالمی “وطن“ ہو----------------------- ےہ نVVام کVVا دیVVار اM اسVالمی ہو، حکمVرانی کی ہعقیدے ک اسالم میں جس اور قVائم حیVات نظVامی شریعتM اور ہو برپا n۔و حاصل برتری کو ہال ی کا وطن ہ وم ہی ےک انسانیت ہمفو کی اسVVالم قVومیت طVVرح اسی ۔ے ہ مطابقے ک مذاق و ہمرتب gر VVدے سVVہعقی جVVو سVVاتھے ک فضل و شرفے ک آدمیت اور ،ے ہ عبارتے س حیاتۂ نظری اور

ی ہوے ہ رکھتا مناسبت ہرشت اور ہرابط ۔ے ہ سکتا ہو قومیت تصkورM ہیلیتے نعر نسلی اور قومی ہیں سڑاند کی ہجا

ی اور عصVVبیت کی وطن و رنVVگ اور نسVVل و قوم اور برادری و ہقبیل ہر ہبلکے ہ االثVVر محVVدود اور دامانی تنگ نظری، تنگ دعوت ہی صرف ہن تو دعوت

لی ہی ۔ے ہ یادگVVار کی وحشVVت دورM اور مانVVدگی پس انسVVانی ان عصVVبیت ہجVVاgس جب تھی ہوئی مسلط پر انسان میں ادوار پسVVتی اور انحطVVاط روح کی ا

تعبVVیرے سVV “سVVڑاند“ے اسVVے ن واسل ہعلی ہالل صلی ہالل رسول ۔تھی شکار کا

172

Page 173: Jada o Manzil Complete

gٹھ لپVVٹیں ونتکیف���عے سVV جس مVVردار ایسVVا یعVVنی ،ے ہ فرمایا ی ا ۔وں ہر اور ہ

ت و کرب نفیس ذوقM کا انسان ا کر محسوس ہکرا ۔و ہر ہود جب محبوب کی ہالل پر بنیاد قومی اور نسلی ہو ہک کیا دعویn ہیے ن ہی

یتی اور gنے ن تعالیn ہالل تو ہیں قوم ہچ gنے دعوn ہی کا ا اور مVVاراے د پVVر ہمنے ک ا بVVزرگیے لیے ک لوگوںے ک ہجگ ہر اورے لیے ک قوم ہر اور نسل ہر میں دور ہر

ی تقرب اور ےہ ہو اور بتایVا معیVار ہی ایVک صVرف کVا فضیلت و شرف اور ہہال۔وا ارشاد ہ۔بالل ایمان ہ

ننا مي نل ن·ا نل نز تµان آا نم نو ´لہ نبال ن´نا نم آا ما تلو تقو نن • ن³ي نر مش تم مل نن ا نم نن ن³ا نما نو افا نني نح نم نراہي مب ن·ا ´لۃ ن نم مل نب مل تق ما تدو نت نتہ نری نصا نن مو نµا ادا ما ہو تنو ت³و ما تلو نقا نومم ن´بہ نر نمن نن ت´يو نب ´ن ن ني ال نت تµاو نما نو نسی نعي نو نسی تمو ني نت تµاو نما نو نط نبا مس µا نوال نب تقو مع ني نو نق نح مس ن·ا نو نل نعي نما مس ن·ا نو نم نراہي مب ن·ا نلی ن·ا نل نز تµان نما نومق نقا نش نفي مم نما ہ ´ن ن ن·ا نف ما مو ´ل ن نو نت ن·ان نو ما ندو نت ند اہ نق نف نبہ تتم نمن آا نما نل مث نم نب ما تنو نم آا من ن·ا نف نن • تمو نل مس تم نلہ تن مح نن نو مم منہ نم مد نح نµا نن مي نب تق نر نف تن نا ل

نن )البقرہ: نبدو نعا نلہ تن مح نن نو نغۃ مب نص ´لہ نن ال نم تن نس مح نµا من نم نو ´لہ نغۃ ال مب نص تم • نلي نع مل تع ا نمي نس نو ال نوہ ´لہ تم ال ن¶ہ نفي م¶ ني نس تا135نف138 )

ودی ت ہی ودی ہیں:ے ہک ت عیسائی ۔ے گ پاؤ راست نہرا تو جاؤ ہو ہی ہیں:ے ہکو:ے س ان ۔گیے مل ہدایت تو جاؤ ہو عیسائی یں ہک کVVر چھVVوڑ کVVو سVVب ہبلک ہنیم یم اور کرو اختیار ہطریق کا ہابرا مسVVلمانو! ۔تھVVا ہنے سVV میں مشرکوں ہابرا

و ےہ ہوئی نVVازل طVVرف ہماری جو پر ہدایت اس اور پر ہاللے الئ ایمان ہم ہک ہکیم، جو اور نVVازل طVVرف کی یعقVVوب اوالدM اور یعقVVوب اسحاق، اسمnعیل، ہابرا

gن کVVو پیغمVVبروں تمVVامے دوسVVر اور عیسnی اور موسیn جو اور تھی ہوئی ےک ایں تفریVق کVوئی درمیانے ک ان ہم ۔تھی گئی دیے س طرف کی رب ےکVرت ہن۔یں مسلمے ک ہالل ہم اور gسVVی ہو پھراگVVر ہ تم طVVرح جس الئیں ایمVVان طVVرح اgھلی تو پھیریں، ہمنے س اس اگر اور ہیں، پر ہدایت تو ہو،ے الئ ہٹ ہکے ہ بات ک

۔یںے گئ پڑ میں دھرمی ذا ہ gن ہک رکھو اطمینان ہہل اری ہالل میںے مقVابلے ک ا ہتم اختیVVار رنگ کا ہالل ۔ے ہ جانتا اور سنتا کچھ سب ہو ۔ے ہ کافیے لیے ک حمایت

gسVVی ہم اور گVVا؟ ہو رنگ کا کس اور اچھاے س رنگے ک اس ۔کرو بنVVدگی کی ا۔یں لوگے والے کرن ہ

ہمسVVلم امتM ہو درحقیقت قوم ہپسندید اور ہبرگزید اور محبوب کی ہالل ملVVک و وطن اور بوقلمونی کی روپ و رنگ اختالف، قومی اور نسلی جوے ہ

ہوتی متحVVد اور مجتمVVعے نیچے ک پرچمے ک ہالل صرف باوجودے ک ایرتغم کی

:ے ہ

نل عمران : آا ´لہ ) نبال نن تنو نم مؤ تت نو نر ن¶ تمن مل نن ا نع نن مو منہ نت نو نف ترو مع نم مل نبا نن ترو تم مµا نت نس ن´نا نلل مت نج نر مخ تµا نمۃ تµا نر مي ( 110نخ

173

Page 174: Jada o Manzil Complete

ترین ہو تم میVVدانے لVVیے ک اصالح و ہدایت کی انسانوںے جس ہو ہگرو ہب پVVر ہالل اور ہوے روکVVتے سVV بدی اور ہوے دیت حکم کا نیکی تم ۔ے ہ گیا الیا میں

۔وے رکھت ایمان ہgمت پرسVVت خVVدا ہی اس ہک تھی ہی شVVان کی ہدسVVت ہراولے ک جسے ہ ا

ےک حبش توے تھ شامل ابوبکر چراغ و چشمے ک خاندان معززے ک عرب میںیبے ک روم اور بالل کی بعVVد ۔ے تھ موجVVود بھی سVVلمانے ک فVVارس اور ہص

میں جلوے ک نظام زا حیرت اور انداز نشین دل اسی میں دور ہر بھی نسلیںودۂ منصے دیگر بعدے یک یں ابھرتی پر ہش ۔ر قومیت کی امت اس توحیدۂ عقید ہ

ی ا وطن کVVVا اس داراللسVVVالم ،ے ہ ہر کVVVا اس حVVVاکمیت کی ہالل اور ،ے ہ ہرا شعار امتیازی ا حیات دستورM کا اس قرآن اورے ہ ہر ۔ے ہ ہر

ہیں توحید ئمناف عصبیتیں کی قوم و وطن حVVق داعیVVانM آج تصVVور ارفVVع اور ہپاکیز ہی کا قرابت اور قومیت و وطن

ی جانVVVا ہو نقش طVVVرح پVVVوری پVVVر دلVVVوںے ک اور وضVVVاحت اس اور ۔ے ہچVVVاgتر میںے ریشے ریشے ک دماغ و دلے ک ان ساتھے ک درخشندگی یجانا ا ے چVVا ہ

لیت میں اس ہک نشVVرک اور ہو ہن موجVVود تVVک ہشائب کا تصورات بیرونیے ک ہجاgس قسم کوئی کی خفی ہخVVواے سVV شVVرکے ک قسم ہر ۔ے سک پا ہن ہرا میں ا اور مفVVادات گھٹیVVاے ک دنیVVا ، پرسVVتی قوم پرستی، نسل یا ، ہو پرستی وطن

کی شVVرک ۔ے ہ شفاف و پاک تصور ہیے س سب ان ہو، پرستش کی منفعتوں ےپلVVڑ ایVVک اور ہیں دی کVVر جمVVع میں آیت ایVVکے ن تعVVالیn ہالل قسمیں سب ہی

gس اور ایمان میںے دوسر اورے ہ رکھا کو سب ان میں رکھ کو تقاضوںے ک اgھلی کی بات اس کو انسان پھر اورے ہ دیا دونVVوں ان ہو ہکے ہ دیے د چgھٹی ک

:ے ہ دیتا ترجیح کوے پلڑ کسے س میں

ندہا نسا ن³ نن مو نش مخ نت نرۃ نجا نت نو تموہا تت مف نر نت مق لل ا نوا مم نµا نو مم ت¶ تت نر نشي نع نو مم ت¶ تج نوا مز نµا نو مم ت¶ تن نوا مخ ن·ا نو مم ت³ تؤ آا نن مب نµا نو مم ت³ تؤ نبا آا نن ن³ا ن·ان مل تقندي نيہ نا ´لہ ل نوال نرہ مم نµا نب ´لہ ني ال نت مµا ني ن´تی نح ما تصو ن´ب نر نت نف نلہ نبي نس نفي مد نجہا نو نلہ تسو نر نو ´لہ نن ال نم ت¶م مي نل ن·ا نب نح نµا ننہا مو نض مر نت تن ن³ نسا نم نو

نن ) نقي نس نفا مل نم ا مو نق مل ( 24التوبہ: ا

ار اگر ہک دو ہہک نبی!ے ا ار اور باپے ہتم ار اورے بیٹے ہتم اور بھVVائیے ہتماری ار اور بیویVVاں ہتم ار اور عزیزواقVVاربے ہتم خVVودے ن تم جVVو مVVال ہوے ہتم

ار اور ہیں،ے کمائ gس اور ہالل کVVو تم ، ہیں پسVVند کVVو تم جVVو گھVVر ہوے ہتم ےک ااد میں ہرا کی اس اور رسول کVVرو انتظVVار تVVو ہیں تر عزیز ہزیادے سے کرن ہج

اں ار ہفیصVVل اپنVVا ہالل ہک تVVک ہی کی لوگVVوں فاسVVق ہالل اورے آئے لے سVVامنے ہتمنمائی یں ہر ۔کرتا کیا ہن

دلVVوںے ک علمVVبرداروںے ک تحریک اسالمی اور حق داعیانM طرح اسیلیت میں تعریVVف کی دار االسالم اور دارالحرب اور حقیقت کی اسالم اور ہجا

ات و شVVکوکے ک قسVVم سVVطحی میںے بVVارے ک یں پیVVدا ہشVVب ئیںے ہون ہن ۔چVVا ہ

174

Page 175: Jada o Manzil Complete

ات و شVVکوکے ایسVV دراصل ےک اکVVثرے سVV میں انے سVV ہیے راسVVتے ک ہشVVب کسVVی بVVات ہی ہورن -------ے ہ جاتا ڈاال ہڈاک ہر عانذا و یقین اور تصور اسالمی

یں محتاج کی وضاحت ہو ہن حکمرانی کی نظام اسالمی پر ملک جس ہکے ہ ہنیں تعلVVق کVVوئیے سVV اسVVالم کا اس ہو ہن قائم شریعت اسالمی اور ۔ن بVVات ہی ہ

یں تشVریح محتاجM بھی یں دار االسVالم ملVک ایسVا کVوئی ہک ہن جس سVکتا ہو ہن۔و ہن حاصVVل اقتدار کو حیات قانونM اور زندگی طرزMے ہوئے الئے ک اسالم میں ہ

اں ۔ے ہ جاتا میںے نرغے ک ہی کفر انسان کر چھوڑ کو ایمان گا ہو ہن اسالم ہجاں ¿ ہو لیت الزما gس بعدے ک روگردانیے س حق اور گا ہو چلن کا ہجا یے ا ہگمVVرا۔وگا ہن نصیب کچھ سواے ک ضاللت اور ہ

واپس اوپر جائیے

مہد باب

175

Page 176: Jada o Manzil Complete

ضرورت کی تبدیلی دgوررسں کری پیشے کیس کو اسالم ہم

ےہمVVارے ہچVVا تVVو کVVریں پیش کVVو اسVVالمے سVVامنے ک لوگVVوں ہم جبرحVال مسVلم غVیر یVا ہوں مسلمان مخاطب ی ایVک ہب ہمیںے سV حقیقت ہبVدی

نا باخبر طرح پوری ی ہر ے چا مVVزاجے ک اسVVالم خVVود جVVوے ہ حقیقت ہو ہی اور ،ہم ثبوت کا اس تاریخ کی اسالم اور ،ے ہ ہنتیج کا فطرت اور ی کر ہفرا ۔ے ہ ہر

:ے ہ سکتا جا کیا بیان یوں کو حقیقت اس میں الفاظ مختصرایت ایVVک ہوے ہ کرتVVا پیش تصVVور جو کا کائنات اور زندگی اس اسالم ہن

تصور اس ۔ے ہ حامل کا اوصاف امتیازی اور ،ے ہ تصور منفرد اور جامع ہدرج ےاجVVزائ تمVVامے اپVVن بھی ہوے ہ ہوتVVا مVVاخوذ نظVVام جVVو کVVا زندگی انسانیے س

مخصVVوص اورے ہ نظVVام کامل اور مستقل ایک میں ذات اپنی سمیت ترکیبیرے س امتیازات ہب gن پVVر طور بنیادی تصور ہی ۔ے ہ مند ہ لی تمVVام ا تصVVورات ہجVVا

ےجVاتے پVائ میں حاضVر دورM یVاے ہر رائج میںے زمان قدیم جوے ہ متصادمے س۔یں تفصVVیالت اور جزئیVVات ضVVمنی اور سVVطحی بعض تصور ہی ہکے ہ سکتا ہو ہلی میں اں لیکنے کVVر اتفاق کبھار کبھیے س تصورات ہجا اصVVولوں ان تVVک ہجلو ضمنی اور جزوی ہیے س جنے ہ سوال کا ضابطوں اور تو ہیںے ہوت برآمد ہپ

انسVVانی جVVو ہیں جدا بالکل اور مختلفے س تصورات اور نظریات تمام ان ہو۔یںے ہر پذیر فروغ اور رائج تک اب اندرے ک تاریخ ےسV سب کا اسالم ہچنانچ ہ

ال gس جVوے ہ کرتVا تشکیل کی زندگی انسانی ایسی ایک ہو ہکے ہ ہی کام ہپ ےک ا۔و تفسVVیر عملی کی اس اور ہنمائنVVد صحیح کی تصور ایVVک انVVدرے ک دنیVVا ہو ہ تصVVویر کی حیVVاتۂ طVVریق ہپسVندیدے ک تعVالیn ہالل جوے ہ کرتا قائم نظام ایسا غVVرض اس ہی اٹھایVVا انVVدرے ک دنیا کو ہمسلم امتMے ن تعالیn ہالل ہبلک ۔ے ہ ہوتا

ی ہو ہکے ہے لیے ک gسVV اورے ہر کر بن ترجمان کی زندگیۂ طریق ہہال ےک دنیVVاے ا:ے ہ ارشاد کا تعالیn ہالل ۔ے کر پیش میں زبان کی عملے سامن

نل عمران : آا ´لہ ) نبال نن تنو نم مؤ تت نو نر ن¶ تمن مل نن ا نع نن مو منہ نت نو نف ترو مع نم مل نبا نن ترو تم مµا نت نس ن´نا نلل مت نج نر مخ تµا نمۃ تµا نر مي نخ مم تت ( 110ت³ن

ترین ہو تم کVVا نیکی تم ۔ے ہ گیVVا اٹھایاے لیے ک انسانوںے جس ہو ہگرو ہبgرائی اور ہوے دیت حکم ۔وے الت ایمان پر ہالل اور ہوے روکتے س ب ہ

:ہکے ہ کرتا بیان صفت ہی ہو کی امت اس

نر )الحج ن¶ تمن مل نن ا نع موا ننہ نو نف ترو مع نم مل نبا تروا نم نµا نو ن³اۃ نز توا ال نت آا نو نzۃ نصل تموا ال نقا نµا نض مر نµا مل نفي ا مم ن´ناہ ن¶ نم ن·ان نن نذي ´ل ن ( 41: ا

یں ہم اگVVر ہک ہیں لVVوگ ہو ہی قVVائم نمVVاز ہی تVVو دیں اقتVVدار میں زمین ہان۔ے گ روکیںے س برائی اورے گ دیں حکم کا نیکی ،ے گ دیں ۃزکوn ،ے گ کریں

یں شان ہی کی اسالم لی ہشد قائم اندرے ک دنیا ہو ہکے ہ ہن تصVVورات ہجVVالی یاے کر اختیار ہروی ہمصالحان ساتھے ک لی اور نظاموں ہجا ےسV قVوانین ہجVا

مے بقائ یں بھی روز اgسے ن اسVVالم مؤقVVف ہی ۔ے کVVر ہمعامل پر اصولے ک ہبا ہن

176

Page 177: Jada o Manzil Complete

gس روز جس تھVVا کیا اختیار gس ہی آج ہن اور تھVVا، رکھVVا قVVدم میں دنیVVاے ن ا کVVا اgمیVVد کبھی ہآئند ہن اورے ہ سکتا ہو مؤقف ۔گVVاے اپنVVائ ہو کVVو مؤقVVف اس ہکے ہ الیت لیت ہو ہو رکھتی تعلقے س دور کسی ہخوا ہجا حقیقت ہو اور ۔ے ہ ہی ہجVVا

Mے ہوئے بھیجے ک تعVVالیn ہالل اور انحVVرافے سVV بندگی کی تعالیn ہالل میں نظVVام و قVVوانینے ک زنVVدگیے سVV مآخVVذ شVVناس ناخVVدا ہو ۔ے ہ بغVVاوتے سVV زنVVدگی نام کاے کرن اخذ معیارات اقدارو اور روایات و عادات اصول، و قواعد شرائع،

اسVVالم ۔ے ہ نVVام کVVا سVVرافگندگیے سامنے ک ہالل اسالم برعکسے ک اس ۔ے ہیں مخصوص ساتھے ک حالت کسی اور دور کسی ےلVVیے ک دور ہر ہی ہبلکے ہ ہن

لیت کVVو انسVVانوں مشVVن کVVا اس ۔ے ہ افعن���ے لVVیے ک حVVالت ہر اورے ہ کی ہجVVا

الفVVاظ واضVVح ہزیVVاد ۔ے ہ النVVا میں روشVVنی کی ہدایت کVVر نکالے س تاریکیوںلیت میں یعVVنی ۔کVVریں بنVVدگی کی انسانوںے جیس ہیے اپن انسان ہکے ہ ہی ہجا خداونVVدیے منشVVائے لVVیے ک انسانوںے دوسر کر بن برتر و غالب انسان کچھ

یں اور کریں سازی قانون کر ہٹے س سVVازی قVVانون ہک ہو ہن بحثے س اس ہان۔یںے گئے کی استعمال میں شکل کس اختیاراتے ک تمVVام ہکے ہ ہی اسالم اور ہ

عقائVVد، و تصVVورات تمVVامے اپVVن ۔کVVریں بنVVدگی کی واحVVدے خدائ صرف انسان کVVریں حاصVVلے س ہالل معیارے ک ردوقبول اور اقدارMحیات اور شرائع و قوانین

ہم کر ہو آزادے س عبودیت کی مخلوق اور یکسوے لیے ک بندگی کی خالق تن ہ۔جائیں ہو

کردار اgسے ک اسالم اورے ہ تقاضا کا فطرت کی اسالم خود حقیقت ہیgس اندرے ک دنیا جوے ہ ہوتی عیاںے س تVVا دینا انجام یاے ہ دیا انجامے ن ا ےہ ہچا

ی ۔ یںے سVVامنے ک انسانوں تمام ان ہمیں حقیقت ہی دعVVوت کی اسVVالم ہم ہجن دیVنی کر واضح پر طور یکساں غیرمسلم یا ہوں مسلمان ہخوا ہو کریں، پیش

ی ےچا ۔ہلیت اور اسالم یں مصالحت ہرگز میں ہجا سکتی ہو ہنلیت اسVVالم کVVوئی کی نVVوعیت بVVروںے نیم دروںے نیم سVVاتھے ک ہجVVا

یں قبول مصالحت ہخVVوا اور ہو کا ہنظری اور تصورے ک اس ہخوا ہمعامل ۔کرتا ہن یVVا گVVا،ے ہر اسVVالم کVVا، حیات قوانینMے والے ہون مرتب پر ہنظری اور تصور اس

لیت آدھی اور ہو اسVVالم آدھا میں جس شکل کوئی ایسی تیسری گیے ہر ہجالیت یں پسVند یVVا قبVVول کو اسالم ہجا ۂنقط کVا اسVVالم میںے معVامل اس ۔ے ہ ہن

تVVا ہی ہو ۔ے ہ روشVVن اور واضح بالکل نظر ےہ اکVVائی ایسVVی ایVVک حVVق ہکے ہ ہکیں ہتجزی کا جس ¿ تو ہوگا ہن حق ۔سکتا ہو ہن باطVVل اور حVVق ۔گVVا ہو باطVVل الزما

مے بقائ اور امتزاج و اختالط میں دونوں گVVا،ے چل کا ہالل یا حکم ۔ے ہ محال ہبالیت یVVا کی نفسے ہوائ پھVVر یVVا ہوگVVا رواں ہسVVک کVVا شVVریعت کی ہالل ۔کVVا ہجVVا

۔وگی عملداری :ے ہ کیا بیان میں آیات بکثرتے ن قرآن کو حقیقت اس ہ

ن« مي نل ن·ا ´لہ نل ال نز نµان نما نض مع نب نعن Áن تنو نت مف ني نµان مم مرہ نذ مح نوا مم نواءہ نµاہ مع نب ´ت ن نت نا نول ´لہ نل ال نز نµان آا نم نب ننہم مي نب ت¶م مح نن ا نµا (49المائدہ: )نو

177

Page 178: Jada o Manzil Complete

ےک لوگوں ان مطابقے ک قانون ہکرد نازلے ک ہالل آپ محمد!(ے ا پس)شVVات کی ان اور ۔کریں ہفیصل کا معامالت ےسVV ان ۔کVVریں ہن پVVیروی کی ہخوایں ہوشVVVیار یں ہک ہر gس کVVVر ڈال میں ہفتن کVVVو آپ لVVVوگ ہی ہک کچھے ک ہدایت ا

۔ے ہ کی نازل طرف کی آپے ن خدا جو دیں کر ہن منحرفے سے حص

ہی: مم )شور نواءہ نµاہ مع نب ´ت ن نت نا نول نت مر نم تµا نما ن³ مم نق نت مس نوا تع مد نفا ن« نل نذ نل (15نف

یںے جم پVVر اس اور دیں، دعVVوت طVVرف اس پس کVVو آپ ہک جیسVVا ہرشات کی ان اور ۔ے ہ گیا دیا حکم ۔کریں ہن پیروی کی ہخوا

ندي نيہ نا ´لہ ل ن نن ال ن·ا ´لہ ن نن ال نم ادی نر ہ مي نغ نب نواہ نع ہ نب ´ت ن نن ا نم نم تل نض نµا من نم نو مم نواءہ نµاہ نن تعو نب ´ت ن ني نما ´ن ن نµا مم نل مع نفا ن« نل تبوا نجي نت مس ني مم ´ل ن ن·ان نفنن )القصص: نمي نل ن´ظا نم ال مو نق مل ( 50ا

اپVVنی لVوگ ہی ہک لVو جVان تVVو دیں ہن جVواب کVاے مطVالبے ک آپ اگر اورشات ۔یں پیروکارے ک ہخوا ےہ ہوسکتا کون ہگمرا کر بڑھے س شخص اس اور ہ

ش اپVVنیے ن جس ےب ۔کی ہن ہپVVروا کی ہدایت کی ہالل اور کی پVVیروی کی ہخVوایں ہدایت کو لوگوں ظالم تعالیn ہالل شک ۔دیتا ہن

نن ن·ا ائا و نشي ´لہ ن نن ال نم ن« نعن تنوا مغ تي نلن مم ن´نہ ن·ا نن • تمو نل مع ني نا نن ل نذي ´ل ن نواء ا نµاہ مع نب ´ت ن نت نا نول معہا نب ´ت ن نفا نر مم نµا مل نن ا نم نعۃ نري نش نلی نع Áن ننا مل نع نج نم تثنن نقي ´ت ن تم مل تي ا نل نو ´لہ ن نوال مض مع نب نياء نل مو نµا مم تضہ مع نب نن نمي نل ن´ظا ( 19 – 18)الجاثیہ: ال

را صاف ایک میںے معاملے ک دین کو تمے ن ہم نبیے ا ہشVVا )شVVریعت( ہذا ۔ے ہ کیا قائم پر gسی تم ہہل شVVات کی لوگوں ان اور چلو پر ا ہن اتبVVاع کVVا ہخوا

یں علم جو کرو ارے سVامنے ک ہالل ہی ۔ے رکھت ہن اور ۔ے گ آئیں ہن کVام کچھے ہتمیزگاروں ہالل اور ہیں رفیقے کے دوسر ایک ظالم شکے ب ۔ے ہ دوست کا ہپر

نن تنو نق تيو مم مو نق ن´ل اما م¶ تح ´لہ نن ال نم تن نس مح نµا من نم نو نن تغو مب ني ´يۃ ن نل نجاہ مل نم ا م¶ تح نف ( 50)المائدہ: نµا

لیت ہی کیا پس ت ہفیصل کا ہجا یقین پVVر ہالل لVVوگ جVVو ہک حVVاالں ہیںے ہچVVاترے س ہالل نزدیکے ک ان ہیںے رکھت یں کوئی واالے کرن ہفیصل ہب ۔ے ہ ہن

یں ہی دو صVVرف ہکے ہ ہوتVVا واضVVح صافے س آیات ان تیسVVری ہیں، ہرایں ہرا کوئی خم تسVVلیم نسVVر پر دعوت کی رسولے ک اس اور ہالل تو ۔ یاے ہ ہن

۔وگا کرنا شM دیگر بصورتM یا اور ہ ہفیصVVل کVVا ہالل ہوگی، پVVیروی کی نفس ہخVVوالیت یا ہوگا کرنا تسلیم ہکVرد نVازلے ک ہالل اگVر ۔سVرافگندگیے سVامنے ک ہجVارایا ہن ہفیصلے بنائ کو قانون M پVVر طVVور طبعی تVVو گVVاے جائ ہٹھ ی احکVVام nہال VVےس

کسVVی بعVVدے ک بیانVVات واضVVح بVVاال ہمذکورے ک ہالل کتاب ۔گا ہو انکار و اعراضیں گنجائش کی جوئی ہحیل اور ہمجادل و بحث ۔ے ہ ہن

مشن اصل کا اIسالم

178

Page 179: Jada o Manzil Complete

ہکے ہ ہی اولین فرضM کا اسالم اندرے ک دنیا ہکے ہ ہی مطلب صاف کا اسلیت M کر ہٹاے س منصبے ک قیادت انسانی کو ہجا ہاتھے اپVVن خVVود قیVVادت زمVVام

و اوصVVاف ہجgداگان اور مستقل جو کو حیات طریقM مخصوصے اپن اورے ل میں مقصVVد کVVا اgسے سVV قیVVادت صVVالح اس ۔ے کVVر نافVVذے ہ حامVVل کVVا خصVVائصبود و فالح کی انسانیت جgھکے سامنے ک خالقے اپنے ک انسان صرف جوے ہ ہب

نگی ہم و توافVVق میں حVVرکت کی کائنات اور انسان اورے جان ےہوجVVان قVVائم ہآgس کو انسان ہو ہکے ہ ہی مقصد کا اس ۔ے ہ سکتی ہو پیداے س M ا پVVر رفیع مقام

شاتM اورے ہ کیا تجویزے لیے ک اgسے ن تعالیn ہالل جوے د کر متمکن نفس ہخواgسے س استیالء و ہغلبے ک ی ہی ۔ے د نجاتے ا ربیVVع حضVVرتے جسے ہ مقصد ہو

رسVتم ۔تھVا کیVا بیVان میں جوابے ک رستم قائدے ک فوج فارسیے ن عامر بناں لVVوگ “تم ہک تھا پوچھاے ن ا:ے ن ربیVVع ہو؟“ے آئے لVVیے ک غVVرض کس ہی ہالل ہک

nانوں کو انسانوں ہم ہکے ہ بھیجاے لی اس ہمیںے ن تعالیVVدگی کی انسVVبن VVےس تنگنVVائیوں کی پرسVVتی دgنیVVا ۔کریں داخل میں بندگی کی واحدے خدائ کر نکال

انسVانی کVریں، ہمکنVارے سV وسعتوں کی دونوں آخرت اور دنیا کر نکالے سیں کرے د نجاتے س ستم و ظلمے ک ادیان “۔الئیں میں عدلے ک اسالم ہان

شات نفسانی ان کی انسان اسالم یںے لVVیے ک توثیVVق و تائید کی ہخوا ہن رسVVم گونVVاگوں اور میں رgوپے ک تخیالت و نظریات مختلف انسان کا جن آیاار میںے پردے ک رواج و ا کرتا ہاظ ےایسVV بھی وقتے ک ابتدا کی اسالم ۔ے ہ ہر

پVVر انسانیت میں مغرب و مشرق بھی آج اورے تھے گئے پائ رسوم و نظریاتMشات شVات اسVVالم ۔ے ہ حکمرانی و ہغلب کا نفس ہخوا حکمVرانی اس کی ہخوا

یںے بنان مضبوط کو و تصVVورات تمVVامے ایسVV ہو ہکے ہ آیVVاے لVVی اس ہبلک آیVVا، ہن اپVVنی ہجگ کی ان اور ۔ے د لVVپیٹ بسVVاط کی روایVVات و رسVVوم اور قVVوانین

تخلیVVق دنیVVا نVVئی ایک ،ے کر تعمیرMنو کی زندگی انسانی پر بنیادوں مخصوص۔و اسالم محور و مرکز کا جسے ڈال طرح نئی کی زندگی ،ے کر ہ

لیت ت جزوی کی اسالم کیساتھ ہجا ہمشابلVVو جVVزوی بعضے ک اسVVالم ہکے ہ ہوتVVا ایسا اوقات بعض gس ہپ لیت ا ہجVVا

لوؤں بعضے ک زندگی کی لVVوگ میں جن ہیںے آت نظVVر ہمشVVاب و مماثVVلے ک ہپ¿ یں ہی مطلب کا اس لیکن ہیںے ہوتے گھر عمال لیت ہکے ہ ہن اجVVزاء کچھے ک ہجا

فروعی اور سطحی بعض ہکے ہ اتفاق محض ہی ہبلک ہیںے جاتے پائ میں اسالملیت اور اسالم میں امور ت میں ہجا الVVگ دونVVوں ہورن ۔ے ہ گVVئی ہو پیVVدا ہمشاب ایVVک شVVاخیں اورے تVVن اور جVVڑیں کی دونVVوں اور ہیں ماننVVد کی درخت الVVگ

۔یں جgداے سے دوسر gن ہبلک ہ درخت ہو ایک ۔ے ہ فرق کا آسمان و زمین میں ای حکمتMے جسVVے ہ nتے ن ہالVVا کاشVVینچا اور کیVVرا اورے ہ سVVہو دوس MجرVVش(

شات انسانی جوے ہ خبیث( ۔ے ہ ہوا برآمدے س میں زمین کی ہخوا

ادا ن¶ نن ´ا ن ن·ال تج تر مخ ني نا نث ل تب نخ نذي ن´ل نوا ن´بہ نر نن مذ ن·ا نب تتہ نبا نن تج تر مخ ني تب ن´ي ن´ط تد ال نل نب مل ( 58)اعراف: نوا

179

Page 180: Jada o Manzil Complete

³ھل خوبے س حکمے ک ربے اپن ہوے ہ ہوتی اچھی زمین جو gھول پ التی پیں کچھ سVVواے ک پیVVداوار نVVاقصے سVV اسے ہ ہوتی خVVراب زمین جو اورے ہ ہن

۔نکلتالیت لیت قVVدیم ہو ہخVVوا ۔ے ہ ہمVVاد فاسVVد اور خبیث ہجا ۔جدیVVد یVVا ہو ہجVVا

لیت ری کا فساد اور خبثے ک ہجا مختلVVف میں زبVVانوں مختلVVف تVVو ہیولیn ہظاا دھارتا روپ ی ہی ایک اصل اور جڑ کی اس لیکنے ہ ہر ہکوتVVا جڑ ہی اورے ہ ہرل اور نظر شات کی انسانوں ہجا نVVادانی اپVVنی جVوے ہ ہوتی پیوسVVت میں ہخوایں سکت کیے نکلنے س جالے ک خودبینی اور یVVا افVVراد چنVVد پھر یا ،ے رکھت ہن ہوتی ماخVVذ کVVا اس مفادپرستی کی نسلوں چند یا قوموں چند یا طبقات چند

ےک صVالح و خVیر اور صVداقت و حVق انصVاف، و عVدل مفادپرسVتی ہی اورے ہ تمVVامے ایسVV شVVریعت الگے ب کی ہالل مگVVر ۔ے ہ جVVاتی آ غVVالب پVVر تقاضVVوں

قVVانون ایسا ایکے لیے ک انسانوں اور ،ے ہ دیتی کاٹ جڑ کی عوامل و مفاسد

یا gس اور ۔ے ہ ہوتVا پVاکے سV انVدازی دخVل کی انسان جوے ہ دیتی کر ہم ےک اب ہی میںے بار gیں ہش ل انسVVانی میں اس ہک سکتا جا کیا ہن ہوگی آمVVیزش کی ہجواء انسانی یا gس ناپاکی کی اغراض و ہا انسانی کسی ہو یا ہوگی شامل میں ا

۔وگا شکار کا اعتدالیے ب کر ہو نذر کی مفادپرستی کی ہگرو ہ ہنظVVری ہکVVرد اخVVتراعے ک انسVVانوں اور حیVVاتۂ نظریے ہوئے بھیجے ک ہالل

ی میں ری اور بنیادی ہی ےک نظVVام ایVVک کVVا دونوں پر بنا اس اور ۔ے ہ فرق ہجو اور ۔ے ہ نVVاممکن ہونVVا پیVVدا توافق کبھی میں دونوں اور محال ہونا جمع تحتMے ایس کسی پر بنا اسی جVVوے ہ الحاصVVلی سVVع بھی کرنVVا ایجاد کا حیات نظام

لیت نصف اور ہو ماخوذے س اسالم نصف کا اس ۔بٹیر آدھا اور ہو تیتر آدھا ہجایں معاف کو شرک تعالیn ہالل طرح جس ۔ے س نازلے اپن ہو طرح اسی کرتا ہن

یں قبVVول بھی کVVو شVVرکت کی ہنظری اور کسی ساتھے ک زندگی ۂنظری ہکرد ہن دراصVVل دونوں اور ہیںے رکھت ہدرج ہی ایک نزدیکے ک ہالل جgرم دونوں ہی ۔کرتانیت ہی ایک ۔یں پیداوار کی ہذ ہ

دعوت کی اسالم خالصgالئیں طVVرف کی اسالم کو لوگوں جب ہم کVVام کVVا تبلیVVغ و دعVVوت اور بنVVوںے ہمVVار ہدایت ہمذکور ہی میںے بارے ک اسالم تو دیں سرانجام اس میں ہذ

ی ہونی واضVح اور پیوسVت اور جVاگزیں سVاتھے ک مضبوطی قدر ے چVا اس ہکہارے ک ہم پVVر موقVVع کسVVی اورے لڑکھڑائ ہن زبان ہماری کبھی میں اعالن و ہاظ

ہاشVVتبا و شVVک کسVVی میںے بVVار اس کVVو لوگوں اور کریں، ہن محسوس شرمن ہن میں ہک چھVVوڑیںے کVVرک قائVVل طVVرح پوری کا بات اس کو ان اور دیں،ے ہر ۔گیے جVVائ پلٹ کایVVا کی زنVVدگیوں کی ان توے گ آئیں میں اسالم دامنM ہو اگرgن gن اور کردار و اعمالے ک ا gن اورے گ بVVدلیں بھی ضVVوابط و اصولے ک ا ےک ا

۔وگا تبدیل بھی فکر اندازM اور تصورات یں اسVVالم بدولت کی تبدیلی اس ہ ہو ہان

MیرVVیر خVVا کثVVر عطVVاے کVVعتیں کی جس گVVانی وسVVاس انسVVیں میں قی سVVما ہن

180

Page 181: Jada o Manzil Complete

و حVVاالتے ک ان گVVا،ے کVVر پیدا رفعت میں نظریات و افکارے ک ان ہو ۔سکتیں

یں اور گاے کر بلند معیار کا معامالت gس ہان M ا ےسVV شVVرفۂ مVVرتب و عزت مقاملی پست جس ۔ے ہ انسانیت سزاوارM جو گاے کر تر قریب ہوے سVV زنVVدگی ہجا

gس ہیںے ہر ہآلود تک اب Mال گVVا،ے چھوڑ ہن باقی آالئش کوئی کی ا لی ہک ہی ا ہجVVاMے سVV اتفVVاق جVVو جائیں پائی جزئیات ایسی کوئی کی دور کی اسVVالمی نظVVام

نVگ ہم اور ہمرنVگے س جزئیات بعض حVالت اصVلی اپVنی بھی ہو لیکن ہوں، ہآیں ہن میں جVVو گی ہوجائیں مربوطے س عظیم اصل اس کی اسالم ہبلک گی ہر

لیت ےہ مختلVVف پVVر طVVور بنیVVادیے سVV اصل آور غیربار اور خبیث اس کی ہجا ےکے کVVرن برپVVا عظیم انقالبM ہی اسVVالم ۔ے تھ ہوابسVVت تک آج ہو ساتھے ک جسیں محVVرومے س شعبوں انے ک تحقیق و علم کو انسانوں بعد جVVو گVVاے کVVر ہن

د ہمشا الغVVرض ۔گاے د ترقی مزید کو شعبوں ان ہبلک ہیں مبنی پر استقراء و ہMم اس کو لوگوں ہو ہکے ہ فرض کا اسالم داعیان ن ہن میں ہو اسVVالم ہک دیںے ہر

اور ہنظVVری ایVVکے سVV میں نظریVVات اجتمVVاعی ہکVVرد وضVVعے ک انسVVان بھی مختلVVف اور نVVاموں مختلVVف جVVوے ہ نظVVام ایVVکے سVV میں نظاموں ہخودساختوئ ساتھے ک جھنڈوں gائ میں زمینے رVVاتے پVV۔یںے ج الگے ب اور خVVالص ہو ہبلک ہ

تصVVورMزندگی ہجVVداگان ،ے ہ مالVVک کVVا انفVVرادیت بالVVذات مسVVتقل ہو ۔ے ہ نظام دینVVا کچھ جVVو کVVو انسVVانیت ہو ۔ے ہ آیا کرے ل حیات طرزM ہجداگان اورے ہ رکھتا

تا تر ہدرج ہزارے س جنتوں خیالی کی نظاموں وضعی ہوے ہ ہچا ےہ سgودمند و ہبgجال و ہپاکیزے ہ نظام ارفع و اعلیn ایک ہو ۔ اں جمVVال ہو ،ے ہ حیVVاتۂ نظVVری ا ہج

gس ،ے ہ ہرا متوازن و معتدل ہو ،ے ہ افروز برترے خدائ راست نہبراے سوتے ک ا

gھوٹے س چشموں ابدی و ازلیے ک عظیم و ۔یںے پ ہ شVVعور ہی تVVوے گ لیں کVVر حاصVVل شVVعور کVVا اسالم پر انداز اس ہم جب

پیش دعوت کی اسالم ہم ہک گاے د کر پیدا بھی صالحیت فطری ہی اندرے ہمارgوری وقتے کرت gوری ہبلک ، ساتھے ک قوت اور خوداعتمادی پ دل اور ہمدردی پ

خوداعتمادی سی کی شخص اس ہوں، مخاطبے س لوگوں ساتھے ک سوزی ےہ حVVق سراسVVر ہو ،ے ہ حامVVل کVVا دعوت جس ہو ہک ہو یقین بھرپور ہیے جس ہرا کی باطVVل ہو ہیںے ہر چVVل پVVر ہرا جس لVVوگے دوسر برخالفے ک اس اور

میں بدنصVVیبی اور شقاوت کو انسانوں جو ہمدردی سی کی شخص اس ،ے ہا پا ہوا گMھرا ہوک جانتVVا ہی اور ہو ہر یں ہ جVVا الیVVا کیVVونکر میں سVVعادت آغVVوشM ہان ٹامVVک میں تVVاریکی کVVو لوگوں جو سوزی دل سی کی شخص اس ۔ے ہ سکتاا دیکھ ہوا مارتاے ٹوئی یں ہک ہو جانتا اور ہو، ہر اں روشنی ہو ہان دسVVتیابے س ہکیں حق نہرا ہو بغیرے ک جسے ہ سکتی ہو سVVچا کVVا اسVVالم الغرض ۔ے سکت پا ہن

یں حVVاجت ہی ہمیں بعVVدے کے جان ہو حاصل شعور دروازوں چVVور ہم ہک ہوگی ہننوںے ک لوگوںے س gتاریں کو اسالم میں ہذ شات نفسانی کی ان اور ا اور ہخوا

ان اور باطVVل ہگمرا بغVVیرے رکھ چgھVVپی ڈھکی ہم ہبلک ۔دیں تھپکی کVVو نظریVVات ہ دالئیں ہتوج کو ان اورے گ رکھیںے سامنے ک ان دعوت کی اسالم صاف صاف

لیت ہی ہکے گ تعVVالیn ہالل ۔ے ہ نجس اور ناپاک ہی ہوے ہوئے گھر تم میں جس ہجا

181

Page 182: Jada o Manzil Complete

یں تVVا کرنVVا پاکے س گندگی اور نجاست اس ہتم جس حVVال صVVورتM ہی ،ے ہ ہچاار ہالل اورے ہ فسVVاد اور خبث سراسVVر ہوے ہرے ل سVVانس تم میں ےلVVیے ہتم کVVر اختیVVارے ن تمے جسVV زیسVVت طVVرزM ہی ،ے ہ کرتVVا پسند نظام طیب و ہپاکیز

ائیے ہ رکھا یں تعVVالیn ہالل اورے ہ عبVVارتے سVV گراوٹ اور پستی ہانت ارا ہتم ہتم

M تVVا کرنVVا عطVVا بلنVVد مقVVام ار ،ے ہ ہچا ار و لیVVل ہیے ہتم اور ذلت اور شVVقاوت ہنرآلVVودے سVV ژمVVردگیپ و پسVVماندگی g تVVا تعVVالیn ہالل اور ہیںے ہوچک ہک ہکے ہ ہچا

ار یں ،ے کVVر پیVVدا آسVVانیے لیے ہتم یں اورے ل میں رحمت آغVVوشM اپVVنی ہتم ہتمنائ تاج کا مندی سعادت ار اسالم ۔ے ہپ گVVا،ے ڈال بVVدل کو افکار و نظریاتے ہتم

ار یں گا،ے د پلٹ ہپانس کا حاالتے ہتم گVVا،ے کVVرائ متعارفے س قدروں نئی ہتمیں میںے مقVابلے ک اس ہک گVاے کVر سVرفرازے س زندگی برتر و باال ایسی ہتم

ار ۔ے گ لگوے سمجھن ہیچ خودبخود کو زندگی ہموجود اپنی تم ار و لیVVلے ہتم ہن گVVیر عVVالم ہموجVVود اپVVنی خVVود تم ہک گVVاے د کVVر برپVVا انقالب ایسا ایک ہو میں

Mیں ہو ،ے گ لگوے کرن نفرتے س حال صورت ذیبیے ایسVV ہتم ےسVV سVVانچوں ہتر ہب ذیبی ہموجودے اپن تم کر پا کو ان ہک گاے کر یاب ہ ےروئ جVVو کVVو سانچوں ہت

کی نصVVیبی حرمVVاں اپنی تم اگر ۔ے گ لگوے سمجھن حقیر ہیں رائج میں زمینیں صورت عملی کی زندگی اسالمیے س ہوج ار ہکیVVونک ہوے سVVک دیکھ ہن ےہتم

میں دنیVVا نظVVام ہی کVVا زنVVدگی ہک ہیں آراء صVVف اور متحVVد پر بات اس دشمنن ہن عمVلۂ جVام اورے سVک ہو ہن برپا کبھی یں ہم آؤ تVو ،ے ہپ حالوت کی اس ہتم

ضVVمیر و قلبے اپن ہم کا زندگی اس ایزدی بتوفیقM ہکیونک ہیںے کرت آشناے سد میں دنیا کی ہمشا تاریخ اپنی اور شریعت اپنی قرآن،ے اپن ہم ہیں،ے چک کر ہ

خوشVVنماے ک مسVVتقبلے اپVVن ہیں،ے چک کVVر ہنظVVار کVVا اgسے سVV جھروکوںے کیں شVVک بھVVر ہشم ہمیں میںے آنے ک جس میں تخیل gسVVے ہ ہن ےچgک جھانVVکے ا

۔یں ہی ہمیں ے چا ےسVVامنے ک لوگVVوں ہمے س انداز اسی اور پر طرز اسی ہکہ

ی بھی فطVVرت و طVVبیعت کی اسالم کریں، پیش اسالم ی اورے ہ ہی اصVVل ہو ہیلی اسالم میں جسے ہ شکل ہوا مخVVاطبے س انسانوںے س انسانوں ہمرتب ہپالعVVVرب ۔تھVVVا gس ہر اور میں روم میں، فVVVارس میں، ۃجزیر اں میںے خط ا ہج

gکVVارا کVVو لوگوںے ن اسالم gکVVاراے سVV ڈھنVVگ اسVVی اور انVVداز اسVVی پ gس ۔پ ےن ای ہک کیVVوں کی گفتگVVو میں زبVVان دردبھVVریے سVV انسانیت gس ہی فطVVرت کی ا

gس تھی، ام کسی کو انسانیتے ن ا چیلنج میں الفاظ دوٹوک بغیرے ک تردد و ہابی ہکیونک کیا gس ہی gس تھVVا، ہطریق کا ا می خVVوش اس کVVو لوگVVوں کبھیے ن ا ہف

یں میں ن ہن gن ہو ہک دیاے ہر کVVو وافکVVار تصVVوراتے ک ان کو، زندگی عملی کی ایں مس کو اقدارواخالق کی ان اور kا محض تو بھی کیا اگر اور گاے کر ہن kادgک Mک ا

gس طرح اسی !!،ے لیے ک تبدیلیوں و اصولے بھات منے ک انسانوں کبھیے ن ایں ہوابست کو آپے اپنے س افکار و نظریات اور ضوابط ےاپVVنے سVV ان ہن کیا، ہن

چکا بن ہشیو کا اسالم مفکرینM بعضے ہمار کل آج ہک جیسا دی، ہتشبی کو آپ کبھی اور ہیںے کVVرت وضVVع اصVVطالح کی ڈیموکریسی“ “اسالمی ہو کبھی ۔ے ہ

182

Page 183: Jada o Manzil Complete

ت کبھی اور ۔کی سوشVVلزم“ “اسVVالمی اقتصVVادی، ہموجVVودے ک دنیVVا ہک ہیںے ہک تبVدیلیاں سVی معمVولی چنVد بس کو اسالم میں نظاموں قانونی اور سیاسی

کیے لVی اس صVرف باتیں چپڑی چکنی کی طرح اس ۔ے ہ ضرورت کیے کرنشات کی لوگوں ہک ہیں جاتی ۔ے جائ دی تھپکی کو ہخوا

یں گھر کا جی ہخال ،ے ہ اسالم ہی لیکن gس اسالم ہی ۔ے ہ ہن ےسVV اسVVالم ا۔یںے کVVرت پیش اسVVالم مفکVVرینM بعض جVVوے ہ مختلVVف بالکVVل لیت ہی ہ کVVا ہجVVا

کر نکالے س اس کو انسانیت ،ے ہے ہوئے کی ہاحاط کا زمینے روئ جو طوفانgرامنے ک اسالم وار پ تبVVدیلی وسVVیع اور ر³س دgورے لیے کے کرن داخل میںے ہگ

لیت حیاتۂ نقش کا اسالم ۔ے ہ ضرورت کی gنے ک ہجا یVVکے سVV نقشوں تمام ادMحاضر یاے تھے گئے پائ میں دورMقدیم جوے ہ متضاد و مختلف قلم ےپائ میں ہعوں و شVVقاوت انسانیت ہموجود ہیں،ے جات gVVب ےنیچے ک تVVودوں جنے ک حVVالی ز³ی ہکرا یںے س تبدیلیوں معمولی چند ہوے ہ ہر اس انسانیت ۔ے سکت جاے ہٹائ ہن

gوں و شقاوت ب اسVVی صVVرف ہو تو سکتی پا نجات اگرے س زندگی کی حالی ز³ہم ایVVک ہک میں صVVورت ری اور ر³س دgور گVVیر، ہ ےجVVائ کیVVا برپVVا انقالب ہجVVو

نازلے ک خالق کر ہٹا کو نظاموں ہکرد وضعے ک مخلوق ------------------------ انسانوں کرے د خطی فارغ کو قوانین انسانی ،ے جائ کیا جاری کو نظام ہکرد

نجVVاتے سVV حکمرانی کی بندوں ،ے جائ کیا اختیار کو قانونے ک پروردگارے ک صVVحیح ہوے ہ ہی -ے جVVائ ڈاال میںے گل طوق کا غالمی کی ربے ک بندوں کر پا

ار کVVا کVVار طریVVقM اس ۔کVVار طریVVقM ہپسVVندان حقیقت اور اور بVVرمال ہمیں ہاظی دینا کر دوٹوک ے چا میں والتباس شک کسی کو لوگوں میںے معامل اس اورہ

ن ہن ی دیناے ہر ے چا ۔ہ بVVدکیں،ے سVV دعVVوت طVVرزM اس میں شVVروع شروع لوگ ہکے ہ سکتا ہو

یں بVVات نئی کوئی ہی لیکن ۔کھائیں خوف اور بھاگیں دgورے س اس لVVوگ ،ے ہ ہنgس ہزد خVVوف اورے تھے بھاگت دgور ہیے ایسے س دعوت کی اسالم بھی وقت الی جبے تھ متنفVVر اور ۔تھی گVVئی کی پیش دعVVوت ہیے سVVامنے ک ان ہمVVرتب ہپ

یں gن وسVVلم( ہعلی ہالل )صVVلید محمVV ہک تھVVا گزرتا ناگوار شدید ہان و افکVVارے ک ا

ام ےک ان ہیں،ے کVVرت چیVVنی ہنقط پVVر دیوتVVاؤںے ک ان ہیں،ے کرت تحقیر کی ہاو

Mومے ک ان ہیں،ے کرت نکیر پر حیات قوانینVادات اور رواج و رسVع Vیزارے سVب

روایVVات و رسVVومے ک انے لVVیے ک والVVوںے مانن چندے اپن اورے لیے اپن اور ہیں اخالق و اقVدار اور ضVوابط و اصVولے نVVئ بVVرخالفے ک ضVوابط و قVوانین اور

ی کیا؟ ہوا آخرکار لیکن ہیں----------------ے رکھ کر اختیار یں لVVوگ ہی لی ہجن ہپیں اچھVا حVق ہمVرتب gسVی لگVا ہن وں میں رحمت دامنMے ک حVق ا لی، ہپنVاے ن ہان ۃقسVVور من فدت ۃمستنفر حمر کانھم ہکے تھے بدکت طرح اس ہوے س حق جس

gٹھ بھVVاگ کVVر دیکھ کVVو شVVیر اور ہیںے گVVدھ جنگلی ہو )گویVVا ےک جس ہیں(ے اوں خالف جس ، دیں کVVر صVVرف تVVدبیریں سVVاری اور طاقت پوری اپنیے ن ہان

وں کVVو والVVوںے مVVاننے ک طVVرح میں دورانے ک زنVVدگی بسے ب کی ہمکے ن ہان

183

Page 184: Jada o Manzil Complete

ر اور ناک اذیتے ک طرح ہز کی ہمVVدین بعدے ک ہجرت پھر اورے دی عذاب گداز ہیں جب بھی میں زنVVدگی gن تVVو دیکھVVاے پکVVڑت طVVاقت ہان تVVیز و تنVVد خالفے ک ا

gسی دیں کر برپا جنگیں M ہو باآلخرے ک ا ۔ے ہرے ک بن دامے ب غالمIکلید کی کامیابی کی اسالمی دعوت

Mاز کو اسالمی دعوتVVاالت جن میں آغVVح VVاے سVVڑا گزرنVVا پVVےک آج ہو تھ اس ۔ے تھ ہن سVVازگار اور امیVVدبخش افVVزا، ہحوصVVل ہزیVVاد نسVVبت ہب کی حاالتلیت تھی دعVVوت انجانی ایک ہو بھی وقت gسVV ہجVVا کی ہمک ہو ، تھی جھٹالتیے ا

ی، محصور اندرے ک گھاٹیوں gس کVVر جھVVاڑے پنج شVVوکت و ہجVVا اربVVابM ہر ےک اgس تھی، چیز اجنبی ایکے لیے ک دنیا تمام ہو میں د³ورے اپن ،ے ہرے پڑے پیچھ ےا

جVVو تھVVا رکھا گھیرے ن سلطنتوں سرکش و جابر اور عظیم ایسی کی اطراف

gس ہم بVایں ۔تھیں دشVمن کی مقاصد اور اصولوں بنیادی تمامے ک ا دعVوت ہی ہ رکھVVتی ہسVVرمای معمVVولی غیر کا قوت پاسے اپن بھی میں حاالت تر شدید ان

gسی ہی بھی آج طرح اسی تھی رے سVV قوت ا ہب کی اس بھی ہآینVVد اور ،ے ہ ور ہ کی ہعقیVدے ک اس خVود راز کVا قVوت کی اس ۔گیے ہر دائم و قVائم قVوت ہی

اں میں فطVVرت ی ۔ے ہ ہپن ر ہکے ہ ہوج ہی gVVے بVVرے س gVVاالتے بVVکٹھن اور ح VVےس ا جاری کام کا اس بھی میں ماحول کٹھن ہو منبVVع کVVا طVVاقت کی اس ۔ے ہ ہر

قVVوت کی اس ،ے ہ قVVائم دعVVوت ہی پر جسے ہ “حق“ روشن اور سادا سیدھانگی ہم سVVاتھے ک انسVVانی فطرتM کی اس کلید کی کVVا قVVوت کی اس ۔ے ہ ہآ

میں ہمVVرحل ہر ہی ہکے ہ ہپوشVVید میں صVVالحیت انگVVیز حیرت کی اس ہسرچشم

ل کی قیادت کی انسانیت gس اورے ہ ہا سVVکتی کVVر گامزن پر عروج و ترقیے الو عقلی اور علمی اورے س لحاظ اجتماعی اور اقتصادی انسانیت ہخوا ،ے ہ ہپ

بھی ہی راز ایVVک کVVا قوت کی اس نیز بکنار، ترقی یا ہو میں انحطاط دورMے سلیت میں انداز واشگاف ہی ہکے ہ چیلنج کو طاقتوں مادی تمام کی اس اور ہجا

gس ساتھے ک جزم اور اعتماد اس اور ،ے ہ کرتی کVVر ٹھونVVک خمے سVVامنے ک اgسV میں اصVول کسیے اپن ہکے ہ آتی بھی تحریVف کیے شوشV ایVک کسVیے ا

یں، ہگوار لیت ہو ہن شوں کی ہجا ¿ے سVV ہخوا یں مصVVالحت قطعVVا ہن اور کVVرتی، ہنلیت انوںے حیل اور دروازوں چVVور ہوے لVVیے کے کVVرن سVVرایت اندرے ک ہجا کVVا ہب

ارا ل بانVVگM ہب کVVا حق ہو ،ے ہ ڈھونڈتی ہس کVVو لوگVVوں اورے ہ کردیVVتی اعالن ہدgوری سراسVر اور رحمت سراسVر خVیر، سراسVر ہو ہکے ہ کردیVتی ہآگا طرح پ کی ان ہکے ہ جانتVVا خVVوب ہوے ہ خVVالق کVVا انسVVانوں جVVو تعالیn ہالل ۔ے ہ برکت

اں روزنے ک دلوںے ک ان اور ،ے ہ کیا فطرت اں ہک ۔یں ہک gس ہ معلVVوم خوبے ا اورے جVائ کردیVVا پیش ہعالنی سVVاتھے ک قVوت اور صVراحت کVو حVق اگر ہکے ہ

اختیار ہطریق کا گومگو اور پوشی نقاب رازداری، کسی میںے کرن پیشے اسgتر اندرے ک دلوں ہو توے جائ کیا ہن تی کر ا ۔ے ہ ہر

ے ہ مضر دعوت کی اسالم جزوی ےاپنان زندگی طرزM دوسرا کر چھوڑ کو زندگی طرزM ایک نفوس انسانی

۔یںے رکھت استعداد اور صالحیت پوری کی بساے لیے ک ان تبدیلی مکمل ہبلک ہ

184

Page 185: Jada o Manzil Complete

Mے ایسVV ایVVک ۔ے ہ ہوتی آسVVان ہزیVVاد نسVVبت کی تبVVدیلیوں جزوی اوقات نظVVامل جو ہونا منتقل طرف کی حیات ہو ہپVVاکیز اور کامVVل ہزیاد برتر، ہزیادے سے ہپ اگVVر بVVرعکسے ک اس ۔ے ہ کVVرتی تائیVVد کی اس بھی فطVVرت انسVVانی خVVود

gدھر ادھر ہی خود نظام اسالمی تVVوے ل کر اکتفا پر تبدیلیوں سطحی چند کی الیے پور پھر ہوج کیے آن طVVرف کی نظVVام اسVVالمیے پVVور چھوڑ کو نظام ہجا

ر ہوگی؟ کیا جواز نا جما پر نظام مانوس ایک ہکے ہ ہظا ےہ عقل قرینM ہزیاد ہرgسی ۔ے ہ تو نظام جمایا جما ہو ازکم کم ہکے لی اس ، اور اصVVالحات اندرے ک ا

۔یں سکتی جا کی تبدیلیاں وبیشVVتر اکثر کی جس طرف کی نظامے ایس پھر ہgس ہوں جgلتی ملتیے س نظامے نئ خصوصیات gٹھاے ا gس اورے دیVVن پھینVVک کVر ا ا

ہی ضرورت آخر کیے کرن رجوع طرف کی نظام ہشد غیرقائم ایکے بجائے ک؟ے ہ جاتی ہر باقی کیا

یں ضرورت کوئی کی صفائی اپنی کو اسالم ہن لوگVوں جVو ہیںے جVاتے پائ بھی اسالم متکلمینMے ایس بعض طرح اسی

ایVVک کVا اسVVالم گویVVا ہک ہیںے کVرت پیشے س حیثیت اس کو اسالمے سامنے ک۔یں صVVفائی وکیVVلMے ک اس ہو اورے ہ ملVVزم دفVVاع اور صVVفائی کی اسVVالم ہو ہMے ہ کVVا طرح اس کچھ ہو ہیںے کرتے س ہطریق جس “نظVVام فالںے ن حاضVVر ہک

ا اور ہیںے کی کام فالں اور یںے ک کر کام ہیے ن اسالم ہکے ہ جاتا ہک ،ے دکھVVائ ہنل کو کاموں ان تو اسالم صاحبو! مگر یںے ہ چکVا کVرے ہپ ذیب ہموجVود ہجن 14 ہت

ی کVر بعVد سVVالسو !!ے ہ صVفائی بھونVڈی کیVVا اورے ہ دفVاع گھٹیVVا کیVVاے " ہ ہر

لی اسالم --------------- gرے ک ان اور نظاموں ہجا gن ہتبا اورے ب کVVو تصVVرفات کیں ہرگVVز دلیل کی جوازے ک عمل کسیے اپن ذیبیں ہی بناتVVا- ہن وں ہت اکVVثرے ن ہجن

ےرکھ کر ماؤف دماغ و دلے ک ان اورے ہ رکھا کر ہخیر کو آنکھوں کی لوگوںلی اۃخالص ہی ہیں ۔یںے شاخسVVانے ک نظVVام ہجVVا ہر میںے مقVVابلے ک اسVVالم اور ہ

۔یں پوچ اور ہیچ ،ے کھوکھل ناقص،ے س لحاظ یں اعتبVVار قابVVلM دلیل ہی ہ ہکے ہ ہنذیبوں ان حVVال خVVوش ہزیVVادے سVV لوگوں ان لوگے والے بسن میںے سائے ک ہتاد نVVام جو ہیں M ہن ت میں اسVVالمی عVVالم ۔یںے ہر اپVVنیے باشVVندے ک عالقVVوں ان ہ

یںے لی اس کو حالی زبوں ہموجود نچ ہن ہکے لVVی اس ہبلک ہیں مسVVلمان ہی ہکے ہپوں اپVVنیے سVVامنے ک لوگVVوں تVVو اسVVالم ۔ے ہ رکھVVا مVVوڑ ہمنے سVV اسالمے ن ہان

لیت تک حد قیاس ناقابلM ہو ہکے ہ کرتا پیش دلیل ہی کی صداقت اولیnے س ہجالیت جو ،ے ہ افضل اور یںے لVVیے کے رکھن برقرار کو ہجا gسVV ہبلک ہن gن و بیخے ا بgکھاڑے س ذیبے جس پر آلودگی اس کو انسانیت ہو ،ے ہ آیاے لیے کے پھینکن ا ہتیںے لیے کے دین شیربادآاے ہ جاتا دیا نام کا درک اس کVو انسVانیت ہو ہبلک آیVا ہن

۔ے ہ آیاے نکالنے س اسفلیں ہخVVورد شکسVVت تVVو تVVک حVVد اس ہمیں ی جانVVا ہو ہن ے چVVا رائج ہم ہکہ

یں کی اسVVالم اندرے ک افکار و نظریات الوقت ان ہمیں لگیں،ے ڈھونVVڈن ہشVVبی پسM ،مغرب ہخوا اور ہو علمبردار کا ان مشرق ہخوا کو افکار و نظریات تمام

gشت ی ڈالنا پ ے چا میں ہمقابلے ک مقاصد وارفع اعلیn ان نظریات ہی ہکے لی اسہ

185

Page 186: Jada o Manzil Complete

ایت قVVرار نظVVر مطمع اپنا اسالم کو جن ہیں ہیافت غیرترقی اور حقیر پست، ہن صVVحیح کVVو لوگVVوں ہم جب ۔ے ہ کرتVVا پیشے سVVامنے ک انسVVانیت اورے ہ دیتVVا

کا تصور جامعے ک اسالمے سامنے ک ان اورے گ دیں دعوت پر بنیاد کی اسالمرائیVVوں کی فطVVرت کی ان خود توے گ کریں پیش ہعقید اساسی اسے سVV ہگ

اور طVVرف کی تصVVورے دوسVVرے س تصور ایک جو گیے اٹھ آواز میں حقے کیں کVVاے جVVان ہو منتقVVل طرف کی حالت دوسریے س حالت ایک ہبلک جVVواز ہان

م بھی وجوب یں دلیVل ہی لیکن ۔گیے کر ہفرا یں متVاثر ہرگVز ہان ہک کرسVکتی ہنgن ہم یںے س ا آؤ، طVVرف کی نظVVام رائج غیر ایک کر چھوڑ کو نظام رائج ہک ہک

ار ہی یں اورا گے کر تبدیلیاں ضروری صرف اندرے ک نظام رائجے ہتم پر اس ہتم

ی ہونا ہن اعتراض کوئی ے چا کچھ جو تم بھی اندرے ک نظام ہموجود ہکے لی اسہی ہوے ہر کVVر یں بس ۔ے گ سVVکو کVVر بھی میں نظVVامے نVVئ تم کچھ ہو اپVVنی ہتم

شات اور عادات پVVڑیں کVVرنی تبVVدیلیاں خفیVVف بعض میں رکھVVاؤ رکھ اور ہخواش اور عVVادت جس بعVVدے ک ان اور ۔گی ہحVVال علی ہو ہو رسVVیا بھیے ک ہخVVوا

gس ۔گیے ہر باقی یں تعرض کوئیے س ا ی تVVو گیVVا بھی کیا گا،ے جائ کیا ہن ون gVVہی ۔سا سرسری

ر ہطریق ہی ےک سرشVVت اپVVنی مگVVرے ہ مرنج مرنجان اور آسان بڑا ہبظایں کشش کی قسم کسیے س لحاظ بھیے سVV حقیقت ہی بVVرآں مزید ۔رکھتا ہن

ی پکار ہی تو حقیقت ہک کیوں ۔ے ہ بعید اصولے ک زندگی محض اسالم ہکے ہ ہریں تبدیل ہی نظریات و ہی شVVرائع و قVVوانینے ک ہاجتماعی حیاتM محض کرتا، ہن

یںے ک کر دگرگوں بھی کVVو دنیا کی تک جذبات اور احساسات ہبلک دیتا رکھ ہنلی ہکے ہ دیتا رکھ کر بدلے س لحاظے ک اساس و بنیاد طرح اس زنVVدگی ہجVVا

یں باقی ہرشت کا اس ساتھے ک اصول کسیے ک تا ہن ۔ر وں پVVر طVVور مختصر ہ gVVی ےلے سVV ہمعاملے چھوٹے سے چھوٹے ک زندگی اسالم ہک ہوگا کافی کردینا بیان ےخVVدائ نکVVالے سVV بنVVدگی کی بنVVدوں کVVو انسانوں میں تکے بڑے سے بڑ کر

:بعدے ک اس ۔ے ہ کردیتا منتقل طرف کی بندگی کی واحداء ف³م³ن gؤÍمMن ش³ Íي اء و³م³ن ف³ل ÍفgرÍ ش³ ³ك Íي ³ف³ر³ و³م³ن ف³ل MنÎ ك MيÏ ہالل ف³إ ع³نM غ³ن

³مMين³ Íع³ال ال کفVVر جو اورے کر اختیار ہراست کا کفرے ہچا جو اورے الئ ایمانے ہچا جو

لM تمام تعالیn ہالل شکے ب توے ہ کرتا ان ہا ۔ے ہ نیازے بے س ہج ہمسVVئل کا توحید و شرک ۔ے ہ ہمسئل کا ایمان و کفر درحقیقت ہمسئل ہی

لیت ،ے ہ ر کVVو حقیقت بنیVVادی اسVVی ۔ے ہ ہمسVVئل کVVا اسVVالم اور ہجVVا من ہاظی ہونا الشمس ے چا لیت زنVVدگی کی لوگوں جن ۔ہ الکھ ہو ،ے ہ زنVVدگی کی ہجVVا

یں مسلمان ہو مگر کریںے دعوn کا اسالم ۔یں ہن میں خودفریVVبی کچھ میں ان ہ میں خVVام خیVVالM اس اور ہیںے ہر ڈال میںے دھVVوک کVVو دوسVVروں یVVا ہیں مبتاللیت کی ان اسVVالم ہک ہیں مبتال یں تVVوے ہ سVVکتا ہو ہمنVVوا کVVا ہجVVا روک کVVون ہان

اں یVا خودفریVبی کی ان مگVرے ہ سVکتا یں تVو حقیقتے سV فریVبی ہج بVدل ہن۔یں مسVVلمان ہی ہنے ہ اسVVالم ہن اسVVالم کVVا لوگVVوں ان ۔سکتی دعVVوتM اگVVر آج ہ

186

Page 187: Jada o Manzil Complete

ل تو ہو برپا اسالمی یے ہپ لیت کشVVتگانM ہان اور النVVا طVVرف کی اسVVالم کVVو ہجVVایں ۔وگا بنانا مسلمان حقیقی ازسرMنو ہان ہ

یںے لVVی اس طرف کی اسالم کو لوگوں ہم gال ہن کسVVیے سVV ان ہکے ہر ب ےکVVرن برپVVا فساد یاے کرن حاصل اقتدار میں ملک ہم ہن اور ہیں طالبے ک اجر

شے ک ۔یں مند ہخوا اللچ کVا منفعت کسVیے سVے سVر ہمے لVیے ک ذات اپنی ہیں یں ہذمے ک لوگVVوں حسVVاب ہمارا اور اجر ہمارا ۔ے رکھت ہن ہذمے ک ہالل ،ے ہ ہن

ہو ،ے ہ کVVرتی مجبVVور ہمیں چVVیز جو پرے دین دعوت کی اسالم کو لوگوں ۔ے ہی حقیقی اور ہمVVدردے سچے ک ان ہم ہکے ہ ہی صرف ۔یں ہخVVوا ہب پVVر ہم ہخVVوا ہ

اڑے ک مصائب ہیے کتن ی کی حقی داع ۔توڑیں ہپ را فطVVری ہی ہشVVا ی اورے ہ ہ ہی

gس حاالت میزے ا ۔یںے دیت کام کا ہم ذا ہ انVVدرے ک زنVVدگیوں ہمVVاری کVVو لوگوں ہہلی آنی نظVVر تصVVویر صVVحیح کی اسVVالم ے چVVا یں اور ۔ہ gس ہان بھی کVVا بVVارMگراں ای جانا ہو ہانداز صحیح ے چا gٹھانے ک جسہ gن اسVالم کاے ا ےہ کرتVا ہمطVالبے سV ا

یں عVVوضے ک جس اور ی ہو ہان اسVVالم کVVا جسے ہ کرتVVا عطVVا خVVیر ہالمتنVVای ہوجانا معلوم بھی ہی کو لوگوں طرح اس ۔ے ہ علمبردار ے چا لیت جس ہکہ ہجا

gس ہیں غرق ہو میں لیت نVVری ہی ہکے ہ ہیے رائ ہمVVاری میںے بVVارے ک ا ،ے ہ ہجVVایں ہواسط بھی کا دgورے س اس کا اسالم شVVریعت ہچVVونک ماخVVذ کا اس ۔ے ہ ہن

یں ےلی اسے ہ آشنا حق ہو ہچونک اور ،ے ہ نفسے ہوائ سرتاپا ہوے لی اسے ہ ہنب ہو gالضالل اال الحق بعد فماذا -----ے ہ باطل ہبالش-

لVVو ایسVا کوئی میں اس ہیں علمبردارے ک اسالم جس ہم یں ہپ جVوے ہ ہنتری احسVVاسM یVVا شVVرمندگی کسVVیے لVVیے ہمVVار کی جس یVVا ہو مVVوجب کVVا ہک

جسے ہ نقص ایسVVا کVVوئی انVVدرے ک اس ہن اور ہو، ضVVرورت ہمیں کی صفائیgس ہمے س ہوج کی نچان تک لوگوںے ا دوانی ہریش کی طVVرح کسVVیے لیے کے ہپgس یVVا ۔کVریں محسVوس ضرورت کی ےڈنک تحتے ک تقاضVاے ک اصVلیت کی اgس چوٹ کی gسV کVر ڈال نقVابیں کی طرح طرحے بجائ کیے کرن اعالن کا ا ےا

لیے ہوئے پھیل میں مشرق اور مغرب روگ ہی دراصل ۔کریں پیش نظاموں ہجاوحانیے س gلمانوں“ بعضے س ہوج کیے جان کھا شکست نفسیاتی اور رVVمس“ لVVوے ایسVV اندرے ک قوانین انسانی ہو اورے ہ ہوگیا الحق کو میںے کVVرن تالش ہپتے لگ لیت ہو یا سکیں، کر تائید اور موافقت کی اسالم ہوے س جن ہیںے ہر ہجاتے کرت ہٹو کی باتوں ان اندرے ک کارناموںے ک م دلیل ہیے س جن ہیںے ہر ہفVVرا

۔یںے دکھائ کر کام ہی بھیے ن اسالم ہک سکیں کر ہ ضVVرورت کی صVVفائی کی تعلیمVVات کی اس اور اسVVالم شVVخص جVVوان معVVذرت یVVاے ہ کرتا محسوس ہخوا نیت ہ ہرگVVز شVVخص ایسVVا تVVوے ہ رکھتVVا ہذ

یں نمائنVدگی صVحیح کی اسالم جVوے ہ دوسVت بیوقVوف ہو ہی ہبلک کرسVکتا، ہنلیت کھوکھلی اور بودی اس تو خود جو ،ے ہ ہوچکا مغلوب و مرعوبے س ہجا کم ہو مگرے ہ داغ داغ جسم کا جسے س نقائص اورے ہ ہوئی بھریے س تضاد

ہم بایں کوش gلٹا ہ لیت ا م جوازے لیے ک ہجا ےک اسVVالم حضرات ہی ۔ے ہ کرتا ہفراgسVے بجVائے ک خVدمت کی اسVالم اور ہیں دشVمن نچVات ضVعفے ا ۔یںے ہپ ہبلک ہ

۔کVVریں سVVدMباب کVVا ژاژخائیوں کی ان ہو ہک ہیںے کرت مجبور بھی کو دوسروں

187

Page 188: Jada o Manzil Complete

gوں کر سgن باتیں کی ان رے ک مجرموں اسالم ہکے ہ ہوتا محسوس ی میںے ہکٹ!ے ہ پاتا مجبور کو آپے اپن پرے کرن دفاع اپنا اورے ہ کھڑا

ن ہزد مغرب ماندگیاںرد کی ہذ

ی تھVVا میں ہامVVریک قیVVام میرا میںے زمان جس ہکے ہ بVVات کی دنVVوں ہانgلجھت ساتھے ہمار دوست نادان ہیے ایسے ک اسالم تے ا جVVو لوگ ہم ۔ے تھے ہر

ےک اسVVالم مخVVالفینM ۔ے تھ کم میں تعVVدادے تھ منسVVوب طVVرف کی اسVVالم میں مگVVرے تھے کVVرت اختیVVار مؤقVVف ہمدافعان دوست بعضے ہمار میںے مقابل

لیت مغربی برعکسے ک سب ان تھا قائم پر مسلک ہجارحان میںے بارے ک ہجاتری احساسM اور لیت مغربی بغیرے ہوئ مبتال میں ہک مVVتزلزل اورے بودے ک ہجا

بی لیت مغربی کرتا، تنقید تلخ پر عقائد ہمذ معاشVVرتی سVVوز انسVVانیتے ک ہجا مسVVیحیت ہک بتاتVVا اور کرتا ننگا جھجکے ب کو حاالت اخالقی اور اقتصادی اور

M ہیے ک ، اقانیم ہپVVاکیز ضVVمیرM اور سلیم عقلM نظریاتے ک ہکفار اور ہگنا اور ہثالثیں قبول قابلMے لیے ک ۔یں ہن ود اور داری ہاجVVار اور نظVVام ہداران ہسVVرمای ہی ہ gVVس

انفVVرادی خودسVVر ہی اور ،ے حرب کش انسانیت اور ہظالمانے دوسر اور خوریمی اور کفVالت اجتماعی میں جس آزادی تVک وقت اسے لVیے ک ہمVدردی ہبVایں گنجائش کوئی ہی کVVا زنVVدگی ،ے آئ ہن میں حVVرکت ڈنVVڈا کا قانون تک جب ہن

ےجس لگامیے ب سی کی چوپائیوں ہی تصور، جانے ب اور سطحی ہپرستان ہماد ےسV نسVواں ئآزادے جسV فروشVی ہبVرد ہی ،ے ہ جاتVا دیا نام کا اختالط آزادی، تکلیVVف آمVVیز، رکVVاکتے ک طالق و نظVVام ہی ،ے ہ جاتVVا کیVVا تعبیر عملی اور ہد

سVVب ہی امتیاز نسلی ہمجنونان اور ناپاک ہی ضوابط، و قوانین منافیے ک زندگی ساتھے ک اس ۔ے ہ عار باعثMے لیے ک انسانیت اور خالفے ک سلیم عقلM کچھ

،ے ہ ہنظVVری علمی و عقلی قVVدر کس اسVVالم ہک تھVVا بتاتا بھی ہی کو ان میں ہیgن ہی ،ے ہ نظVVام زرخیز و شاداب اور نواز انسانیت ہنگا بلند قدر کس gفقVVوں ا اتا کرنا پرواز انسان تک جنے ہ پھینکتا کمندیں اپنی تک نچVن آج مگVرے ہ ہچا ےہپVVاجزے سVVالم ۔ے ہ عVVدگی عملی اسVVا زنVVام کVVدگی ہی اورے ہ نظVVام کی زنVVتم

لجھاتا میں روشنی کی تقاضوںے ک سلیم فطرتM کی انسان کو گتھیوں gےہ س ۔

اپVVڑ پVVاال کVVو سVVب ہمے س جنے تھ حقائق عملیے ک زندگی کی مغرب ےک ان تVVو تھا جاتا لیا ہجائز کا حقائق ان میں روشنی کی اسالم جب اور ۔تھا

بVVاوجودے ک اس لیکن ۔ے تھے جVVات جgھکے ک شرمے مار بھی سرے ک متوالوں ہو مرعVVوبے سVV نجاسVVت اس جVVو ہیں موجVVود بھی دعویدارے ایسے ک اسالم

لیت میں جس ہیںے چک ےک کرکٹے کوڑ اسے ک مغرب ہو اورے ہ پت لت ہجا ےک پرسVتی ہمVاد المنظVر ہہکVری اور شرمناک کی مشرق اور اندرے ک ڈھیروں

تے س اسالم کی جن ہیںے پھرتے ڈھونڈت چیزیں ہو اندر کرسکیں ثابت ہمشاب!!سکیںے د قرار مماثل و ہمشابے ک ان کو اسالم یا

Iعمل صحیحے لیے ک حق داعیانIطرز

188

Page 189: Jada o Manzil Complete

ن ہیے مجھ بعVVVدے ک اس یں محسVVVوس حVVVاجت کیے ہک ہمیں ہک ہوتی ہنیں زیب ہی کVVو علمVVبرداروںے ک اسVVالمی دعوتM یعنی لیت ہم ہک دیتVVا ہن کVVا ہجVVالو کس لیت دیں، ساتھے س ہپ لیت یVVا سVVاتھے ک ہنظVVری کسVVیے ک ہجVVا ےک ہجVVا

لیت یا ساتھے ک نظام کسی کی نVVوعیت کسی ساتھے ک روایت کسی کی ہجا نظVVام کVVا جبروتشVVدد اور ۔ے پڑ ٹوٹ ہی غم نہکو پر ہمے ہچا کریں، بازی سودا

۔ے کرد برپا طوفان کا آزمائشوں خالفے ہمارلیت ہم ہکے ہ ہی کVVام اولین ہمارا gس کVVر مٹVVا کVVو ہجVVا اسVVالمی ہجگ کی ا

لیت منشVVا ہی ۔کVVریں براجمان کو روایات و اقدار اسالمی اور نظریات کی ہجVVا

gس قدم چند میں سفر آغازM اورے س ہمنوائی یں پVVوراے سVVے دین ساتھ کا ا ہو ہن

مگVVر ہیںے ہر سVVوچ بالفعل باتیں کی طرح اس دوست بعضے ہمار ۔گاے سک۔کردیا اعالن کا شکست اپنی پر ہی قدم اوkلے ن ہم ہک ہوگا ہی مطلب کا اس

معاشVVرتی پVVذیر فVVروغ اور تصVVورات اجتمVVاعی الVVوقت رائج شVVکے بایت دباؤ کا روایات ےمعVVاملے ک عVVورت بالخصوص ،ے ہ کمرشکن اور شدید ہن

لیت اس عVVورت مسVVلمان چVVاریے ب ۔ے ہ ہزیVVاد بھی اور دبVVاؤ ہی میں ےک ہجVVا لیکن ۔ے ہ دوچVارے سV مخVالفت بھیانVک اور دبVاؤ ہدالن سنگے بڑ میں طوفان

یں مفVVر کVVوئیے سVV محتVVوم امVVر ¿ ۔ے ہ ہن ل ہمیں الزمVVا اور قVVدمی ثVVابتے ہپ

۔وگVا کرنVVا حاصVل ہغلب پVVر حVاالت پھVر اور ہوگا دینا ثبوت کا جگرداری اسVVی ہلیت ہمیں طرح ر اgسے ک ہجا د کا ہاربع حدودے ک کھڈے ہگ ہمشا ہوگا کرانا بھی ہ

gس کVVو دنیVVا اۃمقابل اورے ہ پڑی گMری اب ہو میں جس ہوے ک زنVVدگی اسVVالمی ا۔یں داعی ہمے ک جسے گ ہوںے دکھان افق بلندوباال اور نورافگن ہ

یں یوں کام عظیم اتنا لیت قVVدم چنVVد ہم ہک سVVکتا پا سرانجام ہن ےک ہجVVا ےسVV ابھی ہم ہکے ہ سVVکتا پVVا انجVVامے سVV طVVرح اس ہن اور چلیں بدوش دوش

لیت عVVزلتۂ گوشVV کVVر ہو تھلVVگ الگے س اس اور کردیں ہمقاطع یکسر کا ہجا۔یں غلVVطے فیصل دونوں ہی ۔بیٹھیں جا میں لیت ہم ہ تVVو آمVVیز ہم سVVاتھے ک ہجVVالیت کVVر، رکھ بVVاقی تشخص اپنا مگر ہوں مگVVر کVVریں دین لین سVVاتھے ک ہجVVا

ایمان ساتھ،ے ک سوزومحبت مگر کریں اعالن واشگاف کا حق کر، بچا دامنیںے اونچ پVVر بلے ک ہعقید و اور میں، جلVVوے ک تواضVVع اور انکسVVاری لیکن ہر

ن و قلبے ہمار االمری نفس حقیقت ہی میں آخر ہونی ثبت طVVرح پVVوری پر ہذی ےچا :ہ لی ہم ہک لیت اس ہیں،ے ہر کر بسر زندگی میں فضا ہجا ےمقابلے ک ہجا

تبVVدیلی ر³س دgور ایک مشن ہمارا ،ے ہ سیدھی اور راست ہزیاد ہرا ہماری میں

لیت ۔ے ہ کرنا برپا جسے ہ وادی عVVریض و وسیع ایک مابینے ک اسالم اور ہجاgل کوئی پر یں کھڑاے لیے ک غرض اس پ کVVر آ بین بین دونVVوں ہک سکتا جا کیا ہن

gل ایسا ہبلک سکیں، مل ےک غVVرض اس صVVرف تVVوے ہ سVVکتا جVVا کیا قائم اگر پلM ہکے لی لیت ہا gس ہجا ہمVVبین ہو ہخوا لیں ہپنا آ میں اسالم آغوشMے ک کر عبورے ا

نے ک وطن اسالمی رے ک اس یا ہوں اسالم مدعیانMے والے ہر ۔وں لVVوگے ک ہبا ہgجال کر نکلے س اندھیروں ہو ہتاک gس اور آئیں، میںے ا gوں ا ب نجاتے س حالی ز³

189

Page 190: Jada o Manzil Complete

gس اور ہیں غرق سرتاپا میں جس پائیں جس سVکیں ہو مسVتفیدے س “خیر“ اچان کو اسالمے ن جسے ہ چکا ہو شادکام ہگرو ہوے س اسVVالم جو اورے ہ لیا ہپا کر کوشش کیے جین میںے سائے ک ہی دعVVوت ہی کVVو کسVVی اگVVر اور ۔ے ہ ہر

یں پسند gس ہمیں توے ہ ہن یے س ا ی دینVVا ہہک ہو ے چVVا ےاپVVنے ن ہالل حکم کVVا جسہgمÍ تھا: دیا کو رسول ³ك gمÍ ل gك Mي³ دMين ار )دMينM و³ل اراے لVVیے ہتم ےلVVیے مVVیر اور دین ہتم

الکافرون ۃسور دین( میرا

واپس اوپر جائیے

مہیازد باب

کمرانی کی ایمان ح=

Mہے: باری ارشاد

نل عمران آا نن ) نني نم مؤ تم تتم ت³ن ن·ان نن مو نل مع نµا تم ال تت نµان نو تنوا نز مح نت نا نول تنوا نتہ نا ( 139: نول

وگ غالب ہی تم کرو ہن غم ہو، ہن ہشکست دل ۔و مومن تم اگرے ہر ہہم کا ہبالل ایمان استیالء گیر ہ

رظ���بے سVV آیت اس وم جVو ہا ہالل میں اس ہکے ہ ہی ہوے ہ ہوتVا متبVVادر ہمفاد اس صVVرف تعلق کا اgسے ہ گئی دی ہدایت جوے س طرف کی ،ے ہے سVV ہج

وح اصل کی ہدایت اس لیکن ۔ے ہ ہوتا قتال میں جس gن ہدائر کا اس اور رVVےاپ و کی اسباب و محرکات اور منظر پسMے پور gحالت مخصوص کی قتالے س ر یںے س gس دراصVVل ہدایت ہی ۔ے ہ جVVامع اور وسVVیع ہزیVVاد ہک کVVا کیفیت دائمی ا

ےک مVVومن پVVر، اعصاب و احساساتے ک مومن آن ہر جوے ہ کرتی پیش ہنقش

190

Page 191: Jada o Manzil Complete

ن مVVومن میںے بVVارے ک اقدار و واقعات اور اشخاص و اشیاء اور پر فکر و ہذنی حاوی پر نظرۂ نقطے ک ی ہر ے چا و تفVVوق نفسVVیاتی ہدایت ہی دیگVVر بالفاظM ۔ہ

gس کی استیالء ی کی حالت ا ہمیش کVVو مVVومن پر جسے ہ کرتی ہنشاند قVVائم ہنا ی ہر ے چا ہو، ہمقابل کا اgسے س حاالت ہیے کیس اور دعوت ہی کیسی ہخوا ،ہ

gس لوگ ہیے کیس پیمVانوں اور اقVدار ہی کیسVی اور ہوں حائVVل میں ہرا کی ا۔و نبردآزما ہو خالفے ک ہ

gن باالتری اور بلندی ہی کی ایمان ر میںے بVVارے ک اقدار تمام ا ہونی ہظVVای ےچا دgنیVVا ہوں، مVVاخوذے سVV منبع و ماخذ اور کسی سواے ک ایمانۂ چشم جوہ

gن کی را جو بھی میںے بارے ک طاقتوں ا نہشا gن اور ہیں منخVVرفے سVV ایمان ہ ایںے سVV ایمVVان شVVجرM جVVو بھی میںے بارے ک پیمانوں دنیاوی gھVVوٹ ہن اسVVی ،ے پ

ار کا اس طرح ی ہونا بھی میںے بارے ک روایات ان کی دنیا ہاظ ے چا ایمان جوہیں میں رنگے ک ےبVVارے ک ضVوابط و قVوانین انے ک دنیVVا اور ہیں گئی رنگی ہن

یں ہاتھوںے ک ایمان ساخت کی جن بھی میں کیفیت ہی کی ایمان ۔ے ہ ہوئی ہنی ہونی نمایاں بھی میںے بارے ک حیاتے ہائ نظام تمام ان ے چVVا خمVVیر کVVا جنہ

Mانی بصیرتVارے ن ایمVیں تی عVددی کمVزوری، مVادی عکس کVا اس ۔ے ہ کیVا ہنی آنا نظر بھی میں ناداری اور قلت ے چا اور کVVثرت عVVددی طVVاقت، مادی اورہ

اور سرکش بڑیے س بڑی طاقت کی ایمان ۔بھی میں حالت کی حالی خوشیں مات بھیے س طاقت منخرف اور روایت معاشVVرتی کسVVی ہن اور کھاتی، ہن

سVVرے آگے ک نظامے ایس کسی ہی ،ے ہ جانتی ٹیکناے گھٹنے آگے ک قانون باطل

یں بھی خم تسلیم ہو عزیVVز دل ہر ہی کتنVVا میں لوگوںے ہچا جو ، سکتی کر ہن۔و محVVرومے س ایمان نورM مگر اد ہ اور پVVامردی اور قVVدمی ثVVابت دورانے ک ہج

ر کا شکنی صف ہمظا ر مختلVVف انے ک قVوت ایمانی ہ صVرفے سVV میں ہمظVا۔یں فرمائی بیان اندرے ک ہمذکور آیتے ن تعالیn ہالل جوے ہ کیفیت ایک ہ

وقVVتی ایVVک محض قVVدرت اور طVVاقت والیے ہون پیدا بدولت کی ایمانیں ہنVVتیج کVVا ہاراد اور عزم بھVVڑک تحتے ک ہجVVذب عارضVVی کسVVی ہی ہن ہوتی، ہنgٹھن کمال کاے جذب ہنگامی کسی ہن اور ،ے ہ ہکرشم کا ت´حمی و نخوت والیے ا

دائمی اور غیرمتزلزل اس اورے ہ کیفیت ابدی ایک تفوق و طاقت ہی ہبلک ،ے ہ اور ۔ے ہ ہوا سVVمایا میںے پ و رگے ک فطVVرت کی کائنات جوے ہ مبنی پر حق انسVVانی اور اصVVطالح کیے معاشVVر تصور،ے ک ماحول منطق، کی طاقت جو

gس ہو ہکیونکے ہ ور طاقت اور پائیدار ہزیادے س عرف مربVVوطے سVV خدا ہزند ایں فناے جسے ہ ۔ے ہ ہن

اثراتے ک قوت ایمانیہم کچھ ،ے ہ ہوتی حکمرانی کی نظریات افکارو کچھ پرے معاشر گVVیر ہ

gشVVت کی جن ،ے ہ ہوتVVا چلن کVVا روایVVات gس پVVر پ اور دبVVاؤ ہگVVیران سVVخت کVVا ا۔یں ہوتی زنجVیریں معاشVرتی مضبوط gس حVاالت ہی ہ ناقابVلMے لVیے شVخص ک ا جVVو اور ہو حاصVVل ہن ہپنVVا کی ہستی ور طاقت کسیے جس ہیںے ہوت برداشت

ار مضبوط کسی بغیر اور افکVVار غVVالب ۔ے ہ کرتVVا چیلنج کوے معاشرے کے ہس

191

Page 192: Jada o Manzil Complete

تک وقت اgسے س جن ہیںے ہوتے تقاض اور اثرات مخصوصے اپنے ک نظریات ےسVV حقیقت ارفVVع و اعلیn ایسVVی کسVVی تVVک جبے ہ ہوتا دشوار پانا چھٹکارا تمVVام ہی بعVVدے کے جVVان آ میں ہپنVVا کی جسے جVVائ ہو ہن استوار ہرشت کا انسان ےس ہذریعے ایس کسی تک جب اور لگیں،ے آن نظر ہپرMکاے اس نظریات و افکار

ےسVV ماخVVذے ک نظریات و افکار ان جوے جائ کی ہن حاصل (Energy) طاقت۔و قادر و قوی ہزیاد اور بااثر باالدست، اؤ عVVامے کے معاشر شخص جو ہ ےک ہب

خ مخالف gق حکمران کیے معاشر ،ے ہ جاتا ہو کھڑا پر رVVو منطVVا چیلنج کVVکرت gس ، عVVام عVVرفM کیے معاشر ،ے ہ و افکVVار اور اقVVدار و قVVوانین ہمVVروجے ک ا

gس اور نظریات یوں کی ا ہو ،ے ہ ہوتVVا نبردآزمVVا خالفے ک کجرویوں اور ہگمراارا کا ہستی ایسی کسی تک جب یں ہس قVVوی، ہزیVVادے س انسانوں جو گاے ل ہناڑ gسVV تVVو ہو عزیVVز ہزیVVادے سVV زنVVدگی اور لٹ���ا ہزیادے س ہپ اپVVنی صVVرف ہنے ا

gری بھری ہبلک ہوگا احساس شدید کا ناتوانی بالکVVل کVVو آپے اپVVن ہو میں دنیا پ و شVVفیق کی تعVVالیn ہاللے لVVی اس گا-----------------ے پائ بھی کسبے و اجنبی

یں میں میVVدان طVVرح اس کVVو مVVومن ذات رحیم gتVVار ہن ا و ہیک ہو ہک دیVVتی ا ہتنتا دباؤ کاے معاشر gس ،ے ہر ہس تاے تل بوجھے ک ا ےب اور مالل و رنج ،ے ہر ہکراgس ہبلکے ہر گMھرا میں بسیے ب و کسی M ہی کVVو مVVومنے سVV طVVرف کی ا پیغVVام

نچتا جانفزا ³ : ہکے ہ ہپ gوا “و³ال ن ³ ³ ہت gوا و³ال ن ³حÍز³ gمg ت ³نت وÍن³ و³أ ³VVلͳع Mن األ gم إ gنت Mين³ ك ؤÍمMن ÑVVہی “ م gس ہدایت اور تعلیم ےہ آتی کر بن مداوا کا دونوں رنج اور شکستگی دل کی ا

بVVالعمعوم پVVر انسVVان میں حVVاالت نامسVVاعد جVVو ہیں احساسات ہو دونوں ہی ۔۔یںے ہوجات طاری ثبات و صبرد مجر کو احساسات دونوں ان مردMمومن لیکن ہ

یںے س ےایسVV ایVVک ہو ۔ے ہ دیتVVا دبVVاے سVV بلنVVد نہنگا اور برتریۂ جذب ایک ہبلک ہنM اںے ہ ہوتا متمکن پر بلند مقام gسے س ہج اقVVدار، غVVالب طVVاقتیں، طVVاغوتیے ا اور رسVVوم و عادات بسی رچی اور قوانین و دساتیر دنیاوی افکار، ہیافت فروغ

ی ۔یںے آت نظر پست عوامے والے ہون جمع پر ہگمرا ہارے اپن ،ے ہ برتر و غالب ہی مومن ماخVVذ اور بھیے سVV لحVVاظے کے ہس

ےرکھVVت وقعت کVVوئی سVVلطنت و ملک نزدیکے ک اس ۔بھیے س نظرۂ نقطے ک۔یں رکھتی قیمت و قدر کوئی شخصیتیں بڑی بڑی ہن ہیں، اقVVدار عVVام مقبولM ہ

یں معیارات و ہیں، ہیچ میں ہنگVVا کی اgسے ہ حاصVVل عVVروج انVVدرے ک ملک ہجنgسVV خیVVاالت اورے نظVVری جمVVرو و مقبVVول میں عVVوام یں ہخVVیرے ا ےکرسVVکت ہن

ہمیش ہو ،ے ہ ہسVVتی ترین اعلیn ہوے س لحاظ ---------اس سVVرمدیے ک خVVدا ہ لپکتVVا طVVرف کی خVVدا میںے معامل ہر ہو ،ے ہ کرتا ہدایت اکتسابMے س ہچشم

gس دم ہر اور ،ے ہ تا گامزن پر ہرا ہوئی بتائی کی ا ۔ے ہ ہرجامعیت و افضلیت کی ہعقید اسالمی

اور اونچVVاے سVV دوسVVروں مومن بھی میں ادراک و معرفت کی کائناتgس توحیVد--------اپVنیۂ نظVری اور ہبVالل ایمانے لی اس ۔ے ہ ہوتا فائق صVورت ا

192

Page 193: Jada o Manzil Complete

یں اسVVVالم میں جس میں کی حقیقت عظیم کی کائنVVVات ،ے ہ کرتVVVا پیش ہان

جVVو کی کائنVVات توحیVVدۂ نظVVری ہچنVVانچ ۔ے ہ کلید ہشا کیے کرن حاصل معرفتgجلی، درخشVVاں، قدر اس ہوے ہ کرتا پیش تصویر ہکے ہ متناسVVب اور حسVVین ا

gس ہم جب gن ہمVوازن کا ا جVو ہیںے کVرتے سV انبVاروںے ک عقائVد و تصVورات اgن مرعوبے ک حال و ماضی میںے بارے ک کائنات ہیں عبVVارتے سVV نظریات ک

ب ہمشرکان جو یا ہیں،ے ہوئ پیدا میںے نتیجے ک ادیان آسمانی محرف اور ہمذایں یا کی ہعقیVVد اسVVالمی تVVوے ہ دیVVا جنمے ن تحریکVVوں ہپرستان ہماد ہمکرو ہجن

لVVوگ جVVو ہچنVVاچ ۔ے ہ جVVاتی آے سVVامنے ہمVVار کر نکھر بالکل رفعت و عظمت کائنVVات ہو الریب ہیں، حامVVلے ک معVVرفت کی طرز اس میںے بارے ک کائنات

ئیں ہیے ہون برتر و باال اور افضل و اعلیnے س مخلوقات ساری کی ۔۔ ہچاgونچVVاے س دوسروں بھی میں تصور اgسے اپن مومن ےہ ہوتVVا فVVائق اور ا

ےسVV جنے ہ رکھتVVا ہو میںے بVVارے ک پیمVانوں اور قVدروں ان کی زنVVدگی جVوMوالے ک اس ، انسانی حیاتVVائع و احVVیاء اور وقVVخاص و اشVVاور قیمت کی اش

کی صVفات خVدائی )ان خداشناسVی ہعقیVد جVو ۔ے ہ جVاتی کی متعین حیثیت و اقVVدار اور ہو قVVائم پVVر اسVVاس کی (ے ہ کرتVVا بیVVان اسVVالم جVVو میں روشنی

gنے ک معیارات یے سVV حقائق ا ر میںے نVVتیجے ک ہآگVVا ےک زمین ہک جVVو ہو ہظVVایں محدود ہی تک ہکرے سے چھوٹ اس gوری ہبلک ہن ایسVVا ہیں محیط کو کائنات پ

¿ ہعقید ےہ کرتVVا عطVVا تصVVور ایسVVا ایک کا پیمانوں اور قدروں کو مومن فطرتایںے س پیمانوں غیرمتوازن اور ناقص ان جو ٹھVVوس اور ہپVVاکیز ی،ہاعل ہزیاد ہک

ائی کVVاعلم جن اور ہیںے ہوت میں ہاتھوںے ک انسVVانوں عVVام جVVوے ہ ہوتVVا ہانت ہبلک ہیں،ے بدلتے پیمانے اپن بار کئی میں نسل ہی ایک جو اور ،ے ہ ہوتا محدود

ےک ان میںے بVVارے ک فرد ہی ایک ہبلک ہیں،ے بدلت بار بار اندرے ک قوم ہی ایک۔اور کچھ کو شام اور ہیںے ہوت کچھ صبحے پیمان

ایت بھی میں معVVامالت و اخالق اور ضVVمیر و احسVVاسے اپVVن مVVومن ہنائی اور راستباز ہوے ہ رکھتا ایمان پر خدا جس ہو ۔ے ہ ہوتا فائز پر بلندیوں ہانتترین اور یہحسن اسماء مVVومن خVVود بVVذاتM ہعقید ہی ۔ے ہ متصفے س صفات ہب

ارت، و پاکیزگی رفعت، و عظمت اندرے ک احسVVاس کVVا تقVVویn و عفت اور ہطgبھارتVVا ی خالفتM اور صVVالح عمVVلM اور ،ے ہ ا nا ہالVVحیح کVVوم ص نے ک اس ہمف ہذ ےہ کرتا عطا بھی محکم نیقین ہی کو مومن ہعقید ہی برآں مزید ۔ے ہ کرتا نشین

اں اور ۔ے ہ ءادارالجز اصل ہی آخرت ہک جو کا زندگی ہپاکیز اور اعمال نیک ہو

gس گاے مل اجر ۔یں ہیچ آالم و تکالیف کی دgنیا میںے مقابلے ک ا مVVومن چیز ہی ہار ایسVVی ایک کی سکون و اطمینان میں ضمیرے ک ہکے ہ رکھVVتیے کVVی پیVVدا ہب

gسVV بھی تو ،ے ہر محروم اۃکلیے س متاع و مال دنیاوی عgمربھر ہو اگر کVVوئیے ا

یں شکایت ۔وتی ہن ہM اور قانونے اپن مومن و کی زندگی نظام gبھیے س ر n۔ے ہ افضل و اعلی

دMے ن انسان ےہائ نظVامے جتVVن اور شVVریعتیں جVو تVVک آج کVرے لے سVV قVدیم ہع

193

Page 194: Jada o Manzil Complete

gن جب مVVومن ہیںے کی وضع زندگی اور شVVریعت اپVVنی اورے ہ لیتVVا ہجVVائز کVVا اMے اپن gس توے ہ کرتا ہموازن کا انے س زندگی نظام ہزاروں ہکے ہ ہوتVVا معلVVومے ا

ےک نظVام جVامع اور شVریعت محکم کی اسVالم کاوشVیں انسانی ہی کی برسیں حیVثیت ہزیVادے سVے ٹوئVی ٹامVکے ک انVدھوں اور کھیVلے ک بچوںے سامن ہن

M اسے اپن ہو ہچنانچ ۔رکھتیں انسانیت ہوئی بھٹکی جب کر ہو کھڑا پر بلند مقام اس تVVو ،ے ہ ڈالتا ہنگا دردبھری اور آمیز محبت پر شقاوت اور چارگیے ب کییں نظVر ہچVار اور کVوئیے ک بVات اسے سVوائ کو ہسVوخت کی انسVان ہک آتVا ہن

ی اور نصیبی ی کرنا کچھے اسے لیے کے پان قابو پر ہگمرا ے چا ۔ہلی ظرۂ ننقط ہمومنان اور نظرۂ نقط ہجا

ی لیتے ن مسVVلمانوںے ک صVVدرMاول جVVوے ہ نظVVرۂ نقط ہو ہی انے ک ہجVVارے کھوکھل تمام gن اور طاقتوں اور ہمظا کیVVا اختیVVار میںے مقVVابلے ک قVVوانین ا

وں تھا لیت دورMے ن ہجن لیت ۔تھا رکھا بنا غالم اپنا کو انسانوں میں ہجا تاریخ ہجایں نام کا دور مخصوص کسیے ک اور ۔ے ہ نام کا حالت خاص ایک ہبلک ۔ے ہ ہن

ےسVV راسVVت نہرا کی اسالم سوسائٹی انسانی کبھی جب میں حال اور ماضیلیت ہوتی منحVVرف ہ جVVا بھی جب ہآئنVVد اور ۔ے ہ آتی کVVر عVVود حVVالت ہی کی ہےی ہوگی، منحرفے س راست نہرا انسانیت ۔گیے آئ پیش حالت ہی

Mتم قائد نامورے ک ہسپا ایرانی میں ہقادسی جنگVVجب میں کیمپے ک رس وں اورے گVئ ہشVعب بن ہمغVیر حضVرت اںے ن ہان لیت ہو اور ڈھنVگ رنVگے ک ہجVا

gس اور دیکھا، ہشکو و جالل دی عثمVVان ابو کیا اختیار ہروی جو میںے بارے ک ا ہنgسے ن :ے ہ کیا بیان میں الفاظ انے ا

gلے ک دریا ہشعب بن ہمغیر جب “ نچ میں فVVوج ایVVرانیے ک کر پار کو پ ہپیوں ایرانی توے گئ کی انے سVV رسVVتم اور ۔لیVVا بٹھVا پVVاس کVو ہمغVیرے ن ہسVVپا

وں ۔کی طلب اجازت کی مالقات اپVVنیے لVVیے کے چgھپVVان شکسVVت اپVVنیے ن ہانیں تبدیلی کوئی میں زینت و زیب لوگVVوں سVVب ۔ے بڑھے آگ ہمغیر ۔تھی کی ہن

ن وردیVVاں مخصVVوص اپنیے ن ےکے سVVون ۔ے تھ تVVاج پVVر سVVروں ۔تھیں رکھی ہپgناے س تاروں ےفاصVVلے ک قVVدم سVVو چVVار چارے غالیچ ۔تھا بدن زیبM لباس ہوا ب

نچVVا تVVک رستم بعدے کے چلن تک غالیچوں قدم سو چار ۔ے تھے ہوئے بچھ تک ہپ میں حصVVوں چVVار بVVالے ک ان ۔ے ہوئ داخVVل میںے خیم ہمغVVیر ۔تھVVا سVVکتا جVVا

gنVVدھ نچVVت انVVدر ۔ے تھے ہوئے گ gس کVVر چVVڑھ پVVر تختے ک رسVVتم ہو ہیے ہپ کی ا¿ کر دیکھ ہی درباری ۔ے گئ بیٹھ پر مسند یں اورے جھپVVٹ پVVر ہمغVVیر فVVورا ےنیچ ہان

ا:ے ن ہمغیر ۔دیا گرا اری تک ہم ہک نچVا خVبریں کی دانشVمندی ہتم تھیں کVرتی ہپیں بیوقVVوف کVVوئی ہزیادے س میں تم مگر gونچ ہی میں عربVVوں ہم ۔گVVا ہو ہن نیچ ایں یں غالم اپنVVا کVVوے دوسVVر کسی کوئیے س میں ہم ۔ے ہ ہن Mال بناتVVا ہن ہو ہک ہی اgتر پر جنگ کی قVوم اپVVنی بھی تم ہک تھVا گمان میرا ۔ے جائ ہو گرفتار اورے آئ اgسی ۔یںے کVرت ہم طVرح جسے ہوگے کرت مواسات طرح ا حVرکت جVوے ن تم ہ

ترے س اسے ہ کی اب ی تو ہب لے مجھ تم ہک تھVVا ہی ہکے دیVVت کVVر اطالع ہی ہیے ہپار لوگ کچھے س میں تم ارا اور ہیںے رکھVت مقVام کVا ربے لVیے ہتم نظVام ہتم

ار میں ۔ے ہ گڑبڑ یںے سVV خVVود پVVاسے ہتم ار ہبلک ہوں، آیVVا ہن gالنے ہتم آیVVا پVVرے ب۔وں اں ہ ارا ہکے ہ ہوا معلومے مجھ آج کر آ ہی ۔ے ہ شVVکار کا اضمحالل نظام ہتم

194

Page 195: Jada o Manzil Complete

ن کر کھا شکست تم اور ۔وے والے ہر کی طرح اس اور سلوکے ایس شکے ب ہنیتوں ³لے ک ہذ ت پر ب یں قائم ہبادشا ا ہن “۔کرتی ہر

لے سVV ہقادسVVی جنVVگM بھیے ن عVVامر بن ربعی ےک اس اور رسVVتمے ہپی اور ایمانی جراتM اسے سامنے ک درباریوں تھVVا کیVVا اختیVVار ہروی کVVا ہبلنVVدنگا

Mای و ہالبدایے ن کثیر )ابن ہالن (: ے ہ کیا بیان میں ہ کا افواج ایرانی ہک جو پاسے ک رستمے ن وقاص ابی بن سعد حضرت“

نچ عVVامر بن ربعی ۔بھیجا کر بنا سفیر اپنا کو عامر بن ربعی تھا ساالر ہسپ ےہپا بیش اور یVVاقوت رسVVتم ۔تھا ہآراستے س فروش فرش دربار تو زیبM مVVوتی ہب

ن لباس قیمت بیش ،ے کی بدن بیٹھVVا پVVر تختے کے سونے رکھ پر سر تاج ،ے ہپgرانے پھٹ عامر بن ربعی ۔تھا نچ میں لباسے پ چھوٹVVا ڈھVVال، سVVی مختصر ،ے ہپ ےہوئے رونVVدت کVVو فVVرش سVVوار پVVرے گھوڑ ہو تھی، حیثیت کی ان ہی گھوڑا سا

gترے سے گھوڑ پھر اورے گئے چلے بڑھت کVVوے گھVVوڑے سVV ہتکی گVVاؤ قیمVVتی ،ے ا

خVVود پVVر سر ساتھ، حرب آالتM ،ے لگے جان پاسے ک رستم خود اور دیا، باندھgتVVار تو لباس جنگیے بول لوگ ۔تھی ہزر پر جسم اور ن ۔دو ا خVVود میںے لگے ہکیںے س gالیاے مجھ ہوں، آیا ہن یں منظVVور کVVو تم اگVVر ،ے ہ گیا ب واپس ابھی تVVو ہن

۔وں جاتا ا:ے ن رسVتم ہ MسVی ہو دو،ے آن ہک ۔ے بVڑھے ہوئے ٹیکVت ہنVیز پVر فVرش ااراے بVVول لVVوگ ۔دیVVا کاٹ جابجا کو فرشے ن نوک کیے نیز ۔واے کیسVV آنVVا ہتم ہMسیے ن ہالل کو ہم :ے بول بنVVدوں کVVو اس ہو مرضی کی جس ہکے ہ بھیجاے لی ا کی دgنیVVا اور دیں کVVر داخVVل میں بنVVدگی کی ہالل کVVر دال نجاتے س بندگی کی

نچVVا میں وسVVعتوں کی آخVVرت کVVر نکVVالے سVV تنگیVVوں ب اور دیں ہپ کی ہمVVذا“۔آئیںے لے تل ہسایے ک عدلے ک اسالم کر دال چھٹکاراے س زیادتیوں

اور ہمغلوبVVان ہنگVVاۂ نقط کا مسلمان اور ،ے ہ آتا انقالب ایک بعدے ک اسیے س طاقت مادی ہوے سV برتVری احسVاسM مگVر ۔ے ہ جاتVا ہو کVا شVخص ہت

یں محروم ۔وتا ہن gس اگر ہ ہو تVVوے ہ روشVVن بھی اب ایمVVان شVVمعM میں دلے ک ا ہک ہوگVVا یقین ہپختے اسVV اور گVVا،ے دیکھ ہی فروتVVرے سVVے اپVVن کVVو اقوام غالبیں آج جVVوے ہ ہمVVرحل عارضی ایک محکومی مادی گVVا،ے جVVائ ہو ختم کVVل تVVو ہنgسVV اور گVVاے د رکھ کVVر پلٹ ہپانس باآلخر لشکر کا ایمان ¿ے ا حاصVVل فتح الزمVVا ےک کمVزوری اپVVنی تVVو ہو بھی ثVVابت لیوا جان ہمرحل ہی اگر بالفرض اور ہوگی،gھٹنے آگے ک اس مومن باوجود یںے گ ہوتVVا سرشارے س یقین اس ہو ۔گاے ٹیک ہن

gسVV مگVVر ہیں،ے مVVرت مVVوت کی معمول تو انسانے دوسر ہکے ہ ادتے ا کی ہشgوچے س دنیا اس ہو ہوگی، نصیب موت جنت کی ربے اپVVن سیدھا تو گاے کر کر و غالب پر اس آج لوگ جو ۔گا ہو داخل میں رgخصتے س دنیا جب ہو ہیں ہقانم ناک عبرت توے گ ہوں gن ہج ۔وگا ٹھکانا کا ا زمین میں انجام اسے ک دونوں ہ

gعد کا آسمان و ی ۔ے ہ ب gسVV ہکے ہ ہوتVVا مسVVتغرق ہو میں احساسات ہان ےاپVVنے اMنائی فرمان ہی کا کریم رب gے ہ دیتا س:

195

Page 196: Jada o Manzil Complete

مم ن´بہ نر ما مو نق ´ت ن نن ا نذي ´ل ن نن ا ن¶ نل تد • نمہا مل نس ا مئ نب نو تم ´ن ن نجہ مم نواہ مµا نم نم تث لل نلي نق لع نتا نم ند • zن نبل مل نفي ا ما ترو نف ن³ نن نذي ´ل ن تب ا ت´ل نق نت ن« ن´ن نر تغ ني نا لنل عمران آا نر ) نرا مب zµن ن´لل لر مي نخ ´لہ ند ال نعن نما نو ´لہ ند ال نعن من نم اا تزل تن نفيہا نن ندي نل نخا تر منہا نµا نتہا ال مح نت نمن نري مج نت لت ن´نا نج مم 196: نلہ

– 198 )

یں پھVVرت چلت کی لوگVVوں نافرمVVانے ک خVVدا میں ملکVVوں کسVVی ہتم ہی پھVVر ،ے ہ لطVVف سVVا تھوڑا کا زندگی ہچندروز محض ہی ۔ے ڈال ہن میںے دھوکنم سب جVVوے ک اس بVVرعکس ۔ے ہ قVVرارے جVVائ بVVدترین جوے گ جائیں میں ہج ہیں باغے ایسے لیے ک ان ہیںے کرت بسر زندگیے ہوئے ڈرتے س ربے اپن لوگریںے نیچے ک جن تی ہن ہمیش ہو میں بVVVVVVVVVاغوں ان ہیں، ہب یں ہ کی ہالل ،ے گ ہر

ےہ پVVاسے ک ہالل کچھ جVVو اور ،ے لVVیے ک انے ہ ضVVیافت سVVامانM ہیے س طرفی سبے لیے ک لوگوں نیک ترے س ہو ۔ے ہ ہب

دIلنواز سخن بلند ہنگا جVVوے ہ ہوتVVا ہغلب کVVو اقدارواصVVول اور عقائVVدوافکارے سVVیا پرے معاشر

ےہوت مخVVالف دیشVVد ہبلک یمنافے ک زانیم و ہمانیپ اور فکر و ہدیعقے ک مومن مقVVام ارفVVع اور یnاعل ہو ہک ہوتVVا ںیہن جgدا یکبھے س اس احساس ہی مگر ں،یہ

ہادیVVز ںیہکے س اس لوگ کوش شیع اور اپرستیدن تمام ہی اورے ہ متمکن پر توے ہ دوڑاتا نظر جب پر لوگوں انے س مقام بلندے اپن ہو ۔ںیہ پر مقام فروتر

مملوے س یخودپسند اور یخوددار اور نفس عزتM تک حد یاپن ہو طرف کیا

gس ںیمے بارے ک ان طرف یدوسر اورے ہ ہوتا یہرخوایخ اور یہمدرد دل کا اgس ۔ے ہ ہوتVVا زیلVVبرے سVV جذباتے ک ش یک ا جVVو یک تیہدا ہکے ہ یوتہ��� ہخVVوا

gفقM جس اور ہو بینص یبھ ںیہانے ہ یفرمائ ارزاںے ن ہاللے اس یروشن بلنVVد اgنے ہ محوMپرواز خود ہو پر اں یبھ کو ا gٹھا تک ہو ۔ے الئ ا

و ،ے ہ کرتا بپا محشرۂ ہنگام کیا باطل ہاؤ گرجتا ،ے ہ کرتا بلند ہغلغل کا ہgس ،ے ہ تVVاید تVVاؤ کVVو مgوچھVVوں اور تانتا ہنیس ۔ے ہ دھاڑتا اور لقتمچاروں طرف )ے ک ا

پیشہ اور خوشامدیوں کی طرف سے ( ایسا مصنوعی ہالہ قائم کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انسانوں کی بصارت اورتروح اور قبیح تکن ہالہ کے پیچھے کیا گھناؤنی بصیرت دونوں پر پردہ پڑ جاتا ہے اور وہ یہ دیکھ ہی نہیں پاتیں کہ اس خیرہ

بلند سے باطل اور اس کی ہنگامہنمومن اپنے مقام !!ہے تصویر مستور ہے اور کیسی منحوس اور تاریک " صبح " پنہاں نس ضعف کا شکار نہیں ہوتا آارائیوں کو دیکھتا ہے ۔ فریب خوردہ انسانی جماعتوں پر نظر ڈالتا ہے ، مگر وہ کسی احسانہ مستقیم پر اس کی تاسے کوئی رنج و غم لاحق ہوتا ہے ۔ اور نہ حق پر اس کی ثابت قدمی میں کوئی کمی اور را اور نہ تاس میں جو تگم گشتگان راہ اور فریب خوردہ انسانوں کی ہدایت کے لیے استقامت میں کوئی تزلزل پیدا ہوتا ہے ۔ بلکہ

تڑپ اور بے تابی پائی جاتی ہے اس میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔نرو میں بہ رہا ہوتا ہے ، گندگی اور کیچڑ معاشرہ پست اور ذلیل خواہشوں میں ڈوبا ہوتا ہے ، سفلی جذبات کی

نل خام میں مگن ہوتا ہے کہ وہ لذائذ زندگی سے مح آالودہ ہوتا ہے ۔ اس خیا آازاد ہو رہاظ���سے وظ ہو رہا ہے اور بندھنوں سے

196

Page 197: Jada o Manzil Complete

حلzل کمیاب بلکہ نایاب ہو جاتا ہے ۔ۂہے ۔ نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ معاشرے کے اندر پاکیزہ تفریح اور لقم ڑوں کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ جدھر دیکھو غلzظت اور فضلzت کے ندی نالے بہ رہے ہوتےہگندگی کے جو

تاوپر سے جھانکتا ہے اور بایں ہمہ کہ وہ ہیں۔ مومن کیچڑ کے اندر غرق ہونے والوں اور غلzظت سے چمٹے ہوئے انسانوں کو نس شکست اور اس کے قلب و جگر میں تاس کے حوصلوں میں کوئی احسا اس پورے ماحول میں یکہ و تنہا ہوتا ہے ۔

تاتار کرںکوئی غم جاگزی تاس کے نفس میں کبھی یہ اکساہٹ پیدا نہیں ہوتی کہ اپنا پاکیزہ و بے داغ لباس نہیں ہوتا۔ اور ایمان اورۂوہ بھی ننگوں کے اس حمام میں ننگا ہو جائے اور اس متعفن تالاب میں غوطے لگانے لگے ۔ مومن جس نش����

ہی و ارفع مقام پر محسوس کرتا ہے ۔ آاپ کو بہت اعل تاس کی بدولت وہ اپنے لذت یقین سے شرمسار ہوتا ہے ہی و برتر قدروں سے خالی ایک ایسے معاشرے کے اندر جو دین سے باغی ہو، مکارم و فضائل سے عاری اور اعلتحسن اور طہارت و تاس پہلو سے بے گانہ ہو چکا ہو جو پاکیزگی و آاشنا ہو۔ الغرض ہر اور شریفانہ مہذب تقریبات سے ناتاسی طرح تھامے رکھتا ہے جس آا سکتا ہے ۔ ایسے معاشرے کے اندر مومن اپنے دین کا دامن نفاست کی تعریف میں تمٹھی میں لیے ہو۔ رہے دوسرے لوگ تو وہ اس کی اس جرات مندی پر پھبتیاں کستے آاگ کا انگارہ طرح کوئی شخص

استہزا بناتے ہیں۔ مگر مومن ہے کہ یہ سبۂتاڑاتے ہیں، اس کی محبوب اقدار کو نشانتمسخر ہیں، اس کے افکار کا احساس وہ ہوتا، نہیں شکار کا حوصلگی کم اور ہمتی دون مگر ہے سہتا اور ، ہے تسنتا اننکچھ ساتھ کے برتری

تاس کی زبان پر وہی کلمات جاری ہو جاتے ہیں جو اس برگزیدہ گروہ کے ایک فرد حضرت چھچھوروں پر نظر ڈالتا ہے اور تپرخار اور طویل وادیوں میں ایمان و عشق کے نورانی اور غیر نوح علیہ السلzم کی زبان پر جاری ہوئے تھے جو تاریخ کی

تاڑانے والوں سے فرمایا تھا آانجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے تمسخر :منقطع کارواں کے ہمراہ گزر چکے ہیں۔

نن )ھود : ترو نخ مس نت نما ن³ مم ت¶ نمن تر نخ مس نن ن´نا نا نف ن´نا نم ما ترو نخ مس نت ( 38نان

تاڑا رہے ہو۔ تاڑائیں گے جس طرح تم ہنسی تاڑاتے ہو تو ہم بھی تمہاری ہنسی آاج اگر تم ہماری ہنسی مومن کو اس نورانی کارواں اور اس کے بالمقابل بد قسمت و سوختہ نصیب قافلہ دونوں کے انجام کا نقشہ اللہ

آا جاتا ہے ہلی کے اس بیان میں نظر :تعا

نن تزو نم نغا نت ني مم نھ نب ما ترو نم نذا نا نو نن ۔ ت¶و نح مض ني تنوا نم آا نن نذي ´ل ن نن ا نم ما تنو ن³ا تموا نر مج نا نن نذي ´ل ن نن ا نل• نا نا ما تبو نل نق نذا ان نا ماينو تبو نل نق تم ان نھ نل مھ نا نن نھي ن¶ نن •نف ت´لو نضا نل نء نلا تؤ نھ نن نا تلوا نقا مم تھ مو نا نر نذا ن·ا نو نن • نظي نف نحا مم نھ مي نل نع تلوا نس مر تا نما نو نر• نفا ت¶ مل نن ا نم ما تنو نم آا نن نذي ´ل ن نم ا مو ني مل نفا

نن ت¶و نح مض نل• ني نن ينع ترو تظ نين ن« نئ نرا نا مل نن • ا تلو نع مف ني تنوا ن³ا نما تر نفا ت¶ مل نب ا نو تث مل (36 تا 29)المطففین : • نھ

تان کے پاس سے ہو کر گزرتے بے شک مجرم )دنیا میں( ایمان والوں کے ساتھ ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جب آانکھیں مارتے ۔ اور جب اپنے اہل کی طرف لوٹ کر جاتے تو )مسلمانوں کے تذکروں کا( مشغلہ بناتے ۔ اور تو ان سے

197

Page 198: Jada o Manzil Complete

جب مسلمانوں کو دیکھتے تو بول اٹھتے کہ بے شک یہ لوگ گمراہ ہیں۔ حالانکہ انہیں )مسلمانوں پر( داروغہ بنا کر نہیںآاخرت میں( مسلمان کافروں پر ہنسیں گے اور تختوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے ۔ کیا کافروں نے آاج ) بھیجا گیا۔

اب کیے کا بدلہ پا لیا؟آان کریم نے ہمارے سامنے کافروں کا یہ قول نقل کیا ہے جو وہ اہل ایمان سے کہا کرتے اس سے بھی پہلے قر

:تھے

نل مت تت نذا نا ا´يا )مریم : ينو ند نن تن نس مح نا نو اما نقا نم لر مي نخ نن مي نق نري نف مل تي ا نا ما تنو نم آا نن نذي ´ل ن نل تروا نف ن³ نن نذي ´ل ن نل ا نقا مت ننا ن´ي نب ننا تت نيا آا مم نھ مي نل نع 73)

آایات سنائی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے ایمان لانے والوں سے کہتے ان لوگوں کو جب ہماری کھلی کھلی ہیں: بتاؤ ہم دونوں گروہوں میں سے کون بہتر حالت میں ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں۔

تمکھیا اور سردار اور مالدار لوگ جو محمد )صلی اللہ یعنی دونوں فریقوں میں سے کون سا فریق اچھا ہے ؟ وہ آانجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہیں؟ نصر بن علی وسلم( پر ایمان نہیں لاتے یا وہ نادار اور بے کس لوگ جو حارث، عمرو بن ہشام، ولید بن مغیرہ اور ابو سفیان بن حرب جیسے اکابر قوم یا بلzل، عمار، صہیب اور خباب جیسےآاپ صلی اللہ علی وسلم کے بے سہارا افراد؟ اگر محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کی دعوت کوئی بھلی دعوت ہوتی تو کیا آاپس میں مل بیٹھنے کے لیے پیروکار ایسے ہی بدحال لوگ ہوتے جنہیں قریش کے اندر کوئی دبدبہ اور وقار حاصل نہیں؟

تان کے مخالفین ایک عظیمن ایک معمولی سے مکان )دار ارقم( کے سوا انہیں اور کوئی جگہ بھی میسر نہیں، جب کہ حاصل کو ان ناخدائی کی قوم ، ہے چومتا قدم کے ان جلzل و جاہ ہیں۔ مالک کے چوپال تپرشکوہ اور الشان

تدنیا پرستوں کا نقط۔۔۔۔ہے ۔۔۔۔ رز فکر جن کی نگاہوں پر ہر زمانے اور ہر جگہ میںط������������ نگاہ اور ان لوگوں کا ۂ۔ یہ ہے ہہی کا فیصلہ ہے کہ عقیدہ و ایمان دنیاوی زیب و زینت اور پردے پڑے رہے اور بلندیوں کو نہ دیکھ سکے ۔ یہ حکمت ال ظاہری مینا کاری اور سجاوٹ سے محروم اور اسباب تحریص و ترغیب سے پاک رہے گا۔ اسے قبول کرنے کا محرک کسی حاکم کا تقرب، کسی جاہ و اقتدار کی حرص، کوئی مرغوب نعرہ اور کسی خواہش کی تسکین نہ ہو گی، بلکہ جہد و

تکوچہ میں´مشقت، جانکاہی و جہاد اور سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا جذبہ اس کا اصل محر ک ہو گا۔ تا کہ جو اس بحیثیت کو نظریے اس وہ کہ آائے ساتھ کے یقین اس وہ کینآائے انسان کسی کو اس وہ ۔ ہے رہا کر قبول عقیدہ

ری ہون اللہ کی رضا جوئی کے لیے قبول کرے اور تمام لالچوں اور داعیات سے ب����اۃخوشنودی کے لیے نہیں بلکہ خالص���� جن پر عام انسان فریفتہ ہوتے ہیں۔ تا کہ اس عقیدہ کو کوئی ایسا شخص اپنانے کی جرات ہی نہ کر سکے جو دنیاوی

آاز،منفعتوں کا طالب ہو ہو، جاہ و حشمت اور ٹھاٹھ باٹھ کا پجاری ہو اور جس کے نزدیک انسانی تصورات بندہ حرص و اا بے وقعت ہوں۔ اللہ کی مرضی اور خوشنودی کے مقابلے میں زیادہ وقیع ہوں، خواہ اللہ کے نزدیک وہ قطع

مومن کی شان

198

Page 199: Jada o Manzil Complete

اندازوں کے انسانوں کے تاسے کہ لیتا نہیں انسانوں سے باٹ اور پیمانے اپنے اور نظریات و اقدار اپنی مومن تاس کے لیے کافی و فیاوپیچھے پیچھے چلنے کی حاجت محسوس ہو۔ بلکہ وہ انسانوں کے رب سے لیتا ہے اور وہی

تاسے مخلوق کی خواہشات کے ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ وہ مخلوق کی مرضی اور خواہشات کو بھی اپنے لیے معیار نہیں بناتا کہ ر نہیں ہوتا اور´ حق ہوتی ہے جس میں کوئی تغی������������نساتھ ساتھ لڑھکتے رہنے کی ضرورت ہو، بلکہ اس کا ماخذ وہ میزان

یہ ان ابدی لیتا بلکہ تدنیا سے نہیں تادھر ڈانواں ڈول نہیں ہوتی۔ وہ اس سب چیزوں کو اس محدود فانی نادھر جوکبھی تابل کر اس کے ضمیر کو منور کرتی ہیں جہاں سے ساری کائنات کو خلعت وجود ملz ہے ۔ تو پھر وہ اپنےنچشموں سے

نرتاندر کوئی کمزوری اور اپنے دل میں کوئی ح��� زن و ملzل کیوں کر محسوس کر سکتا ہے جب کہ اس کا سر رشتہ پروردگانن حق سے اور سر چشم کائنات سے استوار اور وابستہ ہے ؟ۂعالم سے ، میزا

وہ حق پر ہے ۔ حق کو چھوڑنے کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا اس کے ہاتھ لگ سکتا ہے ؟ ضلzل کے پاس لو میں ہیں، تو ہوا کریںناگر جاہ و اقتدار اور دبدبہ و طنطنہ ہے ۔ اگر طبلچی اور ڈھنڈورچی اور عوام کے غول اس کے ج

����یان سے حق میں رائی بھر بھی تغ لال کے کچھض����ر واقع نہیں ہو سکتا۔ مومن حق پر ہے ، حق کو چھوڑ کر سوائے ´ نہیں مل سکتا۔ پس مومن اگر کھرا مومن ہے تو وہ ہر گز حق کے بجائے باطل کا انتخاب نہیں کر سکتا۔ اور حق کے

یہ توقع کہ وہ حق کے بجائے باطل کا انتخابسے عوض ضلzل کا سودا نہیں کر سکتا۔ حالات چاہے کچھ ہوں، مومن :کرے گا، عبث ہے

ن´ا مم ل مو ني نل نس ن´نا تع ال نم نجا ن« ن´ن نا ننا ´ب ن نر تب۔ نھا نو مل نت ا نان ن« ن´ن نا اۃ نم مح نر ن« تدن ´ل ن نمن ننا نل مب نھ نو ننا نت مي ند نھ مذ نا ند مع نب ننا نب تلو تق مغ نز تت نا ننا ل ´ب ن نرآال عمران : ند۔ ) نعا نمي مل تف ا نل مخ تي نا نہ ل ´ل نن ال نا نہ نفي نب مي (9، 8نر

تچکا ہے ، تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں اے ہمارے پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے رستہ پر لگا تتو ہی فیاض اا سبنمبتلz نہ کر دیجیو۔ ہمیں اپنے خزانہ فیض سے رحمت عطا کر کہ حقیقی ہے ۔ اے پروردگار تو یقین

آانے میں کوئی شبہ نہیں۔ بے شک اللہ ہرگز اپنے وعدہ سے ٹلنے والا لوگوں کو ایک روز جمع کرنے والا ہے ، جس کے نہیں ہے ۔

199

Page 200: Jada o Manzil Complete

واپس اوپر جائیے

باب دوازدہم

تپرخار وادی

نھا مي نل نع مم تھ مذ نا ند• تقو نو مل نت ا نذا نر ´نا ن ند• ال تدو مخ تا مل تب ا نحا مص نا نل نت تق مد• تھو مش نم نو مد نھ نشا نو ند• تعو مو نم مل نم ا مو ني مل نوا نج• ترو تب مل نت ا نذا نء نما نس نوالت« مل تم تہ نل نذي ن´ل نميد• ا نح مل نز ا نزي نع مل نہ ا ´ل ن نبال تنوا نم مؤ تي نان ن´لا نا مم تھ من نم تموا نق نن نما نو تھود• تش نن نني نم مؤ تم مل نبا نن• تلو نع مف ني نما نلي نع مم تھ نو تعود• تقتب نذا نع مم تھ نل نف تبوا تتو ني مم نل نم تث نت ننا نم مؤ تم مل نوا نن نني نم مؤ تم مل تنوا ا نت نف نن نذي ´ل ن نن ا نا لد• نھي نش مء مي نش نل ت³ نلي نع تہ ´ل ن نوال نض مر نا مل نوا نت نوا نما نس التز مو نف مل ن« ا نل نذ تر نھا من نا مل نھا ا نت مح نت نمن نري مج نت لت ن´نا نج مم تھ نل نت نحا نل نصا تلوا ال نم نع نو تنوا نم آا نن نذي ´ل ن نن ا نا نق• نري نح مل تب ا نذا نع مم تھ نل نو نم ´ن ن نھ نج

تد نري تي نما ن´ل لل نعا نف تد• نجي نم مل نش ا مر نع مل تذو ا تد• تدو نو مل تر ا تفو نغ مل نو ا تھ نو تد• نعي تي نو تئ ند مب تي نو تھ تہ ´ن ن نا لد• ندي نش نل ن« ن´ب نر نش مط نب نن نا تر• نبي ن¶ مل ا(16 تا 1)البروج :

تاس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ قسم ہے گواہی دینے والے آاسمان کی۔ قسم ہے تبرجوں والے قسم ہے آاگ کی خندقیں جن میں انہوں نے کی اور اس کی جس کے مقابلے میں گواہی دی گئی۔ کہ مارے گئے خندقوں والے ، نل ایمان کے ساتھ جو )ظلم و ستم( وہ کر رہے بہت سا ایندھن جھونک رکھا تھا۔ اور وہ خندقوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور اہآائے تھے جو تاس خدا پر ایمان لے نل ایمان کی اس بات سے برافروختہ تھے کہ وہ تاس کا تماشا دیکھ رہے تھے ۔ وہ اہ تھے

آاسمانوں کی اور زمینوں کی، اور اللہ ہر چیز کے حال سے واقف ہے د ہے ۔ اورحم نزبردست اور سزاوار تاس کی بادشاہت ہے ۔ بیشک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کی ایذائیں دیں اور پھر توبہ نہ کی ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے

200

Page 201: Jada o Manzil Complete

تان کے لیے باغات ہیں جن اور ان کے لیے جلنے کا عذاب ہے ۔ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ بے شک تیرے رب کی گرفت بڑی سخت ہے ۔ وہی ہے جو اول بار پیدا کرتا ہے اور وہی ہے جو )قیامت کے روز( دوبارہ پیدا کرے گا۔ اور وہ بخشنے والا اور محبت کرنے والا ہے ۔

عرش کا مالک ہے اور عالی شان والا ہے ۔ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے ۔

قصہ اصحاب الاخدود کے اسباق اصحاب الاخدود کا قصہ، جو سورۃ البروج میں بیان ہوا ہے ، اس لائق ہے کہ اس پر وہ تمام اہل ایمان غور وآان تدبر کریں جو دنیا کے کسی بھی خطے میں اور تاریخ کے کسی بھی عہد میں دعوت الی اللہ کا کام کر رہے ہوں۔ قر نے اس قصہ کو جس طرح بیان کیا ہے ، جس انداز سے اس کی تمہید قائم کی ہے اور پھر اس پر جو تبصرے کیے ہیں

آان نے درحقیقت وہ بنیادی خطو اجاگرطاور ساتھ ساتھ جو تعلیمات اور فیصلے بیان کیے ہیں اس سب باتوں کے ذریعہ قر کیے ہیں جو دعوت الی اللہ کی فطرت، اس دعوت کے بارے میں انسانوں کے رویے اور ان امکانی حالات کی نشان دہی

ارضی سے زیادہ وسیع اور جس کا عرصہ دنیاویۂکرتے ہیں جو اس دعوت کی وسیع دنیا میں ۔۔۔۔۔ جس کا رقبہ کرتان کے راستے کے نمایاں نل ایمان کے سامنے آان نے اس قصہ میں اہ آا سکتے ہیں۔ قر زندگی سے زیادہ طویل ہے ۔۔۔۔ پیش آانے والی ہر امکانی مصیبت کا آامادہ کیا ہے کہ وہ اس راہ میں پیش نقوش بھی واضح کر دیے ہیں، اور انہیں اس بات پر نت خداوندی کے تحت تقدیر کی طرف سے خندہ پیشانی سے خیر مقدم کریں جو پردہ غیب میں مستور و پنہاں، حکم

صادر ہو۔

تل ایمان کی فتح ایایمان کا اپنے سچے نے تاس اور تھی آائی لے ایمان پر پروردگار اپنے ایسی جماعت کا قصہ ہے جو ایک یہ تاسے جابر اور سخت گیر دشمنوں کے ہاتھوں شدید مصائب کا نشانہ بننا پڑا جو انسان صاف صاف اظہار کرنا چاہا۔ مگر

تاسے عقید تتلے ہوئے تھے جو تبنیادی حق کو پامال کرنے پر حق اختیار کرنے اور خدائے عزیز و حمید پر ایمانۂکے اس تاڑا رہے تھے جس سے اللہ نے انسان کو خاص طور پر تاس شرف کی دھجیاں رکھنے کے لیے حاصل ہے ۔ اور انسان کے تاس تاس کو عذاب دے دے کر نواز رکھا ہے تا کہ وہ دنیا میں ایک کھلونا بن کر نہ رہ جائے کہ ظالم و سنگدل حکام

آاگ میں بھونیں اور اپنے لیے تفریح اور لطف اندوزی کا سامان پیدا کریں۔کی تاسے آاہوں اور چیخوں سے اپنا دل بہلzئیں، آازمائش میں پورے اترے ۔ اور جسنیہ نفوس تاس کی بدولت وہ اس قدسیہ ایمان و عقیدہ کے جس جذبہ سے سرشار تھے

ان یہ لوگ ہاتھوں شکست کھائی۔ چنانچہ نے عقیدہ کے فانی زندگی آاخر بال میں تاس تھا ڈالا گیا انہیں میں امتحان آاگ کے عذاب میں جل کر موت کی جباروں اور ظالموں کی کسی دھمکی اور دباؤ سے مرعوب و متاثر نہیں ہوئے ۔ نآاغوش میں چلے گئے مگر اپنے دین سے سرمو ہٹنے کے لیے بھی تیار نہ ہوئے ۔ درحقیقت یہ پاکیزہ نفوس دنیا کی حیات

آازاد ہو چکے تھے ۔ اسی لیے بہیمانہ موت کا بچشم سر مشاہدہ کرنے کے باوجود زندہنمستعار کی محبت و پرستش سے

201

Page 202: Jada o Manzil Complete

نہ کر سکی۔ وہ عالم´ عقیدہ کی ذلنرہنے کی خواہش انہیں ترک آامادہ پر ن سفلی کی بندشوں اور اسبابنت قبول کرنے علوی کی طرف پرواز کر گئے ۔ یہ فانی زندگی پر ابدی عقیدہ کی فتح کا کرشمہ تھا۔نکشش سے نجات پا کر عالم

اصحاب الاخدود کا جانوروں سے بدتر گروہمجرم اور ،لئیم سرکش باغی، بالمقابل کے نفوس شرافت پیکر اور فطرت، صالح بلند معمور، ایمان سے ان نل ایمان کیسے آاگ کے الاؤ کے پاس بیٹھ کر ان کے جلنے کا تماشا دیکھ رہی تھی کہ اہ انسانوں کی منڈلی تھی جو آاگ جیتے جاگتے انسانوں کو کس طرح تلطف اندوز ہو رہے تھے کہ تدکھ سہتے ہیں۔ وہ اس منظر سے تڑپتے اور کیسے

نم زدن میں راکھ کے ڈھیروں میں تبدیل ہوتا ہے ۔نچاٹتی ہے اور کس طرح یہ گروہ شرفا چشآاگ میں لا کر جھونکا جاتا تو جب کسی نوجوان یا دوشیزہ ، بچی یا بوڑھی، کمسن یا سال خوردہ مومن کو پاگلوں کی طرح وہ ٹکڑوں کو دیکھ دیکھ کر اور گوشت کے فواروں اور خون کے بڑھ جاتی بدمستی ان درندوں کی

یہ انسانیت سوز واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ان بدبخت ظالموں کی جبل ت اس حد تک مسخ اور´ناچتے اور شور مچاتے ۔ آالودہ ہو چکی تھی کہ ان کے لیے یہ بہیمانہ اور خوف ناک عذاب سامان لذت تھا، گراوٹ کی یہ وہۂ لطف و وجنخاک

انتہا ہے کہ جنگل کا کوئی درندہ بھی اب تک اس حد تک نہیں پہنچ سکا۔ اس لیے کہ درندہ اگر شکار کرتا ہے تو خوراک حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے ، نہ کہ اپنے نیم جاں نخچیر کو پھڑپھڑاتا دیکھ کر لذت حاصل کرنے کے لیے ۔آازمائش میں کس طرح اس نل ایمان کی روحوں نے اس اور ساتھ ہی یہ واقعہ اس امر کا پتہ بھی دیتا ہے کہ خدا پرست اہ

عروج سمجھا گیا ہے ۔ۂ کمال تک کو جا چھوا جو ہر دور اور ہر زمانے میں انسانیت کا نقطناوج

اس معرکے میں کس کو فتح نصیب ہوئی دنیا کے پیمانے سے اگر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ظلم نے عقیدہ پر فتح پائی اور صالح و صابر اور خدا

کمال تک پہنچ چکی تھی اس ظلم و ایمان کے معرکے میں بے وزن و بےۂپرست گروہ کی ایمانی قوت جو بلz شبہ نقطآان ہی یہ بتاتا ہے اور نہ وہ روایات ہی یہ بتاتی ہیں جو اس واقعہ کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کہ اللہ وقعت ثابت ہوئی۔ نہ قرہلی نے ان ظالموں کو بھی ان کے جرم شدید کی اسی طرح سزا دی ہو، جس طرح قوم نوح علیہ السلzم، قوم ہود، قوم تعاتلوط علیہ السلzم کو دی ہے یا جس طرح فرعون اور اس کے لشکریوں کو پوری قاہرانہ صالح، قوم شعیب علیہ السلzم اور قوم

نظر سے اس واقعہ کا اختتام بڑا افسوس ناک اور الم انگیز ہےۂو مقتدرانہ شان کے ساتھ پکڑا تھا۔ گویا دنیا پرست کے نقط۔

مگر کیا بات صرف یہیں پر ختم ہو جاتی ہے ؟ کیا ایمان کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جانے والی خدا پرستآاگ کی خندقوں میں راکھ بن کر ملیامیٹ ہو گئی اور گروہ آالام کے نتیجے میں مجرمین جو رذالتنجماعت ان زہرہ گداز

آاخری حد کو پھلzنگ چکا تھا، وہ دنیا میں سزا سے صاف بچ گیا۔ جہاں تک دنیاوی حساب کا تعلق اور کمینگی کی آان اہل تاٹھتی ہے ۔ مگر قر ایمان کو ایک دوسرینہے اس افسوس ناک خاتمے کے بارے میں دل میں کچھ خلش سی

202

Page 203: Jada o Manzil Complete

تکشائی کرتا ہے ۔ وہ ان کو ایک نیا پیمانہ دیتا نوعیت کی تعلیم دیتا ہے اور ان کے سامنے ایک اور ہی حقیقت کی پردہ آاگاہ ہو سکیں۔ ہے جس سے وہ اشیاء کا صحیح وزن جانچ سکیں اور اصل میدان سے

کامیابی کا اصل معیارتکن نہیں آاسائشیں اور تکلیفیں، کامرانیاں اور محرومیاں ہی کارزار حیات میں فیصلہ دنیا کی زندگی اور اس کی ہیں۔ یہی وہ مال نہیں ہے جو نفع اور نقصان کا حساب بتا سکے ۔ نصرت صرف ظاہری غلبہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہہلی کی میزان فیصلہ میں اصل وزن عقیدہ کی متاع نصرت کے بے شمار صورتوں میں سے محض ایک صورت ہے ۔ اللہ تعا

آا جائے ، عقیدہ کو رنج و ہلی ترین شکل یہ ہے کہ روح مادہ پر غالب حن پر کامیابی حاصل ہو اورمہے ۔ نصرت کی اع ایمان کی روح نےنآازمائش کے مقابلے میں ایمان فتح یاب ہو جائے ۔۔۔۔۔۔ چنانچہ اصحاب الاخدود کے واقعہ میں اہل

آازمائش پر وہ عظیم فتح پائی ہے کہ رہتی دنیا تک وہ خوف و کرب پر دنیا کی ترغیبات پر، زندگی کی محبت پر اور کڑی یہی ہے اصل کامیابی۔ افتخار رہے گی۔۔۔۔۔۔ۂبنی نوع انسان کے لیے طر

مومن کی موت بجائے خود اعزاز ہے یہ انسانوں کو لیکن سب ہیں۔ ہوتے اسباب موت مختلف ہیں۔ مگر میں جاتے آاغوش انسان موت کی سب

آازادی حاصل کر سکتے ہیں،نکامیابی نہیں ہوتی، نہ سب اتنا اونچا معیار ایمان پیش کر سکتے ہیں، نہ اس حد تک کامل تافق تک پرواز کر سکتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہوتا ہے کہ وہ ایک مبارک گروہ کو اپنے بندوں میں سے تاونچے اور نہ وہ اتنے چھانٹ لیتا ہے جو مرنے میں تو دوسرے انسانوں کے ساتھ شریک ہوتا ہے مگر ایک ایسا شرف و اعزاز اس کو نصیب ہوتاآانے ہلی میں ملتا ہے ۔ بلکہ اگر پے در پے تاسے ملz اع ہے جو دوسرے لوگوں کو نصیب نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ یہ شرف و اعزاز والی انسانی نسلوں کے نقطہ نظر کو بھی حساب میں شامل کر لیں تو خود دنیا کے اندر بھی ایسا مبارک گروہ شرف و

اعزاز کا مرتبہ بلند حاصل کر لیتا ہے ۔

ہے ان مومنین نے انسانی نسل کی لاج رکھی مومنین ایمان ہار کر اپنی جانوں کو بچا سکتے تھے ۔ لیکن اس میں خود ان کا اپنا کتنا خسارہ ہوتا اور پوری انسانیت کو کس قدر خسارہ پہنچتا، کتنا بڑا خسارہ تھا کہ اگر وہ اس روشن حقیقت کو پامال کر دیتے کہ زندگی ایمانآازادی سے تہی ہو تو قابل نفرین ہے اور اگر ظالم و نافرمان لوگ نت سے خالی ہو تو وہ ایک کوڑی کی بھی نہیں رہتی، نعمتروحوں پر بھی حکمرانی کرنے لگیں تو یہ اس حد تک جری ہو جائیں کہ جسموں پر تسلط حاصل کرنے کے بعد دلوں اور نل ایمان نے اسی وقت پا لیا تھا جب کہ وہ ابھی زندگی کی انتہائی گراوٹ ہے ۔ یہ وہ پاکیزہ و ارفع حقیقت ہے جسے اہتچھو رہی تھی تو وہ اسی عظیم حقیقت اور پاکیزہ اصول پر کاربند آاگ ان کے جسموں کو دنیا میں موجود تھے ۔ جب

203

Page 204: Jada o Manzil Complete

آاگ اسے آاگ سے جل رہے تھے اور یہ عظیم اور پاکیزہ اصول کامیابی کا لوہا منوا رہا تھا بلکہ تھے ۔ ان کے فانی جسم تکندن بنا رہی تھی۔ مزید نکھار کر

حق و باطل کی کشمکش کا فریق اور میدان حق و باطل کے معرکہ کا میدان صرف اس دنیا کا اسٹیج نہیں ہے ۔ اور زندگی صرف اسی دنیاوی زندگی کا نام نہیں ہے ۔ شرکائے معرکہ صرف وہ لوگ ہی نہیں ہیں جو اس نسل سے تعلق رکھتے ہوں، جس میں معرکہ برپا ہو۔ دنیا

ہلی شریک ہوتے ہیں، ان کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ان پر گواہ رہتے ہیں۔ انہیں اس میزان کے تمام واقعات میں خود ملzء اع میں تولتے ہیں جو کسی خاص وقت اور نسل کی دنیاوی میزان سے مختلف ہوتی ہے ، بلکہ پوری انسانی نسل کی میزانوںتگنا زیادہ مبارک تاس سے کئی ہلی سے وہ مختلف ہے ۔ ایک وقت دنیا میں زمین پر جتنے انسان پائے جاتے ہیں ملzء اع

ہلی کی ستائش و تکریم اہل اع پر ملzء بلzشبہ لشکر حق پر مشتمل ہیں۔ پس اندازوں اور عزتنارواح دنیا کے فیصلوں، افزائیوں سے کہیں زیادہ عظیم اور وزنی ہوتی ہے ۔

آاخرت بھی ہے ۔ یہ اصل اور فیصلہ کن میدان ہے ۔ دنیا کا اسٹیج اس میدان سے متصل ان تمام مراحل کے بعد ہے ، منفصل نہیں ہے ، امر واقع کے اعتبار سے بھی اور مومن کے احساس و شعور کے لحاظ سے بھی۔ پس معرکہ حقآایا ہی نہیں۔ دنیا کے اسٹیج پر و باطل دنیا کے اسٹیج پر ہی تمام نہیں ہو جاتا، اس کے حقیقی خاتمہ کا مرحلہ تو ابھی تاس پر کوئی حکم لگانا صحیح اور منصفانہ نہیں ہے ۔ اس لیے کہ اس اس معرکے کا جو حصہ پیش کیا گیا ہے صرف

کا اطلzق معرکے کے صرف چند معمولی ادوار پر ہو گا۔

اہل ایمان کے انعامات پہلی قسم کی نگاہ )جس کے نزدیک ہر چیز کا فیصلہ دنیا کے اسٹیج پر ہی ہو جاتا ہے ( کوتاہ، سطح بین اورتدور اندیش، حقیقت شناس، جامع اور وسیع تر محدود ہے ۔ یہ عجلت پسند انسان کی نگاہ ہے ۔ دوسری قسم کی نگاہ آان اہل ایمان کے اندر یہی نگاہ پیدا کرتا ہے ۔ یہی نگاہ اس حقیقت کی صحیح ترجمان ہے جس پر صحیح ہے ۔ قرآازمائش و ہلی نے اہل ایمان سے ایمان و اطاعت میں ثابت قدم رہنے ، ایمانی تصور کی عمارت قائم ہے ۔ اسی بنا پر اللہ تعا

نلت����امتحان میں کامیاب ا رنے اور زندگی کی فتنہ پردازیوں پر فتح پانے پر جس صلہ اور ایمان کا وعدہ فرما رکھا ہے ، وہ اہ: قلب کا سامان فراہم کرتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے نایمان کے لیے طمانیت

تب )الرعد : تلو تق مل تن ا نئ نم مط نت نہ ´ل نر ال م³ نذ نب نا نال نہ ´ل نر ال م³ نذ نب تھم تب تلو تق تن نئ نم مط نت نو ما تنو نم آا نن نذي ´ل ن (28ا

آاگاہ رہو، اللہ کی یاد ہی وہ جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے ۔

:وہ صلہ رحمان کی خوشنودی اور محبت کے وعدہ پر مشتمل ہے

204

Page 205: Jada o Manzil Complete

ادا )مریم : تو تن نم مح نر تم ال تھ نل تل نع مج ني نس نت نحا نل نصا تلوا ال نم نع نو تنوا نم آا نن نذي ´ل ن نن ا (96نا

آائے اور انہوں نے عمل تان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دےنجو لوگ ایمان لے صالح کیے عنقریب رحمان گا۔

ہلی کے اندر ذکر خیر کا وعدہ ہے ۔ وہ ملzء اعہلی اپنے فرشتوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کسی بندے کا بچہ مر جاتا ہے ، تو اللہ تعا دریافت فرماتا ہے کہ تم نے میرے فلzں بندے کے بچے کی روح قبض کر لی ہے ؟ وہ عرض کرتے ہیں : "ہاں" ۔ اللہاے "ہاں : ہیں کرتے عرض وہ ؟ ہے لی کر قبض تروح کی جگر لخت کے بندے میرے نے تم : ہے فرماتا ہلی تعاتاس نے تان سے پوچھتا ہے کہ : "اس موت پر میرے بندے نے کیا کہا؟" فرشتے کہتے ہیں : " ہلی پروردگار"۔ اس پر اللہ تعاہلی حکم دیتا ہے کہ "میرے بندے کے لیے تسن کر اللہ تعا آاپ کی حمد فرمائی اور "انا للہ و انا الیہ راجعون" کہا۔" یہ آانجناب صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔" )ترمذی( نیز اللہ عزوجل فرماتا ہے "میں اپنے بندے کے لیے وہی کچھ ہوں جو میرے بارے میں وہ گمان رکھتا ہے ۔ جب وہ میرا ذکرتاسے یاد کرتا ہوں، اور تاس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر اپنے دل میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی دل میں کرتا ہے تو میں تاس کا ذکر کرتا ہوں، اگر وہ ایک بالشت میرے تان سے بہتر گروہ میں اگر وہ لوگوں کے اندر میرا ذکر کرتا ہے تو میں تاس کے قریب ہوتا ہوں، اگر وہ ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں اس کی طرف ایک قدم بڑھتا قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ

تاس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔ )بخاری و مسلم(۔ آاتا ہے تو میں ہوں، اور اگر وہ میری طرف چل کر اور دلچسپی گہری ساتھ کے ان اور ہیں تدعاگو لیے کے ایمان اہل ہلی اع ملzء کہ کا بات اس ہے وعدہ یہ

ہمدردی رکھتے ہیں۔

مء مي نش نل ت³ نت مع نس نو ننا ´ب ن نر تنوا نم آا نن نذي ´ل ن نل نن ترو نف مغ نت مس ني نو نہ نب نن تنو نم مؤ تي نو مم نھ ن´ب نر ند مم نح نب نن تحو ن´ب نس تي تہ نل مو نح من نم نو نش مر نع مل نن ا تلو نم مح ني نن نذي ´ل ن انم )غافر : نحي نج مل نب ا نذا نع مم نھ نق نو ن« نل نبي نس تعوا نب ´ت ن نوا تبوا نتا نن نذي ´ل ن نل مر نف مغ نفا اما مل نع نو اۃ نم مح 37( 7نر

ہہی کے حامل فرشتے ، اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے عرش التدعائے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں ہوا ہے ، پس معاف کر دے اور پر چھایا اپنے علم کے ساتھ ہر چیز اور اپنی رحمت تو کہتے ہیں: اے ہمارے رب،

عذاب دوزخ سے بچا لے ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے ۔:یہ وعدہ ہے اس بات کا کہ شہداء کے لیے اللہ کے پاس زندگی جاوید ہے

ہے تحریر المومن ےغلطی س کتاب میں 37

205

Page 206: Jada o Manzil Complete

نہ نل مض نف نمن تہ ´ل تم ال تھ نتا آا نما نب نن نحي نر نف نن• تقو نز مر تي مم نھ ن´ب نر ند نعن لء نيا مح نا مل نب اتا نوا مم نا نہ ´ل نل ال نبي نس نفي ما تلو نت تق نن نذي ´ل ن نن ا نب نس مح نت نا نولنہ ´ل نن ال نم مۃ نم مع نن نب نن ترو نش مب نت مس ني نن • تنو نز مح ني مم تھ نا نول مم نھ مي نل نع لف مو نخ ´ا ن نال مم نھ نف مل نخ من نم نھم نب ما تقو نح مل ني مم نل نن نذي ´ل ن نبا نن ترو نش مب نت مس ني نو

آال عمران : نن ) نني نم مؤ تم مل نر ا مج نا تع نضي تي نا نہ ل ´ل نن ال نا نو مل مض نف (171 تا 169نو

تمردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں۔ اپنے رب کے پاس جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں تاس پر خوش و خرم ہیں اور مطمئن ہیں۔ کہ جو اہل ایمان رزق پا رہے ہیں۔ جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے ۔ وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع

نہیں کرتا۔

باغیوں کا انجامتجھٹلzنے والوں، ظالموں اور سرکشوں اور مجرموں کو تسنائی ہے کہ وہ ہلی نے پے در پے یہ وعید اسی طرح اللہ تعا آاخرت میں پکڑے گا اور دنیا میں ایک مدت مقررہ تک ان کی رسی ڈھیلی چھوڑے گا اور انہیں مہلت دے گا ۔۔۔۔۔آاخرت ہی ہلی نے کبھی کبھی دنیا میں بھی پکڑ لیا ہے ۔۔۔۔ لیکن اصل سزا کے لیے اگرچہ ان میں سے بعض کو اللہ تعا

:پر زور دیا گیا ہے

آال عمران : تد ) نھا نم مل نس ا مئ نب نو تم ´ن ن نھ نج مم تھ نوا ما نم نم تث لل نلي نق لع نتا نم ند• zن نبل مل نفي ا ما ترو نف ن³ نن نذي ´ل ن تب ا ت´ل نق نت ن« ن´ن نر تغ ني نا – 196ل

197)

ملک کے اندر خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکہ میں نہ ڈالے ۔ یہ چند روزہ زندگیتبری جائے قرار ہے ۔ تلطف ہے ، پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہو گا جو بہت کا

نا مم ل نھ نس تءو تر نعي نن مق تم نن نعي نط مھ تم تر• نصا مب نا مل نہ ا نفي تص نخ مش نت مم مو ني نل مم تھ تر نخ نؤ تي نما ´ن ن نا نن تمو نل ن´ظا تل ال نم مع ني نما نع zا نفل نغا نہ ´ل نن ال نب نس مح نت نا نوللء )ابراھیم : نوا نھ مم تھ تت ند نئ مف نا نو مم تھ تف مر نط مم نھ مي نل نا تد نت مر (43 – 42ني

تاس دن کے یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے تاوپر جمی ہیں تاٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں، نظریں آانکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں۔ سر لیے جب یہ حال ہو گا کہ

اور اڑے جاتے ہیں۔

206

Page 207: Jada o Manzil Complete

نل نا مم تھ ´ن ن نا ن³ اعا نرا نس نث ندا مج نا مل نن ا نم نن تجو تر مخ ني نم مو ني نن • تدو نع تيو نذي ن´ل تم ا تھ نم مو ني تقوا zنل تي ن´تي نح تبوا نع مل ني نو تضوا تخو ني مم تھ مر نذ مبىنف تص تن نن )معارج : تدو نع تيو تنوا ن³ا نذي ن´ل تم ا مو ني مل ن« ا نل نذ لۃ ´ل ن نذ مم تھ تق نھ مر نت مم تھ تر نصا مب نا اۃ نع نش نخا نن • تضو نف (44 – 42تيو

آا موجود ہو جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے آاخر کار وہ دن انہیں بے ہودہ باتیں اور کھیل کرنے دو یہاں تک کہ ۔ وہ دن جبکہ یہ قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور اس طرح دوڑ رہے ہوں گے کہ گویا وہ کسی استھان کی طرف لپکنذلت چہروں پر چھا رہی ہو گی، یہی تو وہ دن ہو گا جس کا ان سے وعدہ کیا رہے ہیں۔ ان کی نظریں جھکی ہوں گی،

جاتا تھا۔ہہذا خیر آاخرت سے ۔ ل تدنیا کا ہلی کی زندگی سے رشتہ قائم ہے ۔ اور علی ہذا القیاس انسانی زندگی کا ملzء اعآاویزش اور ایمان و بغاوت کی کشمکش کا سارا مدار صرف دنیا کے اسٹیج پر نہیں ہے ، و شر کا معرکہ، حق و باطل کی تسنایا جاتا اور نہ یہ معاملہ دنیاوی زندگی کے اندر ہی انجام پذیر ہوتا ہے ، اور نہ دنیاوی زندگی ہی کے اندر اس کا فیصلہ ہے ۔ دنیاوی زندگی اور اس سے وابستہ تمام راحتیں اور تکلیفیں یا لذتیں اور محرومیاں ہی اللہ کی میزان فیصلہ کا اصلبڑا وسیع ہے ۔ اور بڑا وسیع ہے اور عرصہ بھی ترو سے معرکہ خیر و شر کا میدان بھی وزن نہیں ہیں۔ اس حقیقت کی آافاق میں غیر کامیابی اور ناکامی کے پیمانے اور اوزان کا دائرہ بھی بڑا وسیع ہے ۔ اسی بنا پر مومن کے فکر و نظر کے تاونچے درجے کی ہو جاتی ہیں۔ اور یہ دنیا اور اس کی آا جاتا ہے ۔ اور اس کی دلچسپیاں اور توجہات بھی معمولی پھیلzؤ تاس کے تاس کی نگاہ میں حقیر اور بے وقعت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اور جس قدر رعنائیاں اور یہ زندگی اور اس کے لوازم تاس کے درجات میں بلندی ہوتی جاتی ہے ۔ ایسا وسیع و ہمہ گیر اور پاکیزہ و فکر و نظر کے زاویے بلند ہوتے جاتے ہیں

بلند تر ایمانی تصور پیدا کرنے کے لیے اصحاب الاخدود کا قصہ چوٹی کی مثال ہے ۔

مکذبین کے مختلف انجامنت حال کے بارے اصحاب الاخدود کے قصہ اور سورۃ بروج سے دعوت الی اللہ کے مزاج اور ہر امکانی صور میں داعی کے موقف پر ایک اور پہلو سے بھی روشنی پڑتی ہے ۔ دعوت الی اللہ کی تاریخ نے دنیا کے اندر دوسرے گونا

گوں اور بوقلموں دعوتوں کے مختلف خاتمے دیکھے ہیں۔نل ایمان تلوط کی ہلzکت و بربادی دیکھی ہے ۔ اور معدودے چند اہ اس نے قوم نوح، قوم ہود، قوم شعیب اور قوم تدنیاوی زندگی کے اندر تدنیا اور آان نے یہ نہیں بتایا کہ نجات پانے والوں نے بعد میں کی نجات بھی دیکھی ہے ۔ مگر قرتدنیا کے ہلی مکذبین اور ظالمین کو کیا پارٹ ادا کیا۔ ان اقوام کی تباہی کی یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ کبھی کبھی اللہ تعاتاٹھا رکھی گئی ہے ۔ اس دعوت آاخرت پر اندر ہی عذاب کا ایک حصہ چکھا دیتا ہے ۔ باقی رہی کامل سزا تو وہ صرف ہی علیہ السلzم تموس نے فرعون اور اس کے لشکریوں کی غرقابی کو بھی دیکھا ہے اور یہ بھی دیکھا کہ کس طرح حضرت تاسے ملک کے اندر اقتدار کی مسند پر بٹھایا گیا۔ اور یہ وہ دور تھا جب یہ قوم اپنی اور ان کی قوم کو بچا لیا گیا اور پھر

207

Page 208: Jada o Manzil Complete

تاس اا صالح ترین قوم تھی۔ اگرچہ وہ کبھی بھی استقامت کاملہ کے مرتبے تک ترقی نہ کر سکی، اور پوری تاریخ میں نسبتیہ نمونہ پہلے نمونوں سے نہ کیا۔۔۔۔ برپا نے دنیا کے اندر دین خداوندی کو زندگی کے جامع نظام کی حیثیت سے تان مشرکین کی لاشوں کے انبار بھی دیکھے جنہوں نے ہدایت سے منہ موڑا اور مختلف ہے ۔ تاریخ دعوت نے اسی طرح

ایمان کے دلوں پر عقیدہ کینمحمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے انکار کیا۔ اور یہ بھی دیکھا کہ جب اہلتچومے ۔نحیرت انگیز حد تک حکمرانی قائم ہو گئی تو دنیا کے اندر نصرت تان کے قدم آاگے بڑھ کر کاملہ نے کس طرح

خداوندی انسانی زندگی کے اصل حاکم کی حیثیت سےناور پہلی مرتبہ انسانی تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ نظاماz قائم ہوا۔ یہ ایک ایسی صورت تھی کہ انسانی تاریخ نے نہ اس سے پہلے کبھی اس کا مشاہدہ کیا تھا اور نہ بعد عملنت اسلzمی کی تاریخ نے اصحاب الاخدود کا نمونہ بھی دیکھا ہے ۔ علzوہ ازیں میں۔ اور جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں دعو تاریخ نے قدیم اور جدید زمانے میں اور بھی کئی مناظر دیکھے ہیں۔ جو تاریخ ایمان کے دفتر میں زیادہ نمایاں جگہ نہیںآانکھ طرح طرح کے نمونے دیکھ رہی ہے جو انہی انجاموں میں سے کسی نہ کسی تاس کی پا سکے ۔ اور ابھی تک

آا رہے ہیں۔ انجام سے دوچار ہوتے جا رہے ہیں جو صدیوں سے تاریخ کے سینے میں محفوظ چلے

تل ایمان کے لیے اس واقعہ میں اصل عبرت اصحاب الاخدود کا جداگانہ انجام اور اہتاس نمونے کے ذکر کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے جس کی دوسرے نمونوں کا ذکر بھی بیشک ضروری ہے مگر

تکفرۂنمائندگی اصحاب الاخدود کرتے ہیں یہ وہ ناگزیر نمون عزیمت ہے جس میں اہل ایمان کو نجات نہیں ملتی اور اہل تاتر تپوری طرح نن حق کے شعور میں یہ بات کی بھی دنیا میں گرفت نہیں ہوتی۔ یہ اس لیے ہے تاکہ اہل ایمان اور داعیاتان کو کوئی اختیار حاصل نہ حق میں انہیں بھی ایسے ہی انجام سے دوچار کیا جا سکتا ہے ۔ اس بارے میں جائے کہ را نہیں ہے ۔ ان کا اور ان کے ایمان کا معاملہ سراسر اللہ کے سپرد ہے ۔ ان کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ وہ اپنے فرض کو سرانجام دیں اور رخصت ہو جائیں، ان کا فرض یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کو اپنے لیے پسند کر لیں، زندگی پر عقیدہ کوآازمائش میں ڈالے جائیں تو ایمان کی مدد سے اس پر غلبہ پائیں، زبان اور نیت سے بھی اللہ کی صداقت ترجیح دیں اور تان کے دشمنوں کے ساتھ جو تان کے ساتھ اور ہلی کو گواہی دیں اور اپنے عمل و کردار سے بھی، اس کے بعد اللہ تعاتان انجاموں میں سے چاہے کرے اور اپنے دین اور اپنی دعوت کے لیے جو مقام چاہے منتخب کر لے ۔ وہ چاہے تو ان کو تان کے لیے کوئی ایسا انجام نل ایمان و عزیمت تاریخ میں دوچار ہوتے رہے ہیں، یا کسی انجام کے حوالے کرے جن سے اہ

پسند فرمائے جسے وہ خود ہی جانتا اور دیکھتا ہے ۔

ہیںمومنین اللہ کے اجیر اور کارندے اوراہل ایمان اللہ کے اجیر اور کارندے ہیں۔ وہ جو کچھ ان سے کام لینا چاہتا ہے ، جہاں اور جب چاہتا ہے ،

تاسے انجام دینا اور طے شدہ معاوضہ لینا ہے ۔ دعوت کا کیا انجام ہوتا ہے یہ ان کی جس انداز سے چاہتا ہے ، ان کا کام

208

Page 209: Jada o Manzil Complete

تان کے بس کی بات ہے ۔ یہ مالک کی ذمہ داری ہے ، مزدور اور کارکن کو اس ذمہ داری میں شامل نہیں ہے اور نہ یہ سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔

قلب،ناہل ایمان اپنی مزدوری کی پہلی قسط دنیا ہی میں وصول کر لیتے ہیں۔ یہ قسط ہے زندگی بھر طمانیتآازادی، خوف و قلق تحسن اور پاکیزگی، سفلی ترغیبات اور گھٹیا خواہشوں سے احساس و شعور کی بلندی، تصورات کا ہلی میں ستائش، سے نجات، دوسری قسط بھی وہ اسی محدود دنیا کے اندر ہی وصول کر لیتے ہیں۔ جو انہیں ملzء اع

آاخرت میں ملے گی۔ ان سے حسابنذکر خیر اور تکریم کی شکل میں ملتی ہے ۔ اجر کی سب سے بڑی قسط انہیں آاسان اور معمولی لیا جائے گا اور انہیں نعمتیں بڑی بڑی عطا کی جائیں گی۔ ان تمام قسطوں سے بڑھ کر جو چیز انہیں ہرتاس نے انہیں اس مقصد کے لیے ہر قسط کے ساتھ ملتی ہے وہ اللہ کی خوشنودی ہے ، اور اللہ کی یہ عنایت ہے کہ

شمشیر ہوں، اور اللہ کی قدرت و حکمت کی ڈھال بنیں تا کہ وہ دنیان قضا میں صورتنمنتخب کر لیا ہے کہ وہ دستکے اندر ان کے ذریعہ سے جو چاہے کرشمہ سازی کرے ۔

صدر اول کے اہل ایمانآان کریم نے صدر ایمان کی برگزیدہ جماعت کو جو تربیت دی تھی وہ ارتقاء و کمال کے اسین اول میں اہلنقر

نر دعوت میں انہوں نے "انا"اۃدرجہ بلند کو پہنچی ہوئی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اپنی انفرادیت کو کلی فنا کر دیا، اور کانب دعوت کے لیے مزدور اور کارکن کی حیثیت سے خدمات کو ہمیشہ کے لیے فارغ خطی دے دی، وہ صرف صاحآان کی انجام دیتے رہے ۔ وہ ہر حال اور ہر بات میں اللہ کے اس انتخاب اور فیصلے پر راضی رہے ۔ نبوی تربیت بھی قر تعلیمات کے پہلو بہ پہلو موجود تھی۔ یہ تربیت ان کے دلوں اور نگاہوں کو جنت کی طرف متوجہ کر رہی تھی اور انہیں

جہ پارٹ ان کے لیے پسند کیا گیا ہے وہ اسے ثابت قدمی کے ساتھ اس وقت تک ادا کرتے رہیںکہ یہ تلقین کر رہی تھی ہلی اپنا وہ فیصلہ نہیں نازل فرما دی آاخرت کے لحاظ سے بھیت�����جب تک اللہ تعا ا جو دنیا میں بھی اسے مطلوب ہے اور

آانجناب صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ اور ان کے والد تاسے محبوب ہے ۔ آاپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آانکھوں سے دیکھتے کہ انہیں شدید عذاب دیا جا رہا ہے ، مگر رضی اللہ عنہم کو اپنی آال یاسر، صبر کا دامن نہ چھوٹنے پائے ، تم سے جنت کا آال یاسر، موعدکم الجنۃ )اے اا سے زیادہ کچھ نہ فرماتے : صبر

باب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کےخوعدہ ہو چکا ہے (۔ حضرت آاپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور عرض کیا: " آارام فرما رہے تھی کہ ہم نے سائے میں چادر کی ٹیک لگائے آانجناب صلی آاپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ہماری نصرت کیوں نہیں مانگتے ،ا ور ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے ؟" تاس کے لیے زمین میں آادمی کو پکڑ لیا جاتا اور تامتوں کا یہ حال تھا کہ ایک اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تم سے پہلی تان کے تاسے سر سے نیچے تک دو ٹکڑوں میں چیر ڈالا جاتا۔ آاری لا کر تاتار دیا جاتا، پھر تاس میں گڑھا کھود کر اس کو جسموں پر گوشت اور ہڈیوں کے درمیان لوہے کی کنگھیاں پھیری جاتیں۔ لیکن یہ سب کچھ انہیں دین سے نہ ہٹا سکتا۔

209

Page 210: Jada o Manzil Complete

آائے گا کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک خدا کی قسم، اللہ اس دین کو مکمل کر کے چھوڑے گا اور وہ وقت تاسے کوئی خوف نہ ہو گا، صرف خدا کا خوف ہو گا یا بکریوں پر بھیڑیئے کے حملے کا۔ لیکن اکیلz سفر کرے گا مگر

(تم لوگ جلد بازی کرتے ہو۔" )بخاری

مومن اور اللہ کی حکمت بے پایاں یر کر رہا ہے ، اسب میں اللہ کی حکمت کارفرما ہے ۔ وہی اس پوری کائنات کی تدہہر کام اور ہر حال کی تہ

آاغاز و انتہا سے باخبر ہے ، اس دنیا کے اندر جو کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے وہی اس کی تنظیم کرتا ہے ۔ پردۂ غیب کے تاس کو جانتا ہے ، یہ حکمت و مصلحت تاریخ کے پورے سفر میں میں جو حکمت و مصلحت پوشیدہ ہے صرف وہی ہلی کئی صدیوں اور نسلوں کے گزر جانے کے بعد ایک آا رہی ہے ۔ بعض اوقات اللہ تعا تاس کی مشیت کے تابع چلی تاٹھاتا ہے جسے عہد واقعہ کے لوگ نہ سمجھتے تھے ۔ اور شاید وہ اسی ٹوہ میں رہے ایسے واقعہ کی حکمت سے پردہ آایا اور اپنے پروردگار سے سوال کرتے رہے ہوں گے کہ ایسا کیوں ہوا ہے ۔ یہ سوال ہی بجائے ہوں گے کہ یہ واقعہ کیوں پیش تاسے پہلے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے ہر فیصلے میں حکمت خود ایک جہالت ہے ۔ جس سے مومن بچتا رہتا ہے ۔ تاسے یہ اجازت نہیں تاس کی ژرف نگاہی پنہاں ہے ۔ مومن کا وسیع تصور اور زمان و مکان اور اوزان و اقدار کے بارے میں

یہ قضا و قدر کا پورے اطمینان اور تسلیم و رضا کے عالم میںۂسوچ بھی سکے ۔ چنانچہ وہ قافلسوال دیتی کہ وہ ہمسفر رہتا ہے ۔

آان کی اصل تربیت قرآان ایسے قلوب پیدا کر رہا تھا جو بار اٹھانے کے لیے تیار ہو جائیں اور ضروری تھا کہ یہ قلوب اتنے38 امانت نقر

آازمائش کا خیر مقدم کریں اور ٹھوس اور مضبوط اور پاکیزہ و خالص ہوں کہ اس راہ میں اپنی ہر چیز نچھاور کر دیں اور ہر آاخرت کو اپنا مطمع نظر بنائیں اور دوسری طرف دنیا کے مال و متاع میں سے کسی چیز پر نظر رکھنے کے بجائے صرف

ہہی کے طلب گار رہیں آاخریں تکلیف و۔۔۔۔۔۔صرف رضائے ال نر دنیا کو تادم ۔۔۔ گویا ایسے بے نظیر قلوب ہوں جو سف تنگی، محرومی و کم نصیبی، عذاب و جانکاہی اور سرفروشی و ایثار پیشگی کے اندر گزارنے کے لیے تیار ہوں، اور اساور مسلمانوں کی یہ جزا دعوت کے فروغ، اسلzم کے غلبہ نہ رکھیں۔ خواہ تامید اندر کسی عاجلzنہ جزا کی دنیا کے شوکت کی شکل میں ہی کیوں نہ ظاہر ہو بلکہ ظالموں کی ہلzکت اور ان کی عبرت ناک پکڑ کی صورت ہی کیوں نہ

ہلی نے کیا ہے ۔ اختیار کرے ۔ جیسا کہ پچھلے مکذبین کے ساتھ اللہ تعا

ضروری نہیں ہے کہ اہل ایمان کو دنیاوی غلبہ حاصل ہو

ہہی کے قیام کی طرف 38 اشارہ ہے خلzفت ال

210

Page 211: Jada o Manzil Complete

آا گئے جو اس یقین سے سرشار تھے کہ دنیا کے سفر میں کسی اجر اور جب اس پائے کے قلوب وجود میں آاخرت ہی میں حق و معاوضے کے بغیر انہیں ہر خدمت اور ہر قربانی انجام دینی ہے ، اور جو سمجھتے تھے کہ صرف ہلی نے دیکھ لیا کہ انہوں نے جو باطل کے درمیان اصل فیصلہ ہو گا۔ جب ایسے کھرے قلوب مہیا ہو گئے ، اور اللہ تعاتنصرت نازل فرمائی اور زمین کی امانت تان پر ہلی نے زمین میں سودا کیا ہے اس میں وہ سچے اور مخلص ہیں تب اللہ تعا

نف میں لائیں بلکہ اس لیے دی کہ وہ نظام´ دی کہ وہ اسے ذاتی تصریںانہیں سونپ دی۔ مگر یہ امانت اس لیے انہیں نہتان سے دنیا تاسی روز حاصل ہو گیا تھا جب کہ تاٹھانے کی اہلیت و استحقاق انہیں حق برپا کریں۔ اس گراں بار امانت کو کے اندر کسی کامیابی اور فائدہ کا وعدہ نہیں کیا گیا تھا جس کا وہ تقاضا کرتے ، اور نہ خود ان کا نگاہیں دنیاویتان ہلی کے لیے خالص ہو چکے تھے جس روز سے تاسی روز سے اللہ تعا غنائم پر لگی ہوئی تھیں۔ وہ صحیح معنوں میں

کی نگاہوں کو رضائے خداوندی کے سوا کسی اجر و مزد کی تلzش نہ رہی۔یہ اطلzع دی گئی ہے کہ یا ہوا ہے مغانم کا ذکر یا آایات میں نصرت کا وعدہ کیا گیا ہے ، آان کی جن قرآایات مدنی دور میں نازل نر کردار تک پہنچا دیا جائے گا۔ ایسی تمام مشرکین کو دنیا کے اندر ہی اہل ایمان کے ذریعہ کیف ہوئی ہیں، یہ تب نازل ہوئی ہیں جب یہ تمام چیزیں اہل ایمان کے پروگرام سے خارج ہو چکی تھیں اور انہیں ان میں سےہہی کا یہ نت ال ہہی خود بخود نازل ہوئی اور اس لیے نازل ہوئی کہ مشی نت ال تنصر کسی چیز کا انتظار رہا تھا اور نہ طلب۔ نم حق انسانی زندگی کے اندر عملی پیکر بن کر نمودار ہو کر ایسی جیتی جاگتی تصویر بن جائے جسے تقاضا تھا کہ نظانل ایمان کی محنت و مشقت اور ان کی سرفروشیوں اور قربانیوں کا انعام نہیں تھا۔ انسان بچشم سر دیکھ لیں۔ یہ نصرت اہآاج ہم تھیں جنہیں ہوئی تچھپی اور مصلحتیں اللہ کی وہ حکمتیں میں بطن تھا جس کے فیصلہ ایک اللہ کا یہ بلکہ

دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہہی کے تحت ہو گا نہ کہ صلہ کے طور پر تت ال دنیاوی غلبہ مشینن حق کو پورا غور و تدبر کر چاہیے ۔ صرف دعوت کا یہ وہ پہلو ہے جس پر ملک اور ہر قوم اور نسل کے داعیانہ حق کے تمام نشانات اور خطوط کو صاف صاف کسی ابہام و غموض کے بغیر دکھا سکتا یہی ایک پہلو انہیں را

تان بندگان صدق و صفا کو ثابت قدمی بخش سکتا ہے جو یہ ارادہ کر چکے کہ وہ راہ حق کو اس کی انتہانہے ۔ اور تک طے کریں گے خواہ یہ انتہا کیسی کچھ ہو۔ اور اللہ نے اپنی دعوت کے لیے اور ان کے لیے جو کچھ بھی مقدر فرما

آاشام راستے کو جو کاس������ آاشوب اور خون تپر ہائے سر سے پٹا ہوا ہے طے کرتے وقت وہ کبھیۂرکھا ہے وہ درست ہے ۔ اس نصرت و غلبہ کے لیے چشم براہ نہیں رہیں گے یا اسی دنیا کے اندر حق و باطل کے درمیان فیصلہ کے لیے بے تاب نہ ہوں گے ۔ البتہ اگر خود ذات خداوندی اپنی دعوت اور اپنے دین کی مصلحت کی خاطر ان سے ایسا کوئی کام لینا چاہےآالام و مصائب کا صلہ ہر گز نہ ہو گا۔ یہ دنیا تپورا کر کے رہے گی۔ مگر یہ ان کی قربانیوں اور جانفشانیوں اور گی تو اسے دار الجزا نہیں ہے ۔ بلکہ یہ اللہ کی مشیت اور فیصلے کی تنفیذ ہو گی جو وہ اپنی دعوت اور اپنے نظام کے بارے میں

211

Page 212: Jada o Manzil Complete

فرمائے گا۔ پورااور طے اپنی مشیت کو وہ ان کے ذریعہ تا کہ گا فرمائے منتخب بندوں کو اپنے کچھ لیے جس کے آاگے دنیا کی زندگی اور اس میں آایا۔ اس شرف کے تقرعہ فال ان کے نام نکل کرے ۔ ان کے لیے یہی شرف کافی ہے کہ

آاسائشیں اور تکلیفیں ہیچ اور حقیر ہیں۔ آانے والی پیش

اہل ایمان کی جنگ سیاسی نہیں ہے بلکہ عقیدہ کی جنگ ہے آان نے اصحاب الاخدود کے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ذیل نل غور ہے جس کی طرف قر یہاں ایک اور حقیقت قاب

آایت میں اشارہ کیا ہے :کی

نمید نح نز ال نزی نع نہ ال نبالل تنوا نم تیو نان نلا نا تھم نمن تموا نوما نق

نچڑے کہ وہ اللہ عزیز و حمید پر ایمان لا چکے تھے ۔ اور وہ اہل ایمان سے صرف اس وجہ سے نن حق کو گہری نگاہ سے غور و تامل نن حق کو، ہر دور اور ہر ملک کے داعیا آان پر بھی داعیا نت قر اس حقیقنل ایمان اور ان کے حریفوں کے درمیان جو جنگ برپا ہے یہ درحقیقت عقیدہ و فکر کی جنگ ہے ، اس کرنا چاہیے ۔ اہ

نہیں ہے ۔ ان مخالفین کو مومنین کے صرف ایمان سے عداوت ہے اور انااکے سوا اس جنگ کی اور کوئی حیثیت قطع���� کی تمام برافرختگی اور غیظ و غضب کا سبب وہ عقیدہ ہے جسے مومنین نے حرز جاں بنا رکھا ہے ۔ یہ کوئی سیاسی

آارائی ہے ۔ اگر اس نوعیت آاسانی چکایاکا جنگ ہر گز نہیں ہے ، نہ یہ اقتصادی یا نسلی معرکہ کوئی جھگڑا ہوتا تو اسے ب ایکاۃجا سکتا تھا اور اس کی مشکلzت پر قابو پایا جا سکتا تھا لیکن یہ تو اپنے جوہر و روح کے لحاظ سے خالص�����������!فکری جنگ ہے ۔ یہاں امر متنازع فیہ یہ ہے کہ کفر رہے گا یا ایمان، جاہلیت کا چلن ہو گا یا اسلzم کی حکومت

کے طرح ہر دوسرے اور دولت، حکومت و مال کو وسلم علیہ اللہ آانحضور صلی نے سرداروں کے مشرکین آاپ صلی اللہ علیہ وسلمنی������������د وی مفادات پیش کیے اور ان کے مقابلے میں صرف ایک چیز کا مطالبہ کیا اور وہ یہ کہ

آاپ صلی اللہ تان سے کوئی سودا بازی کر لیں۔ اور اگر خدانخواستہ عقیدہ کی جنگ ترک کر دیں اور اس معاملے میں آاپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ان کے درمیان کوئی جھگڑا باقی نہ رہتا۔ علیہ وسلم ان کی یہ خواہش پوری کر دیتے تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایمان و کفر کا مسئلہ ہے اور اس کشمکش کی تمام تر بنیاد و عقیدہ پر ہے ۔ مومنین کو جہاں کہیں اعداء سے سامنا ہو یہ بنیادی حقیقت ان کے دل و دماغ پر منقش رہنی چاہیے ۔ اس لیے کہ اعداء کی تمام تر عداوت و خفگی کا سبب صرف یہ عقیدہ ہے کہ "وہ اس اللہ پر ایمان رکھتے ہیں جو غالب ہے اور حمید ہے " اور صرف

آاگے سرافگندہ ہیں۔ تاسی کے اس کی اطاعت کرتے ہیں اور

تن اسلام اس جنگ کو دوسرے معنی پہناتے ہیں دشمنا اعداء یہ ہتھکنڈہ بھی استعمال کر سکتے ہیں کہ عقیدہ و نظریہ کے بجائے کسی اور نعرہ کو اس جنگ کا شعار بنا دیں۔ اور اسے اقتصادی یا سیاسی یا نسلی جنگ ثابت کرنے کی کوشش کریں تا کہ مومنین کو اس معرکہ کی

212

Page 213: Jada o Manzil Complete

تاسے بجھا دیں۔ اصل حقیقت کے بارے میں گھپلے میں ڈال دیں اور عقیدہ کی جو مشعل اس کے سینوں میں فروزاں ہے یہ اعداء کے کہ چاہیے لینا یہ سمجھ انہیں اور ۔ چاہیے ہونا نہ کا شکار دھوکے میں کسی بارے اس کو ایمان نل اہ تالجھاوے ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہیں۔ اور جو اس جنگ میں کوئی اور نعرہ بلند کرتا ہے تو دراصل وہ یہ

ایمان کو اس ہتھیار سے محروم کر دے جو ان کی کامیابی و ظفرمندی کا اصل راز ہے ، یہ کامیابینچاہتا ہے کہ اہلایمان کو اہل میں واقعہ ہو جو اخدود کے آازادی کے رنگ میں اور بلندی تاس روحانی ہو، چاہے بھی جس شکل میں اول کے میں جس سے صدر غلبہ کی صورت مادی والے ہونے بدولت حاصل بلندی کی روحانی اس یا ہوئی نصیب

مسلمان سرفراز ہوئے ۔ آاج ہمیں بین الاقوامی عیسائیت کی اس کوشش میں نظرکی مثال مقصد جنگ اور شعار معرکہ کو مسخ کرنے

آاتی ہے ، جو ہمیں اس فکری جنگ کے بارے میں طرح طرح کے فریبوں میں مبتلz کرنے کے لیے صرف ہو رہی ہیں اور تاریخ کو مسخ کر کے یہ افترا پردازی کی جا رہی ہے کہ صلیبی جنگوں کے پس پردہ سامراجی حرص کارفرما تھی، یہآالہ سراسر جھوٹ ہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سامراج جس کا ظہور ان جنگوں کے بہت بعد ہوا ہے وہ صلیبی روح کا تکھل کر کام کرتی رہی ہے اس طرح اب وہ بغیر نقاب ہطی میں نن وس کار بنا رہا ہے ۔ کیونکہ یہ صلیبی روح جس طرح قرو

آا سکتی تھی۔ یہ عقید اسلzم کے ان معرکوں میں پاش پاش ہو چکی تھی جو مختلف النسل مسلمانۂکے سامنے نہیں تکردی تھے ۔ ان لوگوں نے اپنیمرہنماؤں کی قیادت میں برپا ہوئے ۔ ان میں صلzح الدین اور خاندان مالیک کے توران شاہ

قومیتوں کو فراموش کر کے صرف عقیدہ اور نظریہ ہی کو یاد رکھا۔ اور عقیدہ ہی کی بدولت وہ ان کامیابیوں سے ہمکنارہوئے ۔

نما تموا نو نق مم نن منہ نا نم تنوا نµان ن·ال نم مؤ ن´لہ تي نز نبال نزي نع مل ند ا نمي نح مل ا

تجھوٹے ہیں۔ ہلی کا فرمان بالکل سچا ہے ۔ اور یہ جعل ساز اور فریب پیشہ لوگ اللہ تعا

213